بسم اللہ الرحمن الرحیم
اقبال سے ہمارے عوام کی تاخیر سے آشنائی
آج جب میں اس نشست کو، اقبال عزیز کو خراج عقیدت پیش کرنے کی اس کانفرنس کو اپنے ملک میں دیکھ رہا ہوں تو یہ میری زندگی کے سب سے پرجوش اور سب سے یادگار دنوں میں سے ہے۔ وہ درخشاں ستارہ جس کی یاد، جس کے اشعار، جس کی نصیحت اور جس کا سبق گھٹن کے دنوں کی تاریکیوں میں مایوسی کو دلوں سے دور کر رہا تھا اور ایک روشن مستقبل کی ہماری نگاہوں کے سامنے تصویر کشی کر رہا تھا، آج ایک مشعل فروزاں بن چکا ہے، بحمد اللہ ہماری قوم کی توجہ اپنی طرف مبذول کر رہا ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ ہمارے عوام، جو علامہ اقبال کے پہلے بین الاقوامی مخاطبین ہیں، بہت دیر میں اقبال سے آشنا ہوئے۔ ہمارے ملک کے خاص حالات، خاص طور پر اقبال کے محبوب ملک ایران میں ان کی زندگی کے آخری برسوں میں استعمار کی خباثت آمیز پالیسی کے غلبے کی وجہ سے وہ کبھی ایران نہیں آ سکے۔ فارسی کا یہ عظیم شاعر، جس نے اپنے اشعار کا زیادہ تر حصہ اپنی مادری زبان میں نہیں بلکہ فارسی میں کہا، اپنے اس محبوب و پسندیدہ ماحول میں کبھی نہ آ پایا۔ صرف اتنا نہیں کہ اقبال ایران نہ آ سکے بلکہ اس سیاست نے، جس کے خلاف اقبال نے ایک طویل جد و جہد کی، ان کے افکار کو، ان کی راہ کو اور ان کے درس کو ایرانی عوام کے کانوں تک نہ پہنچنے دیا جو اس پیغام کو سننے کے لیے سب سے زیادہ آمادہ تھے۔
اسلامی جمہوریہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر
میرے پاس اس سوال کا جواب ہے کہ اقبال ایران کیوں نہیں آئے؟ جس وقت اقبال اپنی شہرت کے عروج پر تھے اور برصغیر ہندوستان کے گوشہ و کنار میں اور دنیا کی مشہور یونیورسٹیوں میں ان کا ڈنکا بج رہا تھا ایک مفکر کے طور پر، ایک فلسفی کے طور پر، ایک دانشور کے طور پر، ایک ماہر انسانیات کے طور پر، ایک بڑے ماہر سماجیات کے طور پر، البتہ ان میں سے ایک بھی عنوان وہ نہیں ہے جسے اقبال اپنے لیے پسند کرتے تھے، ہمارے ملک میں ایسے سیاستدانوں کی حکومت تھی جو اقبال کے افکار کو کسی طور پر بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے، انھیں یہاں آنے کی دعوت نہیں دی گئی، ان کے اس ملک میں آنے کی راہ ہموار نہ ہو سکی۔ برسوں تک ان کی کتاب ایران میں چھپ نہ سکی، کتاب کے طور پر اسے آشنا نہیں کرایا گیا، اس وقت جب اس ملک میں ایک تباہ کن سیلاب کی طرح اغیار کی کتابیں، ادب اور کلچر ایرانی انسان اور مسلمان انسان کے تشخص کے خلاف ہر طرف سے جاری تھا، اقبال کا کوئی شعر، ان کی کوئی کتاب ایران میں منظر عام پر نہیں آئی، عام لوگوں تک نہیں پہنچی۔
آج کا اسلامی جمہوریہ ایران یعنی اقبال کی آرزوؤں نے یہاں مجسم شکل اختیار کی۔ اقبال جن کو اپنے اسلامی و انسانی تشخص کی طرف سے مسلمانوں کی بے حسی پر غم تھا اور وہ اسلامی معاشرے کے عوام میں شخصیت کشی نیز فکری ذلت و ناامیدی کو سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھ رہے تھے اور انھوں نے اپنی وسیع توانائی اور بھرپور کوشش کے ساتھ مشرقی انسان خاص طور پر مسلمانوں کی روح اور ذات سے اس خس و خاشاک کو مٹا دینے کے لیے کام کیا تھا، اگر آج زندہ ہوتے تو وہ ایک ایسی قوم کو اپنی آنکھوں کے سامنے پاتے جو اپنے پیروں پر کھڑی ہے اور اپنے قیمتی اسلامی سرمائے سے مالامال ہو کر، خودکفیل ہو کر اور خود پر اعتماد کر کے، مغرب کی فریبی آرائشوں کی جگمگاہٹ اور مغربی اقدار کو خاطر میں لائے بغیر زندگی گزار رہی ہے، قوت و اقتدار کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے، وہ اپنے لیے اہداف طے کرتی ہے اور ان اہداف کے حصول کی سمت میں آگے بڑھتی ہے، عاشقوں کی طرح تیزی سے بڑھ رہی ہے، وہ قوم پرستی، نیشنلزم اور بے جا وطن پرستی کی چہاردیواری میں خود کو مقید نہیں کرتی، اور اقبال کی ایسی ہی دوسری آرزوئیں جو ان کی قیمتی کتابوں میں جا بجا موجود ہیں، وہ اس قوم کو یہاں دیکھ سکتے تھے۔
اور مجھے یہ دیکھ کر بہت مسرت ہے کہ بحمد اللہ ہمیں، جو اپنے ماحول میں اقبال کی آرزؤوں کی تکیمل کا عمل دیکھ رہے ہیں، اس وقت یہ موقع ملا ہے، بھلے ہی کچھ تاخیر کے ساتھ کہ اس عظیم مفکر، موجودہ دور کے اس عظیم مصلح اور اس کبھی نہ تھکنے والے انقلابی اور مجاہد کی شخصیت کا تعارف کرائیں اور اپنی قوم کو اس سے روشناس کرائیں۔
البتہ میں چاہتا تھا کہ اس نشست میں میری شرکت پروٹوکول وغیرہ سے عاری ہو تاکہ اول تو میں اپنی اس پسندیدہ اور عظیم شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے منعقدہ اس نشست سے زیادہ محظوظ ہوتا اور دوسرے یہ کہ مجھے اس بات کا موقع ملتا کہ میں اقبال کے سلسلے میں اپنے جذبات کے کچھ گوشوں کو اس کانفرنس کے شرکاء کے سامنے پیش کر پاتا۔ اس وقت بھی میں برادران اور خواہران سے گزارش کروں گا کہ وہ مجھے یہاں ایک ایسے شخص کے طور پر بات کرنے کی اجازت دیں جو برسوں سے اقبال کا مرید رہا ہے اور اپنے ذہن میں اقبال کے ساتھ زندگی گزارتا رہا ہے تاکہ میں اپنے اوپر ان کے عظیم حق کے کچھ حصے اس بڑے اجتماع میں اور اپنے ملک کے عزیز عوام کے ذہنوں میں ادا کر سکوں۔
اقبال ایک نمایاں، عمیق اور کثیر جہتی شخصیت
اقبال تاریخ اسلام کی نمایاں شخصیتوں میں سے ہیں، ایسی عمیق اور اعلیٰ شخصیت جس کی خصوصیات کے اور زندگی کے صرف ایک پہلو کو مد نظر نہیں رکھا جا سکتا اور ان کے صرف اس پہلو اور اس خصوصیت کے لحاظ سے ان کی تعریف نہیں جا سکتی۔ اقبال ایک عالم ہیں، ایک فلسفی ہیں لیکن ان کی زندگی کے دوسرے پہلو بھی اتنے درخشاں ہیں کہ جب ہم کہیں کہ اقبال ایک فلسفی ہیں یا ایک عالم ہیں اور صرف اسی پر اکتفا کریں تو ہمیں لگتا ہے کہ ہم نے انھیں محدود کر دیا ہے اور ان کا حق ادا نہیں کیا ہے۔ اقبال بلا شبہہ ایک عظیم شاعر ہیں اور ان کا شمار بڑے شعراء میں ہوتا ہے۔ اقبال کے اردو کلام کے بارے میں اردو زبان و ادب کے ماہرین کہتے ہیں کہ اردو کا بہترین کلام ہے۔ البتہ شاید یہ اقبال کی بہت بڑی تعریف نہ ہو کیونکہ اردو شعر و ادب کا ماضی زیادہ پرانا نہیں ہے لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اقبال کے اردو کلام نے بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں بر صغیر کے افراد پر، چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان، گہرا اثر ڈالا اور انھیں اس جد وجہد میں شرکت کے لیے، جو اس وقت تدریجی طور پر بڑھتی جا رہی تھی، زیادہ سے زیادہ جوش دلایا۔ خود اقبال بھی مثنوی اسرار خودی کے آغاز میں کہتے ہیں :
باغبان زور کلامم آزمود (باغباں نے میرے زور کلام کو آزمایا)
مصرعی کارید و شمشیری درود (ایک مصرع بویا اور ایک شمشیر کاٹی)
میرا خیال ہے کہ اس شعر میں وہ اپنے اردو کلام کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو اُس وقت برصغیر کے سبھی لوگوں کے درمیان اپنی پہچان بنا چکا تھا۔
فارسی شعر گوئی میں اقبال کی بے پناہ صلاحیت
اقبال کا فارسی کلام میرے خیال میں شعر کے معجزات میں سے ایک ہے۔ ہمارے ادب کی تاریخ میں فارسی شعر کہنے والے غیر فارسی شعرا کافی زیادہ ہیں لیکن میں ایسے کسی بھی شاعر کی نشان دہی نہیں کر سکتا جو فارسی شعر کہنے میں اقبال جیسی خصوصیات کا حامل ہو۔ اقبال فارسی روزمرہ سے ناواقف تھے اور اپنے گھر میں اردو (یا پنجابی) میں اور اپنے دوستوں سے اردو یا انگریزی میں بات کرتے تھے۔ وہ فارسی نثر نگاری سے بھی واقف نہیں تھے، اقبال کی فارسی نثر وہی جملے ہیں جو انھوں نے اسرار خودی اور رموز بے خودی کے ابواب کی ابتداء میں تحریر کیے ہیں اور آپ دیکھتے ہیں کہ فارسی زبان والوں کے لیے ان کا سمجھنا مشکل ہے۔ اقبال نے اپنے بچپن اور جوانی کے ایام میں کسی بھی اسکول میں فارسی نہیں پڑھی تھی اور اپنے گھر میں بھی اردو (یا پنجابی) ہی بولتے تھے۔ انھوں نے فارسی کا انتخاب صرف اس لیے کیا کہ وہ محسوس کرتے تھے کہ ان کے افکار اور مضامین اردو کے سانچے میں نہیں ڈھل پائیں گے اور اس لیے انہوں نے فارسی سے انسیت حاصل کی۔ انھوں نے سعدی اور حافظ کے دیوان اور مثنوی مولوی اور سبک ہندی کے شعراء جیسے عرفی، نظیری اور غالب نیز دیگر شعراء کے کلام کو پڑھ کر فارسی سیکھی۔ حالانکہ وہ فارسی ماحول میں نہیں رہے تھے، انھوں نے فارسی کی گود میں کبھی زندگی نہیں گزاری اور فارسی زبان والوں سے ان کی نشست و برخاست نہیں رہی تھی، اس کے باوجود انھوں نے لطیف ترین، دقیق ترین اور نایاب ترین ذہنی مضامین کو اپنے بلند آہنگ اور بعض نہایت اعلیٰ اشعار کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا۔ یہ میرے خیال میں غیر معمولی شعری صلاحیت ہے۔
