بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس بات پر مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ کی یونیورسٹی، اس معروف اور پر افتخار یونیورسٹی میں آنے کا موقع ملا۔ افسوس کہ اس سے پہلے، صدارت کے دور میں بھی  اور اس کے بعد بھی آج تک یہاں آنے کا موقع نہ مل سکا۔ ہم نے کئی بار اس یونیورسٹی میں آنے اور یہاں کے طلبا سے ملنے کا پروگرام بنایا لیکن اپنے مسائل و مشکلات کی وجہ سے نہ آ سکے۔ خدا کا شکر ہے کہ آج یہ توفیق نصیب ہوئی اور میں آپ کی یونیورسٹی میں آیا۔

ایک بات شریف ٹیکنیکل یونیورسٹی کے بارے میں عرض کروں گا: اس یونیورسٹی کے تاریخچہ میں دو ممتاز خصوصیات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک خصوصیت علمی ہے اور دوسری انقلابی اور دینی ہے۔ یعنی آپ کی یونیورسٹی علمی کاوشوں کے میدان میں بھی ایک پیش قدم اور کامیاب یونیورسٹی سمجھی جاتی ہے اور انقلابی نیز دینی سرگرمیوں کے لحاظ سے بھی پیشرفتہ اور کامیاب یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔ یونیورسٹی کے سربراہ نے اشارہ کیا کہ اس یونیورسٹی کے کچھ شہدا بہت ہی مشہور و معروف ہیں جیسے شہید عباس پور، شہید وزائی، شہید شوریدہ اور خود شہید شریف واقفی جو انقلاب سے پہلے شہید ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک، ایک شہید ہے، لیکن ہر ایک ممتاز اور درخشاں شخصیت کا مالک بھی ہے۔ تعمیری جہاد، مسلط کردہ جنگ، پاسداران انقلاب کی ابتدائی تشکیل، اسی طرح انقلاب کے ابتدائی برسوں کی انقلابی اور سیاسی سرگرمیوں میں اس یونیورسٹی کی ممتاز ہستیاں موجود رہی ہیں۔ یعنی یہ وہ یونیورسٹی ہے جس نے دین اور انقلاب کے پیغام کو نمایاں طور پر قبول کیا اور اس کو طلبا، اساتید اور فیکلٹیوں کے سربراہوں تک پہنچایا۔ علمی لحاظ سے بھی یہ یونیورسٹی اعلی سطح پر ہے۔ میں اس سے پہلے اساتذہ کے درمیان تھا، وہاں جو اعداد و شمار پیش کئے گئے، ان میں سے بہت سے اعداد و شمار سے میں پہلے سے واقف تھا۔ عالمی علمی مقابلوں میں استعداد اور صلاحیتوں کی درخشندگی میں یہ یونیورسٹی بہت کامیاب رہی ہے۔ 

بنابریں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ کی یونیورسٹی، اس یونیورسٹی کے طلبا اور آپ کی اس یونیورسٹی کے اساتذہ دین اور علم کے اٹوٹ رشتے کے زندہ اور نمایاں مظاہر ہیں۔ اب کچھ لوگ بیٹھیں، باتیں بنائیں اور شور مچائیں کہ علم اور دین ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتے! ان کی سو گھنٹے کی تقریر کی وہ علمی تاثیر نہیں ہے جو آپ کی ایک گھنٹے کی موجودگی کا اثر ہے۔ اس لئے کہ آپ حاضر اور موجود ہیں۔ آپ کے روبوٹ بنانے کے وہ کارنامے، ریاضی کے مقابلوں میں دنیا میں آپ کا پہلے نمبر پر آنا۔ یہ آپ کا قیمتی سرمایہ ہے۔ یہ آپ کی علمی ہستیاں اور وہ آپ کا دینی سرمایہ ہے۔ اس وقت آپ کی یونیورسٹی کا ‍قرآن اور دین کا مرکز اور آپ کے دین اور ہنر و آرٹ کے مرکز کا کام ملک کی بہت سی یونیورسٹیوں سے زیادہ نمایاں ہے اور یہ مراکز دیگر یونیورسٹیوں کے مراکز سے زیادہ سرگرم اور فعال ہیں۔ ان میں بعض کاموں کی مجھے اطلاع ہے۔ بنابریں جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ " ادلّ الدلیل علی امکان شیء وقوعہ" یعنی کسی چیز کے امکان کی بہترین اور محکم ترین دلیل یہ ہے کہ وہ چیز معرض وجود میں آ جائے۔ جب ہم یہ بحث کرتے ہیں کہ یہ چیز ممکن ہے یا نہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ جس چیز کے امکان کے بارے میں ہم بحث کر رہے ہیں وہ موجود ہے تو بحث ختم ہو جاتی ہے۔ البتہ بعض لوگ ایسے ہیں جو اس کے بعد بھی بحث کو جاری رکھیں گے۔ دنیا میں صرف خیالی بنیادوں پر بحث کرنے والے بیکار لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ یہاں، وہاں بیٹھیں اور باتیں کریں۔ یہ بحث کریں کہ انقلابی  فکر، دینی رجحان اور دینی عمل علمی پیشرفت سے سازگار ہے یا نہیں! بہت خوب، بیٹھیں اور رات تک بحث کریں! اس یونیورسٹی کا وجود، یہاں اس علمی مرکز کا وجود اور یہاں آپ جیسے بہتریں طلبا اور آپ کے بہتریں اساتذہ کا وجود ان بحثوں کو بے سود، مہمل اور بے جا ثابت کر دیتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جب میں آپ جیسے طلبا سے ملتا ہوں تو میرے ذہن میں بہت سی باتیں ہوتیں ہیں۔ ہماری بہت سی باتوں کے اصلی مخاطب بھی آپ یعنی نوجوان نسل کے لوگ ہی ہوتے ہیں۔  جب "ہم" کہتے ہیں تو ہم سے مراد اسلامی جمہوری نظام میں ایک ذمہ دار عہدیدار کی حیثیت سے مراد میری ذات نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی "علی خامنہ ای" مراد ہوتا ہے بلکہ ایک طالب علم، ایک عالم دین اور وہ ذات مراد ہوتی ہے جو اسلامی، تاریخی اور سیاسی میدانوں میں علمی و فکری مسائل میں دلچسپی رکھتی ہے۔ البتہ ذمہ داری کا ماجرا اور مسئلہ الگ ہے۔ بہرحال میرے اصلی مخاطب نوجوان ہیں اور نوجوانوں میں بھی ذہین، جینئس، اہل علم و دانش، صاحبان ثقافت و معرفت، لکھنے پڑھنے والے، کہنے سننے والے  اور آگے بڑھنے والے طلبا ہیں۔ البتہ حکومتی ذمہ داریوں کا حجاب ان میں سے بہت سی باتوں کو روک دیتا ہے اور ہم خود بھی اس حجاب کو ہٹا کے سخن دل کے اس مرکزی نقطے تک نہیں پہنچ سکتے۔ بنابریں کہنے کے لئے باتیں بہت زیادہ ہیں اور ہمارے ایک مشہدی شاعر کے بقول "یک سینہ حرف، موج زند در دہان ما" (یعنی ہمارے سینے میں باتوں کا یک سمندر موجزن ہے۔)

