اقبال کے خیال میں مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ، عدم تشخص اور اسلامی تعلیمات و اقدار سے دوری کا ہے۔ اسی لیے ان کے کلام کے ایک بڑے حصے میں دنیا کی دیگر اقوام کے درمیان امت مسلمہ کے اپنے حقیقی مقام تک پہنچنے کے لیے اپنی 'اصل' کی جانب واپسی پر زور دیا گيا ہے۔

اقبال نے سنہ 1915 میں اپنا پہلا فارسی شعری مجموعہ 'اسرار خودی' اور اس کے تین سال بعد 'رموز بے خودی' شائع کیا۔ ان دونوں مجموعوں میں جو چیز ان کے افکار و نظریات کا محور تھی، وہ 'خودی' ہے۔ خودی کا نظریہ اسی کے بعد سے ان کے تمام شعری مجموعوں میں دکھائي دینے لگا اور وہ جا بجا اس نظریے کی تشریح کرتے رہے۔ ان کا ماننا تھا کہ فرد کی طرح ہی معاشرے کی بھی روح اور شخصیت ہوتی ہے اور وہ بھی فرد کی طرح، شخصیت میں تزلزل کا شکار ہوتا ہے۔ اقبال کا خیال تھا کہ مغربی کلچر کا سامنا کرنے میں اسلامی معاشرہ شخصیت میں تزلزل کی بیماری میں مبتلا ہو کر اپنے تشخص کو کھو چکا ہے بنابریں مصلحین کو جو کام سب سے پہلے کرنا چاہیے وہ اس معاشرے کے ایمان و عقیدے کو اس کی حقیقی خودی کی طرف یعنی اسلامی ثقافت و معنویت کی طرف لوٹانا ہے۔

اقبال کے افکار و نظریات پر ہمیشہ ہی دیگر دانشوروں نے توجہ دی اور بعض نے ان پر تنقید بھی کی لیکن ایک مصلح اور دانشور کی حیثیت سے ان کے افکار پر اسلامی معاشروں میں توجہ دی جاتی رہی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ امام خامنہ ای بھی ان شخصیات میں شامل ہیں جنھوں نے اقبال کے افکار و نظریات کا عمیق مطالعہ کر کے ان کے افکار کے مختلف پہلوؤں کو بخوبی سمجھا ہے۔

مارچ سنہ 1986 میں رہبر انقلاب کے دورۂ پاکستان اور اقبال کے مزار کی زیارت کے دو مہینے بعد تہران یونیورسٹی کی فیکلٹی آف لٹریچر میں علامہ اقبال کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک کانفرنس منعقد ہوئي۔ رہبر انقلاب اس کانفرنس کی افتتاحی تقریب کے مقررین میں سے ایک تھے۔ انھوں نے اس دن کو اپنی زندگي کے سب سے یادگار دنوں میں سے ایک قرار دیا۔ رہبر انقلاب نے اپنی طویل تقریر میں اقبال کے افکار کے مختلف سیاسی، سماجی اور ثقافتی پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ اس مختصر سی تحریر میں ہم رہبر انقلاب کی اس زبردست تقریر کے کچھ گوشوں کے بارے میں بات کریں گے۔ انھوں نے اپنی تقریر اس طرح شروع کی:

"میں چاہتا تھا کہ اس نشست میں میری شرکت پروٹوکول وغیرہ سے عاری ہو تاکہ اول تو میں اپنی اس پسندیدہ اور عظیم شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کی نشست سے زیادہ محظوظ ہوتا اور دوسرے یہ کہ مجھے اس بات کا موقع ملتا کہ میں اقبال کے سلسلے میں اپنے جذبات کے کچھ گوشوں کو اس کانفرنس کے شرکاء کے سامنے پیش کر پاتا۔ اس وقت بھی میں برادران اور خواہران سے گزارش کروں گا کہ وہ مجھے یہاں ایک ایسے شخص کے طور پر بات کرنے کی اجازت دیں جو برسوں سے اقبال کا مرید رہا ہے اور اپنے ذہن میں اقبال کے ساتھ زندگي گزارتا رہا ہے تاکہ میں اپنے اوپر ان کے عظیم حق کے کچھ حصے اس بڑے اجتماع میں اور اپنے ملک کے عزیز عوام کے ذہنوں میں ادا کر سکوں۔"