اگر آپ ان لوگوں کے اشعار دیکھیں جو ایرانی نہیں تھے اور انھوں نے فارسی میں اشعار کہے ہیں اور آپ ان کے اشعار کا اقبال کے اشعار سے موازنہ کریں تب آپ پر اقبال کی عظمت زیادہ واضح ہو جائے گی۔ اقبال نے بعض مضامین کو ایک شعر میں بیان کر دیا ہے اور اگر انسان چاہے کہ ان مضامین کو نثر میں بیان کرے تو نہیں کر سکتا اور ہمیں کافی وقت لگے گا کہ اس ایک شعر کو جسے انھوں نے آسانی کے ساتھ بیان کر دیا ہے، فارسی نثر میں جو ہماری اپنی زبان ہے بیان کریں، جبکہ وہ بہ آسانی شعر میں یہ کام کر چکے ہیں۔ میں اقبال کے اشعار پڑھنے کے لیے جناب ڈاکٹر مجتبوی(2) کا شکر گزار ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ ان کچھ دنوں میں، جب تک یہ کانفرنس جاری رہے گی، زیادہ سے زیادہ اقبال کے اشعار پڑھیے اور ان کے کلام کو زندہ کیجیے۔ اقبال کا تعارف کرانے کا سب سے اچھا ذریعہ ان کا کلام ہے اور کسی دوسرے بیان کے ذریعے اقبال کو متعارف نہیں کرایا جا سکتا۔ اقبال ایک عظیم شاعر ہیں اور ان کی بعض نظمیں تو فارسی نظم کے عروج پر پہنچی ہوئی ہیں۔ اقبال نے مختلف سبک (طرزوں) جیسے 'سبک ہندی'، 'سبک عراقی' اور حتی کہ 'سبک خراسانی' میں بھی شعر کہے ہیں اور نہ صرف یہ کہ شعر کہے ہیں بلکہ اچھے شعر کہے ہیں۔ انھوں نے مختلف اصناف سخن جیسے مثنوی، غزل، قطعہ، دو بیتی اور رباعی میں بھی مشق سخن کی ہے اور ان سب میں بھی اعلیٰ مضامین والے اچھے شعر کہے ہیں اور جیسا کہ میں نے عرض کیا بعض اوقات تو ان کا کلام عروج پر پہنچا ہوا ہے اور ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ جب اس شخص کو فارسی بولنا اور لکھنا نہیں آتا تھا، وہ فارسی زبان بولنے والے گھرانے میں پیدا نہیں ہوا تھا، اس نے فارسی مرکز میں زندگی نہیں گزاری تھی اور یہی ہے بے پناہ صلاحیت کی نشانی۔
عالم اسلام کے ہر گوشے پر اقبال کی نظر
بہرحال صرف ایک شاعر کی حیثیت سے اقبال کی تعریف ان کے حق میں کوتاہی ہے۔ اقبال ایک عظیم مصلح اور حریت پسند شخص ہیں تاہم اگرچہ حریت پسندی اور سماجی اصلاح میں اقبال کا رتبہ بہت بلند اور اہم ہے مگر اقبال کو صرف سماجی مصلح نہیں کہا جا سکتا۔ اسی برصغیر میں انگریزوں کے قبضے کے وقت اقبال کے ہم عصروں میں کچھ ہندو اور مسلمان ایسے بھی تھے جو ہندوستان کے سماجی مصلح سمجھے جاتے ہیں جن میں سے اکثر سے آپ واقف ہیں، ان کی کتابیں موجود ہیں، ان کی جدوجہد واضح ہے۔ خود مسلمانوں میں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی، قائد اعظم مرحوم محمد علی جناح جیسی نمایاں شخصیتیں موجود تھیں جن کی عمریں بھی تقریباً اقبال جتنی ہی تھیں، وہ سب ایک ہی نسل سے اور ایک ہی عہد سے تعلق رکھتے ہیں اور حریت پسندوں اور مجاہدوں میں شامل ہیں لیکن اقبال ان سب سے بڑے ہیں، اقبال کے کام کی عظمت کا ان میں سے کسی سے بھی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی ہم مولانا ابوالکلام آزاد کو جو زیادہ سے زیادہ اہمیت اور قدر دے سکتے ہیں جو ایک نمایاں شخصیت رکھتے ہیں اور حقیقت میں ان کی اہمیت کو کم نہیں سمجھنا چاہیے، یا مولانا محمد علی یا مولانا شوکت علی کو جو اہمیت ہم دے سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ یہ لوگ انتھک جدوجہد کرنے والے مجاہد تھے جنھوں نے اپنے ملک سے انگریزوں کو باہر نکالنے کے لیے برسوں کوشش کی اور اس راہ میں بہت زیادہ جدوجہد کی لیکن اقبال کا مسئلہ صرف ہندوستان کا مسئلہ نہیں ہے، عالم اسلام کا مسئلہ ہے بلکہ اقبال کا مسئلہ، مشرق کا مسئلہ ہے۔ وہ اپنی مثنوی "پس چہ باید کرد اے اقوام شرق!"(3) (تو پھر کیا کیا جائے اے مشرقی قومو!) میں دکھاتے ہیں کہ ان کی دور رس نگاہیں کس طرح اُس پوری دنیا کی طرف متوجہ ہیں جو ظلم و ستم کا شکار ہے اور ان کی توجہ اسلامی دنیا کے تمام اطراف و اکناف پر ہے۔ اقبال کے لیے مسئلہ صرف ہندوستان کا مسئلہ نہیں ہے اور اسی لیے اگر ہم اقبال کو ایک سماجی مصلح بھی کہیں تو حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اقبال کی پوری شخصیت کو بیان نہیں کیا ہے اور مجھے کوئی ایسا لفظ نہیں ملتا جس سے ہم اقبال کی تعریف کر سکیں۔
اقبال، اس قوم اور اس ملک کے ہیں
آپ دیکھیے کہ یہ شخصیت، یہ عظمت اور اس عظیم انسان کی ذات اور اس کے ذہن میں معانی کی گہرائی کہاں اور ان سے ہمارے لوگوں کی واقفیت کہاں! اور آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ ہم اقبال کی شناخت سے واقعی دور ہیں۔ اسی لیے یہ سیمینار، انجام پانے والے بہترین کاموں میں سے ایک ہے لیکن اسی پر اکتفا نہیں کرنی چاہیے اور میں ثقافت و اعلیٰ تعلیم کے امور کے محترم وزیر(4) اور یونیورسٹی سے منسلک اپنے بھائیوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ ملک میں اقبال کے نام پر فاؤنڈیشنوں کی تشکیل اور یونیورسٹیوں، ہالوں اور ثقافتی اداروں کے ناموں کو اقبال کے نام پر رکھنے کی سوچ میں رہیں۔ اقبال ہمارے ہیں، اقبال کا تعلق اس قوم سے اور اس ملک سے ہے؛ جیسا کہ وہ اس غزل میں، جو جناب ڈاکٹر مجتبوی نے پڑھی اور آپ نے سنی اور جو ایرانی عوام سے ملنے کے ان کے اشتیاق کے بارے میں ہے، کہتے ہیں:
چون چراغ لالہ سوزم در خیابان شما (میں تمھارے باغ کی روش میں چراغ لالہ کی طرح جلا رہا ہوں)
اے جوانان عجم جان من و جان شما (اے عجم کے جوانو! میں اپنی جان اور تمھاری جان کو)
اور آخر میں کہتے ہیں :
می رسد مردی کہ زنجیر غلامان بشکند (ایک ایسا مرد آئے گا جو غلاموں کی زنجیر توڑ دے گا)
دیدہ ام از روزن دیوار زندان شما(5) (میں نے تمھارے زنداں کے دیوار کے روزن سے اسے دیکھا ہے)
اور یہ میری اُس بات کی تائید ہے جو اقبال کے ایران نہ آنے کے اسباب کے بارے میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔ وہ اس جگہ کو زنداں سمجھتے ہیں، وہ اس جگہ کو قید خانے کے طور پر دیکھتے ہیں اور قیدیوں سے بات کرتے ہیں۔ اقبال کے دیوان میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ وہ ہندوستان سے مایوس ہیں، کم ازکم اپنے زمانے کے ہندوستان سے، اور ایران کی جانب متوجہ ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ شعلہ جسے انھوں نے جلایا ہے، ایران میں بھڑکے اور انھیں توقع ہے کہ یہاں یہ معجزہ رونما ہو۔ یہ ہم پر اقبال کا حق ہے اور ہمیں اس حق کا احترام کرنا چاہیے۔
اقبال کی شناخت، برصغیر کی شناخت پر منحصر
جہاں تک اقبال کی شخصیت کی بات ہے تو اگر ہم اقبال کو جاننا چاہیں اور اقبال کے پیغام کی عظمت کو سمجھنا چاہیں تو ہمیں اقبال کے دور کے برصغیر اور اس عہد کو جاننا پڑے گا جو اقبال کے دور سے متصل ہے۔ اس شناخت کے بغیر اقبال کے پیغام کا مفہوم صحیح طرح سے سمجھا نہیں جا سکتا اور اقبال کی باتوں اور ان کے سوز دروں کو سمجھا نہیں جا سکتا۔ برصغیر اپنے سخت ترین ایام اقبال کے زمانے میں گزار رہا تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ اقبال کی پیدائش سنہ 1877 کی ہے یعنی مسلمانوں کے انقلاب (غدر) کی انگریزوں کے ہاتھوں سرکوبی کے بیس سال بعد۔ سنہ 1857 میں انگریزوں نے ہندوستان میں اسلامی حکومت اور برصغیر میں اسلام کی فرمانروائی پر آخری ضرب لگائی۔ ایک بہت بڑی بغاوت رونما ہوئی جو شاید دو تین سال تک جاری رہی تھی تاہم اس کا عروج چار مہینوں تک رہا۔ سنہ 1857 کے اواسط میں انگریزوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور اُس ضرب کو جو وہ تقریباً ستّر اسّی سال سے اسلام کے پیکر پر لگا رہے تھے آخری ضرب کے طور پر لگا دیا اور بزعم خود وہاں سے اسلام کی مکمل بیخ کنی کر دی۔ یعنی اسلامی حکومت اور مسلمانوں کی حکومت کو جو اپنی کمزوری کے دور میں تھی، ختم کر دیا۔ برصغیر پر سامراج کے مکمل تسلط کی راہ میں واحد رکاوٹ وہی حکومت تھی جسے انھوں نے ادھر ادھر سے کمزور کر دیا تھا اور اس کے سرداروں کو، بہادر لوگوں کو اور عظیم شخصیتوں کو ختم کر دیا تھا اور اس طرح ہندوستان میں اسلامی تمدن کی گہری جڑوں کو کمزور بنا دیا تھا۔ یہاں تک کہ غدر کے دوران انگریزوں نے اس تناور اور پرانے درخت کو جس کی جڑیں بھی زیادہ مضبوط نہیں رہ گئی تھیں، جس کا کوئی محافظ بھی نہیں رہ گیا تھا اور جو اکیلا پڑ چکا تھا یکباریگی کاٹ کر ختم کر دیا اور ہندوستان کو برطانوی سلطنت کی نوآبادی بنا لیا۔ سنہ 1857 ہندوستان میں انگریزوں کی مکمل کامیابی کا سال تھا۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی سفاکانہ سرکوبی کی سازش
جب انگریزوں نے ہندوستان کو باضابطہ طور پر برطانیہ کی نوآبادی بنا دیا اور اپنے ملک کا نام سلطنت برطانیہ و ہندوستان رکھ دیا، کہ پھر مسئلہ ہندوستان کے کالونی ہونے کا نہیں رہا، بلکہ ہندوستان برطانیہ کا ایک صوبہ سمجھا جانے لگا، اس کے بعد وہ اپنے مستقبل کی فکر میں پڑ گئے اور وہ یہ تھی کہ اس ملک میں ہر قسم کی بغاوت اور قومی یا مذہبی عظمت کی بحالی کے امکانات کو ختم کر دیں۔ اس کا راستہ یہی تھا کہ مسلمانوں کا پوری طرح سے قلع قمع کر دیں کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ ہندوستان میں ان سے مقابلہ کرنے والے مسلمان ہی ہیں اور انھوں نے اسے آزمایا بھی تھا۔ مسلمان انیسویں صدی کے آغاز بلکہ اس سے بھی پہلے سے ہندوستان میں انگریزوں سے لڑے تھے۔ یعنی اٹھارویں صدی کے اواخر میں ٹیپو سلطان انگریزوں کے ہاتھوں قتل یا شہید ہو گئے تھے لیکن مسلم عوام، علماء اور مختلف مسلمان طبقوں نے انیسوں صدی کے آغاز سے انگریزوں اور ہندوستان میں ان کے پٹھوؤں سے، جو اس وقت سکھ تھے، لڑنا شروع کیا تھا۔ انگریز یہ بات بخوبی جانتے تھے اور انگریزوں میں سے ان لوگوں نے جو ہندوستان کے مسائل سے واقف تھے، کہا تھا کہ ہندوستان میں ہمارے دشمن، مسلمان ہیں اور ہمیں ان کا قلع قمع کرنا چاہیے۔
