رہبر انقلاب اسلامی نے کسی بھی طرح کے مذاکرات میں تین بنیادی اصولوں کی حیثیت سے "عزت"، "حکمت" اور "مصلحت" جیسے تین اصول بیان کیے ہیں۔ ان تین اصولوں کے بارے میں آپ کی رائے اور آپ کا تجزیہ کیا ہے اور اسی طرح اس سلسلے میں رہبر انقلاب کے نظریے کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ آپ جانتے ہیں کہ طاقت کے جو عناصر ہیں، ان میں سے ایک ملک کی دفاعی صلاحیت ہے۔ ایک دوسرا عنصر، ملک کی مضبوط سفارتکاری ہے۔ اسی طرح ملک کی معاشی حالت اور عوام کی رضامندی اور حمایت بھی انتہائي اہم عناصر میں سے ہے تاکہ کوئی ملک اپنے حقوق کا پوری طرح سے بچاؤ کر سکے۔ بنابریں سفارت کاری ایک ضرورت ہے اور ہمیشہ تاریخ میں کسی ملک کے مسائل اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے اس کا استعمال کیا گیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بھی آپ دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے ایک گروہ کو حبشہ بھیجنا اور دیگر ممالک کے حکمرانوں کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط لکھنا، درحقیقت سفارت کاری ہی تھی۔ بنابریں اہم بات یہ ہے کہ سفارت کاری کن اصولوں پر کی جائے۔  اس سلسلے میں رہبر انقلاب اسلامی نے "عزت"، "حکمت" اور "مصلحت"(1) جیسے تین اصول بیان کیے ہیں۔

اگر ہم سفارتکاری میں ٹھوس منطق اور دلیلوں کی بنیاد پر فریق مقابل سے اپنی بات منوا چاہیں تو دراصل ہم نے حکمت کے اصول پر عمل کیا ہے۔ جب ہم ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے ملک کی عزت پر حرف آئے یا قوم تحقیر محسوس کرے تو ہم نے عزت کے اصول پر عمل کیا ہے۔ اسی کے ساتھ رہبر معظم نے مصلحت پر بھی تاکید کی ہے کیونکہ دوسرے ملکوں کے ساتھ جو مذاکرات ہوتے ہیں ان میں ممکنہ طور پر لچک دکھانا ضروری ہو تاکہ کسی نتیجے تک پنہچا جا سکے، وہ بھی فریقین کی کامیابی کی بنیاد پر یعنی فریقین سمجھوتے کے ساتھ ہی مساوات اور برابری کے اصول پر بھی عمل کریں تاکہ نتیجے تک پہنچ سکیں۔ حالیہ واقعات میں بھی، جنگ سے پہلے، ہم نے اس کا مشاہدہ کیا کیونکہ بالواسطہ مذاکرات کی بات تسلیم کرنا ہی بجائے خود "حکمت" کی نشاندہی کرتا تھا۔

ایران پر صیہونی حکومت کے حملے سے پہلے ہم نے امریکیوں سے پانچ راؤنڈ کے بالواسطہ مذاکرات کیے اور چھٹا راؤنڈ اتوار کو، حملے کے دو دن بعد ہونے والا تھا۔ آپ کے خیال میں امریکا سے بالواسطہ مذاکرات کی بات تسلیم کرنے اور اس سے بات کرنے سے ایران کو کیا حاصل ہوا؟ ایسا لگتا ہے کہ ان مذاکرات نے، امریکیوں کے اس کھیل کو پلٹ دیا جس کے ذریعے وہ ایران پر مذاکرات نہ کرنے کا قصور عائد کرنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے؟

اسی وجہ سے رہبر انقلاب اسلامی نے بالواسطہ مذاکرات سے اتفاق کیا کیونکہ شروع سے ہی شک تھا کہ کیا واقعی امریکی چاہتے ہیں کہ ان اصولوں کی بنیاد پر سنجیدہ مذاکرات کریں جو ایک سیاسی گفتگو میں پائے جاتے ہیں۔

بہرحال ٹرمپ نے ایک خط بھیجا تھا اور ایسا لگتا ہے کہ اس پر کچھ کام ہوا، کچھ صلاح مشورے بھی ہوئے، آپ بتائیے کہ سسٹم کس طرح اس نتیجے پر پہنچا کہ بالواسطہ مذاکرات شروع کیے جائيں؟

دیکھیے جب بھی کوئی مذاکرات شروع ہونے والے ہوتے ہیں تو کسی جگہ ان مذاکرات کے اصول طے پانے چاہیے۔ یہ باتیں اعلیٰ قومی سلامتی کونسل میں طے ہوتی ہیں اور پھر رہبر معظم کے پاس پہنچتی ہیں۔ اگر وہ ان اصولوں کو منظوری دے دیتے ہیں تو وہ اعلی قومی سلامتی کونسل کے منظور شدہ بل میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔انھوں نے بالواسطہ مذاکرات سے اتفاق کیا کیونکہ انھیں یقین نہیں تھا کہ یہ مذاکرات کسی نتیجے تک پہنچیں گے یا یہ ایسے مذاکرات ہوں گے جو عزت و وقار کے ساتھ ہوں، تو یہ بات اس حکمت کی عکاس تھی جس کے تحت انھوں نے مذاکرات کو قبول کیا، لیکن بالواسطہ مذاکرات کے تناظر میں قبول کیا۔