چونکہ میں چاہتا ہوں کہ جہاں تک ممکن ہو میری تقریر مختصر ہو تاکہ اس کے بعد آپ کے مکتوب سوالوں کو وقت دیا جائے اور میں آپ کے سوالوں کا جواب دوں، اس لئے میں نے ایک سو فیصد طلبا کا موضوع مد نظر رکھا۔ یہ موضوع طلبا کی تحریک ہے جس کو طلبا کی بیداری اور طلبا کا احساس ذمہ داری قرار دینا زیادہ بہتر ہوگا۔ یہ بہت اہم موضوع ہے۔ سو فیصد طلبا کا موضوع ہے۔ اس کو سو فیصد طلبا کا موضوع کیوں کہتے ہیں؟ اس لئے کہ ممکن ہے کہ طلبا میں بہت سے احساسات، خواہشات و مطالبات اور جذبات ایسے ہوں جن کا طالب علمی کی خصوصیات سے  براہ راست کوئی تعلق نہ ہو۔ مثال کے طور پر روزگار کی فکر ہے۔ شاید ایسا کوئی طالب علم نہ ملے جسے روزگار اور اپنے مستقبل کی فکر نہ ہو۔ لیکن طالب علم کی یہ کیفیت اس کی طالب علمی سے کوئی تعلق نہیں رکھتی بلکہ یہ کیفیت ہر نوجوان میں ہوتی ہے چاہے طالب علم ہو یا نہ ہو اس کو یہ فکر ہوتی ہے۔ یا مثال کے طور پر شادی کا مسئلہ ہے، البتہ یہ حاضرین کی اکثریت کی دلچسپی کا مسئلہ ہے۔ ہر طالب علم چاہے لڑکا ہو یا لڑکی، اس کے اندر اس کی فکر اور خواہش ہوتی ہے۔ اس لئے کہ یہ زندگی کا مسئلہ ہے لیکن  یہ فکر طالب علمی کا لازمہ نہیں ہے۔ لیکن جس چیز کو ہم 'طلبا کی بیداری' کہتے ہیں اور طالب علموں کے ساتھ ہی دوسرے طبقات میں بھی جو نام رائج ہے وہ 'طلبا کی تحریک' ہے۔ یہ تحریک طالب علموں کے طبقے سے مخصوص ہے۔ یعنی ہر نوجوان سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ یونیورسٹی کے ماحول میں قدم رکھنے سے پہلے، نوجوانوں سے تعلق نہیں رکھتی۔ بلکہ اس کا تعلق یونیورسٹی میں طالب علمی  میں گزرنے والے چار سال پانچ سال اور چھے سال کی مدت سے ہے۔ اس مدت سے تعلق رکھتی ہے جو آپ یونیورسٹی میں گزارتے ہیں۔ یہ سامنے موجود حقیقت ہے۔

طلبا کی تحریک بلکہ یہ کہیں کہ 'طلبا کی بیداری' کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ یہ ایسی چیز بھی نہیں ہے جو ایران سے مخصوص ہو۔ اس لئے کہ جیسا کہ ہم نے کہا، یہ یونیورسٹی کے ماحول سے تعلق رکھتی ہے۔ اس بیداری کی کچھ خصوصیات ہیں۔ اس میں کچھ محرکات ہوتے ہیں جن کے نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ اگر ہم ان خصوصیات کو سمجھ جائيں تو ان سے، اس ماحول، ملک اور سماج کے لئے ایک اہم مالامال اور سرشار خزانے کے عنوان سے کام لیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر ان کو اچھی طرح نہ سمجھا جا سکے تو ممکن ہے کہ یہ سرمایہ ضائع ہو جائے۔ بالکل اس دولت و ثروت کی طرح جس کی آپ کو اطلاع نہ ہو یا جس کی افادیت سے آپ واقف نہ ہوں۔ اس سے بدتر بات یہ ہے کہ یہ ایک ایسی دولت و ثروت ہے جس کے مالک آپ ہیں اور آپ کو پتہ نہیں ہے لیکن ایک چور اور فریبی کو معلوم ہے کہ یہاں ایک خزانہ پوشیدہ ہے اور اس سے یہ کام لیا جا سکتا ہے۔ لہذا وہ آتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ یہ دوہرا نقصان ہے!

سب سے  پہلے خود طالب علموں کا، دوسرے طالب علموں کے امور کے ذمہ دار عہدیداروں اور یونیورسٹیوں کا اور تیسر ے ملک کے حکام کا پہلا فرض یہ ہے کہ طالب علموں کی اس تحریک یعنی طلبا کی بیداری، یا اس کو جو نام بھی دیں، اس کی شناخت حاصل کریں کہ یہ کیا ہے۔ یونیورسٹیوں کے طلبا کی اس تحریک کا سرچشمہ اور خصوصیات کیا ہیں۔ طالب علموں کی عمر، ان کی توانائی، نوجوانی کی طاقت اور وہ علم و دانش جن سے طالب عالم اس دور میں واقف ہوتا ہے، چاہے وہ علمی و سائنسی معلومات ہوں، سیاسی معلومات ہوں یا سماجی امور کی اطلاعات ہوں، طالب علم کا زندگی کی بندشوں اور روٹی کپڑے کی مشکلات سے آزاد ہونا، اس کو نسبتا آزادی حاصل ہوتی ہے ، کہیں کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی، اسی کے ساتھ طلبا کا ایک خاص ماحول میں اکٹھا ہونا، معاشرے کے عام حالات سے ان  کا متاثر ہونا اور اس پر ان کا ردعمل، چاہے مثبت ہو یا منفی، یہ بہت ہی اہم اور اسی کے ساتھ ہی طلبا کی مبارک تحریک بیداری کے کلیدی عوامل ہیں۔ اگر ان سے صحیح استفادہ نہ کیا گیا یا غلط استفادہ کیا گیا تو اس کے بہت ہی خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔  طلبا کے ماحول اور ان کی تحریک یا طلبا کی بیداری کی خصوصیات کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ تقریبا ہر جگہ یکساں ہوتی ہیں۔ ان میں فرق ہر ملک اور ہر قوم  کی  ثقافت، تاریخ  اور بنیادی ڈھانچے کا ہوتا ہے لیکن بہر حال سبھی جگہ طلبا کی تحریک کی بعض باتیں مشترکہ ہوتی ہیں۔

