امریکا بہت بڑی غلطی کر رہا ہے۔ امریکا عرب حکومتوں کو شرمناک مذاکرات کے لئے ایک میز پر جمع کرکے در حقیقت ان حکومتوں کو جو ان مذاکرات میں شریک ہوئی ہیں ان کے عوام کی نظروں میں اور بھی نفرت انگیز بنا رہا ہے۔ کیا ممکن ہے کہ عرب ملکوں کے عوام اپنے حکام کو یہ اجازت دے دیں کہ وہ فلسطینی قوم کا گھر دوسروں کو بیچ دیں؟ اگر (معاہدے پر) دستخط ہوئے تو ان حکام کا ان کی قوموں سے فاصلہ بہت زیادہ ہو جائے گا۔ یہ حرکت ان کی قوموں کو اور بھی خشمگیں کر دیگی۔ مصری قوم کو اور بھی خشمگیں کر دیگی۔ وہ لاچار مصری اٹھتا ہے اور کاسہ گدائی ہاتھ میں لئے امریکا پہنچ جاتا ہے تاکہ ایران کی شکایت کرے! اس بیچارے کے پاس جاکر شکایت کر رہا ہے جو خود ایران سے پہلے ہی بہت چراغ پا ہے! 
تم ایران کی کیا شکایت کر رہے ہو؟ جاؤ اسلام کی شکایت کر دو! اپنی مسلمان قوم کی شکایت کر دو! اسے اگر کسی کی شکایت کرنی ہے تو جاکر مصری قوم کی شکایت کر دے کیونکہ مصر کی قوم مسلمان قوم ہے، ملت مصر کا ماضی اسلامی ماضی ہے، ملت مصر اسلامی افکار اور اسلامی جد و جہد کے سلسلے میں درخشاں کارکردگی کی مالک ہے۔ یہ قوم غیور قوم ہے۔ یہ طے ہے کہ یہ قوم اپنے حکام کی خیانت کو برداشت نہیں کرے گی، ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوگی۔
مصری عوام کی مزاحمت کا ہم سے کیا رابطہ ہے؟ (یہ رابطہ ہے کہ) مسلمان اگر کہیں بھی بیدار ہوتے ہیں تو ہم کو خوشی ہوتی ہے، اگر کہیں بھی مسلمان اپنے دین کے دشمنوں کے خلاف سینہ سپر ہوکر کھڑے ہو جاتے ہیں تو ہمیں اس پر خوشی ہوتی ہے۔ اگر کہیں مسلمانوں پر افتاد پڑتی ہے تو ہم غمگین ہوتے ہیں اور اس سلسلے میں ہمیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم خود میدان میں اتریں اور مصری قوم کو اس کے فرائض سے آگاہ کریں، یہ قوم خود اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے آگاہ ہے، اسے معلوم ہے کہ کیا کرنا ہے اور اس نے صحیح ادراک کیا ہے۔ مصری قوم نے صحیح اندازہ لگایا ہے۔ مصری نوجوانوں نے صحیح طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ انہیں اس حکومت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہئے جو اسلامی امنگوں کے سلسلے میں، فلسطین کی امنگوں کے سلسلے میں اسلامی ممالک کی سرنوشت کے سلسلے میں خیانت کر رہی ہے۔ یہ ہم نے نہیں سمجھایا ہے، اس کا ہم سے تعلق نہیں ہے۔ ان (مصری حکام) کی غلطی یہ ہے کہ اسلام کی طاقت اور تاثیر سے بے خبر ہیں۔