اب اگر ایران نے مذاکرات قبول نہ کیے ہوتے اور امریکی فوجی کارروائی کا راستہ اختیار کرتے تو یہ سوال اٹھتا کہ آپ نے مذاکرات کیوں نہیں کیے تاکہ جنگ نہ ہو؟ تاہم ہم نے مذاکرات کی بات قبول کی پوری صداقت سے پانچ راؤنڈ کے مذاکرات بھی کیے، اس کے بعد امریکیوں نے حملہ کر دیا۔ ہم نے ان مذاکرات کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کے وقار کا ہمیشہ خیال رکھا۔ ہم نے کوئی ایسا سمجھوتہ نہیں کیا جو اسلامی جمہوریہ ایران کے وقار کے منافی ہو اور ہم نے ہمیشہ "یورینیم کی افزودگی کے ایران کے حق" پر زور دیا لیکن اسی کے ساتھ مذاکرات میں کچھ لچک بھی دکھائی گئی تاکہ وہ کسی نتیجے تک پہنچ سکیں بنابریں ان ایٹمی مذاکرات میں وہ تین اصول واضح طور پر دیکھے جا سکتے تھے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے جنگ کے دوران کہا تھا کہ ہم مسلط کردہ صلح کو تسلیم نہیں کریں گے، یعنی ہم نے مسلط کردہ جنگ کو تسلیم کریں گے اور نہ ہی مسلط کردہ صلح کو برداشت کریں گے(2) اگر ہم اس زاویے سے پچھلے میدان کا جائزہ لینا چاہیں تو آپ کے خیال میں مسلط کردہ مذاکرات اور شرافت مندانہ مذاکرات میں کیا فرق ہے اور ان بارہ دنوں میں ہمیں جو تجربہ حاصل ہوا، اس کا آپ کس طرح جائزہ لیں گے؟

دیکھیے! سیاسیات میں، مذاکرات کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور شرافت مندانہ مذاکرات وہی ہوتے ہیں جو ان اصولوں پر مبنی ہوں۔ اگر مخالف فریق، دوسرے فریق پر نتائج مسلط کرنے کے لیے طاقت کا سہارا لینا یا دیگر ذرائع استعمال کرنا چاہے تو یہ شرافت مندانہ اور باوقار مذاکرات نہیں ہیں اور نہ ہی سفارتی اصولوں کے مطابق ہیں۔ مثال کے طور پر، سفارت کاری کے اصولوں میں مساوات کا اصول، فریق مخالف کی خودمختاری کا احترام، شفافیت اور جوابدہی کا اصول اور باہمی لچک کا اصول شامل ہے یعنی دونوں فریق لچک دکھائیں تاکہ ایسا نتیجہ حاصل ہو سکے جس میں دونوں کی جیت ہو۔ یا مثال کے طور پر مذاکرات کے نتیجے کے استحکام کا اصول، بعض مذاکرات تو ہوتے ہیں لیکن مستحکم نہیں رہتے، جس کی مثال اس وقت ہم اسرائیل اور فلسطینیوں کے مذاکرات میں واضح طور پر دیکھ رہے ہیں۔ وہ مذاکرات کرتے ہیں، نتیجہ بھی حاصل کرتے ہیں لیکن بعد میں اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں، یا لبنان میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا ہی ہے۔

بنابریں سفارت کاری میں ایک منطقی اور شرافت مندانہ مذاکرات کے اصول کے طور پر مختلف اصول پیش کیے جاتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان مذاکرات میں جو ہم امریکی یا یورپی فریق کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں، ان اصولوں کا احترام کیا جاتا ہے یا نہیں؟ ہم نے دیکھا کہ عملی طور پر ایسا نہیں رہا ہے۔ مثال کے طور پر مسٹر ٹرمپ نے مذاکرات کے دوران فوجی حملہ کیا اور یہ مذاکرات کے اصولوں کے منافی ہے۔ یا یورپ والوں نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے جبکہ وہ خود اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ ایران کو یورینیم کی افزودگی ختم کرنے کی بات قبول کرنی چاہیے پھر بھی انھوں نے کہا کہ انہیں ایٹمی معاہدے کو استعمال کرنا چاہیے اور انھوں نے اسنیپ بیک میکنزم کو لاگو کر دیا۔ یہ چیزیں ان اصولوں کے منافی ہیں جو سفارتی آداب میں پائے جاتے ہیں۔

آپ کے خیال میں بارہ روزہ جنگ نے ایران کی ایٹمی راہ پر کیا اثر ڈالا اور کیا ان حالات میں مغرب کے ساتھ ایک شرافت مندانہ مذاکرات کی بات کی جا سکتی ہے؟

سب سے پہلے، حالیہ مذاکرات سے ہمیں جو نتیجہ ملا، جوہری میدان میں ہم نے دیکھا کہ یہ لوگ منطقی مذاکرات کے قائل نہیں ہیں اور جوہری مسئلے سے آگے بڑھ کر ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنا چاہتے ہیں۔ تو فطری طور پر میزائیلوں کا مسئلہ اور مزاحمت کا مسئلہ ایسے موضوعات نہیں ہیں جن پر ایران مذاکرات کرنا چاہتا ہو۔ لہٰذا ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم اپنی بات رائے عامہ کے سامنے پیش کریں اور اصولی مذاکرات کے لیے اپنی آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے، ایسے مذاکرات کو تسلیم نہ کریں۔ البتہ ہمارے مذاکرات کاروں نے واقعی ہمیشہ کوشش کی ہے کہ مذاکرات کے میدان سے باہر نہ نکلیں۔ صدر مملکت اور وزیر خارجہ کے اسی حالیہ دورۂ نیویارک میں بہت کوشش کی گئی کہ آخر لمحات میں ہی سہی، صحیح مذاکرات ہوں اور نتیجہ تک پہنچیں لیکن مخالف فریقوں نہیں مانے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری منطق مضبوط ہے، ان کی منطق مضبوط نہیں ہے اور وہ طاقت کے بل پر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