اپنے ملک میں انقلاب سے پہلے، انقلاب کے دوران اور اس کے بعد طلبا کی تحریک کی خصوصیات کے بارے میں، میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔

پہلی خصوصیت، مصلحت اندیشی کے بجائے امنگوں کو اہمیت دینا ہے۔ امنگوں سے محبت اور ان سے لگاؤ ہے۔ تلاش معاش اور زندگی کی معمول کی سرگرمیوں میں بعض اوقات انسان کی آنکھوں کے سامنے ایسی رکاوٹیں آ جاتی ہیں جو امنگوں کے حصول کو ناممکن ظاہر کرتی ہیں، یہ بہت بڑا خطرہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات امنگیں فراموش کر دی جاتی ہیں۔ نوجوانوں کے ماحول میں امنگیں نمایاں، قابل فہم اور زندہ ہوتی ہیں اور ان کا حصول ممکن نظر آتا ہے اس لئے ان کے لئے کوشش کی جاتی ہے۔ خود یہ کوشش بہت مبارک ہے۔

دوسری خصوصیت صداقت، پاکیزگی اور خلوص ہے۔ طالب علموں کی تحریک میں دھوکہ، فریب، حیلہ اور وہ غیر انسانی طریقے جو عام طور پر زندگی میں رائج نظر آتے ہیں، بہت کم ہوتے ہیں یا فطری طور پر ہوتے ہی نہیں۔ معمول کی زندگی میں، سیاست، تجارت اور  سماجی لین دین میں ہر ایک بولنے میں اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ اس کو کیا ملے گا اور کیا ہاتھ سے نکل جائے گا۔ وہ کیا پاتا ہے یا کیا کھوتا ہے اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ کتنا چالاک، کتنا ہوشیار اور کتنا عقلمند ہے یا اس کے برعکس ہے۔  لیکن طالب علموں کی تحریک میں یہ بات نہیں ہے۔ یہاں کوئی بات، اچھی ہونے کی بنا پر، صحیح ہونے کی بنا پر، پرکشش ہونے کی بنا پر حقیقت کی بنیاد پر بیان کی جاتی ہے اور اس کے لئے کوشش کی جاتی ہے۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا ہوں کہ ہر طالب علم جو بھی بولتا ہے ایسا ہی ہے۔ نہیں، لیکن اکثر یہی ہوتا ہے۔

تیسری خصوصیت مختلف قسم کی سیاسی، جماعتی اور نسلی وابستگیوں سے آزادی ہے۔ طلبا کی تحریک میں یہ خصوصیت دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ وابستگی بھی وہی مصلحت اندیشی کا ہی ایک حصہ ہے۔ طلبا کی تحریک میں عام طور پر وہ محدودیتیں جو مختلف سیاسی اور غیر سیاسی تنظیموں میں لوگ اپنے لئے وضع کرتے ہیں، نہیں پائی جاتی ہیں اور نوجوانوں میں ان محدودیتوں کو برداشت کرنے کا مادہ بھی نہیں ہوتا۔ لہذا ماضی میں انقلاب سے پہلے کچھ پارٹیاں تھیں جو خاص ضابطے کے ساتھ کام کرتی تھیں لیکن  یونیورسٹیوں میں پہنچنے کے بعد یہ ضابطے ان کے ہاتھ سے نکل جاتے تھے۔ ان کے لئے یونیورسٹیوں میں کچھ لوگوں کو رکن بنانا تو ممکن تھا لیکن طالب علموں کے درمیان ان سخت اصول و ضوابط کا نفاذ ممکن نہیں تھا جو عام طور پر دنیا میں سیاسی جماعتوں میں پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ طالب علم سرانجام ایک مرحلے میں ریسرچ اور تحقیقات تک پہنچتا ہے۔ اس زمانے میں 'تودہ پارٹی' ایک سرگرم پارٹی تھی۔ بہت وسیع تنظیم تھی۔ روسیوں سے رابطے میں تھی بلکہ انہیں کے لئے کام کر رہی تھی۔ لیکن یونیورسٹیوں میں بہت سے جماعتی حقائق کو طالب علموں سے پنہاں رکھنے پر مجبور تھی۔

اس تحریک کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اشخاص پر منحصر نہیں ہوتی ہے۔ یعنی تحریک شریف ٹینیکل یونیورسٹی میں ہے، یہ آج بھی ہے، دس سال پہلے بھی تھی اور دس سال بعد بھی رہے گی۔ لیکن آپ نہ دس سال پہلے یہاں تھے اور نہ ہی دس سال بعد یہاں رہیں گے۔ یہ تحریک ہے لیکن افراد پر منحصر نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تعلق موجودہ ماحول اور فضا سے ہے۔

اس کی پانچویں خصوصیت جو بہت اہم ہے یہ ہے کہ ان باتوں کے مقابلے میں جو فطرت انسانی کی نگاہ میں بری ہیں، جیسے ظلم ، زور زبردستی، امتیاز، بے انصافی، دھوکہ و فریب ، دوغلا پن اور نفاق، یہ تحریک ان باتوں کی مخالف ہوتی ہے۔ ابتدائے انقلاب میں منافقین کے گروہ (ایم کے او) نے انقلابی ماحول سے فائدہ اٹھا کے نوجوانوں اور طالب علموں میں دراندازی کر لی تھی لیکن جب معلوم ہو گیا کہ اس گروہ کے اراکین منافق ہیں تو اکثریت اس سے پلٹ گئی۔ ان کو منافق کیوں کہا؟ اس لئے کہ ان کا دعوی یہ تھا کہ ان کی تنظیم کی بنیاد دینی آئیڈیالوجی پر ہے اور اسی بنیاد پر جدوجہد اور مستقبل بنانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کے عمل سے معلوم ہوا کہ ان کے یہاں دینی آئیڈیالوجی ہے ہی نہیں بلکہ ان کی فکر اشتراکی اور مارکسی ہے اور وہ بھی خالص مارکسی بھی نہیں ہے بلکہ ایک مخلوط بکھری ہوئی اشتراکی فکر ہے اور عمل میں ان کی سرگرمیاں اور کوششیں اقتدار پرستی پر استوار ہیں۔ ان کی پوری کوشش اقتدار اور حکومت پر قبضہ کرنے کے لئے تھی جس کے قیام میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ ایک تنظیم اور گروہ کے عنوان سے کوئی کردار نہیں تھا۔ اگر چہ ممکن ہے کہ ان کے بعض افراد کا عوام میں کوئی کردار رہا ہو۔ لہذا چونکہ ان کی منافقت معلوم ہو گئی اور یہ پتہ چل گیا کہ ان کا ظاہر و باطن ایک نہیں ہے، جو وہ بولتے ہیں اور جو ان کے دل میں ہے ان میں مطابقت نہیں ہے، ان کا دعوی اور ان کا کام ایک نہیں ہے، اس لئے طالب علموں نے ان سے منہ موڑ لیا۔

