اسلامی تحریکیں

اس وقت عالم اسلام میں کوئی بھی شخص اگر مسئلہ فلسطین کو علاقائی اور مقامی مسئلہ تصور کرتا ہے تو وہ در حقیقت اسی خواب غفلت کا شکار ہے جس نے قوموں کی درگت بنا ڈالی۔ غزہ کا مسئلہ صرف غزہ تک محدود نہیں ہے، یہ پورے علاقے کا مسئلہ ہے۔ سر دست اس مقام پر حملہ کیا گيا ہے جو سب سے زیادہ کمزور ہے۔ اگر دشمن کو اس جگہ کامیابی مل گئی تو وہ علاقے سے کبھی باہر نہیں نکلے گا۔

2017 February
افریقہ میں، ایشیا اور مشرق وسطی میں کتنے اسلامی ممالک ہیں جن میں ایک حکومت گئی اور دوسری آئی لیکن مسلمان تنہائی اور گوشہ نشینی میں رہے۔ مثال کے طور پر عراق ہے جہاں سلطنتی نظام تھا۔ ایک شاہی حکومت ختم ہوئی دوسری شاہی حکومت آ گئی۔ وہ بھی ختم ہوئی اور دوسرے لوگ اقتدار میں آ گئے۔ یہ لوگ گئے تو کچھ اور لوگ آ گئے، وہ بھی گئے اور پھر دوسرے لوگ آئے۔ یہاں تک کہ بعثیوں کی باری آ گئی۔ ان تمام تبدیلیوں میں جن کا کوئی عمل دخل نہیں رہا وہ مسلمان عوام تھے۔ عراق کی اکثریت مسلمان ہے لیکن ان تبدیلیوں میں ان کا کوئی ذکر ہی نہیں آتا۔ یا آپ مصر کی مثال لے لیجئے البتہ وہاں اخوان المسلمین نام کی تنظیم سرگرم عمل ہے۔ اس ملک میں تبدیلی آئی، شاہی حکومت ختم ہوئی، شاہی حکومت کے خاتمے کے بعد انقلابی جمہوری حکومت قائم ہوئی جس کی نمایاں ترین شخصیت عبد الناصر تھے۔ عبد الناصر کے انتقال کے بعد کوئی دوسرا اقتدار میں آیا۔ وہ گیا تو ایک اور آیا۔ اس پورے عرصے میں البتہ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل تک تمام تبدیلیاں اسلامی تحریک اور اسلام نواز افراد کے بغیر کسی کردار کے عمل میں آتی رہیں۔ اسلام نوازوں کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی جاتی تھی۔ مصر کے پہلے انقلاب میں اسلام نواز عناصر کا اہم کردار رہا لیکن جیسے ہی نئی حکومت تشکیل پائی انہیں حاشیئے پر ڈال دیا گيا۔ بعض کو جیل میں ڈال دیا گیا، بعض کو ہلاک کر دیا گيا، بعض کو سیاسی میدان سے باہر کر دیا گيا۔ تو یہاں بھی اسلام نواز حلقوں کا کوئی رول نہیں رہا۔
2017/02/03
2009 January
عرب غداروں کو بھی یہ جان لینا چاہئے کہ ان کا انجام بھی جنگ خندق کے یہودیوں سے زیادہ بہتر نہيں ہوگا کیونکہ خداوند عالم کا ارشاد ہے "وانزل الذین ظاھروھم من اھل الکتاب ومن صیاصیھم" اور اس نے کفارکی پشت پناہی کرنے والے اہل کتاب کو ان کے قلعوں سے نیچے گھسیٹ لیاـ قومیں غزہ کے عوام اور جانبازوں کے ساتھ ہيں۔ جو بھی حکومت اس کے برخلاف قدم اٹھائے گی وہ اپنے عوام سے دور ہوتی چلی جائے گی اور اس طرح کی حکومتوں کا انجام واضح ہے۔ وہ بھی اگر اپنی حیات اور آبرو کی فکر میں ہيں تو انھیں امیرالمومنین علی علیہ السلام کے اس فرمان کو یاد کرنا چاہئے جس میں آپ نے فرمایا تھا "الموت فی حیاتکم مقھورین والحیاۃ فی موتکم قاہرین"
2009/01/16
2008 May
عالمی سیاسی فضا لا دینیت کی فضا ہے۔ اسی فضا کی وجہ سے سامراجی طاقتیں اپنے دوستوں پر بھی رحم نہیں کرتیں۔ آپ نے دیکھا کہ ملعون، روسیاہ صدام کا انہوں نے کیا انجام کیا۔ جب تک انہیں اس کی ضرورت تھی، اس کی خوب تقویت کی گئی۔ ہم پر مسلط کردہ جنگ کے دوران یہی امریکی تھے جنہوں نے صدام حسین کی جتنی ممکن تھی مدد اور پشت پناہی کی۔ خفیہ اطلاعات اور نقشوں سے لیکر فوجی ساز و سامان اور اپنے اتحادیوں کے ذریعے مالی امداد تک سب کچھ اسے مہیا کرایا۔ چونکہ انہیں اس کی ضرورت تھی۔ وہ اس خام خیالی میں تھے اس کے ذریعے وہ غیور اور عظیم ایرانی قوم کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو جائيں گے۔ جب وہ مایوس ہو گئے اور اس کے استعمال کا وقت گزر گيا تو اس کی کیا درگت بنائي اس کا آپ سب نے مشاہدہ کیا۔ اب انہوں نے اپنے اہداف کی تکمیل کے لئے دوسرا راستا اختیار کیا۔ یہ سب ان لوگوں کے لئے جو بے تقوا اور لا دین طاقتوں سے امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں درس عبرت ہے۔