ایٹمی مسئلے میں سفارتکاری کا جو قریب بیس سالہ عمل رہا ہے، اس کے پیش نظر اسلامی جمہوریہ نے اس مسئلے میں علاقائی اور عالمی توانائیوں سے کس طرح اور کس حد تک فائدہ اٹھایا ہے؟

جیسا کہ میں نے عرض کیا اسلامی جمہوریہ نے کبھی بھی سفارت کاری اور مذاکرات سے فرار نہیں کیا۔ خاتمی صاحب کی حکومت کے دوران، یورپ والوں کے ساتھ ایٹمی مذاکرات شروع ہوئے اور مذاکرات میں پیشرفت ہو رہی تھی لیکن ان کے مطالبات بڑھنے لگے۔ سعد آباد میں، جب وہ روحانی صاحب سے ملنے اور مذاکرات کرنے آئے تو انھوں نے کہا کہ آپ یورینیم کی افزودگی معطل کر دیں تاکہ ہم باہمی طور پر ایک قابل قبول نتیجے پر پہنچ سکیں۔ ہم نے افزودگي معطل کر دی لیکن انھوں نے کہا کہ ہمیں ایک ٹھوس ضمانت ملنی چاہیے کہ آپ ایٹمی ہتھیار کے درپے نہیں ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہمیں بھی ایک ٹھوس ضمانت چاہیے کہ آپ پابندیاں اٹھا لیں گے لیکن عملی طور پر، وہ پابندیاں اٹھانے کے لیے تیار نہیں تھے اور صرف یہ چاہتے تھے کہ یہ افزودگی کا تعطل، مستقل طور پر افزودگي کے خاتمے میں بدل جائے۔ بنابریں خاتمی صاحب کے دور صدارت کے آخری دنوں میں، افزودگی کا تعطل ختم کر دیا گیا کیونکہ انھوں نے دیکھا کہ اس کام کا جاری رہنا بے سود ہے اور وہ صرف ایران پر افزودگی کا خاتمہ مسلط کرنا چاہتے تھے۔

رہبر انقلاب نے بھی فرمایا کہ جس حکومت کے زمانے میں یورینیم کی افزودگی رکی ہے، اس میں افزودگی بحال ہونی چاہیے۔(3)

جیسا کہ میں نے عرض کیا خود خاتمی صاحب کی حکومت میں سب اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ واقعی اس کام کا جاری رہنا بے سود ہے اور یہ صرف اسلامی جمہوریہ کے حقوق کے ضیاع کا باعث بنے گا، لہٰذا انھوں نے یورینیم افزودگی کا تعطل ختم کر دیا، اصفہان کی یو سی ایف جوہری تنصیبات کو فعال کر دیا گیا اور اس طرح ایک نیا مرحلہ شروع ہوا کیونکہ اسلامی جمہوریہ کی عزت و وقار کا تقاضا تھا کہ ہم ان کی منہ زوری یا سیاسی چالوں کے آگے نہ جھکیں۔

بعد کے ادوار میں بھی، جب محسوس ہوا کہ حقیقی مذاکرات کے آمادگی پائی جاتی ہے تو روحانی صاحب کی حکومت میں ایٹمی مذاکرات ہوئے اور ان کے کچھ نتائج برآمد ہوئے لیکن عملی طور پر ہم نے دیکھا کہ امریکیوں نے شروع سے ہی تعاون نہیں کیا اور پھر ٹرمپ کے دور حکومت میں مذاکرات سے نکل گئے، یورپ والوں نے بھی اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ ہمیں مذاکرات سے فرار نہیں کرنا چاہیے اور مذاکرات کی میز پر موجود رہنا چاہیے لیکن ساتھ ہی ہمیں محتاط رہنا چاہیے کہ ہم پر کوئی چیز مسلط نہ کی جائے اور اگر وہ مسلط کرنا چاہیں، تو ہمیں اس کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے۔ یورپ والوں کے ساتھ حالیہ معاملات میں بھی یہی عمل دوہرایا گیا، ہم مذاکرات کے لیے تیار تھے لیکن وہ ہم پر اپنی باتیں مسلط کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے تین شرطیں رکھیں کہ اگر ان تین شرطوں کو پورا کیا گيا تو وہ اسنیپ بیک کو چھے ماہ کے لیے ملتوی کر دیں گے۔ اس معاملے میں بھی ہم نے لچک دکھائی لیکن وہ ان باتوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اگر مذاکرات منطقی اصولوں کی بنیاد پر ہوں اور اسلامی جمہوریہ کے وقار کا خیال رکھا جائے تو ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں، اس وقت بھی ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ مذاکرات کے منطقی اصولوں پر عمل کیا جائے۔