یونیورسٹیوں سے مخصوص اس تحریک کی چھٹی خصوصیت یہ ہے کہ اس تحریک میں صرف جذبات کی حکمرانی نہیں ہوتی بلکہ جذبات کے ساتھ ہی منطق، معقولیت، فکر، بصیرت، تعلیم اور سمجھنے کی خواہش اور تحقیق کا جذبہ بھی ہوتا ہے۔ البتہ ان میں کمی و زیادتی بھی ہوتی ہے کبھی کوئی چیز کم ہوتی ہے اور کبھی زیادہ ہوتی ہے۔

ہمارے خیال میں  طالب علموں کی تحریک یا طالب علموں کی بیداری کی یہ خصوصیات ہیں۔ جو لوگ اہل نظر ہیں وہ جستجو کریں اور دیگر خصوصیات تلاش کریں جو یقینا ہیں لیکن میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔

میرے عزیزو! اس بات کو جان لیجئے کہ طالب علموں کی تحریک نے انقلاب کے لئے بہت کام کیا ہے۔ انقلاب سے پہلے بہت سی عوامی مجاہدتوں میں طلبا کی شرکت نمایاں رہی ہے۔ وہ ان مجاہدتوں میں موجود اور سرگرم رہے ہیں۔ اس سلسلے میں میرا زیادہ مشاہدہ مشہد سے تعلق رکھتا ہے۔ مشہد میں طلبا کے ماحول میں میں سرگرم تھا۔ تہران آتا تھا تو یہاں بھی یہی تھا۔ مختلف یونیورسٹیوں میں جاتا تھا، طالب علموں کا مجھ سے رابطہ تھا اور میں قریب سے دیکھتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ موجودہ وقت ہمارے ملک کے بہت سے اعلی عہدیدار اس زمانے میں یونیورسٹیوں میں طالب علم تھے جو ہم سے رابطے میں تھے۔ انقلاب کے آغاز سے آج تک یہ کردار ختم نہیں ہوا ہے۔ جو لوگ طالب علموں کے امور سے تعلق رکھنے والے مختلف شعبوں میں ذمہ دار عہدوں پر رہے ہیں، اگر اس موضوع میں ان کی دلچسپی ہوتی تو شاید بہت زیادہ فوائد سامنے آتے۔ لیکن اس کے باوجود طالب علموں کی اس تحریک، بیداری اور طالب علمی کے محرکات کے بہت فوائد ہیں جن میں سے چند کا بطور نمونہ میں ذکر کروں گا۔

اس کا ایک نمونہ تہران یونیورسٹی کا واقعہ ہے کہ الحادی گروہوں نے آکے تہران یونیورسٹی پر قبضہ کر لیا۔ اس کے کمروں، اس کے ہالوں اور اس کے مراکز کو انقلاب اور اسلامی نظام کے خلاف سازشوں کے مراکز، اسلحے کے گودام اور جنگ کے مرکز میں تبدیل کر دیا۔ انھوں نے پورے ماحول کو یرغمال بنا لیا تھا، یعنی خوف و وحشت کی ایسی فضا قائم کر دی تھی کہ اس دور کے حکام ہی نہیں، اس وقت عارضی اور عبوری حکومت تھی، اس کے حکام میں اس قسم کے میدانوں میں اترنے کی ہمت اور طاقت و توانائی نہیں تھی، وہ تو اپنی جگہ پر تھے، بہت سے انقلابی افراد کے دلوں پر بھی خوف طاری ہو گیا تھا۔ خود تہران یونیورسٹی کے اندر انھوں نے بہت زیادہ خوف و وحشت کی فضا قائم کر دی تھی۔ میں بھول نہیں سکتا کہ انہیں سخت ترین ایام میں ایک دن میں خود یونیورسٹی میں تھا اور میرا ہفتے وار پروگرام تھا۔ تہران یونیورسٹی کی مسجد میں اس دن معمول کے مطابق میرا پروگرام تھا۔ میں پہنچا تو دیکھا کہ یونیورسٹی بالکل خالی ہے۔ مسجد میں پہنچا تو شاید بیس تیس سے زیادہ لوگ مسجد میں نہیں تھے۔ جب میں مسجد میں داخل ہوا تو کچھ لوگ آئے اور انھوں نے کہا کہ جناب! جلدی سے یہاں سے چلے جائيں۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ معلوم ہوا کہ انھوں نے یونیورسٹی پر قبضہ کر رکھا ہے اور مارنے اور قتل کر دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کے مقابلے میں کن لوگوں نے استقامت دکھائی؟ خود طلبا نے۔ طالب علموں کی بہت ہی پرجوش اور موثر فعالیت اور سرگرمی کی پہلی علامت اسی معاملے میں ظاہر ہوئی۔ یونیورسٹی میں نیم تعطیل کی کیفیت تھی لیکن طلبا، کچھ خالص انقلابی، زندہ دل اور پرجوش طالب علم آئے، یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور ان لوگوں سے اس کو پاک کر دیا۔ یہ واقعہ جو میں نے عرض کیا انیس سو اناسی کا تھا۔ یہ ایک نمونہ ہے۔

اگر طلبا کے تعلقات و روابط نہ ہوتے جو انقلاب کی برکت سے مستحکم تر ہو گئے تھے تو یہ کام اتنی اچھی طرح اور شفافیت کے ساتھ انجام نہ پاتا۔ اس زمانے میں طلبا انقلاب کے بنیادی شعبوں میں بھی فعال تھے۔ سپاہ پاسداران، تعمیری جہاد اور ملک کے مختلف شعبوں میں (یونیورسٹیوں کے طلبا فعال تھے) اس کے بعد جنگ شروع ہو گئی۔ یہ شہدا جن کا میں نے نام لیا، یہ سب طالب علم تھے۔ اہل علم  و تعلیم تھے۔ ان میں سے بعض کی استعداد اور صلاحیتیں بہت اچھی تھیں لیکن انھوں نے اپنے وجود کو انقلاب اور اس کی ضروریات کے لئے وقف کر دیا تھا۔ میں اپنے دوستوں میں ہمیشہ اس جملے کو دہرایا کرتا تھا اور اس وقت آپ کے درمیان کہتا ہوں کہ ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ کوشش کرے، وقت کی ضرورت کو سمجھے اور اس کو پورا کرے۔ اگر آپ تاریخ کے اس لمحے کی ضرورت کو نہ سمجھے، اس کو پورا نہ کیا، کل سمجھے تو وقت گزر گیا، اب دیر ہو چکی ہے! ایک پروڈکشن لائن کی طرح جو چلتی رہتی ہے، ٹیکنیشیئن، محنت کش، انجینیئر اور ماہرین سب اپنی جگہ پر موجود ہوتے ہیں۔ جب یہ پٹی آپ کے سامنے پہنچی تو جو کام آپ کے ذمہ ہے اس کو انجام دیں۔ اگر انجام نہ دیا تو اب وقت گزر گیا، اب وہ آپ کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اس کے بعد جو پروڈکٹ آئے گا وہ دوسرا ہوگا۔ تاریخ، زمانہ اور معاشرے کی ضرورتیں بھی اسی طرح ہیں۔ یہ وہ کام ہے جس کو نوجوان خاص طور یونیورسٹیوں کے طلبا اچھی طرح کر سکتے ہیں۔ وہ اس کو جان کے اور سمجھ کے اس کے مطابق کام کر سکتے ہیں اس لئے کہ ان کے اندر توانائی ہے، وہ فعال ہیں، ان کی آںکھیں کھلی ہیں، زبان گویا ہے۔ مستقبل کا تعلق بھی انہیں سے ہے۔ وہ اپنے لئے کام کرتے ہیں۔

