بعض روایات میں امام زمانہ کو حضرت یوسف سے تشبیہ دی گئی ہے کہ ان کے بھائی انھیں دیکھ رہے تھے حضرت یوسف ان کے سامنے تھے، ان کے قریب جاتے تھے لیکن وہ انھیں نہیں پہچان پاتے تھے۔ امام زمانہ کا وجود اس طرح کی نمایاں، واضح اور حوصلہ افزا حقیقت ہے۔
امام خامنہ ای
2011/07/09
مختلف زیارتوں میں ہم جو توسل کا انداز دیکھتے ہیں جن میں بعض کی سند بھی بہت معتبر ہے، ان کی بہت اہمیت ہے۔ حضرت سے توسل آپ کی سمت توجہ، آپ سے انسیت۔ اس انسیت سے مراد یہ نہیں ہے کہ کوئی یہ کہے کہ میں تو حضور کو دیکھتا ہوں، آپ کی صدائے مبارک کو سنتا ہوں۔ ہرگز نہیں، ایسا نہیں ہوتا۔ اس طرح کی باتیں جو کہی جاتی ہیں ان میں بیشتر یا تو جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں یا وہ شخص جھوٹ نہیں بول رہا ہوتا ہے بلکہ اپنے تصورات اور تخیلات کے زیر اثر اس طرح کی باتیں شروع کر دیتا ہے۔ ہم نے ایسے کچھ لوگوں کو دیکھا ہے جو جھوٹ بولنے والے انسان نہیں تھے بلکہ اپنی خیالی باتوں کے زیر اثر تھے۔ اپنی ان خیالی باتوں کو لوگوں کے سامنے حقیقت کے طور پر پیش کرتے تھے۔ ان باتوں سے متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ صحیح راستہ منطقی اور دلیلوں کا راستہ ہے۔ توسل اور امام سے راز و نیاز کا جہاں تک سوال ہے تو یہ عمل، انسان دور سے انجام دیتا ہے۔ امام علیہ السلام اسے سنتے ہیں اور التجا کو قبول بھی کرتے ہیں۔ ہم اپنے مخاطب سے جو ہم سے دور ہے کچھ حال دل بیان کرتے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اللہ تعالی سلام کرنے والوں اور پیغام دینے والوں کا پیغام اور سلام حضرت تک پہنچاتا ہے۔ یہ توسل اور یہ روحانی انسیت فعل مستحسن اور لازمی امر ہے۔
امام خامنہ ای
2011/07/09
تاریخ میں بہت سے دعویدار پیدا ہوئے ہیں۔ یہ دعویدار ظہور کی کسی ایک علامت کو اپنے اوپر یا کسی اور پر منطبق کر لیتے تھے۔ یہ سراسر غلط عمل ہے۔ بعض باتیں جو ظہور امام زمانہ علیہ السلام کی علامات کے طور پر بیان کی جاتی ہیں حتمی نہیں ہیں۔ یہ ایسی باتیں ہیں جو معتبر روایات میں مذکور نہیں ہیں۔ ضعیف روایتوں میں ان کا ذکر ضرور ملتا ہے لہذا ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ جو علامتیں معتبر ہیں ان کے لئے بھی صحیح مصداق کی تلاش کرنا کارے دارد۔ تاریخ میں مختلف ادوار میں کچھ لوگ شاہ نعمت اللہ ولی کے اشعار کو مختلف لوگوں پر منطبق کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ چیز تو میں نے خود بھی دیکھی ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ یہ گمراہ کن باتیں ہیں، یہ غلط راستے پر لے جانے والے کام ہیں۔ جب انحراف اور گمراہ کن باتیں شروع ہو جاتی ہیں تو حقیقت متروک ہوکر رہ جاتی ہے، مشتبہ ہو جاتی ہے۔ عوام الناس کے اذہان کی گمراہی کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔ لہذا عامیانہ کاموں سے اجتناب، عامیانہ افواہوں پر سکوت سے اجتناب بہت ضروری ہے۔ عالمانہ، مدلل، معتبر سند پر استوار کام جو اہل فن کا کام ہے، ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے، اس کے لئے اہل فن کی ضرورت ہوتی ہے، علمائے حدیث کی ضرورت ہوتی ہے، علم رجال کے ماہر افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو سند کو پہچانتے ہوں، اہل نظر ہوں، باخبر لوگ ہیں، حقائق سے آشنا ہوں، ایسے لوگ ہی اس وادی میں قدم رکھ سکتے ہیں اور علمی تحقیق کر سکتے ہیں۔ اس پہلو کو جہاں تک ممکن ہے زیادہ سے زیادہ سنجیدگی اور توجہ سے انجام دیا جائے تا کہ لوگوں کے لئے راستہ کھلے۔ دل اس عقیدے سے جتنے محرم ہوں گے، مانوس ہوں گے، حضرت کا وجود مبارک ہمارے لئے جو زمانہ غیبت میں زندگی بسر کر رہے ہیں جتنا زیادہ قریب اور قابل ادراک ہوگا، حضرت سے ہمارا رابطہ جتنا زیادہ قوی ہوگا ہماری دنیا کے لئے، اعلی اہداف کی جانب ہماری پیش قدمی کے لئے اتنا ہی زیادہ بہتر ہوگا۔
امام خامنہ ای
2011/07/09
ہمیں انتظار کرنا ہے۔ بشریت کے کارواں کے سفر کے اختتام کے بارے میں ادیان الہی کی نظر آس و امید کی نظر ہے۔ واقعی امام زمانہ کا انتظار، ان سے قلبی وابستگی قائم کرنا، آپ کے آنے کا انتظار امید کا دریچہ ہے اسلامی معاشرے کے لئے۔ ہم فرج کے انتظار میں ہیں تو خود یہ انتظار ایک فرج ہے، گشائش ہے، امید کی کرن ہے، طاقت عطا کرتا ہے۔