2008/05/01
1993 April
امریکا بہت بڑی غلطی کر رہا ہے۔ امریکا عرب حکومتوں کو شرمناک مذاکرات کے لئے ایک میز پر جمع کرکے در حقیقت ان حکومتوں کو جو ان مذاکرات میں شریک ہوئی ہیں ان کے عوام کی نظروں میں اور بھی نفرت انگیز بنا رہا ہے۔ کیا ممکن ہے کہ عرب ملکوں کے عوام اپنے حکام کو یہ اجازت دے دیں کہ وہ فلسطینی قوم کا گھر دوسروں کو بیچ دیں؟ اگر (معاہدے پر) دستخط ہوئے تو ان حکام کا ان کی قوموں سے فاصلہ بہت زیادہ ہو جائے گا۔ یہ حرکت ان کی قوموں کو اور بھی خشمگیں کر دیگی۔ مصری قوم کو اور بھی خشمگیں کر دیگی۔ وہ لاچار مصری اٹھتا ہے اور کاسہ گدائی ہاتھ میں لئے امریکا پہنچ جاتا ہے تاکہ ایران کی شکایت کرے! اس بیچارے کے پاس جاکر شکایت کر رہا ہے جو خود ایران سے پہلے ہی بہت چراغ پا ہے!  تم ایران کی کیا شکایت کر رہے ہو؟ جاؤ اسلام کی شکایت کر دو! اپنی مسلمان قوم کی شکایت کر دو! اسے اگر کسی کی شکایت کرنی ہے تو جاکر مصری قوم کی شکایت کر دے کیونکہ مصر کی قوم مسلمان قوم ہے، ملت مصر کا ماضی اسلامی ماضی ہے، ملت مصر اسلامی افکار اور اسلامی جد و جہد کے سلسلے میں درخشاں کارکردگی کی مالک ہے۔ یہ قوم غیور قوم ہے۔ یہ طے ہے کہ یہ قوم اپنے حکام کی خیانت کو برداشت نہیں کرے گی، ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوگی۔ مصری عوام کی مزاحمت کا ہم سے کیا رابطہ ہے؟ (یہ رابطہ ہے کہ) مسلمان اگر کہیں بھی بیدار ہوتے ہیں تو ہم کو خوشی ہوتی ہے، اگر کہیں بھی مسلمان اپنے دین کے دشمنوں کے خلاف سینہ سپر ہوکر کھڑے ہو جاتے ہیں تو ہمیں اس پر خوشی ہوتی ہے۔ اگر کہیں مسلمانوں پر افتاد پڑتی ہے تو ہم غمگین ہوتے ہیں اور اس سلسلے میں ہمیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم خود میدان میں اتریں اور مصری قوم کو اس کے فرائض سے آگاہ کریں، یہ قوم خود اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے آگاہ ہے، اسے معلوم ہے کہ کیا کرنا ہے اور اس نے صحیح ادراک کیا ہے۔ مصری قوم نے صحیح اندازہ لگایا ہے۔ مصری نوجوانوں نے صحیح طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ انہیں اس حکومت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہئے جو اسلامی امنگوں کے سلسلے میں، فلسطین کی امنگوں کے سلسلے میں اسلامی ممالک کی سرنوشت کے سلسلے میں خیانت کر رہی ہے۔ یہ ہم نے نہیں سمجھایا ہے، اس کا ہم سے تعلق نہیں ہے۔ ان (مصری حکام) کی غلطی یہ ہے کہ اسلام کی طاقت اور تاثیر سے بے خبر ہیں۔
1993/04/28
1992 November
مصر میں کچھ مسلم نوجوان، مسلمانوں کی ایک تعداد اٹھ کر اسلامی نعرے بلند کرتی ہے جبکہ عام طور پر رابطے کی جو صورت ہوتی ہے وہ ان میں اور ہمارے عوام میں نہیں ہے۔ لیکن ان کے نعرے ہمارے نعروں سے اتنے مماثل اور قریب ہیں کہ ان کا بد بخت و روسیاہ صدر کہتا ہے کہ ان لوگوں کو ایران کی جانب سے شہ مل رہی ہے! ہمارا ان سے کون سا رابطہ ہے؟! وہ خود بھی مسلمان ہیں، قرآنی نعرے بلند کر رہے ہیں، انہیں خود محسوس ہو رہا ہے کہ راہ خدا میں آواز بلند کرنی چاہئے، اقدام کرنا چاہئے، ویسے ہی جیسے ملت ایران نے (شاہ کے) طاغوتی دور میں امریکا اور عالمی استکبار و استبداد کے خلاف آواز بلند کی تھی اور آج تک اس کی یہ آواز بلند ہے۔
1992/11/18