آپ پچھلے کئی عشروں میں بہت سے مغربی سفارتکاروں سے روبرو ہوئے ہیں۔ آپ اپنے ذاتی تجربے اور شناخت کی بنیاد پر ہمیں بتائیے کہ حقیقت میں وہ کیا سوچتے ہیں جب ان کی اپنی خفیہ ایجنسیاں اپنی رپورٹوں میں اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کا ایٹمی ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن وہ پھر بھی سفارتی معاملات میں ان الزاموں کو دوہراتے ہیں اور ان پر بضد رہتے ہیں؟

اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے پاس جوہری صلاحیت ہے لیکن اس فتوے کی بنیاد پر، جو رہبر انقلاب اسلامی نے دیا ہے کہ عام تباہی کے ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال حرام ہے، ہماری پالیسی ہمیشہ شفاف رہی ہے۔ وہ لوگ سوچتے ہیں کہ یہ حقیقی پالیسی نہیں ہے اور ممکن ہے کہ ایک دن ایران ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ درحقیقت وہ ہماری ثقافت کو بھی نہیں سمجھ پائے ہیں کیونکہ جب رہبر انقلاب اسلامی کوئی فتویٰ دیتے ہیں تو اس پر عمل، لازمی ہوجاتا ہے اور سبھی کو اس پر عمل کرنا چاہیے۔ ہم نے مختلف طریقوں سے انھیں یہ دکھانے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کے درپے نہیں ہے۔ اسی لیے ہم نے کہا کہ ہم ایجنسی کے ساتھ مکمل اور بھرپور تعاون کریں گے، یہاں تک کہ ہم نے این پی ٹی کے اضافی پروٹوکول پر بھی عمل درآمد کیا، جس کی بنیاد پر آئی اے ای اے کے نمائندے بغیر پیشگی اطلاع کے ہماری تنصیبات کا اچانک معائنہ کر سکتے ہیں۔ تو معائنے کے وسائل و ذرائع موجود ہیں اور اگر کبھی ایران نے ایٹمی ہتھیار کی تیاری کا ارادہ کیا تو معائنہ کار پوری طرح سے مطلع ہو جائیں گے۔ اس وقت تو وہ خود بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کی معلومات اس بات کی نشاندہی نہیں کرتیں کہ ایران ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کے درپے ہے، یہ انھی معائنوں اور معلومات کی بنیاد پر ہے جو انھیں حاصل ہوتی ہیں۔ البتہ امریکا اور مغرب کے ساتھ ہمارے بنیادی مسائل ہیں جن میں صرف ایٹمی مسئلہ نہیں ہے، انقلاب کے آغاز سے ہی یہ مسائل موجود رہے ہیں اور یہ چیزیں اسلامی جمہوریہ کے خلاف دباؤ کے حربے کے طور پر استعمال ہوتی ہیں تاکہ وہ اپنے اہداف حاصل کر سکیں اور اپنے مسائل حل کر سکیں۔

بعض مغربی ذرائع ابلاغ بلکہ ملک کے اندر بھی کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کیا یورینیم کی افزودگي اتنی اہم ہے کہ اسلامی جمہوریہ اس پر اتنا زور دے رہی ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ اس پر آنے والا خرچ اور پابندیوں کا دباؤ اس کے فائدے سے زیادہ ہے اور کل ملا کر یہ معقول نہیں ہے۔ آپ اس کے جواب میں کیا کہیں گے؟

دیکھیے! خود انحصاری یا اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی پالیسی اسلامی جمہوریہ ایران کی بنیادی پالیسیوں میں سے ایک رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے معاملات چلانے میں ملک دوسروں پر منحصر نہ ہو۔ مثال کے طور پر میزائیل، فوجی سازوسامان اور ہتھیاروں کے میدان میں خود انحصاری کی اسی پالیسی کے سبب اسلامی جمہوریہ کے پاس آج یہ صلاحیت ہے کہ وہ خود تیار کرے، خود استعمال کرے اور اپنا دفاع کرے۔ اگر ایران اس معاملے میں دوسرے ممالک پر منحصر ہوتا، تو اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ جوہری توانائی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی بالکل یہی بات ہے۔ اگرچہ ایران ایک تیل پیدا کرنے والا ملک ہے لیکن تیل ایک دن ختم ہو جائے گا۔ لہذا ہمیں اپنے اندر دیگر ذرائع سے توانائی کے حصول کی صلاحیت کو بڑھانا چاہیے، جن میں سے ایک ایٹمی توانائی ہے۔ ایٹمی بجلی گھر بنانے کے لیے ہمیں اس کی تکنیکی صلاحیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ ہم اب اس راستے پر گامزن ہیں کہ چھوٹے بجلی گھر خود ہی بنا سکیں کیونکہ جب دوسرے ممالک کسی ملک میں بجلی گھر بناتے ہیں تو اس کا ایندھن بھی وہ خود فراہم کرتے ہیں۔ تو اگر ہم خود مختار بننا چاہتے ہیں تو ہمیں ایندھن خود پیدا کرنا ہوگا ورنہ ہم دوسروں کے محتاج رہیں گے اور یہ انحصار، دباؤ کا وسیلہ بن جائے گا۔ مستقبل میں بیس ہزار میگاواٹ جوہری بجلی حاصل کرنے کی اسلامی جمہوریہ کی معقول پالیسی کے پیش نظر، جو البتہ ایک وقت طلب عمل ہے، ابھی سے اس کے ایندھن کی فراہمی کے بارے میں سوچنا ضروری ہے۔ بنابریں یورینیم کی افزودگی ہمارے ملک کا ایک "مسلمہ حق" ہے اور ایسی چیز نہیں جسے نظرانداز کیا جا سکے یا محض دوسروں پر انحصار کیا جا سکے۔ یہ ملک کی مصلحت ہے۔

