اگر لوگ اسلامی اخلاق سے آراستہ ہوتے تو یزید، ابن زیاد، عمر سعد اور دوسرے افراد، یہ المیہ انجام نہیں دے سکتے تھے۔ اگر اتنے پست نہ ہوئے ہوتے، تو حکومتیں، چاہے وہ کتنی ہی فاسد کیوں نہ ہوتیں، کتنی ہی بے دین اور ظالم کیوں نہ ہوتیں، اتنا بڑا المیہ انجام نہ دے سکتیں۔
امام زین العابدین علیہ السلام تین کردار ادا کر رہے تھے۔ دو کردار ان کے اور بقیہ ائمہ علیہم السلام کے درمیان مشترک ہیں۔ اسلام اور اسلامی معاشرے کے سلسلے میں اپنی امامت کے ڈھائي سو سالہ عرصے میں ائمہ علیہم السلام جو اہم فریضہ ادا کر رہے تھے، ان میں سے ایک اسلامی معارف، اسلامی احکام، اسلامی فقہ کی تشریح اور اسلام پر مسلط کیے جانے والے انحرافات، تحریف اور کجی سے اس کی حفاظت تھی اور دوسرا، اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے راہ ہموار کرنا تھا، ایک ایسا الہی معاشرہ جس کا انتظام حکومت علوی کے تحت چلایا جائے۔
امام زین العابدین علیہ السلام پر اپنی امامت کے دوران ایک دوسرا فریضہ، واقعۂ عاشورا کو زندہ رکھنے کا بھی تھا اور یہ بھی ایکی درس ہے۔ واقعۂ عاشورا، ایسا واقعہ تھا جو اس لیے رونما ہوا تاکہ تاریخ، آئندہ نسلیں اور آخری زمانے تک کے مسلمان اس سے درس حاصل کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی
قافلہ لوٹ کر مدینے آیا۔ مردوں میں فقط امام زین العابدین بچے تھے۔ آپ کے علاوہ وہ بیبیاں تھیں جنہوں نے اسیری برداشت کی اور غم اٹھائے۔ امام حسین ساتھ نہیں تھے۔ یہاں تک کہ شیر خوار بچہ بھی قافلے میں اب نہیں تھا۔ اگر یہ لوگ نہ گئے ہوتے تو سب زندہ ہوتے لیکن حقیقت فنا ہو جاتی، روحیں ختم ہو جاتیں، ضمیر مردہ ہو جاتے، پوری تاریح میں عقل و منطق مٹ جاتی اور اسلام کا نام تک باقی نہ رہتا۔