انگریزوں کے کامیابی کے اسی سال یعنی 1857 سے ہی ہندوستان میں مسلمانوں کی سرکوبی کے لیے ایک نہایت ظالمانہ اور سفاکانہ سازش شروع ہوئی۔ اگر میں اس سازش کو بیان کرنا چاہوں اور یہ بتانا چاہوں کہ ان لوگوں نے کیا کیا تو بات طولانی ہو جائے گی، تاہم اسے ہر جگہ لکھا گیا ہے مختلف کتابوں میں لکھا گیا ہے اور جو لوگ نہیں جانتے وہ ان کتابوں کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔ مالی لحاظ سے ان پر دباو ڈالا گیا، ثقافتی لحاظ سے ان پر دباؤ ڈالا گیا اور سماجی اعتبار سے ان کی بہت تذلیل کی گئی۔ انگریز اعلان کرتے تھے کہ جو لوگ ملازمت حاصل کرنا چاہتے ہیں انھیں مسلمان نہیں ہونا چاہیے! ایک معمولی سی تنخواہ پر کچھ لوگوں کو ملازم رکھا جاتا تھا اور وہ کام بھی مسلمانوں کو نہیں دیا جاتا تھا۔ انگریزوں نے ہندوستان میں مساجد اور اسلامی مدارسں کو چلانے والے تمام موقوفات کو، جو بہت زیادہ تھے، ہڑپ لیا۔ ہندو تاجروں کو ترغیب دلائی جاتی تھی کہ وہ مسلمانوں کو بڑے بڑے قرضے دیں تاکہ اس قرضے کے عوض ان کی جائیدادوں کو ہڑپ لیں اور زمین سے ان کے تعلق کو ختم کر دیں اور ان کے اندر سے مالک مکان ہونے کے احساس کو پوری طرح سے ختم کر دیں۔ برسوں یہ سب جاری رہا اور یہ تو کچھ بھی نہیں تھا بلکہ یہ تو داستان کا کچھ بہتر حصہ تھا، اس سے بدتر یہ تھا کہ ان کو بے دریغ قتل کر دیا جاتا اور بےدریغ جیل میں ڈال دیا جاتا تھا۔ ان تمام لوگوں کی، جن پر انگریزوں کے خلاف کسی بھی اقدام کا ذرا سا بھی شک ہوتا تھا، بڑی شدت سے سرکوبی کی جاتی تھی اور انھیں تہ تیغ کر دیا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ برسوں تک جاری رہا۔
مسلمان؛ برطانیہ کے خلاف جنگ کے سب سے نمایاں اور قابل مجاہد
اس انتہائی تکلیف دہ صورتحال کو دس بیس سال گزر جانے کے بعد، جس کی مثال واقعی مجھے کسی بھی اسلامی ملک میں نظر نہیں آتی، ممکن ہے کہ ہو لیکن میں نے دنیا کے مختلف ممالک اور علاقوں میں جہاں سامراج رہا ہے، جیسے الجزائر اور افریقی ممالک، جہاں بھی میں نے دیکھا، مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کہیں مسلمانوں پر اتنا دباؤ دیکھا ہو جتنا ہندوستان میں مسلمانوں پر ڈالا گیا، کچھ لوگ چارہ جوئی کی سوچ میں پڑ گئے۔ البتہ انگریزوں سے مقابلے کا سلسلہ ختم نہیں ہوا تھا یعنی ہندوستان کو کبھی یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہندوستان کے مسلمان، انگریزوں سے مقابلے میں سب سے نمایاں اور قابل مجاہد تھے۔ اگر ہندوستان یہ بھول جائے کہ اس پر مسلمانوں کا کیا حق ہے تو یہ واقعی ناشکری ہوگی کیونکہ ہندوستان کی تحریک آزادی، وہاں وجود میں آنے والے عظیم انقلاب اور ہندوستان کی آزادی پر منتج ہونے والی جدوجہد میں مسلمانوں کا نمایاں کردار ہے اور وہ کبھی بھی خاموش نہیں بیٹھے۔
مسلمانوں کی حالت کی بہتری کے لیے دو طرح کی تحریکوں کا آغاز
سنہ 1857 کے بعد کے برسوں میں، جب ہر جگہ خاموشی تھی، مجاہد مسلمان عناصر ہندوستان کے گوشہ و کنار میں اپنا کام کر رہے تھے لیکن اس دوران دو قسم کی تحریکیں تھیں جو یا تو ثقافتی و سیاسی تھیں یا پوری طرح ثقافتی تھیں۔ دونوں طرح کی یہ تحریکیں مسلمانوں کی حالت کی بہتری کے لیے جاری تھیں: ان میں سے ایک علماء کی تحریک تھی اور دوسری (سر) سید احمد خاں کی تحریک تھی۔ یہ دونوں تحریکیں ایک دوسرے کے مد مقابل تھیں۔ ان دونوں تحریکوں کی تفصیل زیادہ ہے جسے یہاں بیان کرنے کا موقع نہیں ہے۔ مختصر طور پر کہا جا سکتا ہے کہ علماء کی تحریک انگریزوں سے لڑنے، ان سے تعلقات منقطع کرنے، انگریزوں کے اسکولوں میں بچوں کو نہ پڑھانے اور ان سے کسی بھی قسم کی مدد نہ لینے کی قائل تھی جبکہ سید احمد خاں کی تحریک اس کے بر خلاف انگریزوں سے مصالحت، ان کے وسائل سے استفادہ کرنے، انگریزوں سے خندہ پیشانی سے پیش آنے اور ان کے ساتھ امن و صلح سے رہنے کی قائل تھی۔ یہ دو تحریکیں ایک دوسرے کے برخلاف تھیں لیکن افسوس کہ یہ دونوں ہی تحریکیں مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئیں۔
پہلی تحریک اور نئے علوم کا بائیکاٹ
پہلی تحریک جو علماء کی تحریک تھی اور بڑے بڑے علماء اس کی قیادت کر رہے تھے جو ہندوستان کی نمایاں شخصیتیں تھیں اور ہندوستان کے بڑے مجاہد عالم سید احمد عرفان بریلوی کے مکتب کے شاگرد تھے جنھوں نے انیسویں صدی کے پہلے نصف میں دیوبند، لکھنؤ اور دیگر مقامات پر مدارس قائم کیے تھے۔ یہ علماء جدوجہد کر رہے تھے اور ان کی جدوجہد درست تھی اور ان کا نظریہ بھی صحیح تھا لیکن وہ اُن ابتدائی چیزوں سے استفادہ کرنے سے پرہیز کرتے تھے جو ہندوستان میں اسلامی معاشرے کو جدید پیشرفتوں کے حصول پر قادر بناتی تھیں۔ مثال کے طور پر وہ اپنے مدرسوں میں انگریزی زبان کو ہرگز داخل نہیں ہونے دیتے تھے اور شاید اُس وقت وہ ایسا سوچنے میں حق بجانب بھی تھے کیونکہ انگریزی زبان کو فارسی زبان کا، جو مسلمانوں کی محبوب زبان تھی اور صدیوں تک برصغیر کی سرکاری زبان رہی تھی، متبادل بنا دیا گیا تھا اور یہ لوگ انگریزی زبان کو ایک جارح زبان کی حیثیت سے دیکھتے تھے لیکن بہرحال انگریزی کا نہ سیکھنا اور اس نئی ثقافت پر، جسے بہرحال لوگوں کی زندگی میں داخل ہونا ہی تھا، توجہ نہ دینا اس بات کا باعث بنا کہ امت اسلامی اور ملت اسلامی ثقافت، معلومات، عصری علوم، عصری توانائیوں اور جدید علوم کے لحاظ سے جو ایک ماڈرن معاشرے کا انتظام چلانے میں، اور تمام معاشرے ماڈرن ازم کی طرف بڑھ رہے تھے، مؤثر اور کارآمد ہیں، پچھڑ گئے یعنی ان علماء نے مسلمانوں کو ان علوم سے دور رکھا تھا۔
دوسری تحریک اور انگریزوں سے مصالحت
سید احمد خاں کی تحریک زیادہ خطرناک تھی اور میں یہاں پر سید احمد خاں کے بارے میں اپنی حتمی رائے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ ممکن ہے کہ یہاں پر موجود بھائیوں میں سے بعض اس بات کے قائل نہ ہوں۔ سید احمد خاں نے یقینی طور پر ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں کوئی اقدام نہیں کیا اور میرے خیال میں اقبال کی آواز ہندوستان میں اس کام کے ٹھیک برخلاف تھی جس کا پرچم سید احمد خاں نے بلند کیا تھا۔ سید احمد خان نے انگریزوں سے مصالحت کو ترجیح دی۔ ان کا بہانہ یہ تھا کہ ہمیں بہرحال مسلمان نسل کو نئی ثقافت میں داخل کرنا ہی ہوگا، ہم اسے ہمیشہ کے لیے جدید کلچر سے دور اور ناواقف نہیں رکھ سکتے۔ بنابریں ہمیں انگریزوں سے مصالحت کرنی چاہیے تاکہ ہم پر سختی نہ کریں اور ہماری عورتیں، بچے اور مرد انگریزوں سے دشمنی کی خاطر اس قدر تکلیف نہ اٹھائیں۔ وہ سادہ لوحی کے ساتھ سوچتے تھے کہ انگریزوں سے تواضع، مصالحت اور اظہار عقیدت کے ذریعے ان گھاگ اور خبیث سیاستدانوں کا دل جیت سکتے ہیں اور ان کی ایذا رسانیوں کو کم کر سکتے ہیں، یہ ان کی ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خود سید احمد خان، ان کے قریبی لوگ اور وہ روشن خیال لوگ جو ان کے ارد گرد تھے، انگریزوں کی ایذا رسانیوں سے محفوظ رہے لیکن مسلمانوں کو ہندوستان کی آزادی تک یعنی سنہ 1947 تک ہمیشہ انگریزوں سے نقصان پہنچتا رہا اور انگریزوں نے 1857 سے لے کر ہندوستان کی آزادی کے سال 1947 تک کی نوے سال کی مدت میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کر سکتے تھے، کیا۔ بنابریں انگریزوں کو خوش کرنے کا سید احمد خاں کا حربہ مسلمانوں کی ذلت پر منتج ہوا۔
برصغیر میں مسلم سماج کی صورتحال
اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ بھی پیدا ہوا، جو اقبال کی شناخت اور اقبال کے پیغام کے مضمون کو سمجھنے میں مؤثر ہے اور وہ یہ ہے کہ عام مسلمانوں، روشن خیال اور تعلیم یافتہ مسلمانوں کے لیے، جو سماجی میدان میں اترتے تھے آگہی، علم و معرفت، تعلیم اور پوزیشن کی تو اہمیت تھی لیکن اسلامی تشخص کو وہ بالکل بھی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ یہ لوگ تدریجی طور پر ہندوستان کے عظیم مسلم معاشرے میں، جو پوری دنیا کا سب سے بڑا مسلم معاشرہ تھا اور آج تک کوئی ایسا ملک نہیں جس کے مسلمانوں کی تعداد اُس زمانے میں بر صغیر کے مسلمانوں کے برابر ہو، اسلامی تشخص کا احساس نہیں کرتے تھے، خود کو اسلامی شخصیت کے دائرے میں نہیں دیکھتے تھے اور ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف سے بالکل بھی پرامید نہیں تھے۔ انھوں نے اتنی زیادہ تکلیفیں اٹھائی تھیں، اتنی چوٹیں کھائی تھیں اور تمام واقعات ان کی اس قدر ناامیدی، تلخی اور برے انجام کی طرف اشارہ کرتے تھے کہ حقارت ہندوستانی مسلمان کی ذات کا حصہ بن گئی تھی، ذلت و ناتوانی کا احساس ہندوستانی مسلمان کی شخصیت کا حصہ بن گیا تھا۔ اس وقت کے ہندوستانی مسلمان یہ سوچتے بھی نہیں تھے کہ اس صورتحال سے باہر نکلنے کے لیے کوئی کام اور اقدام کیا جا سکتا ہے۔
اس زمانے میں جب اقبال نئے کلچر سے مالامال ہو کے یورپ سے لوٹے تھے، غالباً سنہ 1907، 1908 یا 1909 کا سال تھا، ان کے ہم عصر روشن خیال اور بقول خود اقبال کے ان کے ہم نوا اور ہم نفس افراد مغربی تمدن کو پرامید نظروں سے دیکھ رہے تھے اور اپنی حیثیت اور اعتبار کو ان شخصیتوں کی طرح جو ایران میں تھیں اور جن کی طرف مجتبوی صاحب نے میرے حوالے سے اشارہ کیا، اس چیز میں دیکھتے تھے کہ اپنے آپ کو مغربی تہذیب سے کسی حد تک مدغم کر دیں اور مغربی اقدار کو اپنے عمل، اپنی روش، اپنے پہناوے، اپنی گفتگو یہاں تک کہ اپنے افکار و نظریات میں زیادہ اجاگر کریں۔ انگریز حکومت کی غلامی، جو اس وقت ہندوستان پر پوری طاقت سے حکمرانی کر رہی تھی، مسلمانوں کے لیے ایک فخر کی بات تھی۔ ہندو، جو اس کلچر اور ان آداب و رسوم میں مسلمانوں سے کچھ سال آگے تھے اور انگریزوں سے ان کی ساز باز ان باتوں سے کافی پہلے ہی ہو چکی تھی اور اسی وجہ سے صنعت، ثقافت اور انتظامی امور وغیرہ میں وہ کچھ پہلے ہی شامل ہو گئے تھے اور انھیں کچھ حیثیت حاصل ہو گئی تھی اس لیے مسلمانوں کو ہندوؤں سے بھی ذلت اٹھانی پڑتی تھی، یہاں تک کہ سکھ بھی، جو بہت ہی چھوٹی اقلیت تھے، اس دور میں بھی اور آج کے ہندوستان میں بھی اور وہ قابل فخر چیزیں جو کسی بھی قوم میں ہوتی ہیں سکھوں کی زندگی میں نہیں تھیں۔ ہندو کچھ نہیں تو کم از کم اُپنَشد اور اپنی ثقافتی تاریخ پر فخر کر سکتے تھے، جبکہ ان کا مذہب ایک نیا قائم ہونے والا مذہب تھا جو اسلام اور ہندوازم نیز دوسرے مذاہب کی آمیزش سے بنا ہے، مسلمانوں کی تذلیل کرتے تھے اور ان پر ظلم کرتے تھے۔ یہ اقبال کے زمانے میں برصغیر کے مسلم معاشرے کی صورتحال تھی۔