ڈاکٹر خرازی! ہم کچھ سوال بارہ روزہ جنگ کے بارے میں بھی پوچھنا چاہتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ بتائیے کہ جب جنگ شروع ہوئی تو آپ کہاں تھے؟

میں اپنے گھر میں تھا۔

اس لمحے آپ کے ذہن میں جو سب سے پہلا خیال آیا وہ کیا تھا؟

مجھے لگ گیا کہ ہمیں ایک نئی صورتحال کا سامنا ہو گیا ہے۔

آپ کو خود کس حد تک اس طرح کے حملے کا اندازہ تھا؟

بہرحال یہ محسوس ہو رہا تھا کہ اسرائيلی آخرکار کسی وقت ہم پر حملہ کریں گے۔ البتہ مذاکرات کے دوران یہ چیز محسوس نہیں ہو رہی تھی لیکن بہرحال انھوں نے پیش دستی کی اور اس طرح کا حملہ کیا۔ تاہم یہ ان کی غلطی تھی، کیونکہ انھوں نے دیکھا کہ ہم نے فورا ٹھوس اور دنداں شکن جواب دیا، اس طرح سے کہ وہ فائربندی کی بات کرنے پر مجبور ہو گئے۔ سیاست کی دنیا اور ملک کے دفاع میں اس طرح کے واقعات کا امکان ہوتا ہے، جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی ممکنہ واقعے کے سلسلے میں کس حد تک تیار ہیں۔ بحمد اللہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی ملک کی پالیسی اور ملک کے دفاع کے لیے ہماری فورسز کے عزم مصمم سے یہ تیاری ہمیشہ رہی ہے۔

آپ کا آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران بھی کافی طویل تجربہ رہا ہے۔

جی ہاں۔ میں اس وقت جنگ کے پروپیگنڈے کے ہیڈکوارٹر کا سربراہ تھا۔

آپ ایران اور عراق کے جنگ بندی کے مذاکرات اور اس وقت کی عراق کی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں موجود تھے۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ سفارتکاری کے پہلو سے بھی اور عسکری اور جنگي پہلو سے بھی، آپ کی نظر میں آٹھ سالہ جنگ اور بارہ روزہ جنگ میں کیا مماثلتیں تھیں اور کیا فرق تھے؟

بارہ روزہ جنگ اور آٹھ سالہ جنگ میں بہت سی مماثلتیں تھیں اور اہم فرق بھی تھے۔ مماثلتوں کی بات کی جائے تو دونوں جنگوں میں ہم خود پر منحصر تھے اور ہم نے موجودہ وسائل کے ذریعے ضرورت کے ہتھیار فراہم کیے۔ آٹھ سالہ جنگ میں، البتہ ایران میں کافی ہتھیار موجود تھے لیکن ضرورت تھی کہ ہم خود بھی تیار کریں اور انھیں استعمال کریں۔ جذبہ، ملک کے دفاع کی طاقت اور اسلام کے مجاہدین کی تیاری، جو زبردست جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں موجود تھے، یہ سب کچھ آٹھ سالہ جنگ میں بھی تھا اور بارہ روزہ جنگ میں بھی۔ اسی طرح عوامی حمایت فیصلہ کن عنصر تھی؛ آٹھ سالہ جنگ میں یہ عوامی حمایت ہی تھی جس نے ہمیں جنگ جاری رکھنے کے قابل بنایا اور چاہے محاذ پر ہو، چاہے محاذ کے پیچھے، عوام موجود تھے۔ بارہ روزہ جنگ میں بھی قومی یکجہتی اور عوامی حمایت بہت فیصلہ کن تھی۔ یہ دونوں جنگوں کے مشترکہ پہلو تھے۔

جہاں تک فرق کی بات ہے، جنگوں کے عناصر میں بنیادی تبدیلی آئی ہے۔ آٹھ سالہ جنگ کے زمانے میں، جنگیں بنیادی طور پر صنعتی اور زمینی انسانی قوت پر منحصر ہوتی تھیں۔ دشمن محاذ پر موجود تھا، ہماری فورسز بھی مقابل محاذ پر تھیں۔ عوامی لام بندی ہوتی تھی اور لوگ دشمن سے دوبدو لڑتے تھے۔ جنگ کا بنیادی ذریعہ، فوجی صنعت تھی، توپ، ٹینک اور بھاری ہتھیار۔ بنابریں ماضی میں جنگوں پر صنعتی عناصر کی حکمرانی تھی جبکہ آج ایسا نہیں ہے۔ آج جنگ کا عنصر انفارمیشن ہے اور ٹیکنالوجی کی جنگ ہے۔ انفارمیشن کا کردار بہت اہم ہے اور اس کا حصول جدید ٹیکنالوجیز پر منحصر ہے۔ جنگوں میں اے آئی کا استعمال ہوتا ہے تاکہ طے کرے، فیصلہ کرے اور پھر عمل کرے۔ آج، درحقیقت، اے آئی انسان کی جگہ امور طے کرتی ہے، فیصلہ کرتی ہے اور پھر عمل درآمد ہوتا ہے۔ بنابریں جنگ کے عناصر، صنعتی حالت سے انفارمیشن کی جنگ اور اے آئی کی جنگ میں تبدیل ہو گئے جو بہت بڑی تبدیلی ہے۔