مستقبل آپ کا ہے۔ آج انھیں نوجوانوں میں سے کچھ لوگ اہم عہدوں پر ہیں، حکومت میں مختلف شعبوں میں خدمت میں مصروف ہیں۔ طالب علمی کے زمانے کی سعی و جدوجہد، طلبا کی تحریک اور طلبا کی بیداری میں سرگرم فعالیت کا قابل افتخار ماضی اور یادیں ان کے ساتھ ہیں۔ یہ طلبا کی تحریک اور بیداری کی برکتیں ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ آج طالب علم ہیں، اگر اس ماحول میں، اس تحریک میں ان خصوصیات کے ساتھ جن کا میں نے ذکر کیا، اگر یہ خصوصیات نہ ہوں تو یہ کچھ اور چیز ہوگی اور اس کی  یہ برکات بھی سامنے نہیں آئيں گی۔ اگر آپ اس تحریک میں ان خصوصیات کے ساتھ کام کریں تو آپ کے انقلاب، آپ کے ملک، آپ کی تاریخ اور خود آپ کے لئے، دنیا میں بھی  اورعدل الہی کے روبرو بھی اس کی برکات نظر آئیں گی۔ اس صورت میں آپ بہت زیادہ اور عظیم کام انجام دیں گے۔ میں اس تحریک کو مثبت اور مبارک تحریک سمجھتا ہوں اور مجھے اس سے لگاؤ ہے۔ میں نے اس کے سرچشموں کو قریب سے پہچانا ہے۔ یہ سرچشمے پاک و طاہر ہیں۔ اس کی خصوصیات بھی وہی ہیں جو بیان کی گئیں۔ اگر امنگوں سے لگاؤ کی جگہ امنگوں سے بیزاری لے لے تو پھر یہ بات نہیں ہوگی بلکہ یہ کوئی اور چیز ہو جائے گی۔ اب چاہے اس کی شکل نئی ہو تب بھی اس کا باطن رجعت پسندی، بوسیدگی اور قدامت پرستی پر مبنی ہوگا۔ اس تحریک میں امنگوں کے لئے کام ہونا چاہئے۔ یعنی انصاف، مساوات، معنوی آزادی، سماجی آزادی، سماجی عزت و وقار اور دنیا میں قومی سربلندی کے لئے کام ہونا چاہئے۔ اگر یہ پاکیزگی اور خلوص کی کیفیت، سودے بازی اور رائج سیاسی بازیگری میں تبدیل ہو گئی، جو لوگ زیادہ عمر کے ہو گئے ہیں، وہ اس بازیگری سے اچھی طرح  واقف ہیں، لیکن یہ نوجوان جو نئے نئے اس میدان میں اترے ہیں، سمجھتے ہیں کہ یہ نئے کام ہیں اور کوئی نہیں سمجھتا، نہیں، یہ آزمائے ہوئے، پرانے حربے ہیں، اقتدار پرست پارٹیوں کے کام ایسے ہی ہوتے ہیں، اگر یہ سودے بازی اور بازیگری آ گئی تو پھر یہ تحریک وہ نہیں رہے گی۔

میں نے بہت سی طلبا تنظیموں کے اراکین سے جو میرے پاس آتے ہیں کہا ہے کہ طالب علموں سے میری محبت اور لگاؤ کی وجہ ان کی صداقت اور پاکیزگی ہے۔ ہر طالب علم میں یہ پاکیزگی اور صداقت محفوظ رہنی چاہئے۔ لیکن اگر فرض کریں کہ یہ کام عملا ممکن نہیں ہے کہ ایک ایک طالب علم میں، یہ صداقت، خلوص، اخلاص اور قلب و روح کی یہ پاکیزگی محفوظ رکھی جائے تو کم سے کم طلبا کی تحریک میں اس کو محفوظ رکھنا چاہئے۔

طلبا کی یہ تحریک اور یہ بیداری نہ ماضی میں اور نہ ہی حال میں، کبھی بھی اتنی ہمہ گیر نہیں رہی کہ یونیورسٹی کے سبھی طلبا اس میں شامل ہوں ۔ یونیورسٹی کے ماحول میں سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔ بعض میں فعالیت اور سرگرمی کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں ہمیں اپنا کام کرنے دو، ہمیں اپنی پڑھائی کرنے دو، ہم جلد سے جلد یہ ڈگری لے کے اپنے کام میں مشغول ہونا چاہتے ہیں! میری باتوں کا اطلاق ان پر نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ یہ بہت اچھے نوجوان ہوں۔ میں ان کی برائی کرنا نہیں چاہتا۔ لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو باتیں میں کہہ رہا ہوں یہ ان کے لئے نہیں ہیں۔ اس بیداری، اس تحریک، اس موومنٹ، طالب علموں کی اس تحریک میں یہ شامل نہیں ہیں۔ یونیورسٹی میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ طالب علمی سے زیادہ نوجوانی کے کاموں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ نوجوانی کے کاموں کے چکر میں رہتے ہیں اور وہ بھی 'الّا اللّمم' کے عنوان سے نہیں۔ 'لمم' جو قرآن میں کہا گیا ہے اس کا مطلب ہے کہ بعض اوقات انسان سے یونہی کوئی کام اتفاقیہ طور پر بغیر توجہ کے سرزد ہو جاتا ہے۔ کون ہے جس سے گناہ اور خطا سرزد نہ ہوتی ہو؟ سوائے ان انسانوں کے جو بہت اعلی درجے پر فائز ہیں۔ بنابریں بعض اوقات اتفاقیہ طور پر کوئی کام ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات ممکن ہے کہ کوئی انسان غلطی، غفلت اور جہالت کی وجہ سے کوئی نامناسب حرکت کر بیٹھے۔ اس کا حکم کچھ  اور ہے لیکن بعض افراد ہیں کہ یہ حرکت، خطا اور نامناسب اقدام ان کا معمول کا کام ہوتا ہے۔ گویا ان کو ساری فکر اسی کی ہوتی ہے! یہ لوگ بھی میری بات سے تعلق نہیں رکھتے۔ البتہ ماضی اور انقلاب سے پہلے اس قسم  کے افراد زیادہ تھے۔ لیکن انقلاب آنے کے بعد اس قسم کے افراد کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ میری بحث ان لوگوں کے بارے میں ہے جن کے سامنے ہدف، امنگ اور احساس ذمہ داری ہے۔ طلبا کی تحریک انہیں افراد سے متعلق ہے۔ ورنہ وہ اگر کبھی کسی مظاہرے میں سامنے بھی آتے ہیں تو ان کی موجودگی مصنوعی، جھوٹی اور غیر حقیقی ہوتی ہے! بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ اسی قسم کے افراد جنہیں ان کاموں کے علاوہ کسی اور چیز کی فکر نہیں ہوتی، اجتماع میں بھی آتے ہیں۔ یعنی وہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ بھی موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ سنجیدہ امور اور امنگوں سے متعلق کام ایسے نہیں ہیں جن میں اس قسم کے افراد کچھ کر سکیں۔

