قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج عدلیہ کے سربراہ اور عہدہ دارو‎ں سے ملاقات میں قانون پر عمل آوری ساتھ عدل و انصاف کے قیام اور ترویج کو اس شعبے کا اہم ترین فریضہ قرار دیا اور ملک کے حالیہ واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جملہ مسائل کو قانونی معیاروں کے مطابق حل کیا جا سکتا ہے اور دونوں فریقوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی حلقے، کارکن اور شخصیات کو چاہئے کہ عوام کے جذبات برانگیختہ کرنے اور ان کے در میان خلیج پیدا کرنے سے پرہیز کریں۔
اس ملاقات میں سات تیر تیرہ سو ساٹھ ہجری شمسی مطابق اٹھائیس جون انیس سو اکاسی عیسوی کے سانحے کے شہداء کے اہل خانہ بھی موجود تھے۔ قائد انقلاب اسلامی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے سات تیر کے تاریخی واقعے کے شہدا بالخصوص آیت اللہ ڈاکٹر بہشتی شہید کو یاد کیا اور فرمایا: اس سانحے کی سب سے اہم بات اسلامی نظام اور انقلاب کے اعلی اہداف کی راہ میں متعدد سیاسی شخصیات، اراکین پارلیمنٹ، وزرا، اعلی عہدہ داروں اور با اثر شخصیات کی قربانی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ اس قتل عام کی سازش کا مقصد اسلامی انقلاب کو اہم شخصیات اور چنندہ افراد سے محروم کر دینا تھا لیکن دشمن کے اندازے کے برخلاف اس قتل عام کے بعد بھی اسلامی انقلاب پر ضرب لگنا تو دور، اس سے عوام اور نطام کا رابطہ اور بھی مستحکم ہو گیا۔
آپ نے اسلامی عدالتی نظام کی تشکیل اور اسلامی انقلاب میں آیت اللہ بہشتی شہید کے نمایاں کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: گزشتہ تیس برسوں بالخصوص پچھلے دس سالوں کے دوران جس میں جناب شاہرودی نے عدلیہ کے سربراہ کے فرائض انجام دئے، عدلیہ کی سطح پر بڑے اہم کام پورے ہوئے ہیں جس کے لئے جناب شاہرودی اور دیگر اعلی حکام کی قدردانی کی جانی چاہئے۔ آپ نے قیام عدل کے سلسلے میں عدلیہ کے اہم ترین فریضے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: عدل و انصاف کا معیار قانون پر عملدرآمد ہے، اگر معاشرے میں ہر عمل کا معیار قانون قرار پائے تو انصاف کا قیام بھی ہو جائےگا۔ قائد
انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ عدل و انصاف کا قیام بہت دشوار کام ہے اور اس کے لئے بڑے وسیع پیمانے پر ہمہ جہت کوشش کرنے کی ضرورت ہے، معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کے لئے بنیادی کوششوں کے ساتھ ہی اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور عزم راسخ کی ضرورت ہے، یہ جذبہ عدلیہ کے شعبے میں عام ہونا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے قیام عدل کے راستے کی رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: عدل و انصاف کے نفاذ کے راستے کی سب سے بڑی دشواری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب سامنے طاقتور اور استبدادی عناصر ہوں، ان کے مقابلے میں استقامت و پائیداری سے کام لینا چاہئے اور صرف اللہ تعالی اور قانون کو مد نظر رکھنا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک میں صدارتی انتخابات کے بعد رونما ہونے والے واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے قوانین کو مسائل کے حل کا واحد راستہ قرار دیا اور فرمایا: ایسے معاملات میں عوام بالخصوص نوجوانوں کے جذبات برانگیختہ کرکے انہیں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا نہیں کرنا چاہئے کیونکہ الگ الگ نظریات کے حامل ہونے کے باوجود ایرانی عوام متحد ہیں اور ان کا اپنے نظام سے گہرا رشتہ ہے۔ آپ نے فرمایا: انتخابات میں عوام کی وسیع شرکت، اسلامی نظام پر ان کے اعتماد کی غمازی کرتی ہے۔ آپ نے لا قانونیت کے نتیجے کو قانون پر عمل آوری سے زیادہ تلخ قرار دیا اور فرمایا: اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ملت ایران، مومن، آگاہ اور میدان عمل میں وارد ہونے کے لئے آمادہ قوم ہے اور اسے اپنے نظام حکومت سے کوئی شکایت نہیں ہے، یہ سیاسی ش‍خصیات اور خواص ہیں جنہیں اپنے برتاؤ اور بیانوں کے سلسلے میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے دونوں ہی فریقوں سے وابستہ سیاسی کارکنوں اور حلقوں کو ایک دوسرے کے جذبات بھڑکانے سے اجتناب کی نصیحت کی اور فرمایا: اگر قوم اور سیاسی شخصیات کے مابین اتحاد و یکجہتی رہے تو عالمی بد خواہوں اور ظالم و مداخلت پسند سیاستدانوں کے وسوسے بے اثر رہیں گے۔ آپ نے بعض یورپی اور امریکی حکام کے مداخلت پسندانہ بیانوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ حکام ایران کے سلسلے میں گھٹیہ بیان دیتے ہوئے اس انداز سے بات کرتے ہیں کہ گویا سارے مسائل حل ہو چکے ہیں، صرف ایران کا مسئلہ باقی بچا ہے، لیکن وہ اس بات سے غافل ہیں کہ اپنے سیاسی موقف کی شکل میں وہ جہاں بھی قدم رکھیں گے وہ جگہ ملت ایران کی نظر سے نجس ہوگی۔ آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ملت ایران دانشمند اور تجربہ کار ہے، اس طرح کی جانبداری کے برعکس نتائج برآمد ہوں گے کیونکہ آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران اور اس وقت جب ملت ایران کے خلاف جرائم انجام دئے گئے، جب اس کے گھروں کو بموں اور میزائلوں سے مسمار کیا گيا حتی کیمیاوی بم کا استعمال کیا گيا، ان حکومتوں نے کوئی بیان نہیں دیا بلکہ ملت ایران کے دشمن کی مدد کی۔
قائد انقلاب اسلامی نے افغانستان، عراق، پاکستان اور فلسطین کے عوام کے ساتھ امریکا اور بعض یورپی حکومتوں کے بے رحمانہ سلوک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہمدردی اور انسان دوستی ان حکومتوں سے بعید ہے، یہ اگر آج ایران کے اندر عوام یا بعض افراد کی طرفداری کر رہی ہیں تو ان کا اصلی ہدف عیاں ہے اور عوام کو بھی اس چیز کا بخوبی اندازہ ہے۔ آپ نے فرمایا: اگر اسلامی انقلاب سے قوم کو ملنے والا اتحاد اور محکم جذبہ محفوظ رہے تو دشمنوں کا عناد بے اثر رہے گا اور اس سے ملت ایران کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
اس ملاقات میں عدلیہ کے سربراہ آيت اللہ شاہرودی نے بھی دسویں صدارتی انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت کو دینی جمہوریت کا ایک اور زریں باب قرار دیا اور واضح اکثریت سے ڈاکٹر احمدی نژاد کے عہدہ صدارت کے لئے دوبارہ انتخاب پر مبارکباد پیش کی اور ساتھ ہی انیس جون کو نماز جمعہ میں دئے گئے قائد انقلاب اسلامی کے اہم ترین خطبوں کی قدردانی کی اور گزشتہ دس برسوں کی عدلیہ کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کی۔