علمی کاموں کے ساتھ ہی سیاست پر اقبال کی بھرپور توجہ
اسی لاہور یونیورسٹی میں جہاں سے اقبال نے تعلیم حاصل کی اور وہیں سے گریجوئیشن کیا، امید بخش اسلامی افکار کے سامنے آنے کی کوئی نشانی ہمیں دکھائی نہیں دیتی۔ وہاں سب سے بڑی اسلامی کتاب، 'الدعوۃ الی الاسلام' ہے جو عربی زبان میں ہے اور حال ہی میں اس کا فارسی ترجمہ بھی شائع ہوا ہے۔ یہ سر تھامس آرنولڈ کے اس دور کے کاموں میں سے ایک ہے جب وہ لاہور یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ یہ ایک اچھی کتاب ہے اور میں اس کی نفی کرنا یا اسے مسترد نہیں کرنا چاہتا لیکن اس کتاب کا سب سے بڑا فن یہ ہے کہ وہ اشارے کنائے میں اسلامی جہاد کو ایک دوسرے درجے کی چیز قرار دینا چاہتی ہے، اس کتاب کا مطمح نظر یہ ہے کہ اسلام، دعوت سے پھیلا ہے، تلوار سے نہیں۔ یہ اپنے آپ میں ایک اچھی بات ہے لیکن یہ انگریز مفکر اور محقق اس نظریے میں اس حد تک آگے بڑھ جاتا ہے کہ اس کتاب میں اسلامی جہاد لگ بھگ ایک ثانوی چیز، بے فائدہ اور کبھی کبھی ایک فضول چیز نظر آتا ہے۔ یہ اس کتاب میں اسلامی کام کا ماحصل ہے۔
اس کے علاوہ وہ خواتین و حضرات جنھوں نے سر تھامس آرنولڈ کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے، جانتے ہیں کہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کو اسلام کا زبردست حامی سمجھا جاتا ہے اور وہ اقبال کے استاد ہیں اور اقبال ان کے شاگردوں میں شامل ہیں۔ بہتر ہوگا کہ میں یہیں اس عظیم انسان یعنی علامہ اقبال کی فراست کا ذکر کر دوں کہ علامہ اقبال، سر تھامس آرنولڈ سے شدید الفت کے باوجود ان کے کاموں میں سیاسی افکار سے غفلت نہیں برتتے تھے۔ اس بات کو جناب جاوید اقبال نے اپنے والد کی سوانح حیات (6) میں لکھا ہے، جس کی ایک جلد کا فارسی ترجمہ ہو چکا ہے اور میں نے اسے دیکھا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اقبال، اپنے دوست سید نذیر نیازی کو، جو کہتے ہیں کہ سر تھامس آرنولڈ ایک اسلام شناس تھے، ڈانٹ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیسا اسلام شناس؟ تم ان کی کتاب 'الدعوۃ الی الاسلام' کی بات کر رہے ہو؟ وہ حکومت برطانیہ کے لیے کام کرتے ہیں۔ اس کے بعد اقبال اپنے دوست سے کہتے ہیں: جب میں برطانیہ میں تھا تو آرنولڈ نے مجھ سے کہا کہ میں ایڈورڈ براؤن کی تاریخ ادب (ایران) کا ترجمہ کروں اور میں نے یہ کام نہیں کیا کیونکہ میں نے دیکھا کہ یہ کتاب سیاسی اغراض کی حامل ہے۔ اب آپ دیکھیے کہ ایڈورڈ براؤن کی کتاب کے بارے میں اقبال کی رائے یہ ہے اور ہمارے ادیبوں، ایڈورڈ براؤن کے دوستداروں اور ان لوگوں کی رائے جو ایڈورڈ براؤن کی دوستی پر فخر کرتے تھے، کیا ہے؟! میں ان لوگوں کا نام لینا نہیں چاہتا کیونکہ بہرحال وہ ادبی اور ثقافتی شخصیات ہیں لیکن وہ انتہائی سادہ لوح، ناآگاہ اور ان سیاسی اہداف سے غافل ہیں۔ جبکہ اقبال "المؤمن کیّس"(7) کے مصداق وہ ہوشیار مرد ہیں جو تھامس آرنولڈ اور ایڈورڈ براؤن کے کاموں کی تہوں میں سامراج کی خبیث سیاست کو دیکھتے اور بھانپ لیتے ہیں۔ یہ چیز اقبال کی عظمت کی نشاندہی کرتی ہے۔
اس زمانے میں عام مسلمانوں کی ابتر صورتحال
تو اس زمانے میں مسلمانوں کی صورتحال یہ ہے: حکومت انگریزوں کی، حکومت چلانے والے کلیدی عناصر انگریز، دوسرے درجے کے یا کم اہمیت والے عناصر، زیادہ تر ہندو۔ ہندوستان کی جدوجہد جس کی مشعل مسلمانوں نے جلائی تھی، کانگریس پارٹی کے ہاتھوں میں اور وہ بھی متعصب کانگریس پارٹی کے ہاتھوں میں، اگرچہ انڈین نیشنل کانگریس نے جدوجہد کے میدان میں نمایاں کام بھی انجام دیے لیکن ان برسوں میں یقینی طور پر اس پر اسلام کی مخالفت، ہندوؤں کی جانب جھکاؤ اور مسلمانوں کی مخالفت حکمفرما تھی، روشن خیال مسلمان مغرب پرست اور مغربی اقدار کے شیدا، عام لوگ رسوا کن غربت اور سخت تکلیف دہ زندگی کا شکار جو دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے حاصل کرتے تھے اور اس کے باوجود اسی ماحول میں غرق تھے جسے انگریز مغربی کلچر کی جانب بڑھائے جا رہے تھے، اس زمانے کے ہندوستان کے مسلمان علماء ان ابتدائی شکستوں کے بعد زیادہ تر گوشہ نشین، پرانے افکار میں کھوئے ہوئے اور حریت پسندی اور تحرّک کی کسی بھی طرح کی رمق سے عاری۔ سوائے ان علماء کے جو پیش پیش تھے جیسے مولانا محمدعلی (جوہر) اور ہندوستان کے دیگر نمایاں علماء۔ عام مسلمان اس طرح کی سخت اور تکلیف دہ حالت میں زندگی گزار رہے تھے: اسلام، سیاسی گوشہ نشینی میں، معاشی غربت میں، ہندوستانی معاشرے میں مسلمان ایک طفیلی اور زائد رکن کی حیثیت رکھتے تھے اور اس تاریک رات میں ستاروں سے محروم تھے۔ اس طرح کے حالات میں اقبال نے خودی کی مشعل روشن کی۔
اقبال کا مشن، ہندوستانی معاشرے کے اسلامی تشخص کی بازیابی
البتہ ہندوستان کی یہ حالت جو ہم نے بیان کی، ہندوستان سے مخصوص نہیں ہے بلکہ پورے عالم اسلام میں یہی صورتحال تھی۔ اسی لیے اقبال نے پورے عالم اسلام کی بات کی تاہم اس زمانے کے لاہور اور بدنصیب اور فلک زدہ برصغیر میں اقبال کی روزمرّہ کی زندگی نے ہر چیز کو ان کے لیے قابل لمس بنا دیا تھا۔ اقبال ترکی نہیں گئے تھے، ایران نہیں گئے تھے، حجاز نہیں گئے تھے اور انھوں نے بہت سے دوسرے ملکوں کو قریب سے نہیں دیکھا تھا لیکن وہ اپنے ملک کی صورتحال کو قریب سے دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے یہیں سے درحقیقت قیام کیا، ثقافتی قیام، انقلابی قیام اور سیاسی قیام۔ پہلا کام جسے اقبال کے لیے انجام دینا ضروری تھا یہ تھا کہ وہ ہندوستانی معاشرے کو اس کے اسلامی تشخص، اس کی اسلامی خودی اور اس کی اسلامی شخصیت بلکہ اس کی انسانی شخصیت کی جانب متوجہ کریں اور کہیں کہ تیرا وجود ہے، تو کیوں اس قدر غرق ہے؟ کیوں اس قدر مجذوب ہے؟ تو کیوں اس قدر خود باختہ ہے؟ اپنے آپ کو پہچان۔ یہ اقبال کا پہلا مشن ہے۔
خود اپنا ادراک، اقبال کی خودی کا مفہوم
وہ کیا کریں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ کروڑوں افراد پر مشتمل ایک قوم سے، جو طویل عرصے تک سامراج کے سخت شکنجوں کے دباؤ میں رہی تھی اور جہاں تک ممکن تھا، اس کی ناک زمین پر رگڑی گئی تھی اور اس سے سوچنے سمجھنے، جاننے اور امید رکھنے کا امکان چھین لیا گیا تھا، اچانک ہی کہیں کہ "اٹھ کر کھڑی ہو جا، تیرا وجود ہے" اور وہ بھی محسوس کر لے کہ اس کا وجود ہے! کیا یہ ممکن ہے؟ یہ بہت دشوار کام ہے اور میرا خیال ہے کہ کوئی بھی اقبال سے بہتر اس بات کو بیان نہیں کر سکتا تھا۔ اقبال نے ایک فلسفے کی بنیاد رکھی، 'خودی' کا فلسفہ ہمارے ذہن میں موجود فلسفوں کی قسم کا نہیں ہے، خودی کا مفہوم ایک انسانی اور سماجی مفہوم ہے جسے فلسفیانہ الفاظ کے قالب میں اور ایک فلسفیانہ بیان کے آہنگ میں پیش کیا گیا ہے۔ اقبال کو اپنی نظم، اپنی غزل اور اپنی مثنوی میں خودی کو ایک اصول اور ایک مفہوم کی حیثیت سے بیان کرنے کے لیے اس بات کی ضرورت تھی کہ اس 'خودی' کو فلسفیانہ طور پر بیان کریں۔ اقبال کی نظر میں خودی کا مفہوم شخصیت کے احساس، شخصیت کے ادراک، خود نگری، خود اندیشی، خود شناسی سے عبارت ہے۔ خود کا ادراک، اقبال کی خودی کا مفہوم ہے، بس وہ اسے ایک فلسفیانہ بیان اور فلسفیانہ مفہوم کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔
میرے بہت سارے نوٹس ہیں جو میں یہاں لایا ہوں کہ اگر ممکن ہو تو ان میں سے بعض کو پڑھوں۔ حالانکہ اس سے یہ نشست طویل ہو جائے گی بلکہ طویل ہو چکی ہے اور ابھی جاری ہی ہے۔ البتہ میں نے شروع میں ہی درخواست کی تھی کہ آپ تحمل سے کام لیں، تو تحمل سے کام لیجیے۔ میرے خیال میں 'خودی' اقبال کے ذہن میں پہلے ایک انقلابی فکر کی شکل میں آئی اور بعد میں انھوں نے اس فکر کو فلسفیانہ نظریہ بنانے کی کوشش کی۔ خودی وہی چیز ہے جس کی ہندوستان میں ضرورت تھی اور مجموعی نقطۂ نگاہ سے عالم اسلام کو اس کی ضرورت تھی۔ یعنی ایسے عالم میں جب اسلامی اقوام کے پاس اسلامی نظام تھا وہ اسے بالکل بھلائے بیٹھی تھیں اور مکمل طور پر فریب کھا کر اقدار کے ایک بیرونی نظام پر فریفتہ، اس کی شیدا اور معتقد ہو گئی تھیں، ضروری تھا کہ وہ اپنی جانب لوٹیں یعنی اسلامی اقدار کے نظام کی جانب۔ یہ وہی مفہوم ہے جس کے لیے اقبال کوشاں ہیں مگر ایسے سماجی مسئلے کو ایک ایسی شکل میں بیان کرنا کہ وہ ذہنوں میں راسخ ہو جائے، فلسفیانہ بیان کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے وہ اس مفہوم کو فلسفیانہ بیان کی شکل میں ڈھال دیتے ہیں۔ میں ان عبارتوں کو من و عن پڑھنے کی اجازت چاہوں گا جو میں نے نوٹ کی ہیں۔
خودی کا نظریہ، ایک سماجی و انقلاب سوچ