بنابریں دیکھئے! طالب علموں کی تحریک میں ان خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔ مجھے یونیورسٹیوں کی مختلف قسم کی تنظیموں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنی ایک حیثیت اور حالت رکھتی ہے۔ میری باتیں، تنظیموں سے بالاتر اور ان تمام لوگوں سے تعلق رکھتی ہیں جن کے اندر جذبات و احساسات پائے جاتے ہیں البتہ وہ جذبات و احساسات جن کے لئے میں نے کہا کہ اس ماحول سے تعلق رکھتے ہیں اور بہت ہی اہم عناصر پر استوار ہیں جیسے نوجوانی، پاکیزگی، صداقت، توانائی، اصولوں اور امنگوں سے لگاؤ۔ ان خصوصیات کی حفاظت ضروری ہے۔ البتہ طلبا کی تحریک کے لئے  کچھ خطرات بھی ہیں جن سے ڈرنا اور پرہیز کرنا ضروری ہے۔

طلبا کی تحریک کے لئے ایک خطرہ  جیسا کہ میں نے عرض کیا، یہ ہے کہ نا پسندیدہ اور غلط عناصر اس پر قبضہ کرکے اس  سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ایک دور میں جب ہم بھی نزدیک سے ان کے کاموں کو دیکھ رہے تھے اور ان سے واقف تھے، بعض لوگ تھے جو یہ چاہتے تھے کہ طلبا کی تحریک ختم ہو جائے! جہاں بھی نوجوانوں کی کوئی تحریک بالخصوص یونیورسٹی طلبا کی تحریک ہوتی تھی، یہ اس سے منھ موڑ لیتے تھے، اس تحریک کو دیکھنا انہیں گوارا نہیں تھا۔ جب یہ دیکھتے ہیں کہ کوئي میدان ہے جہاں یونیورسٹی طلبا اور ملک کے نوجوان بولتے ہیں اور ان کی تحریک فیصلہ کن ہے تو پہلے سینے کے بل، بہت خاموشی اور چپکے سے اس طرح کہ کسی کو پتہ نہ چل سکے، پھر تھوڑا بلند ہوکے،  بہت معمولی سا ظاہر ہوکے اور اس کے بعد کھڑے ہوکے پوری طرح سامنے آکے ، میدان میں اترنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم بھی ہیں! اگر کچھ اقتدار پرست، بد نیت اور غلط عناصر جن کا ماضی خراب ہے، طلبا کی تحریک کی طرف آئيں، اس میں شامل ہو جائيں اور اس پر اپنے پنجے گاڑ دیں تو یہ بات خطرناک ہوگی ۔ طلبا کی تنظیموں اور انجمنوں کے اراکین جو میرے پاس آتے ہیں میں نے ان سے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ وہ خطرناک عناصر کون ہیں؟! چونکہ ممکن ہے کہ یہ تقریر نشر ہو، یہاں آپ کے سامنے نام نہیں لوں گا۔ لیکن میں نے انہیں ان کے نام بھی بتائے ہیں۔ بعض اوقات برے اور بد نیت لوگ پاک اچھے اور صاف نیت کے افراد اور اچھی تحریک سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس پر انسان کا دل کڑھتا ہے۔ اگر اس کا بس چلے تو یہ نہ ہونے دے۔ یہاں بھی یہی صورتحال ہے۔ یونیورسٹی طلبا کو ہوشیار رہنا چاہئے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کچھ افراد یونیورسٹیوں کے طلبا کا خیال رکھیں۔ اس سے مقصد فوت ہو جائے گا۔ خود طلبا کو اپنا خیال رکھنا چاہئے، ہوشیار رہنا چاہئے کہ بری نیت والے افراد اور عناصر، بری نیت والی تنظیمیں، بری نیت رکھنے  والے افراد کا کوئی مجموعہ برے ماضی کے مالک اور بدنام عناصر ان کے قریب نہ آ سکیں۔ اگر وہ کوئی اچھا کام کرنا چاہتے ہیں تو جائيں خود نیک کام کریں طلبا کی انجمن اور تحریک سے سروکار نہ رکھیں۔