ایک اور فرق یہ تھا کہ ہم یہ جنگ خود اپنے ہتھیاروں کے سہارے لڑ رہے تھے جبکہ اسرائیلی، دوسروں کے ہتھیاروں پر منحصر تھے۔ اسرائیل تنہا نہیں تھا، مغربی ممالک اس کی مدد کر رہے تھے اور ان کے جنگی جہاز اور رڈار میدان میں موجود تھے۔ مثال کے طور پر امریکا نے ہمارے میزائیلوں کو ٹریک کرنے کے لیے تھاڈ رڈار سسٹم وہاں بھیج دیے تھے۔ یعنی دوسرے ممالک عملی طور پر میدان میں موجود تھے لیکن ہم پوری طرح خود پر منحصر تھے اور کوئی بھی ہماری مدد نہیں کر رہا تھا۔ انفارمیشن کے لحاظ سے بھی وہ دوسروں پر منحصر تھے۔ اسرائیلیوں کے اپنے انفارمیشن سسٹم ہیں۔ مثال کے طور پر مقامات کی شناخت کے لیے گوسپیل (Gospel) سسٹم یا افراد کی معلومات اکٹھا کرنے کے لیے لیونڈر (Lavender) سسٹم۔ ان کے علاوہ وہ نیٹو اور مغربی ممالک کے سسٹم بھی استعمال کر رہے تھے اور اے آئی کی مدد سے اس ڈیٹا کو یکجا کر کے اس کا تجزیہ اور نتائج اخذ کر رہے تھے اور اس کے مطابق عمل کر رہے تھے۔ یہ بھی جنگوں میں ایک نئی تبدیلی ہے۔ البتہ ہم بھی اسی راستے پر چل رہے ہیں تاکہ انفارمیشنل پیراڈائم اور نئے طرز کی جنگوں کے طریقوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں اور دشمنوں کا مقابلہ کر سکیں۔ بنابریں بارہ روزہ جنگ اور آٹھ سالہ جنگ کے درمیان بہت سی مماثلتیں اور فرق دونوں دیکھے جا سکتے ہیں۔

آپ کے خیال میں حالیہ بارہ روزہ جنگ میں رہبر انقلاب اسلامی کی قیادت کا سب سے مضبوط پہلو کیا تھا؟

آپ نے دیکھا کہ جب اسرائیل نے حملہ کیا اور ہمارے کچھ اعلیٰ فوجی کمانڈروں کو شہید کر دیا تو رہبر انقلاب نے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے ان کے جانشینوں کو منصوب کیا اور خود بھی جنگ کے معاملات کی وضاحت کے میدان میں موجود رہے۔ درحقیقت ٹیلی ویژن پر ان کے تین پیغامات کی وجہ سے عوام میں سکون و اطمینان قائم ہو گیا اور یہ بات سب کے سامنے آ گئي کہ سب کچھ کنٹرول میں ہے۔ دشمن کا ہدف کیا تھا؟ دشمن کا ہدف یہ تھا کہ ہمارے فوجی کمانڈروں کو نشانہ بنا کر ہمارے دفاعی نظام کو زمیں بوس کر دیں لیکن فوری طور پر ان کے جانشینوں کی تقرری سے دشمن کا یہ مقصد پورا نہ ہو سکا۔ اس جنگ کے سماجی اثرات بھی عوام سے رہبر انقلاب کی بات چیت اور ان کی موجودگی کی وجہ سے کم ہو گئے اور لوگوں میں وہ سکون و اطمینان واپس آگیا۔ بنابریں سپریم کمانڈر کی حیثیت سے انھوں نے اس جنگ میں اپنا فرض بخوبی انجام دیا۔

امریکا، بعض مغربی ملکوں اور نیٹو کی جانب سے صیہونی حکومت کی بھرپور پشت پناہی کے باوجود اور وہ بھی ایسے عالم میں جو اسرائيل ہمیشہ اپنی فوجی برتری کی ڈینگیں مارا کرتا تھا، کس وجہ سے اسے آخرکار بارہ دن کے بعد جنگ بندی کو تسلیم کرنا پڑا؟

بہر حال اسرائیل پر بہت دباؤ پڑا۔ ہمارے میزائل حملے مؤثر ثابت ہوئے اور اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ دیکھیے! اسرائیل کا رقبہ چھوٹا ہے اور وہ ایران سے بالکل مختلف ہے جو ایک وسیع و عریض سرزمین کا مالک ہے۔ تو اس چھوٹے سے رقبے کو پہنچنے والا نقصان نسبتاً زیادہ ہوتا ہے، داخلی لحاظ سے بھی اور جنگی اخراجات کے لحاظ سے بھی۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے لیے اخراجات زیادہ نہیں تھے کیونکہ ہم خود تیار کرتے ہیں لیکن اسرائیلیوں کو، استعمال ہونے والے بہت سے ہتھیاروں اور گولہ بارود امریکا اور یورپ سے لینا پڑتا تھا اور انھیں اس کی ادائیگی بھی کرنی پڑی، جس نے اس حکومت کی معیشت پر بہت دباؤ ڈالا۔ اندازہ لگایا گيا ہے کہ صرف بارہ روزہ جنگ کی وجہ سے ان پر تقریباً 2.4 ارب ڈالر کا بوجھ پڑا جو براہ راست جنگ سے متعلق تھا جبکہ بالواسطہ اخراجات اپنی جگہ ہیں۔ امریکیوں کے دیے گئے ہر تھاڈ میزائیل کی قیمت بارہ ملین ڈالر ہے۔ آپ خود حساب لگائیے کہ جب ہم نے اسرائیل پر اتنے میزائل داغے، اگر ہر میزائیل کو روکنے کے لیے ایک ہی تھاڈ میزائل بھی استعمال ہوا ہو، تو یہ خود ایک بہت بڑا خرچہ ہے۔ بنابریں یہ دباؤ، معاشی دباؤ بھی اور نفسیاتی دباؤ بھی خود اس کے اپنے علاقے میں مؤثر ثابت ہوا۔