اقبال کے ذہن میں 'خودی' کا خیال ابتداء میں ایک معاشرتی اور انقلابی فکر کی شکل میں آیا اور رفتہ رفتہ اقوام مشرق، خصوصاً مسلمانوں میں تشخص کے انحطاط اور زوال کے مظاہر اور مصیبت کی گہرائی کے مشاہدے اور ان کے اسباب اور علاج کی شناخت نے اس فکر کو ان کے وجود میں ٹھوس اور فولادی بنا دیا اور اس کے بعد انھوں نے اس سوچ کو پیش کرنے کے طریقے کی جستجو میں ایک فلسفیانہ اور ذہنی اساس اور بنیاد تلاش کر لی۔ یہ بنیاد عام شکل میں 'خودی' کے مفہوم کا تصور ہے، اس چیز کی مانند جسے ہمارے فلاسفہ 'وجود' کو مفہوم کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں، ایک عام مفہوم جو سبھی میں ہے اور فلسفیانہ طور پر بیان کیے جانے کے قابل ہے۔ البتہ میری نظر میں وجود، خودی سے مختلف چیز ہے اور خودی کو وجود بتانا، میں نے دیکھا ہے اقبال کے اشعار کے بعض شارحین نے یہ غلطی کی ہے، میرے خیال میں ایک بڑی غلطی ہے اور وہ کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت، جس کی اقبال نے رموز بے خودی میں کئی بار تکرار کی ہے، ملا صدرا اور دیگر فلسفیوں کے کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت کے نظریے سے الگ ہے۔ یہ بالکل الگ چیز ہے۔ اقبال کے مد نظر جو مفاہیم ہیں وہ سو فیصد انسانی اور سماجی و اجتماعی ہیں۔ البتہ ہم جو 'سماجی و اجتماعی' کا لفظ استعمال کر رہے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ فرد کی بات نہیں کرتے۔ کیوں نہیں! وہ فرد کی بات کرتے ہیں۔ خودی کی بنیاد ہی فرد میں مضبوط ہوتی ہے۔ لیکن خود فرد میں خودی کی 'خودیت' اور فرد میں خودی کی شخصیت کا استحکام بھی اسلام کے سماجی و اجتماعی مفاہیم میں سے ایک ہے اور جب تک خودی کی وہ شخصیت مستحکم نہیں ہوگی، تب تک حقیقی اور مستحکم طور پر سماج یا اجتماع وجود میں نہیں آئے گا۔ بہر حال خودی کے معنی وجود سے الگ ہیں۔
پوری دنیا، خودی کے دائرے میں آتی ہے
اقبال سب سے پہلے خودی کے مفہوم کی ہمہ گیریت کے بارے میں عرفاء کی زبان میں اور ان کے الفاظ میں گفتگو کرتے ہیں۔(8) عالم ہستی کا وجود، خودی کے اثرات میں سے ہے۔ دنیا کی ہر عینی چیز میں خودی کے کسی نہ کسی مفہوم کی جلوہ گری ہے۔ البتہ ان میں سے بعض چیزوں کو اقبال نے نظموں کے عناوین(9) کے تحت بیان کیا ہے جن کو میں نے دوسرے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ بعض الفاظ ایسے ہیں جنھیں انھوں نے خود ہی اپنے کلام میں استعمال کیا ہے اور ان کے اشعار، ان عناوین سے بہت بہتر ہیں۔ افکار کا سرچشمہ بھی 'خودی' کے مختلف جلووں میں خود آگہی ہے۔ ہر مخلوق میں خودی کا اثبات، اس کے علاوہ کسی دوسری چیز کا بھی اثبات ہے۔ جب کسی انسان میں خودی کا اثبات ہو جاتا ہے تو اس سے خود بخود کسی دوسری چیز کا بھی اثبات ہو جاتا ہے۔ وہ ہے تو خودی موجود ہے اور خودی کے علاوہ دوسری چیز بھی موجود ہے، بنابریں خودی کے علاوہ دوسری چیز کا بھی اثبات ہو گیا۔ لہذا گویا ساری دنیا خودی میں شامل ہے اور نہاں ہے۔
خودی، ایک مشکّک (الگ الگ افراد میں الگ الگ درجے کا) مفہوم
خودی دشمنی کا بھی سبب بنتی ہے اور در حقیقت مختلف طرح کی 'خودیاں' ایک دوسرے سے ٹکراتی رہتی ہیں۔ یہ ٹکراؤ، دنیا میں دائمی کشمکش کو جنم دیتا ہے۔ خودی زیادہ صالح کے انتخاب اور زیادہ مناسب کی بقا کی موجب بھی ہے اور بہت ممکن ہے کہ ایک 'برتر خود' کے لیے ہزاروں 'خود' قربان ہو جائیں۔ خودی کا مفہوم ایک مشکّک مفہوم ہے۔ اس میں شدت بھی ہے اور کمزوری بھی ہے۔ دنیا کی تمام مخلوقات میں سے ہر ایک میں خودی کی شدت اور کمزوری اس مخلوق کے استحکام اور طاقت کی سطح کا تعین کرتی ہے۔ اس معاملے میں اقبال قطرے، مئے، جام، ساقی، کوہ، صحرا، موج، دریا، نور، چشم، سبزے، بجھی ہوئی شمع، پگھلی ہوئی شمع، نگینہ، زمین، چاند، سورج اور درخت کو مثال کے طور پر ذکر کرتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک میں خودی کی مقدار کو کسوٹی پر تولتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک قطرے میں خودی کی ایک خاص مقدار ہے، نہر میں ایک دوسری مقدار، اس نگینے کی ایک الگ مقدار جس پر نقوش بنائے جاتے سکتے ہیں اور جس پتھر پر کچھ بھی نقش نہیں کیا جا سکتا اس کی بھی ایک خاص مقدار ہے۔ یعنی یہ ایک مشکّک مفہوم ہے اور چیزوں اور افراد اور اسی طرح اشیائے عالم میں مختلف مقدار میں موجود ہے۔ اس کے بعد وہ نتیجہ نکالتے ہیں:
چون خودی آرد بہم نیروی زیست (جب خودی کو زندگی کی طاقت حاصل ہو جاتی ہے)
می گشاید قلزمی از جوی زیست (10) (تو وہ زندگی کی نہر سے ایک سمندر جاری کر دیتی ہے)
آرزو، خودی کو قوت عطا کرنے والا عنصر
اس کے بعد اقبال آرزومند ہونے اور مدعا رکھنے کے مسئلے کو پیش کرتے ہیں۔ یہ بالکل وہی چیز ہے جو اس زمانے کے عالم اسلام میں نہیں تھی یعنی مسلمانوں کو کسی چیز کا دعویٰ نہیں تھا، ان کی کوئی بڑی آرزو نہیں تھی اور ان کی آرزوئیں زندگی کی حقیر آرزوئیں تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک انسان کی زندگی مدعا اور آرزو رکھنے پر منحصر ہے۔ ایک انسان کی خودی اس بات میں ہے کہ وہ آرزومند ہو اور اپنی اس آرزو کی جستجو میں رہے۔ مجھے یہ جملہ یاد آ گیا: "انما الحیاۃ عقیدۃ و جہاد"() (زندگی، عقیدے اور جہاد سے عبارت ہے) وہ اسی مضمون اور اسی مفہوم کو بہت وسیع اور گہرے نیز لطیف انداز میں بیان کرتے ہیں۔ کسی چیز کا چاہنا اور اس کے حصول کی راہ میں کوشش ہی مدعا ہے ورنہ زندگی موت میں تبدیل ہو جائے گی۔ آرزو، جان جہاں اور صدف فطرت کا موتی ہے، وہ دل جو آرزو پیدا نہ کر سکے وہ شکستہ اور بے پرواز ہے اور یہ آرزو ہی ہے جو خودی کو قوت عطا کرتی ہے اور اسے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی طرح موّاج بنا دیتی ہے۔ لذت دیدار ہے جو بیدار آنکھوں کو صورت عطا کرتی ہے، شوخئ رفتار ہے جو کبک کو پیر عطا کرتی ہے، سعئ نوا ہے جو بلبل کو (میٹھا گانے والی) چونچ عطا کرتی ہے۔ بانسری بجانے والے کے ہاتھ اور ہونٹ میں بانسری ہے جو زندگی پاتی ہے ورنہ نیستاں میں تو اس کا کوئی خاص وجود ہی نہیں تھا۔ علم، تمدن، نظم، آداب، رسومات اور مذہب سبھی نے ان آرزوؤں سے جنم لیا ہے جن کے لیے کوشش کی گئی ہے۔ اس کے بعد وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں:
ما ز تخلیق مقاصد زندہ ایم از شعاع آرزو تابندہ ایم(11)
(ہم مقاصد کی تخلیق سے ہی زندہ ہیں، ہم آرزو کی شعاع کی وجہ سے تابندہ ہیں)
یہ ادعا سازی، آرزو سازی اور ہدف سازی ہے۔ یا اسی کتاب کے ایک اور شعر میں اس موضوع کے بارے میں کہتے ہیں :
گرم خون آدم ز داغ آرزو آتش، این خاک این از چراغ آرزو(12)
(انسان کا خون، آرزو کے داغ سے گرم ہے یہ خاک، چراغ آرزو سے آگ بن جاتی ہے)
پیغمبر اکرم سے عشق و عقیدت، خودی کی تقویت کا سرچشمہ
اس کے بعد اقبال انسان اور خودی کے استحکام کے لیے عشق و محبت کو ضروری سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ محبت کے بغیر فرد اور معاشرے میں خودی مستحکم نہیں ہو سکتی اور ضروری ہے کہ ملت مسلمہ اور وہ انسان جو اپنی خودی کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں، عشق و محبت سے بھرے ہوں اور ان کا دل کسی آگ میں پگھلے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبال خود ہی یہ تلاش کر لیتے ہیں اور امت مسلمہ کے لیے عشق کا ایک نقطہ طے کر دیتے ہیں، یہیں پر سمجھ میں آتا ہے کہ یہ بیدار اور ہوشیار مرد، اسلامی دنیا کے اتحاد اور اسلامی دنیا کو متحرک کرنے کے مسئلے کو کتنی اچھی طرح سے سمجھتا ہے، اور وہ نقطہ ہے پیغمبر اکرم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عشق و عقیدت۔ آپ کی اجازت سے میں یہ حصہ پڑھتا ہوں:
نقطہ نوری کہ نام او خودی است زیر خاک ما شرار زندگی است
(وہ نقطۂ نور جس کا نام خودی ہے وہ ہماری خاک کے نیچے زندگی کی چنگاری ہے)
از محبت می شود پایندہ تر زندہ تر، سوزندہ تر، تابندہ تر
(محبت سے وہ زیادہ پائیدار، زیادہ زندہ، زیادہ سوز رکھنے والی اور زیادہ چمکدار بن جاتی ہے)
از محبت اشتعال جوہرش ارتقای مکمنات مضمرش
محبت سے اس کا جوہر کھل جاتا ہے اور اس میں نہاں کمیں گاہوں بہتر ہو جاتی ہے
کئی نسخوں میں ممکنات لکھا ہوا ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ مکمنات (کمیں گاہیں) بہتر ہے۔
فطرت او آتش اندوزد ز عشق عالم افروزی بیاموزد ز عشق
(خودی کی فطرت عشق سے حرارت حاصل کرتی ہے اور عشق سے ہی دنیا کو جگمگا دینے کا طریقہ سیکھتی ہے)
در جہاں ہم صلح و ہم پیکار، عشق آبِ حیوان، تیغ جوہر دار عشق
(دنیا کی ساری صلح اور ساری جنگ عشق ہے، عشق کی تیغ جوہردار، آب حیات ہے)
عاشقی آموز و محبوبی طلب چشم نوحی، قلب ایوبی طلب
(تو عاشقی سیکھ اور کسی محبوب کو طلب کر، حضرت نوح کی آنکھ اور حضرت ایوب کا دل مانگ)
کیمیا پیدا کن از مشت گلی بوسہ زن بر آستان کاملی
(ایک مٹھی خاک سے کیمیا پیدا کر، کسی کامل انسان کے آستانے پر بوسہ دے)
اس کے بعد کہتے ہیں کہ وہ معشوق و محبوب جس سے مسلمان کو لگاؤ رکھنا چاہیے اور عشق کرنا چاہیے، کون ہے؟
ہست معشوقی نہان اندر دلت چشم اگر داری بیا بنمایمت
(تیرے دل میں ایک محبوب چھپا ہے، اگر تجھ میں دیدۂ بینا ہے تو آ میں تجھے دکھاتا ہوں)
عاشقان او ز خوبان خوب تر خوشتر و زیبا تر و محبوب تر
(اس کے عاشق حسینوں سے زیادہ حسین، زیادہ خوش اندام، زیادہ خوبصورت اور زیادہ پیارے ہیں)
دل ز عشق او توانا می شود خاک، ہمدوش ثریا می شود
(دل اس کے عشق سے توانا ہو جاتا ہے اور خاک، ثریا جتنی بلند ہو جاتی ہے)