رہبر انقلاب اسلامی نے شروع میں اسلامی انقلاب سے پہلے ایران کے سیاسی حالات اور اس ملک پر حکمراں آمریت کے سبب ایران میں اقبال کی شخصیت اور ان کے افکار کے ناشناختہ رہ جانے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ "ہمارے عوام، جو علامہ اقبال کے پہلے بین الاقوامی سامعین ہیں، افسوس کی بات ہے کہ بہت دیر میں اقبال سے آشنا ہوئے۔ ہمارے ملک کے حالات، خاص طور پر اقبال کے محبوب ملک ایران میں، ان کی زندگی کے آخری برسوں میں استعمار کی خباثت آمیز پالیسی کے غلبے کی وجہ سے اقبال کبھی ایران نہیں آ سکے۔ فارسی کا یہ عظیم شاعر، جس نے اپنے اشعار کا زیادہ تر حصہ اپنی مادری زبان میں نہیں بلکہ فارسی میں کہا ہے، اپنے اس محبوب و مطلوبہ ماحول کو نہ دیکھ سکا۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ اقبال ایران نہ آ سکے بلکہ اس سیاست نے کہ جس کے خلاف اقبال نے ایک عمر جد و جہد کی، اقبال کے افکار کو، اقبال کی راہ کو، اقبال کے درس کو ایرانی عوام کے کانوں تک پہنچنے نہ دیا جو اس پیغام کو سننے کے لیے سب سے زیادہ آمادہ تھے۔"

انھوں نے اس کے بعد اقبال کی سب سے بڑی آرزو پر روشنی ڈالی اور اسلامی جمہوریہ ایران کو اس عظیم مسلم دانشور کے خوابوں کی تعبیر بتایا: "آج کی اسلامی جمہوریہ یعنی اقبال کی آرزوؤں نے ہمارے ملک میں مجسم شکل اختیار کی ہے۔ اقبال جن کو اپنے اسلامی و انسانی تشخص کی طرف سے مسلمانوں کی بے حسی پر غم تھا اور وہ اسلامی معاشرے کے عوام میں شخصیت کشی نیز روحانی ذلت و ناامیدی کو سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھ رہے تھے اور انھوں نے اپنی وسیع توانائی اور بھرپور کوشش کے ساتھ مشرقی انسان خاص طور پر مسلمانوں کی روح اور ذات سے اس خس و خاشاک کو مٹا دینے کے لیے کام کیا تھا، اگر آج وہ زندہ ہوتے تو ایک ایسی قوم کو اپنی آنکھوں کے سامنے پاتے جو اپنے قدموں پر کھڑی ہے اور اپنے قیمتی اسلامی سرمائے سے مالامال ہو کر، خودکفیل ہو کر اور خود پر اعتماد کر کے، مغرب کے فریبی زیوروں کی جگمگاہٹ اور مغربی اقدار کو خاطر میں لائے بغیر زندگی گزار رہی ہے، قوت و اقتدار کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے، وہ اپنے لیے اہداف طے کرتی ہے اور ان اہداف کے حصول کی سمت میں آگے بڑھتی ہے، عاشقوں کی طرح تیزی سے بڑھ رہی ہے، وہ قوم پرستی، نیشنلزم اور بے جا وطن پرستی کی چہاردیواری میں خود کو مقید نہیں کرتی۔ اقبال کی سب سے بڑی آرزوؤں میں سے ایک، جو ان کی تمام قیمتی کتابوں میں جا بجا موجود ہیں، یہ تھی کہ وہ اس طرح کی قوم کو یہاں دیکھ پاتے، ہماری "نہ شرقی نہ غربی" کی پالیسی بالکل وہی چیز ہے جو اقبال کہا کرتے تھے۔ پیغمبر اور قرآن سے ہمارا عشق اور قرآن سیکھنے پر ہماری تاکید اور یہ کہ انقلاب اور اہداف کی بنیادیں قرآنی ہونی چاہیے، بالکل وہی چیز ہے جس کی اقبال سفارش کیا کرتے تھے۔"