اس کے علاوہ امریکی بھی نہیں چاہتے تھے کہ جنگ جاری رہے اور خطے میں پھیل جائے اور وہ مزید اس میں پھنسیں کیونکہ یہ ان کے مفاد میں نہیں تھا۔ یوں انھوں نے جنگ بندی کی درخواست کی۔ ہم نے بھی شروع سے کہہ رکھا تھا کہ اگر وہ حملہ نہیں کریں گے، تو ہم بھی نہیں کریں گے۔ اس لیے ہم نے بھی جنگ روک دی۔

آپ کے خیال میں اگر ایران، اس بارہ روزہ جنگ سے کچھ سبق حاصل کرنا چاہے، تو وہ کیا ہوں گے؟

ایک یہ کہ خود انحصاری کی حفاظت کرے۔ دوسرے یہ کہ جنگوں کے نئے عنصر پر، جو انفارمیشن اور ادراکی (Cognitive) جنگ ہے، تسلط حاصل کرے تاکہ دشمنوں کا جواب دے سکے۔ تیسرے یہ کہ عوام پر بھروسے اور قومی یکجہتی کی، جو معاشرے میں پیدا ہوئی ہے، بدستور حفاظت کرے، اس طرح سے کہ عوام ملک کے بنیادی پشت پناہ کے طور پر اسلامی جمہوریہ کے اقدامات کے حامی ہوں۔ جب عوام موجود ہوں، تو آپ دشمنوں کے خلاف بہتر اور زیادہ مضبوط طریقے سے دفاع کر سکتے ہیں۔ اغیار کی تمام تر کوشش یہ ہے کہ ہماری قومی یکجہتی پر ضرب لگائیں اور عوام کو نظام کی حمایت کی طرف سے مایوس کر دیں لیکن اگر ہم عوام پر اپنے بھروسے اور اپنی صلاحیتوں کو محفوظ رکھیں اور آج کی جنگوں کے نئے عناصر پر مسلط ہو جائيں تو ہم اپنے تشخص، وقار اور حاکمیت کی بخوبی حفاظت کر سکتے ہیں۔

آج اسرائیلی رائے عامہ کے میدان میں، خواہ خطے کی سطح پر ہو یا عالمی سطح پر، واقعی ایک عدیم المثال صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔ آپ کا اس صورتحال کے بارے میں کیا تجزیہ ہے اور یہ حالات فلسطین اور صیہونی حکومت کے مستقبل پر کیا اثر ڈالیں گے؟

جی ہاں، اسرائیلیوں کو کبھی بھی اتنی زیادہ نفرت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ واقعی آج پوری دنیا اسرائیل سے نفرت کر رہی ہے، یہاں تک کہ خود امریکا میں بھی۔ گیلپ انسٹی ٹیوٹ کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، صرف 32 فیصد امریکی عوام غزہ میں اسرائیل کی کارروائيوں اور امریکا کی جانب سے اسرائیل کی پشت پناہی کی حمایت کرتے ہیں جو کہ بہت ہی کم ہے۔ البتہ ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان فرق ہے لیکن مجموعی طور پر صرف 32 فیصد امریکی حمایت کرتے ہیں۔ یورپی ممالک میں بھی ہم روزانہ اسرائیلی حکومت کے خلاف مظاہرے دیکھ رہے ہیں اور عوام واقعی فلسطین کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔ فلسطین کی تاریخ میں کبھی بھی فلسطینی عوام کی جدوجہد کی اس سطح پر حمایت نہیں دیکھی گئی۔ یہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی حکومت کے بڑے پیمانے پر کیے جا رہے جرائم کا نتیجہ ہے۔ بس آپ ایک بار غزہ کی روزانہ کی حالت پر نظر ڈال لیں، واقعی المناک ہے۔ بنابریں اسرائیل کو اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔ البتہ اس حکومت کو بڑی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے، یورپ اور امریکا کی حمایت حاصل ہے۔ امریکا نے بھی دکھا دیا ہے کہ وہ بنیادی طور پر بین الاقوامی اصولوں اور اداروں کا پابند نہیں ہے اور ان کا مذاق اڑاتا ہے، جیسا کہ ہم نے دیکھا، اس نے بین الاقوامی کریمنل کورٹ (ICC) کا مذاق اڑایا اور یونیسکو تک سے نکل گیا۔