خاک نجد از فیض او چالاک شد آمد اندر وجد و بر افلاک شد
(نجد کی خاک اس کے فیض سے تند و تیز ہو گئی، وجد میں آئی اور آسمانوں پر جا پہنچی)
در دل مسلم مقام مصطفی است آبروی ما ز نام مصطفی است
(حضرت مصطفیٰ کا مقام مسلمان کے دل میں ہے، ہماری عزت آپ کے نام سے ہے)
طور موجی از غبار خانہ اش کعبہ را بیت الحرم کاشانہ اش
(طور آپ کے گھر کے غبار کی ایک موج ہے، آپ کا گھر کعبے کے لیے کعبہ ہے)
کمتر از آنى ز اوقاتش ابد کاسب افزایش از ذاتش ابد
(آپ کے اوقات کے سامنے ابد ایک لمحے سے بھی کم ہے، آپ کی ذات سے ہی ابد کو طول حاصل ہوتا ہے)
بوریا ممنون خواب راحتش تاج کسری زیر پا امتش
(بوریا آپ کی آرام دہ نیند کا احسان مند ہے اور کسریٰ کا تاج آپ کی امت کے قدموں میں ہے)
در شبستان حرا، خلوت گزید قوم و آئین و حکومت آفرید
(آپ نے حرا کے شبستاں میں گوشہ نشینی کی اور قوم، آئین اور حکومت کو وجود عطا کر دیا)
ماند شبہا چشم او محروم نوم تا بہ تخت خسروی خوابید قوم(13)
(آپ کی آنکھیں راتوں کو نیند سے محروم رہیں تاکہ قوم تخت شاہی پر سو سکے)
اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں کچھ تشریح کرتے ہیں اور ان کے اوصاف بیان کرتے ہیں۔ البتہ یہ چیز اقبال کے تمام دیوانوں میں پائی جاتی ہے اور صرف اس جگہ سے مختص نہیں ہے، یہ اس طرح کی ایک مثال ہے۔ انسان، اقبال کی تمام کتابوں میں پیغمبر سے عشق کو دیکھتا ہے۔ یہیں اس بات کا ذکر بھی مناسب ہوگا کہ ایک کتاب، جسے پاکستان کے ایک ہم عصر محقق(14) نے اقبال کے بارے میں لکھا ہے اور جو بہت مؤقر کتاب ہے اور اس کا نام "اقبال در راہ مولوی" ہے، مجھے اپنے حالیہ دورے(15) میں ملی اور میں نے اسے دیکھا اور اس سے استفادہ کیا ہے، اس میں لکھا ہے: جب بھی ایسا کوئی شعر، جس میں پیغمبر اکرم کا نام ہوتا تھا، اقبال کے سامنے پڑھا جاتا تو ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو جاتے۔ واقعی وہ خود پیغمبر کے عاشق تھے۔ اقبال نے بہت اچھے نقطے پر انگلی رکھی ہے۔ عالم اسلام کیا پیغمبر سے زیادہ محبوب اور مقبول ہستی تلاش کر سکتا ہے؟ یہ چیز عالم اسلام کی تمام محبتوں کو مرکزیت عطا کرتی ہے۔
اس سلسلے میں کچھ گفتگو کے بعد اقبال حاتم طائی کی بیٹی کی داستان نقل کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک جنگ میں حاتم طائی کی بیٹی قید ہو کر آئی اور اسے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لایا گیا۔ چونکہ حاتم کی بیٹی کے پیر زنجیر میں بندھے ہوئے تھے اور اس کے جسم کا کوئی حصہ یا سر کھلا ہوا تھا تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بڑے اور اچھے خاندان کی لڑکی کو کھلے سر دیکھنا پسند نہیں کیا اور اپنی عبا اٹھا کر اس لڑکی پر ڈال دی تاکہ وہ خجل اور شرمسار نہ ہو اور اس کے بعد اقبال کہتے ہیں:
ما از آن خاتون طی عریان تریم پیش اقوام جہان بی چادریم
(ہم قبیلۂ طے کی اس خاتون سے زیادہ عریاں ہیں، دنیا کی قوموں کے سامنے ہم بے پردہ ہیں)
روز محشر اعتبار ماست او در جہان ہم پردہ دار ماست او
(قیامت کے دن وہ ہمارا بھروسہ ہیں، دنیا میں ہمارے پردہ دار وہ ہیں)
ما کہ از قید وطن بیگانہ ایم چون نگہ نور دو چشمیم و یکیم
(ہم جو وطنیت کی قید سے آزاد ہیں، نظر کی طرح ہم دو آنکھوں کے نور ہیں مگر ایک ہیں)
از حجاز و مصر و ایرانیم ما شبنم یک صبح خندانیم ما
(ہم حجاز، مصر اور ایران کے باسی ہیں، ہم ایک مسکراتی صبح کی یادگار شبنم ہیں)
مست چشم ساقی بطحا ستیم در جہان مثل می و مینا ستیم
(ہم ساقئ بطحا کے کیف چشم سے سرشار ہیں اور ہماری مثال دنیا میں شراب و مینا جیسی ہے)
چون گل صد برگ ما را بو یکی است اوست جان این نظام و او یکی است(16)
(گل صد برگ کی طرح ہماری خوشبو ایک ہے، وہ ہمارے اس نظام کی جان ہے اور وہ ایک ہے)
اقبال پیغمبر سے عشق و محبت کے بارے میں دوسری جگہوں پر بھی بات کرتے ہیں۔ وہ 'اسرار خودی' میں کوشش کرتے ہیں کہ خودی کے احساس کو یعنی انسانی تشخص کے احساس کو مسلمان فرد اور معاشرے میں زندہ کریں۔
ہاتھ پھیلانا اور ضرورت بیان کرنا، خودی کی کمزوری کا سبب
اسرار خودی میں ایک اور باب یہ ہے کہ خودی سوال (ہاتھ پھیلانے) سے کمزور پڑ جاتی ہے یعنی جب ایک فرد یا ایک قوم، دست نیاز دراز کرتی ہے تو اس فرد یا اس قوم کی خودی کمزور پڑنے لگتی ہے اور اپنی مضبوطی و استحکام کھو بیٹھتی ہے۔ اس سلسلے میں بعض دلچسپ اور عمیق بحثیں اور بھی ہیں۔
رموز بے خودی، اسلامی نظام کے سلسلے میں اقبال کے افکار
خودی کے بعد بے خودی کا فلسفہ ہے۔ یعنی جب ہم ایک انسان کے 'خود' اور تشخص کی تقویت کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ انسان ایک دوسرے سے جدا ہو کر اپنے ارد گرد دیوار کھڑی کر لیں اور مختلف طرح کے 'خود' اپنی اپنی زندگی گزاریں۔ بلکہ ان تمام 'خودوں' کو چاہیے کہ ایک سماج میں بے خود ہوکر جذب ہو جائیں اور فرد، معاشرے سے ربط حاصل کرے۔ یہی رمز بے خودی ہے۔ "رموز بے خودی" اقبال کی دوسری کتاب ہے جو "اسرار خودی" کے بعد شائع ہوئی ہے اور اسلامی نظام کے بارے میں اقبال کے نظریے کی عکاسی کرتی ہے۔ ایک اسلامی نظام کے قیام کے سلسلے میں اقبال کے افکار ہر جگہ موجود ہیں لیکن یہ افکار رموز بے خودی میں سب سے زیادہ نظر آتے ہیں۔ مجموعی طور پر جن مسائل کا ذکر رموز بے خودی میں ہوا ہے وہ ایسے اہم اور دلچسپ موضوعات ہیں جن پر توجہ، ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے بے حد ضروری ہے۔آج جب ہم ان مضامین کو دیکھتے ہیں جو رموز بے خودی میں اقبال کے ذہن میں موجود ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ بالکل وہی افکار ہیں جو آج ہمارے اسلامی معاشرے کے ذہن میں ہیں۔
اسلام کے پرچار کے تعلق سے امت توحیدی کی ذمہ داری
اسلام کے پھیلاؤ میں امت توحیدی کی ذمہ داری اقبال کے پر جوش ترین نظریات میں سے ایک ہے۔ ان کے خیال میں مسلمانوں اور امت مسلمہ کو اسلام کی ترویج کرنی چاہیے اور تب تک چین سے نہیں بیٹھنا چاہیے جب تک وہ اس کام کو انجام نہ دے لے۔ مناسب ہوگا کہ میں اس سلسلے میں ان کے کچھ اشعار جو بہت دلچسپ ہیں آپ کو پڑھ کر سناؤں، سب سے پہلے وہ کہتے ہیں اسلامی معاشرے کی تشکیل اور امت مسلمہ کا وجود میں آنا دنیا کے لیے آسان کام نہیں تھا۔ دنیا بہت تکلیفیں اٹھانے اور تاریخ بہت زیادہ تجربات حاصل کرنے کے بعد امت توحیدی تک پہنچی ہے اور اس طرح توحید کے نظریے اور اسلامی فکر کی حامل، امت وجود میں آئی ہے:
این کہن پیکر کہ عالم نام اوست ز امتزاج امہات اندام اوست
(یہ ایک پرانا جسم جس کا نام دنیا ہے، اس کا جسم عناصر کے امتزاج سے قائم ہے)
صد نیستان کاشت تا یک نالہ رست صد چمن خون کرد تا یک لالہ رست
(سیکڑوں باغ بوئے تب جا کر ایک نالہ اگا، سیکڑوں گلشن قربان کیے تب ایک لالہ اگا)
نقشہا آورد و افکند و شکست تا بہ لوح زندگی نقش تو بست
(نقوش لا کر ڈھیر کیے گئے اور توڑے گئے تب جا کر لوح زندگی پر تیرا نقش کندہ ہوا)
نالہ ھا در کشت جان کاریدہ است تا نوای یک اذان بالیدہ است
(جان کی کھیتی میں نالے بوئے گئے تب جا کر ایک اذان کی نوا کو فروغ ملا)
مدتی پیکار با احرار داشت با خداوندان باطل کار داشت
(مدتوں تک آزاد منشوں سے لڑتا رہا، باطل کے خداؤں سے نبرد آزما رہا)
تخم ایمان آخر اندر گل نشاند با زبانت کلمہ ی توحید خواند
(تب جا کر ایمان کا بیج مٹی میں بویا گیا اور کلمۂ توحید لب پر آ گیا)
نقطہ ادوار عالم لا الہ انتہای کار عالم لا الہ
(دنیا کی ابتداء ہے لا الہ، دنیا کی انتہا ہے لا الہ)
چرخ را از زور او گردندگی مہر را تابندگی رخشندگی
(اسی کی طاقت سے آسمان کو گردش ہے اور سورج کو تابندگی و رخشندگی ہے)
بحر گوہر آفرید از تاب او موج در دریا تپید از تاب او
(سمندر نے اسی موج سے موتی پیدا کیا اور سمندر میں موج اسی کی حرکت سے پیدا ہوئی)
خاک از موج نسیمش گُل شود مشت پَر از سوز او بلبل شود
(اس کی ہوا کی موج سے مٹی پھول ہو جاتی ہے، مٹھی بھر پر اس کے سوز سے بلبل بن جاتے ہیں)
شعلہ در رگہای تاک از سوز او خاک مینا تابناک از سوز او
(اس کے سوز سے پودوں میں شعلے لپکتے ہیں، اسی کے سوز سے خاک مینا میں چمک ہے)
نغمہ ہایش خفتہ در ساز وجود جویدت ای زخمہ بر ساز وجود
(اس کے نغمے وجود کے ساز میں نہاں ہیں، تو اسی کے ساز پر زخمہ زن ہو)
صدنوا داری چو خون در تن روان خیز و مضرابی بہ تار او رسان
(اے ساز ہستی تیرا بدن خون ہے، اے نغمہ گر ساز وجود چھیڑ)
زاں کہ در تکبیر راز بود توست حفظ و نشر لا الہ مقصود تست
(تکبیر میں جو راز نہاں تھا وہ تو ہے، لا الہ کی ترویج تیرا مقصد ہے)
تا نخیزد بانگ حق از عالمی گر مسلمان نیاسایی دمی
(جب تک دنیا سے بانگ حق بلند نہ ہو تب تک اگر تو مسلمان ہے تو چین سے نہیں بیٹھے گا)
می ندانی آیہ ام الکتاب امت عادل ترا آمد خطاب
(کیا تجھے معلوم ہے کہ ام الکتاب کی آیت میں تجھے ہی امت عادل کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے)
آب و تاب چہرہ ی ایام تو در جہان شاہد علی الاقوام تو
(تو چہرۂ ایام کی رونق ہے، دنیا میں اقوام کی گواہ تو ہے)
نکتہ سنجان را صدای عام دہ از علوم امی ای پیغام دہ
(نکتہ سنجوں کو صدائے عام دے، انھیں پیغمبر امّی کا پیغام دے دے)
امی ای، پاک از ہوا گفتار او شرح رمز "ماغویٰ" گفتار او
(وہ پیغمبر امی جس کی بات خواہش نفسانی سے دور ہے، اس کی گفتگو "ما غویٰ" کی آیت کی تشریح ہے)
از قبای لالہ ھای ایں چمن پاک شست آلودگیہای کہن