پھر آيت اللہ خامنہ ای نے اپنی تقریر میں علامہ اقبال کی گہری اور کثیر جہتی شخصیت کی طرف اشارہ کیا اور زور دے کر کہا کہ شاعر یا فلسفی کی حیثیت سے ان کی زندگي کے ایک یا دو پہلوؤ‎ں پر بات کر کے کسی بھی طرح ان کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا: "اقبال تاریخ اسلام کی ایسی نمایاں، عمیق اور اعلیٰ شخصیتوں میں سے ہیں جن کی خصوصیات اور زندگی کے صرف ایک پہلو کو مد نظر نہیں رکھا جاسکتا اور ان کے صرف اس پہلو اور اس خصوصیت کے لحاظ سے ان کی تعریف نہیں جاسکتی۔ اگر ہم صرف اسی پر اکتفا کریں اور کہیں کہ اقبال ایک فلسفی ہیں اور ایک عالم ہیں تو ہم نے ان کا حق ادا نہیں کیا۔ اقبال بلاشبہہ ایک عظیم شاعر ہیں اور ان کا شمار بڑے شعراء میں ہوتا ہے۔ اقبال کے اردو کلام کے بارے میں اردو زبان و ادب کے ماہرین کہتے ہیں کہ بہترین ہے۔ البتہ شاید یہ اقبال کی بہت بڑی تعریف نہ ہو کیونکہ اردو زبان کی ثقافت اور نظم کا ماضی زیادہ پرانا نہیں ہے لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اقبال کے اردو کلام نے بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں بر صغیر کے افراد پر، چاہے ہندو ہوں یا مسلمان، گہرا اثر ڈالا اور انھیں اس جد وجہد میں شراکت کے لئے جو اس وقت تدریجی طور پر بڑھ رہی تھی، زیادہ سے زیادہ جوش دلایا۔"

اس کے بعد وہ سماج کے ایک مصلح کی حیثیت سے اقبال کے کردار کی تشریح کرتے ہیں اور ان کی شخصیت کے اس پہلو کو اس کے رائج معنی اور برصغیر کی جغرافیائي حدود سے ماورا بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: "اقبال ایک عظیم مصلح اور حریت پسند شخص ہیں اگرچہ حریت پسندی اور سماجی اصلاح میں اقبال کا رتبہ بہت زیادہ اہم ہے لیکن اقبال کو صرف سماجی مصلح نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اسی بر صغیر میں اقبال کے ہم عصروں میں کچھ ہندو اور مسلمان ہندوستان کے سماجی مصلح مانے جاتے ہیں جن میں سے اکثر کو ہم جانتے ہیں اور ان کی تصنیفات موجود ہیں اور ان کی جدوجہد واضح ہے۔ لیکن اقبال ان سب سے اعلیٰ ہیں اور اقبال کے کام کی عظمت کا ان میں سے کسی سے بھی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ لوگ انتھک مجاہد تھے جنھوں نے اپنے ملک سے برطانیہ کو نکالنے کے لیے برسوں محنت کی اور اس راہ میں بہت زیادہ جدوجہد کی لیکن اقبال کا مسئلہ صرف ہندوستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اسلامی دنیا اور مشرق کا مسئلہ ہے۔ وہ اپنی مثنوی "پس چہ باید کرد اے اقوام شرق!" (تو پھر کیا کیا جائے اے مشرقی قومو!) میں دکھاتے ہیں کہ ان کی دور رس نگاہیں کس طرح اس پوری دنیا کی طرف متوجہ ہیں جو ظلم و ستم کا شکار ہے اور ان کی توجہ اسلامی دنیا کے ہر گوشہ و کنار پر ہے۔ اقبال کے لیے مسئلہ صرف ہندوستان کا مسئلہ نہیں ہے اور اسی لیے اگر ہم اقبال کوایک سماجی مصلح بھی کہیں تو حقیقت یہ ہے کہ ہم اقبال کی پوری شخصیت کو بیان نہیں کریں گے اور مجھے کوئي ایسا لفظ نہیں ملتا جس سے ہم اقبال کی صحیح معنوں میں تعریف کر سکیں۔"

رہبر انقلاب اسلامی اپنی تقریر میں اقبال کے افکار کے اصل محور یعنی 'خودی' پر بھی روشنی ڈالتے ہیں اور اسے ان کے ذہن میں ایک انقلابی فکر کی چنگاری بتاتے ہیں جو بعد میں ایک فلسفی نظریے میں بدل گئي: "میرے خیال میں خودی کا مسئلہ اقبال کے ذہن میں پہلے ایک انقلابی فکر کی شکل میں آتا ہے اور بعد میں انھوں نے اس فکر کو فلسفیانہ نظریہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ خودی وہی چیز ہے جس کی ہندوستان میں ضرورت تھی اور مجموعی نقطۂ نگاہ سے عالم اسلام کو اس کی ضرورت تھی یعنی اسلامی اقوام کے پاس اگرچہ اسلامی نظام تھا لیکن انھوں نے اس چیز کو بالکل فراموش کردیا تھا اور مکمل طور پر فریب کھا کر اقدار کے ایک بیرونی نظام پر فریفتہ، اس کی شیدا اور معتقد ہو گئی تھیں اور ضروری تھا کہ وہ اپنی جڑوں کی جانب لوٹیں یعنی اسلامی اقدار کے نظام کی جانب لوٹیں، یہ وہی مفہوم ہے جس کے لیے اقبال کوشاں ہیں مگر ایسے سماجی مسئلے کو ایک ایسی شکل میں بیان کرنا کہ وہ ذہنوں میں جاگزیں ہو سکے فلسفیانہ بیان کے بغیر ممکن نہیں ہے اور اسی لیے وہ اس مفہوم کو فلسفیانہ بیان کی شکل میں ڈھال دیتے ہیں۔