طلبا کی تحریک کے لئے ایک اور خطرہ جیسا کہ میں نے عرض کیا، امنگوں سے دوری کا ہے۔

میرے عزیزو! دیکھئے! انقلاب سے برسوں پہلے ایک مجرمانہ واقعہ 16 آذر ( مطابق 6 یا 7 دسمبر) کو پیش آیا۔ ابتدائے انقلاب سے ایسا کام کیا جا سکتا تھا کہ سولہ آذر کے واقعے کو فراموش کر دیا جائے. اس لئے کہ بہت زیادہ حوادث رونما ہوئے تھے! لیکن نہیں، ملک کے حکام اور ملکی مسائل میں دلچسپی رکھنے والے چاہتے ہیں کہ اس دن کی یاد زندہ رہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس دن یونیورسٹی میں حق بات کی وجہ سے ایسا واقعہ رونما ہوا کہ بعد میں جلادوں کے محاذ نے نوجوانوں کے اسی ہدف کی وجہ سے، جو ایک اعلی ہدف تھا، ان سے مقابلہ کیا جو تین افراد کے مارے جانے پر منتج ہوا۔ اس دن کا مسئلہ کیا تھا؟ امریکا کی مخالفت۔ کس زمانے میں؟ اس زمانے میں جب امریکی سیاست، امریکی حکومت اور امریکا کے فوجی نیز انٹیلیجنس  کے عناصرملک کے تمام شعبوں پر مسلط تھے۔ اس ملک میں آشکارا اور خفیہ طور پر سب کچھ امریکا کے ہاتھ میں تھا۔ آج جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ امریکی اس بات پر کہ ایران اسلامی ان کی طرف نہیں جا رہا ہے انگارے چبا رہے ہیں، یہ اسی زمانے کی یاد کی وجہ سے ہے۔ اس لئے کہ یہ وہ جگہ تھی جہاں وہ کھڑے ہوکے پورے علاقے پر، عرب ملکوں پر ترکی وغیرہ پر فخر کے ساتھ نظر دوڑاتے تھے اور ان پر اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے تھے۔ اس لئے کہ وہ خود کو اس جگہ کا مالک سمجھتے تھے! اس بات پر بھی توجہ رکھیں: جغرافیائی لحاظ سے آپ کا ملک بہت ہی حساس مرکز میں واقع ہے۔ البتہ اس دور میں سوویت یونین کے وجود کی وجہ سے امریکیوں کے لئے اس کی اہمیت اور زیادہ تھی۔ آج سوویت یونین نہیں ہے۔ لیکن پہلی بات یہ ہے کہ وسطی ایشیا کے ملک ہیں جو بہت ہی اہم ہیں۔ دوسرے روس ہے جو مغرب اور بالخصوص امریکا کے لئے بہت اہم ہے۔ اس وقت روس زندگی اور موت کے درمیان نیم بے ہوشی کی حالت میں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر روس جو دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، دنیا کے حساس ترین علاقے میں اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا، طاقت و قدرت حاصل کر لی اور امریکا کے زیر اثر نہ رہا تو امریکا اور دنیا کے یک قطبی ہونے کے لئے کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ یعنی امریکیوں کے لئے وہی سابق سوویت یونین کی طرح ہو جائے گا۔ لہذا روس بھی اہم ہے۔ بنابریں آج اگر چہ سوویت یونین نہیں ہے، لیکن چونکہ وسطی ایشیا ہے، چونکہ روس ہے، چونکہ اس طرف عراق اور شام جیسے ممالک ہیں جو کسی زمانے میں سوویت یونین کے زیر اثر تھے اور آج امریکی  انہیں اپنے تسلط میں لینا چاہتے ہیں، لہذا اسلامی جمہوریہ ایران کی جغرافیائی اور جیوپولیٹیکل پوزیشن اس خطے میں منفرد اور بہت اہم ہے۔

امریکی دیکھ رہے ہیں۔ یہاں ان کے قدم جمانے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ حتی ایک معمولی سفارتخانہ، مفادات کا محافظ دفتر بھی نہیں ہے! آج حتی اس ملک میں امریکا کا کوئی کارندہ بھی نہیں ہے۔ ان کے مفادات کا محافظ دفتر سوئزرلینڈ کے سفارتخانہ کے پاس ہے۔ یہاں امریکیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ کوشش بھی کی ہے۔ ایک عرصے سے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ لیکن ہمارے حکام نے مزاحمت کی ہے اور اجازت نہیں دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ تہران میں مفادات کے محافظ دفتر میں تعینات ہوں۔ دراصل وہ چاہتے ہیں کہ خود کو فروخت کرنے والے عناصر سے رابطے کے لئے تہران کے بیچ میں ایک سیاسی اور انٹیلیجنس کا مرکز قائم کریں۔ یہ ان کا مقصد ہے! آج ان کی برہمی کی ایک وجہ وہ پوزیشن ہے جو انہیں انقلاب سے قبل یہاں حاصل تھی۔ ان حالات میں یونیورسٹی کے طلبا، امریکا کے اس وقت کے نائب صدر کے یہاں آنے پر برہم تھے اور انھوں نے اپنی برہمی کا اظہار سولہ آذر کو اس شکل میں کیا۔ آج اس واقعے کو تقریبا چالیس سال ہو رہے ہیں لیکن 16 آذر کا واقعہ اب بھی زندہ ہے۔

اسلامی انقلاب آیا اور اس نے ملک کا سیاسی نظام بالکل تبدیل کر دیا۔ سیاسی جہت ماضی سے یکسر مختلف ہو گئی۔ ایک خود مختار نظام، ایک دینی اور اسلامی نظام  اور ایک سو فیصد عوامی نظام اقتدار میں آیا ہے۔ ایران ان تمام لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا جو امریکا کے تسلط سے نالاں ہیں۔ بہت سی اقوام ہیں، ان کی تعداد کم نہیں ہے، جو ایران کے امریکا مخالف نعروں سے خوش ہوتی ہیں۔ میرے لئے اگر ممکن ہوتا تو ایسے ایسے نام لیتا کہ آپ کو تعجب ہوتا۔ مشہور اور بڑے ممالک ہیں جو اس بات پر کہ یہاں ایک ایسی قوم ہے جو پوری قوت سے امریکا کی تسلط پسندی کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہے، خوش ہیں، ان کے اندر خوشی کے جذبات ہیں اور وہ صراحت کے ساتھ یہ بات کہتے ہیں! اب ان حالات میں کچھ لوگ آئیں اور طالب علم کے عنوان سے سولہ آذر کی امریکا مخالف تحریک کے مقابلے میں کھڑے ہوں یعنی انتہائی کھوکھلے، کمزور، غیر منطقی اور غیر معقول بنیادوں پر امریکا کی طرف جھکاؤ پیدا کریں۔ یہ طلبا کی تحریک سے منھ موڑنا ہے۔ یہ طلبا کی تحریک نہیں ہے۔ بلکہ یہ کوئی اور چیز ہے۔ یہ یونیورسٹی طلبا کی تحریک کے برعکس ہے۔ امریکا کی مخالفت کے مسئلے کو بہت ہی معمولی، کمزور اور بے بنیاد جماعتی رجحانات کے قالب میں پیش کریں تاکہ یہ قضیہ ہی ختم ہو جائے۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی طلبا کی تحریک کو در پیش خطرات میں سے ہے۔ بنابریں طلبا کی تحریک کو در پیش ایک خطرہ، امنگوں سے دوری کا بھی ہے۔ یا مثال کے طور جب ملک میں سماجی انصاف کی بات ہو تو یونیورسٹیوں کے طلبا کو اس کی حمایت کرنا چاہئے۔ سماجی انصاف وہ چیز ہے کہ حتی  وہ افراد بھی جو سیاسی وجوہات یا گوناگوں محرکات کے تحت اس بات پر مصر تھے کہ اس کو زیادہ اہمیت نہ دی جائے وہ بھی اس کو نظر انداز نہ کر سکے اور سماجی انصاف کی بات کرنے پر مجبور ہو گئے۔  دنیا میں سامراجیوں، تسلط پسندوں اور عالمی لٹیروں کے علاوہ کوئی نہیں ہے جو سماجی انصاف کا مخالف ہو اور اس سے منہ موڑ سکے۔ ملک میں سماجی انصاف کا نعرہ پیش کیا جا رہا ہے، اس نعرے کی حمایت کون کرے؟ کس کو اس بارے میں دوسروں سے زیادہ سوچنا چاہئے؟ اس کے لئے کس کو کام کرنا چاہئے؟ کس کو سماجی انصاف کے نفاذ اور اس کے عملی ہونے کی راہوں کے بارے میں بحث و مباحثہ کرنا چاہئے اور اس بارے میں  سیمیناروں اور کانفرنسوں کا اہتمام کرنا چاہئے؟ یہ کام یونیورسٹیوں کے طلبا نہیں کریں گے تو کون کرےگا؟ بنابریں اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ یونیورسٹی طلبا کی تحریک اور طلبا کی بیداری مخالف سمت میں نہ جائے۔ لہذا طلبا کی تحریک کو در پیش خطرات میں سے ایک امنگوں کی فراموشی کا خطرہ ہے۔