اور ان پر پابندی لگا دی۔ 

جی ہاں، وہ پابندی لگا دیتے ہیں! اور اس سے پہ چلتا ہے کہ مسٹر ٹرمپ ایک نئے نمونے کے مطابق عمل کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یکطرفہ طور پر اپنی طاقت دنیا پر مسلط کر دیں۔ انہی چیزوں کے سہارے وہ اس طرح کے مظالم کرتے ہیں لیکن ہمیں امید ہے کہ رائے عامہ میں جو حمایت ہم آج دیکھ رہے ہیں، اس سے یہ جنگ آخرکار رک جائے گی اور ان شاء اللہ کوئی ایسا کام ہو سکے گا کہ فلسطینی اپنے حقوق حاصل کر لیں۔

آپ کے خیال میں خطے اور دنیا کو صیہونی حکومت کے وجود سے اصل خطرہ کیا ہے؟

میں جس بات پر تاکید کرنا چاہتا ہوں، وہ خطے اور عالمی سطرح پر اسرائيلیوں کے ہدف کے بارے میں ہے۔ اسرائیلی، توریت کی اساطیری داستانوں کی بنیاد پر خود کو ایک حق دیتے ہیں، ایک یہ کہ ایک وسیع و عریض سرزمین ان کے اختیار میں ہونی چاہیے، یعنی وہی "گریٹر اسرائیل" کا منصوبہ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ نیل سے فرات تک کا علاقہ ان کے قبضے میں ہونا چاہیے۔ بن گوریون نے، جو اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم تھے، کہا تھا کہ نیل سے فرات تک کے گریٹر اسرائیل کے منصوبہ کو عملی جامہ پہننا چاہیے۔ موشے دایان نے، جو ان کے سیاستداں اور فوجی کمانڈر تھے، جب جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا قبضہ ہوا تو کہا کہ ہماری پہلی نسل نے اسرائیل کی بنیاد رکھی، آج ہم اسرائیلی سرزمین کو وسعت دینے میں کامیاب ہوئے اور آنے والی نسلیں نیل سے فرات تک کے منصوبے کو عملی جامہ پہنائیں گی۔ یہ باتیں، خطے اور دنیا کے لیے اسرائیلیوں کے ایک طویل مدتی منصوبے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اسرائیلیوں کا ایک چوبیس نکاتی پروٹوکول ہے جسے فری میسنریز نے ان کے لیے ترتیب دیا ہے اور اس میں ان کی طویل مدتی پالیسیاں پوری طرح سے واضح ہیں۔

صیہونی، جو عالمی حکومت کے دعویدار ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایک دن پوری دنیا پر ان کا غلبہ ہو، اس راہ "مقدس تشدد" پر عقیدہ رکھتے ہیں، بالکل داعش کی طرح۔ جس طرح داعش اپنے اہداف کے حصول کے لیے ہر اقدام کو جائز سمجھتا تھا، اسی طرح اسرائیلی بھی یہی سوچ رکھتے ہیں۔ ان کے انتہا پسند گروہ، جیسے "گوش ایمونیم" بالکل یہی کام کرتے ہیں: فلسطینیوں کی زمینوں پر حملہ کرتے ہیں، ان کے گھروں اور زمینوں کو غصب کرتے ہیں اور قتل عام کرتے ہیں؛ یہ وہی "مقدس تشدد" کا عقیدہ ہے جو عملی طور پر نافذ کیا جا رہا ہے۔

بنابریں خطے اور حتیٰ کہ دنیا کے لیے اسرائیل کے آئندہ منصوبوں کی طرف سے چوکنّا رہنا چاہیے۔ اگرچہ وہ ایک چھوٹی اقلیت ہیں لیکن وہ بڑی طاقتوں کے سہارے خطے اور دنیا پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے آج ہی سے مزاحمت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

ڈاکٹر خرازی آپ کا بہت شکریہ، آج کی اس گفتگو کے آخر میں آپ ایرانی عوام سے کچھ کہنا چاہتے ہیں؟

مجھے امید ہے کہ خداوند عالم ایرانی قوم کی مدد کرے گا کہ بدستور اغیار کی منہ زوری کے مقابلے میں استقامت کرتی رہے تاکہ ایران ہمیشہ آباد اور سر بلند رہے۔

(1) خارجہ پالیسی کے معاملے میں اسلامی جمہوریہ کے اعلان شدہ اصولوں اور عزت، حکمت اور مصلحت جیسی باتوں پر توجہ دی جائے۔ (8 اپریل 1999 کو تشخیص مصلحت نظام کونسل کے سربراہ کے نام پیغام)

(2) ایرانی قوم، مسلط کردہ جنگ کے مقابلے میں مضبوطی سے ڈٹ جائے گی، جیسا کہ وہ اب تک ڈٹی رہی ہے، وہ مسلط کردہ صلح کے مقابلے میں بھی مضبوطی سے ڈٹ جائے گی۔ (صیہونی حکومت کے حملے کے بعد 18 جون 2025 کو ٹی وی سے نشر ہونے والا رہبر انقلاب کا دوسرا پیغام)

(3) میں نے کہا کہ پسپائی کا یہ عمل رکنا چاہیے اور اسے پیشروی کے عمل میں تبدیل ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں پہلا قدم اسی حکومت میں اٹھایا جانا چاہیے، جس میں یہ پسپائی ہوئی تھی اور ایسا ہی ہوا۔ پچھلی حکومت کے زمانے میں پیشرفت کی سمت پہلا قدم اٹھایا گيا۔ (صوبۂ یزد کے اسٹوڈنٹس سے ملاقات، 3 جنوری 2008)