بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

کسی بھی دور میں، امیر المومنین (علیہ السلام) کے دور سے آخر تک، پورے عالم اسلام میں، حضرت امام جواد (امام محمد تقی) حضرت امام ہادی(امام علی نقی) اور حضرت امام حسن عسکری (علیہم السلام) کے دور سے زیادہ، کسی بھی دور میں، کمیت اور کیفیت، کسی بھی لحاظ سے اسلام اتنا نہیں پھیلا ہے؛ یہ فروغ انہیں تین عظیم ہسیتوں کا کارنامہ ہے۔ حضرت امام ہادی اور حضرت امام جواد علیہما السلام کے دور میں بغداد اہل تشیع کا مرکز تھا۔ فضل بن شاذان کہتے ہیں کہ میں جب بغداد پنچا تو مسجد شیعہ محدثین سے بھری ہوئی تھی جن کا روایت کا حلقہ تھا اور وہ روایات نقل کیا کرتے تھے۔ یعنی حالت یہ تھی۔ بغداد میں ایک طرح سے اور کوفے میں ایک طرح سے، ان عظیم ہستیوں نے بڑی کوششیں کی ہیں۔

  یہ فروغ اس لئے تھا کہ ضرورت اس بات کی تھی کہ شیعہ تعلیمات ان عظیم ہستیوں کی زبان سے بیان ہوں اور فروغ پائیں۔ یہ کام حضرت ہادی (علیہ السلام) نے انجام دیا۔ زیارت جامع کے ذریعے بھی جو غیر معمولی ہے اور یوم غدیر پر پڑھی جانے والی زیارت امیر المومنین کے ذریعے بھی۔ آپ دیکھیں کہ اس زیارت میں جو فضائل امیرالمومنین (علیہ السلام) کے بارے میں ہے، آیات قرآنی سے کتنا استفادہ کیا گیا ہے! یہ حضور ذہنی، یہ بیان پر تسلط اور اس شکل میں حقائق کا بیان، حضرت امام ہادی (علیہ السلام) کے علاوہ، ایک امام معصوم کے علاوہ کس اور کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ کام ان عظیم ہستیوں نے انجام دیے ہیں۔ اگر حضرت امام ہادی (علیہ السلام) کی مساعی نہ ہوتیں تو آج ہمارے پاس زیارت جامعہ نہ ہوتی اور وہ منفرد تعلیمات جو اس زیارت میں ہیں، شیعوں کے پاس نہ ہوتیں۔

  بعض لوگوں نے تاریخ پڑھی ہے لیکن حدیث نہیں پڑھی ہے اور ائمہ علیہم السلام کے ان کلمات سے واقف نہیں ہیں جو ان روایات میں بیان کئے گئے ہیں۔ ان کے کام کا سب سے بڑا نقص یہی ہے۔ ائمہ کی تاریخ کو بھی سب سے زیادہ انہی احادیث سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ان کی زندگی میں، جگہ جگہ اور ان کی وصیتوں سے (سمجھا جا سکتا ہے) کہ ان میں سے ہر ایک پر کیا گزری ہے۔ خود حضرت امام ہادی (علیہ السلام) کی وصیت میں ایک حیرت انگیز بیان پایا جاتا ہے۔ یقینا آپ نے کافے میں ملاحظہ فرمایا ہے کہ احمد بن محمد بن عیسی کا  موثرکردار ہے، انہوں نے کام کیا ہے، بات کہی ہے اور بحث کو مباہلے تک لے گئے ہیں اور اسی طرح کی بہت سی مثالیں ہیں جو بہت اہم ہیں۔

ہماری تاریخ نویسی میں،  ہماری کتابوں میں، حتی منبروں سے  ہماری تقاریر میں، ان تین ہستیوں (اماموں) کا نام بہت کم لیا جاتا ہے، ان پر کم تحقیق ہوتی ہے اور کم کام کیا جاتا ہے۔ بہت مناسب ہوگا کہ کچھ لوگ ان تین عظیم ہستیوں کی زندگی کے بارے میں کام کریں، تحقیق کریں اور لکھیں۔ البتہ میں نے حال ہی میں ایک ناول میں دیکھا ہے کہ حضرت امام جواد علیہ السلام کا ایک معجزہ بیان کیا گیا ہے؛ (لیکن) کم ہے؛ اس سے زیادہ لکھنے کی ضرورت ہے آرٹ اور فن کے  شعبے میں بھی اس سلسلے میں کام کئے جائيں، ان  شاء اللہ۔