رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 4 جنوری 2025 کو حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے یوم شہادت کی مجلس کے اختتام پر مختصر خطاب کیا اور اس بات پر خصوصی تاکید فرمائی کہ امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہم السلام کی زندگی پر خاص تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
خطاب حسب ذیل ہے:
امام علی رضا، امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہم السلام کے زمانے میں شیعوں کا نیٹ ورک ہمیشہ سے زیادہ پھیلا ہوا تھا۔ کسی بھی زمانے میں پورے عالم اسلام میں شیعوں کے آپسی روابط اور تشیع کے نیٹ ورک کا فروغ، امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہم السلام کے زمانے جیسا نہیں تھا۔
امام خامنہ ای
9 اگست 2005
امام علی نقی علیہ السلام اور دوسرے آئمہ علیھم السّلام، سبھی نے اس راستے کی طرف قدم بڑھایا کہ اللہ کا حکم، الھی قانون سماجوں میں نافذ ہو۔ کوششیں ہوئیں، جدوجہد ہوئی، مشکلات برداشت کی گئی ہیں۔ اس راہ میں جیل و جلا وطنی کی زندگی برداشت کی گئی اور نتیجہ خیز شھادتیں پیش کی گئیں۔
امام خامنہ ای
8 مئی 1981
آپ دیکھئے کہ اچانک قم میں اشعریین نظر آنے لگے۔ وہ کیوں آئے؟ اشعریین تو عرب ہیں۔ وہ آئے قم۔ قم میں حدیث و اسلامی معارف کا بازار گرم ہو گيا۔ احمد بن اسحاق اور دوسرے افراد نے قم کو اپنا مرکز بنایا۔ ری کے علاقے میں وہ ماحول پیدا ہوا کہ شیخ کلینی جیسی ہستیاں وہاں سے نکلیں۔ اس لئے کہ شیخ کلینی جیسی عظیم ہستی یونہی اچانک کسی شہر میں پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ شیعہ ماحول ہو، مومنین کا ماحول ہو تاکہ اس ماحول میں پرورش پاکر بچہ بڑا ہو اور جوانی کے مراحل طے کرے اور ایسی خصوصیات کے ساتھ اس کی پرورش ہو کہ محمد بن یعقوب کلینی بن جائے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ آپ دیکھئے کہ شیخ صدوق رضوان اللہ علیہ ہرات، خراسان وغیرہ تک گئے اور جاکر شیعوں کی احادیث جمع کیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ خراسان میں شیعہ محدثین کیا کر رہے تھے؟ شیعہ محدثین سمرقند میں کیا کر رہے تھے؟ سمرقند کہاں ہے؟ شیخ عیاشی سمرقندی خود سمرقند میں تھے۔ یعنی اسی شہر سمرقند میں تھے جس کے بارے میں کہا گيا ہے؛ «کانَت مَرتَعاً لِلشّیعَة وَ أَهلِ العِلم» یہ شیخ کشّی کے بیانوں میں ہے۔ خود شیخ کشّی بھی سمرقندی تھے۔ یعنی امام رضا علیہ السلام کی ایک تحریک، آپ کا آنا اور اس کے بعد حضرت کی مظلومانہ شہادت کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ یہ پورا علاقہ ائمہ علیہم السلام کے زیر نگیں ہو گیا۔ ائمہ علیہم السلام نے ان حالات سے استفادہ کیا۔ یہ مراسلہ نگاری، یہ آمد و رفت اور ابو الادیان وغیرہ جیسے افراد کو جو آپ دیکھتے ہیں تو یہ سب کچھ آسانی سے نہیں ہوا۔
سامرا کوئی بڑا شہر نہیں تھا، بلکہ ایسا شہر تھا اور ایسا دار الخلافہ تھا جسے نیا نیا بسایا گيا تھا اور وہاں حکومت کے عمائدین، عہدیداران وغیرہ اور عوام الناس کی بس اتنی تعداد رہتی تھی کہ روز مرہ کی ضرورت ان سے پوری ہو جائے۔ سُرّ مَن رأىٰ یا سامرا در حقیقت بغداد کے بعد ایک نو تعمیر شدہ شہر تھا۔ اسی شہر سامرا میں ان دونوں ہستیوں امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہما السلام نے رابطے اور اطلاع رسانی کا ایسا عظیم نیٹ ورک بنایا کہ وہ عالم اسلام کے گوشے گوشے تک پھیل گيا۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یعنی ہم ائمہ علیہم السلام کی زندگی کے ان پہلوؤں کو جب دیکھتے ہیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ کیا کر رہے تھے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ صرف نماز، روزے اور طہارت و نجاست وغیرہ کے مسائل بیان نہیں کرتے تھے۔ بلکہ اسی اسلامی معنی و مفہوم کے ساتھ امام کی منزلت میں تھے اور امام کی حیثیت سے لوگوں سے بات کرتے تھے۔
میری نظر میں یہ پہلو بہت زیادہ قابل توجہ ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کو مدینہ سے سامرا لایا گيا اور جوانی کے ایام میں بیالیس سال کی عمر میں حضرت کو شہید کر دیا گیا۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کو اٹھائیس سال کی عمر میں شہید کر دیا گیا۔ یہ ساری چیزیں ثابت کرتی ہیں کہ پوری تاریخ میں ائمہ علیہم السلام، آپ کے شیعوں اور اصحاب کی عظیم مہم مسلسل جاری رہی۔ حالانکہ حکومت بے حد ظالم تھی، ظالمانہ برتاؤ کرتی تھی لیکن اس کے باوجود ائمہ علیہم السلام کامیاب رہے۔ یعنی ائمہ کی غریب الوطنی اور بے کسی کے ساتھ ہی اس وقار اور اس عظمت کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔
امام خامنہ ای
10 مئی 2003