طلبا کی تحریک کو در پیش ایک اور خطرہ ان کے معیار کا گر جانا اور سطحی ہو جانا ہے۔ میرے عزیزو! سطحی انداز میں سوچنے سے سختی سے پرہیز کریں۔ عمیق فکر اور گہرائی کے ساتھ سوچنا یونیورسٹی کے طالب علم کی خصوصیت ہے۔ جو بات بھی سنیں، اس پر غور و فکر کریں۔ اسلام میں یہ کیوں کہا گیا ہے کہ "تفکر ساعۃ خیر من عبادۃ سبعین سنۃ" ایک لمحے اور ایک گھنٹے کی فکر برسوں کی عبادت سے بہتر ہے، اس لئے کہ اگر آپ نے فکر کی تو آپ کی عبادت بھی معنی و مفہوم کی حامل ہو جائے گی، آپ کی زندگی با معنی ہو جائے گی، آپ کی مجاہدت با معنی ہو جائے گی۔ آپ اپنے دوستوں کو پہچانتے ہیں اور دشمنوں کو بھی پہچانتے ہیں۔ فرض کریں کہ کسی محاذ پر کچھ لوگ ایسے آ جائیں جو اپنے محاذ اور دشمن کے محاذ کا فرق نہ سمجھ سکیں۔ حیران و پریشان اپنے ہی گرد گھومتے رہیں۔ کبھی ادھر فائرنگ کریں کبھی ادھر فائرنگ کریں، کبھی اوپر کی طرف فائرنگ کریں اور کبھی اپنے ہی اوپر فائرنگ کر لیں! دیکھئے اگر فکر نہ ہو تو انسان اس طرح ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگ شور و غل مچاکے، ہلڑ ہنگامہ کرکے اور جھوٹے نیز بے بنیاد رنگا رنگ نعرے لگاکے طلبا کی انجمنوں اور ان کی تحریک کو اس سمت میں لانا چاہتے ہیں۔ یہ طلبا کی تحریک کے لئے خطرناک ہے۔ سوچنا چاہئے، غور و  فکر کرنا چاہئے اور غور و فکر کے ساتھ صحیح انتخاب کرنا چاہئے۔ اگر اس نے غلط انتخاب بھی کر لیا تو چونکہ صاحب فکر ہے اس لئے اس سے آسانی سے بات کی جا سکتی ہے۔ جو شخص اہل فکر نہیں ہے، وہ جو بھی انتخاب کر لے، اس کے انتخاب میں اگر غلطی ہو تو اس سے منطقی بات نہیں کی جا سکتی۔ وہ اپنی نادانی، جہالت اور تعصب میں گرفتار ہے، لیکن اگر کوئی اہل فکر ہو  اور اس سے کوئی غلطی ہو جائے تو کوئی خیرخواہ اس سے بات کرکے اس کو بتا سکتا ہے کہ اس سے خطا ہوئی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے۔ سطحی سوچ نہیں ہونی چاہئے۔ ہر سلوگن، ہر نعرے اور ہر بات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر سوچنا اور فکر کرنا چاہئے۔ تمام معاملات میں فکر بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ معقول اور عقلمند انسانوں سے فکر کی توقع رکھی جاتی ہے۔

یونیورسٹی طلبا کی تحریک کو در پیش ایک اور خطرہ پارٹیوں اور گروہوں کے دام فریب میں آنے کا ہے۔ اس بارے میں میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے۔ ہوشیار رہنا چاہئے، مختلف پارٹیوں اور گروہوں کے خطرناک آکٹوپس سے  بچنا چاہئے، ان کے دام فریب میں نہیں آنا چاہئے۔ اس لئے کہ اگر ان کے دام فریب ميں آ گئے تو وہ اس آزاد فکر رکھنے والے مجموعے اور تحریک کی مثبت خصوصیات سلب کر لیں گے اور اگر یہ ہو گیا تو پھر دشمنان انقلاب کے اختیار میں چلے جائيں گے۔ یہ اتنی خطرناک چیز ہوگی کہ زندگی، سرمایہ اور مستقبل سب کچھ ختم ہو جائے گا صرف حسرت رہ جائے گی۔

میری تقریر تھوڑی طولانی ہو گئی۔ آخر میں میں صرف یہ سفارش کروں گا کہ آپ حضرات نہج البلاغہ کا مطالعہ کریں۔ نہج البلاغہ بہت زیادہ بیداری اور ہوشیاری پیدا کرنے والی کتاب ہے۔ اس کا مطالعہ کرنے اور اس پر بہت زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اپنے جلسوں میں نہج البلاغہ اور امیر المومنین صلوات اللہ و سلامہ علیہ کے فرمودات کی بات کریں۔ اگر خداوند عالم نے توفیق عطا کی اور ایک قدم آگے بڑھے تو پھر صحیفہ سجادیہ کا مطالعہ کریں جو بظاہر صرف دعاؤں کی کتاب ہے لیکن نہج البلاغہ کی طرح یہ بھی درس، سبق، حکمت اور کامیاب زندگی کی رہنمائیوں کی کتاب ہے۔ بہت سی باتیں کہنے سے رہ گئیں لیکن چونکہ دوپہر کا وقت ہے اور زیادہ وقت بھی نہیں بچا ہے اور میں آپ کے سوالات کے جواب دینا چاہتا ہوں اس لئے اپنی بات یہیں پر ختم کرتا ہوں۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