البتہ علامہ اقبال کی نظر میں 'خودی' کے فلسفے کا ایک دوسرا اٹوٹ حصہ بھی ہے جسے وہ 'بے خودی' کا نام دیتے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی اس نکتے کی تشریح کرتے ہوئے بے خودی کے فلسفے کو توحیدی امت اور امت اسلام کی تشکیل کا سنگ بنیاد بتاتے ہیں: "خودی کے بعد بے خودی کا فلسفہ ہے یعنی جب ہم "خود" اور ایک انسان کے تشخص کی تقویت کے بارے میں بحث کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ انسان ایک دوسرے سے جدا ہو کر اپنے ارد گرد دیوار کھڑی کر لے اور خود اکیلے زندگی گزارے بلکہ ان تمام خود کو چاہیے کہ ایک معاشرے کے مجموعے میں بے خود ہو جائیں یعنی فرد کو معاشرے سے ارتباط حاصل کرنا چاہیے۔ یہ رموز بے خودی ہیں اور "رموز بے خودی" اقبال کی دوسری کتاب ہے اور "اسرار خودی" کے بعد شائع ہوئی ہے جو اسلامی نظام کے بارے میں اقبال کے نظریے کی نشاندہی کرتی ہے۔ آج جب ہم ان مضامین پر نظر ڈالتے ہیں جو رموز بے خودی میں اقبال کے ذہن میں ہیں تو ہم انھیں چیزوں کو پاتے ہیں جو ہمارے اسلامی معاشرے کی ذہنیت پر حکمفرما ہیں۔ اسلام کی ترویج میں امت توحیدی کی ذمہ داری اقبال کے حوصلہ انگیز ترین نظریات میں سے ایک ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل اور امت مسلمہ کا منصۂ ظہور پر آنا دنیا کے لیے کوئي آسان کام نہیں تھا اور دنیا، بہت زیادہ مشقتیں اور تکالیف برداشت کر کے اور تاریخ بہت زیادہ تجربات حاصل کر کے امت توحید تک پہنچی ہے اور اس طرح توحید کے نظریے اور اسلامی فکر کے ساتھ ایک امت وجود میں آئي ہے۔"

اپنی تقریر کے آخر میں رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای ایران اسلامی میں اقبال کے افکار کے عملی جامہ پہننے پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ امت مسلمہ کو خودی اور بے خودی کے فلسفے کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی کمیوں اور اغیار کے ساتھ حوصلہ ہارنے کی مشکل کو دور کر سکے: "اقبال کے 'خودي' کے پيغام کو ہماري قوم نے ميدان عمل ميں اور حقيقت کي دنيا ميں عملي جامہ پہنايا لہذا اسے خودي کی سفارش کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ايران کے لوگ آج مکمل طور پر محسوس کرتے ہيں کہ ہم اپنے پيروں پر کھڑے ہيں، اپني ثقافت اور اپني چيزوں پر بھروسہ کرتے ہيں اور اس تمدن پر بھروسہ کرتے ہیں جس کو آئيڈيالوجي اور فکر کي بنياد پر ہم استوار کر سکتے ہيں۔ البتہ ماضي ميں مادي زندگي اور زندگي گزارنے کے لحاظ سے ہماري تربيت دوسروں پر انحصار کے ساتھ کی گئي ليکن ہم تدريجي طور پر اپنے خيموں سے ان غير ملکي رسيوں کو بھي کاٹ پھينکيں گے اور اپني ہي رسيوں کا استعمال کريں گے اور ہميں اميد ہے کہ ہم اس کام ميں کامياب ہوں گے۔ ہاں دیگر مسلمان اقوام کو اس 'خودي' کو سمجھنے کي ضرورت ہے، خاص طور پر مسلمان شخصيات کو چاہے وہ سياسي شخصيتيں ہوں يا ثقافتي۔ انھيں ضرورت ہے کہ اقبال کے پيغام کو سمجھيں اور جان ليں کہ اسلام اپني ذات ميں اور اپني ماہیت ميں انساني معاشروں کو چلانے کيٰ اعلي ترين بنيادوں کا حامل ہے اور دوسروں کا محتاج نہيں ہے۔"