(اس گلشن کے پھولوں کے پیرہن پر جتنے داغ تھے، اس پیغمبر امی نے ان تمام پرانے داغوں کو دھو دیا)
اسلام کے فروغ اور قومی سرحدوں کو ختم کر دینے کے بارے میں اقبال کا نظریہ
پھر جب وہ اسلامی نظریے کی آفاقیت کو بیان کرتے ہیں، جس کا ان کی کتاب میں شاید سو بار سے زیادہ ذکر آیا ہے، اسلام اور مسلمان کی آفاقیت اور اس کے عالمی وطن کا، تو کہتے ہیں: اے امتِ توحید! پرچم تیرے ہاتھ میں ہے، تجھے حرکت کرنی چاہیے اور اسے دنیا تک پہنچانا چاہیے۔ پھر کہتے ہیں کہ اس نئے دلفریب بت کو، جسے فرنگیوں نے پیدا کیا ہے، توڑ دو۔ وہ نیا بت کیا ہے؟
ای کہ میداری کتابش در بغل تیز تر نہ پا بمیدان عمل
(اے وہ جو کتاب بغل میں دبائے رکھتا ہے، میدان عمل میں تیزی سے قدم رکھ)
فکر انسان بت پرستی، بت گری ہر زمان در جستجوی پیکری
(انسان کی سوچ بت پرستی اور بت گری کی ہے، وہ ہر وقت ایک بت کی جستجو میں رہتا ہے)
باز طرح آذری انداختہ است تازہ تر، پروردگاری ساختہ است
(اس نے پھر 'آذری سازش' شروع کر دی ہے، ایک نیا پروردگار بنا لیا ہے)
کاید از خون ریختن اندر طرب نام او، رنگ است و ہم ملک و نسب
(جسے خون بہانے سے سرور ملتا ہے، اس کا نام رنگ، ملک اور نسب ہے)
وہ نیا بت اس طرح کا ہے کہ جو خونریزی سے وجد میں آتا ہے، وہ کیا ہے؟ نیشنلزم، قوم پرستی، وطن پرستی، اقوام کے درمیان سرحد کھینچنا اور قومیت، ملیت اور رنگ و نسل کے بہانے قوموں کے درمیان جنگ بھڑکانا۔
آدمیت کشتہ شد چون گوسفند پیش پای این بت نا ارجمند
(انسانیت، بھیڑ کی طرح قربان کر دی گئی ہے، اس منحوس بت کے قدموں میں)
ای کہ خوردستی زمینای خلیل گرمی خونت زصہبای خلیل
(اے وہ کہ جس نے ابراہیم کے مینا سے صہبا پی ہے، تیرے خون کی گرمی ابراہیم کی صہبا کی وجہ سے ہے)
بر سر این باطل حق پیرہن تیغ لا موجود الا ھو بزن
(حق کا پیرہن پہن کر سامنے آنے والے اس باطل پر "لا موجود الّا ھو" کی تلوار سے وار کر)
جلوہ در تاریکی ایام کن آنچہ بر تو کامل آمد، عام کن(17)
(ایام کی تاریکی کو روشن کر دے، جو کچھ تجھے مکمل طور پر سمجھ میں آ گیا ہے، اسے عام کر دے)
یہ اسلام کی نشر و اشاعت اور قومیت اور وطن کی سرحدوں وغیرہ کو ختم کرنے کے سلسلے میں اقبال کا نظریہ ہے۔
نبوت، امت کی تشکیل کا اصل عنصر
رموز بے خودی میں ایک مفہوم جس پر اقبال زور دیتے ہیں، فرد کے اجتماع سے متصل ہونے اور اجتماع میں جذب ہوجانے کی ضرورت ہے۔ وہ نبوت کو امت کی تشکیل کا اصل عنصر بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ایسا نہیں کہ جب افراد اکٹھا ہو جائیں تو ایک قوم یا ملت وجود میں آ جاتی ہے بلکہ ایک تفکر کی ضرورت ہے جو قومیت کے اس تانے بانے کو یکجا کر دے اور بہترین اور بنیادی ترین تفکر نبوت ہے جسے خدا کے پیغمبروں نے پیش کیا ہے۔ تشکیل ملت کی بنیادوں کو وجود میں لانے کے لیے یہ بہترین چیز ہے کیونکہ یہ اجتماع کو فکر عطا کرتی ہے، ایمان عطا کرتی ہے، اتحاد عطا کرتی ہے اور تربیت و کمال عطا کرتی ہے۔
تخت و محراب کے خداؤں کی بندگی کی نفی، اقبال کا ایک اور بہترین تفکر
ایک اور مضمون جس پر اقبال زور دیتے ہیں تخت و محراب کے خداؤں کی بندگی کی نفی ہے۔ اس سلسلے میں ان کے اشعار کا ایک حصہ بہت دلچسپ ہے، ملاحظہ فرمائیے:
بود انسان در جہان انسان پرست ناکس و نابود مند و زیر دست
(دنیا میں انسان، انسان پرست تھا، اس کا کوئی نہیں تھا، وہ نابود ہو رہا تھا اور دوسروں کے زیر دست تھا)
سطوت کسری و قیصر رہزنش بندہا در دست و پا و گردنش
(قیصر و کسریٰ کی سطوت اس کی رہزن تھی اور اس کے ہاتھ، پاؤں اور گردن میں زنجیر تھی)
کاہن و پاپا و سلطان و امیر بہر یک نخچیر صد نخچیر گیر
(کاہن، پوپ، سلطان اور حاکم، ایک شکار کے لیے سیکڑوں شکاری تھے)
صاحب اورنگ و ہم پیر کنشت باج برکشت خراب او نوشت
(صاحب تخت بھی اور معبد کے پجاری بھی اس کی اجڑی ہوئی کھیتی سے خراج لیتے تھے)
سلطان کے ٹیکس وصول کرنے والوں سے جو کچھ بچ جاتا تھا اسے پوپ کے ٹیکس وصول کرنے والے آ کر لے جاتے تھے اور یہ چیز پوری دنیا میں رائج تھی۔
در کلیسا اسقف رضوان فروش بہر این صید زبون دامی بدوش
(کلیسا میں جنت بیچنے والا پادری اس زبوں حال شکار کے لیے شانوں پر جال لیے رہتا تھا)
برہمن گل از خیابانش ببرد خرمنش مغ زادہ با آتش سپرد
(برہمن اس کے گلشن سے پھول چرا لے جاتا تھا اور یہودی ربی کا بیٹا اس کے خرمن کو آگ لگا دیتا تھا)
از غلامی فطرت او دون شدہ نغمہ ھا اندر نی او خون شدہ
(غلامی کی وجہ سے اس کی فطرت پست ہو گئی تھی اور اس کی بانسری میں نغمے خون بن چکے تھے)
تا امینی حق بہ حق داران سپرد بندگان را مسند خاقان سپرد(18)
(یہاں تک کہ ایک امین نے حق، حقداروں کے حوالے کیا اور بندوں کو حاکموں کی مسند عطا کی)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت، انسانوں کے درمیان مساوات، تم میں سب سے بافضیلت وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے(19) اور اسلامی اخوت، ایسے عناوین ہیں جو خود اقبال نے ذکر کیے ہیں۔
اقبال کی کتابوں کی اشاعت کی ضرورت
باتیں بہت زیادہ ہیں، میری گفتگو طویل ہو گئی ہے، مناسب نہیں ہوگا کہ اس سے زیادہ تفصیلی گفتگو کروں اور واقعی میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کس حصے کا انتخاب کروں اور اس پر گفتگو کروں۔ آج ہماری دلچسپ اور مطلوبہ بحث میں اس قدر زیادہ باتیں ہیں کہ انسان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کو فوقیت دی جائے اور کس کو بیان کیا جائے۔ ان سب باتوں کی تشریح، ہمارے ملک میں علامہ اقبال کی کتابوں کی اشاعت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ کام ایسا ہے جسے یہاں بھی، پاکستان میں بھی اور افغانستان میں بھی انجام پانا چاہیے۔ ہر اس جگہ پر جہاں لوگ فارسی سمجھتے ہیں یا ممکن ہے کہ فارسی سمجھ سکیں، اقبال کے کلام کو، جس میں سب سے بہتر ان کا فارسی کلام ہے، شائع ہونا چاہیے۔ البتہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اقبال نے جو پندرہ ہزار شعر کہے ہیں ان میں سے نو ہزار فارسی میں ہیں یعنی ان کا اردو کلام فارسی سے بہت کم ہے۔ ان کے بہترین اشعار اور سب سے خوبصورت کلام، کم از کم معنی کے لحاظ سے، وہی ہے جو انھوں نے فارسی میں کہا ہے اور ان کے مجموعۂ اشعار اور کلیات کی شکل میں جو بیس سال قبل یہاں پر شائع ہوا ہے۔ ان کی ان کتابوں پر مزید کام ہونا چاہیے۔ میں جب شروع میں اقبال کے کلام سے آشنا ہوا تھا اور دیکھتا تھا کہ اس کلام کی تشریح کی ضرورت ہے اور ایسی کوئی مبسوط تشریح اس کلام کے ساتھ نہیں ہے تو مجھے دکھ ہوتا تھا۔ واقعی اس بات کی ضرورت ہے کہ یہ کام انجام پائے اور کچھ لوگ ان لوگوں کے لیے جن کی زبان فارسی ہے، علامہ اقبال کے مد نظر مضامین اور مفاہیم کی تشریح کریں۔
ایرانی قوم، اقبال کے خودی کے پیغام کا احیاء کرنے والی قوم
آج علامہ اقبال کے بہت سے پیغامات ہم سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں سے بعض اس دنیا سے متعلق ہیں جو ابھی تک ہمارے راستے پر نہیں آئی ہے اور اس نے اس پیغام کو جسے ہم سمجھ گئے ہیں، نہیں سمجھا ہے۔ اقبال کے 'خودی' کے پیغام کو ہماری قوم نے میدان عمل میں زندہ کیا اور حقیقت کی دنیا میں عملی جامہ پہنایا۔ ہماری قوم کو اس وقت خودی کی نصیحت کی ضرورت نہیں ہے۔ آج ہم ایرانی عوام پوری طرح محسوس کرتے ہیں کہ ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہیں، اپنی ثقافت پر تکیہ کرتے ہیں، اپنے اثاثوں پر اعتماد کرتے ہیں اور اس تمدن پر قائم ہیں جس کو ہم اپنی آئیڈیالوجی اور فکر کی بنیاد پر کھڑا کر سکتے ہیں۔ البتہ ماضی میں مادی زندگی اور زندگی گزارنے کے لحاظ سے ہمیں دوسروں کا محتاج اور دوسروں پر منحصر رکھا گیا لیکن ہم رفتہ رفتہ اپنے خیمے سے ان غیر ملکی رسیوں کو بھی کاٹ پھینکیں گے اور اپنی ہی رسیوں کا استعمال کریں گے اور ہمیں امید ہے کہ ہم یہ کام کر لیں گے اور یہ عمل جاری ہے۔
مسلم اقوام کو اقبال کے خودی کے پیغام کو سمجھنے کی ضرورت
مسلمان اقوام کو اس 'خودی' کو سمجھنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر مسلمان شخصیات کو چاہے وہ سیاسی شخصیتیں ہوں یا ثقافتی۔ انھیں ضرورت ہے کہ اقبال کے پیغام کو سمجھیں اور جان لیں کہ اسلام اپنی ذات میں اور اپنی ماہیت میں انسانی معاشروں کو چلانے کی اعلی ترین بنیادوں کا حامل ہے اور دوسروں کا محتاج نہیں ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ دوسری ثقافتوں کے لیے دروازہ بند کر دیں اور ان کو اپنی طرف مائل نہ کریں۔ جی ہاں! مائل کریں ایک زندہ جسم کی طرح جو اپنے لیے ضروری عناصر کو جذب کرتا ہے نہ کہ ایک بے ہوش اور مردہ جسم کی طرح جس میں جو چاہیں انجیکٹ کر دیں۔ ہم میں اپنی طرف مائل اور جذب کرنے کی طاقت ہے اور ہم مائل کرتے ہیں، دوسری ثقافتوں سے بھی چیزیں لیتے ہیں چاہے وہ اغیار ہی کیوں نہ ہوں، جو چیز ہم سے تناسب رکھتی ہے، ہم سے متعلق ہے اور ہمارے لیے مفید ہے اسے ہم لیتے اور جذب کرتے ہیں۔
مغربی تمدن کا روح و معنی سے عاری ہونا
ہم دوسروں کے افکار کے نتائج کو مسترد نہیں کرتے جیسا کہ اقبال نے بارہا ذکر کیا ہے کہ علم و فکر کو تو مغرب سے سیکھا جا سکتا ہے لیکن سوز و زندگی کو نہیں۔
خرد آموختم از درس حکیمان فرنگ سوز اندوختم از صحبت صاحب نظراں(20)
(میں نے مغربی فلاسفہ کے درس سے عقل سیکھی لیکن سوز میں نے صاحبان نظر کی باتوں سے اکٹھا کیا)
