21 اپریل برصغیر کے مشہور فلسفی، مفکر، اسلامی اسکالر، شاعر اور سیاستداں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کا یوم وفات ہے۔ اگرچہ علامہ اقبال عوام کی نظروں میں اپنے اشعار خاص طور پر فارسی کلام کی وجہ سے ہند و پاک کے بلند پایہ شاعروں میں شمار ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ ایک دانشور ہیں جس نے اپنے گہرے افکار و نظریات کو اشعار کے سانچے میں ڈھال کر مشرقی اقوام خاص طور پر امت مسلمہ کے سامنے پیش کیا ہے۔
اگر آج اقبال زندہ ہوتے تو وہ ایک ایسی قوم کو اپنی آنکھوں کے سامنے پاتے جو اپنے قدموں پر کھڑی ہے اور اپنے قیمتی اسلامی سرمائے سے مالامال ہو کر اور خود پر اعتماد کر کے مغرب کے فریبی زرق و برق اور مغربی اقدار کو خاطر میں لائے بغیر زندگی گزار رہی ہے۔
مسلم اقوام، بالخصوص اہم مسلم شخصیات کو اقبال کی 'خودی' کے ادراک کی ضرورت ہے۔ انہیں ضرورت ہے کہ اقبال کا پیغام سمجھیں اور یہ جان لیں کہ اسلام اپنی ذات و ماہیت کے اعتبار سے انسانی معاشروں کے انتظام و انصرام کے غنی ترین سرمائے کا حامل ہے، دوسروں کا محتاج نہیں۔
اقبال تاریخ اسلام کی نمایاں شخصیات میں سے ایک ہیں اور ان میں اتنی گہرائي اور رفعت ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ان کی کسی ایک خصوصیت یا ان کی زندگي کے کسی ایک پہلو کو ہی مدنظر رکھا جائے اور ان کے اسی پہلو اور اسی خصوصیت پر انھیں سراہا جائے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے 10 مارچ 1986 کو تہران یونیورسٹی میں علامہ اقبال پر منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کیا جس میں آپ نے علامہ اقبال کے فلسلفے، طرز فکر، اہداف طرز سخن جیسے گوناگوں پہلوؤں پر بڑی معرکۃ الآرا گفتگو کی۔ (1)