یعنی سوز زندگی مغرب کی تعلیم اور مغربی تمدن و مدنیت میں نہیں ہے۔ اسے اقبال نے بھی محسوس کر لیا تھا اور بہت جلدی اور دوسروں سے پہلے ایک علمبردار کی طرح اس کا اعلان کیا۔ مغربی تمدن اور مادی مدنیت انسان کے لیے ضروری روح اور معنی سے عاری ہے۔ ہم مغربی ثقافت سے اس چیز کو لیتے ہیں جس کی ہمیں ضرورت ہے اور بحمد اللہ آج ہمارے ملک میں اور ہمارے عوام میں خودی اور اسلامی شخصیت کا احساس کمال کی حد تک پایا جاتا ہے۔ ہمارا "نہ شرقی اور نہ غربی" کا موقف بالکل وہی چیز ہے جس کی بات اقبال کرتے تھے۔ ہماری خودکفیلی کی پالیسی بالکل وہی چیز ہے جس کی اقبال بات کرتے تھے۔ پیغمبر اکرم سے ہمارا عشق، قرآن سے ہمارا عشق اور قرآن سیکھنے پر ہماری تاکید اور یہ کہ انقلاب اور اہداف کی بنیادیں قرآنی ہونی چاہیے، بالکل وہی چیز ہے جس کی اقبال سفارش کیا کرتے تھے لیکن اُس وقت اُن باتوں کو سننے والا کوئی نہیں تھا۔ اُس وقت اقبال کی زبان اور اقبال کے پیغام کو بہت سے لوگ نہیں سمجھتے تھے۔ اقبال کی کتابیں اور نظمیں اس شکوے سے بھری ہوئی ہیں کہ لوگ میری بات کو نہیں جانتے اور نہیں سمجھتے اور دوسروں کی طرف نگاہیں ہیں اور پھر لوگ مغرب کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ غالباً اسی رموز بے خودی کی تمہید میں ہے کہ وہ امت مسلمہ کو مخاطب کرکے اور اور بقول خود ان کے "پیشکش بہ حضور ملت اسلامیہ" یہ شکوہ کرتے ہیں:
ای ترا حق خاتم اقوام کرد بر تو ہر آغاز را انجام کرد
(اے وہ قوم کہ تجھے حق نے خاتم الاقوام بنایا، تجھ پر ہر آغاز کا انجام قرار دیا)
ای مثال انبیاء پاکان تو ھمگر دلہا جگر چاکان تو
(اے کہ تیری پاکیزہ نسل انبیاء کی طرح ہے، تیرے شیدا دلوں کو جوڑنے والے ہیں)
امت مسلمہ اقبال کے زمانے میں بلکہ بہت سے لوگ تو آج تک عیسائیت پر فریفتہ ہیں۔
ای نظر بر حسن ترسا زادہ ای ای ز راہ کعبہ دور افتادہ ای
(اے عیسائیوں کے حسن کے شیدائیو، اے کعبے کی راہ سے دور ہو جانے والو)
ای فلک مشت غبارک کوی تو ای تماشا گاہ عالم روی تو
(اے وہ کہ آسمان تیرے کوچے کی مٹھی بھر دھول ہے، اے وہ کہ دنیا تیرے چہرے کا جلوہ ہے)
ہمچو موج، آتش تہ پا می روی تو کجا بہر تماشا می روی
(تو آتش زدہ پیروں والی موج کی طرح جا رہا ہے، تو تماشا دیکھنے کہاں جا رہا ہے)
رمز سوز آموز از پروانہ ای در شرر تعمیر کن کاشانہ ای
(کسی پروانے سے سوز کے رموز سیکھ، شرر میں ایک کاشانہ تعمیر کر دے)
طرح عشق انداز اندر جان خویش تازہ کن با مصطفی پیمان خویش
(اپنی جان میں عشق کو اتار دے، محمد مصطفیٰ سے اپنے عہد کی تجدید کر)
خاطرم از صحبت ترسا گرفت تا نقاب روی تو بالا گرفت
(میں نے جب تیرا رخ زیبا دیکھا تو مسیحی کی صحبت سے میرا دل گھبرا گیا)
ہم نوا از جلوہ اغیار گفت داستان گیسو و رخسار گفت
(ہمنوا نے اغیار کے جلووں کی بات کی، گیسو و رخسار کی داستان کی بات کی)
ہمنوا وہی اقبال کے زمانے کی نسل اور اقبال کے ساتھ رہنے والے اور وہ لوگ ہیں جو تازہ تازہ مغربی تمدن سے آشنا ہوئے ہیں اور مغربی اقدار کے فریفتہ ہو گئے ہیں۔
بر در ساقی جبین فرسود او قصہ ی مغ زادگان پیمود او
(اس نے ساقی کے در پر پیشانی ٹیک دی، مغرب کے عالموں کی داستان چھیڑ دی)
لیکن میں:
من شہید تیغ ابروی تو ام خاکم و آسودہ ی کوی توام
(مگر میں تیری تیغ ابرو کا بسمل ہو، خاک ہوں اور تیرے کوچے میں سکوں پاتا ہوں)
از ستایش گستری بالا ترم پیش ہر دیوان فرو ناید سرم
(میں مدح گوئی سے بالاتر ہوں اور ہر کس و ناکس کے آگے میرا سر نہیں جھکتا)
یعنی اے امت مسلمہ! میں جو عاشقانہ طور پر اس طرح تیری مدح سرائی کر رہا ہوں، اس لیے نہیں ہے کہ میں مداح ہوں:
از سخن آئینہ سازم کردہ اند از سکندر بی نیازم کردہ اند
(جب سخن نے مجھے آئینہ ساز بنا دیا ہے تو پھر میں سکندر سے کیوں نہ بے نیاز ہو جاؤں)
بار احسان بر نتابد گردنم در گلستان غنچہ گردد دامنم
(میری گردن احسان کا بوجھ برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ہے، گلشن میں میرا دامن غنچے کی طرح پاکیزہ ہے)
سخت کوشم مثل خنجر در جہان آب خود می گیرم از سنگ گران
(میں دنیا میں خنجر کی طرح سخت کوش ہوں جو بھاری پتھر سے اپنا 'آب' (تیزی) حاصل کرتا ہے۔)
وہ اپنی بے نیازی کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں:
بر درت جانم نیاز آوردہ است ہدیہ ی سوز و گداز آوردہ است
(میں بے نیاز ہوں لیکن تیرے در پر ضرورت لے کر آیا ہوں، سوز و گداز کا تحفہ لے کے آیا ہوں)
اقبال اس بے نیازی کے ساتھ کہ وہ دنیا کے سامنے سر نہیں جھکاتے، امت اسلامیہ کے سامنے دو زانو بیٹھ کر التماس کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو پہچان، اپنے آپ کی جانب لوٹ اور قرآن کی بات سن:
ز آسمان آبگون یم می چکد بردل گرمم دما دم می چکد
(آسمان سے ندی کی طرح پانی برس رہا ہے میرے گرم دل پر دم بہ دم برس جاتا ہے)
من ز جو باریک تر می سازمش تا بصحن گلشنت اندازمش
(میں اس سے چھوٹی نہر بنا لیتا ہوں تاکہ اسے تیرے گلشن میں بہا سکوں)
یہ بات ان کے آخری اشعار اور آخری بحث تک جاری رہتی ہے۔ اگر ہم اشعار پڑھنا چاہیں تو بحث کی شکل ہی بدل جائے گی اور کافی وقت لگ جائے گا۔
اقبال، مشرق کا بلند اقبال ستارہ
تو یہ ہمارے اس عزیز اقبال کی شخصیت کا ایک خلاصہ اور خاکہ ہے جو بلاشبہ مشرق کا بلند اقبال ستارہ ہے۔ اگر ہم اقبال کو اس لفظ کے حقیقی معنی میں مشرق کا بلند ستارہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ جناب سعید صاحب(21) فرما رہے ہیں کہ ستارۂ مشرق، ٹھیک ہے۔ سعیدی صاحب ایران کے ان سب سے قدیمی افراد میں سے ایک ہیں جو اقبال اور اقبال کے کلام سے آشنا ہوئے اور وہ خود فرماتے ہیں کہ میں اقبال کی فکر سے زندہ ہوا ہوں۔
امت مسلمہ پر اقبال کا عظیم حق
بہر حال ہمیں امید ہے کہ ہم اقبال کے حق کو پہچان سکیں اور اس چالیس پچاس برس کے دوران اقبال کی شناخت میں اپنی قوم کی تاخیر کا ازالہ کر سکیں۔ میرے خیال سے اقبال کی وفات 1318 ہجری شمسی مطابق 1937 میں ہوئی اور اس وقت سے اب تک یعنی اقبال کی وفات کے بعد سے آج تک کا جو ایک طویل عرصہ گزرا ہے، اس میں اگرچہ اقبال کے نام سے اور ان کی یاد میں نشستیں ہوئیں، کتابیں لکھی گئیں اور باتیں کی گئیں لیکن سب اجنبیت کے ساتھ اور دور سے ہوئیں اور ہماری قوم اقبال کی حقیقت، اقبال کی روح اور اقبال کے عشق سے بے خبر رہی ہے، اس کی ان شاء اللہ تلافی ہونی چاہیے۔ جو لوگ اس کام سے تعلق رکھتے ہیں، جیسے شعراء، مقررین، مصنفین، جرائد اور متعلقہ سرکاری ادارے وزارت ثقافت و اعلی تعلیم، وزارت تعلیم و تربیت اور وزارت اسلامی ھدایت، ان میں سے ہر ایک ان شاء اللہ اپنے اپنے طور پر کوشش کرے کہ اقبال کو اس طرح زندہ کرے جیسے وہ ہیں اور ان کے کلام کو نصاب کی کتابوں اور دیگر کتابوں میں شامل کریں۔ ان کی کتابوں اور اشعار کو الگ الگ شائع کریں، اسرار خودی کو علیحدہ، رموز بے خودی کو علیحدہ، گلشن راز جدید کو علیحدہ، جاوید نامہ کو علیحدہ۔ پاکستان میں کسی حد تک کام ہوا ہے لیکن افسوس کہ پاکستان میں عوام ان الفاظ و اصطلاحات سے صحیح طور پر فائدہ نہیں اٹھا سکتے کیونکہ وہاں پر فارسی پہلے کی طرح رائج نہیں ہے۔ ہمیں امید ہے کہ خلا بھی بھرے گا اور ہمارے پاکستانی بھائی، جو یہاں موجود ہیں اور اسی طرح بر صغیر ہندوستان کے تمام ادباء اپنا فرض سمجھیں کہ فارسی زبان کے سلسلے میں جو خیانت آمیز سیاست کی گئی ہے اس کے مقابلے میں کھڑے ہوں گے، اقدام کریں گے اور فارسی زبان کو جو عظیم اسلامی ثقافت کا ذریعہ ہے اور خود اسلامی ثقافت کا بڑا حصہ فارسی زبان میں اور فارسی زبان پر منحصر ہے، بر صغیر ہندوستان میں جہاں پر مسلمان بنیادی عنصر ہیں، رائج کریں گے۔ ہمارے خیال میں خاص طور پر پاکستان میں یہ کام تیزی کے ساتھ ہونا چاہیے اور خود ہمارے ملک میں بھی مختلف اشاعتی امور جو انجام نہیں پائے، انجام پانے چاہیے۔ ہنرمند، اقبال کے کام پر فنکاری دکھائیں، گلوکار ان کے شعروں کو پڑھیں، ان پر دھنیں تیار کریں اور انھیں پھیلائیں اور ان شاء اللہ ہمارے جوانوں اور بوڑھوں کی زبانوں اور دلوں میں پہنچا دیں۔ ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال ہمیں توفیق عطا کرے گا کہ ہم اپنی حد تک امت مسلمہ پر اقبال کے عظیم حق کو ادا کر سکیں۔ گفتگو طولانی ہو جانے پر معذرت خواہ ہوں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
(1) علامہ اقبال کے 108ویں یوم پیدائش کی مناسبت سے تہران یونیورسٹی میں انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کی پہلی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔
(2) تہران یونیورسٹی کی ادب اور ہیومن سائنسز، بشریات کی فیکلٹی کے سربراہ سید جلال الدین مجتبوی
(3) کتاب "پس چہ باید کرد؟" سے ماخوذ
(4) ڈاکٹر محمد فرہادی
(5) زبور عجم، حصۂ دوم، شمارہ 54
(6) تین جلدوں پر مشتمل علامہ اقبال کی سوانح حیات، مصنفہ جاوید اقبال
(7) بحار الانوار، جلد 64، صفحہ 307
(8) اسرار خودى، مثنوى اوّل
(9) اسرار خودی
(10) اسرار خودى، مثنوى دوّم
(11) اسرار خودى، مثنوى دوّم
(12) اسرار خودى، مثنوى نہم
(13) اسرار خودى، مثنوى چہارم
(14) سیّد محمّد اکرم
(15) پاکستان کا دو روزہ دورہ (1986/1/13)
(16) اسرار خودى، مثنوى چہارم
(17) رموز بىخودى، مثنوى بیست و یکم
(18) رموز بى خودى، مثنوى نہم
(19) سورۂ حجرات، آیت 13
(20) پیام شرق
(21) معروف ایرانی اقبال شناس سید غلام رضا سعیدی