قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بدھ کے روز جنوبی علاقے دشت عباس میں مقدس دفاع سے متعلق ایرانی جوانوں کے فوجی آپریشن فتح المبین کی یادگار کا دورہ کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے انیس سو بیاسی میں انجام دئے جانے والے اس اہم ترین فوجی آپریشن کے شہیدوں کو یاد کرتے ہوئے ان کے لئے بلندی درجات کی دعا کی۔ حسب معمول ملک کے مختلف حصوں سے اس علاقے کی زیارت کے لئے جانے والے قافلوں کے لوگ بھی اس موقع پر موجود تھے جن سے قائد انقلاب اسلامی نے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں مقدس دفاع کے دور کی نوجوان نسل کے عزم و ارادے، فہم و فراست، پامردی و استقامت اور ایثار و فداکاری کی قدردانی کرتے ہوئے فرمایا کہ ملت ایران کی دنیا و آخرت کی خوشبختی کا واحد راستہ جذبہ ایمانی پر استوار شجاعت و بصیرت اور مستحکم عزم و ارادے کے ساتھ اسی راہ پر آگے بڑھتے رہنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مقدس دفاع کے فوجی آپریشن کے علاقے کے اپنے اس دورے کا ہدف جانبازان اسلام اور شہدائے عالی مقام کی استقامت و فداکاری اور نازک اور دشوار ترین حالات میں جنوبی علاقے خوزستان کے عوام کی جانفشانی اور ایثار و قربانی کی قدردانی کرنا قرار دیا اور فرمایا کہ مقدس دفاع کے دوران خوزستان کے عوام صف اول کے مجاہدین میں شامل تھے اور اسلامی مملکت ایران سے ان کی قلبی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ بعثی دشمن کے نسلی اور لسانی وسوسے بھی اس مستحکم رابطے کو کمزور نہیں کر سکے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مقدس دفاع کے فوجی آپریشنوں کے مقامات کو زیارت گاہوں سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ اس مقام پر ان کی آمد کا ایک اور مقصد ان زیارت گاہوں کے زائرین کی حوصلہ افزائی کرنا بھی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ (مقدس دفاع کے فوجی آپریشنوں کے مقامات کی زیارت کے لئے جانے کا) یہ قابل قدر اور با برکت سلسلہ راہیان نور سے موسوم قافلوں کی شکل میں کئی سال قبل سے شروع ہوا ہے جسے آگے بھی جاری رہنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ ملت ایران کو مقدس دفاع کے حساس، نازک، تاریخی اور مایہ ناز دور کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر آج کی نوجوان نسل بھی مقدس دفاع کے دور میں ہوتی تو اسی عزم و ارادے کے ساتھ میدان میں اترتی، آج بھی یہی نوجوان علم و دانش، سیاست، محنت و عمل، قومی یکجہتی اور بصیرت و دور اندیشی کے میدان میں اپنی شجاعت و پامردی ثابت کر چکے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی جمہوری نظام کے دشمن کا ہدف جنگ مسلط کرکے ملت ایران کی تحقیر کرنا اور اس کی سرزمین کے ایک ٹکڑے کو چھین لینا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اس وقت امریکا، سابق سویت یونین اور بعض یورپی ممالک جو انسانی حقوق کا دم بھرتے ہیں، سب نے خبیث بعثی دشمن کی مدد کی تاکہ وہ ایران کے اسلامی نظام کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائے لیکن اس قوم کے جوانوں نے اپنے ایمان و ارادے اور فداکاری و جاں نثاری کے ذریعے سامراجی طاقتوں کے منصوبوں کو نقش بر آب اور دشمن کو ذلیل و خوار کر دیا۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن بظاہر کتنا بھی بڑا اور طاقتور کیوں نہ ہو اسے عزم راسخ، دانشمندی، بصیرت، استقامت اور متانت و شجاعت کے ذریعے شکست دی جا سکتی ہے۔
آپ نے مقدس دفاع کے دور کی بنسبت موجودہ دور میں عالم اسلام کے اندر ملت ایران کے اثر و نفوذ اور قدرت و توانائی کو کئی گنا زیادہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس وقت دشمن کی سازشیں بہت زیادہ ہیں لیکن ملت ایران اپنی استقامت کے ذریعے ان سازشوں کو ناکام بنا دے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فکری و سیاسی جنگ کو فوجی جنگ سے زیادہ دشوار قرار دیا اور فرمایا کہ ملت ایران نے ثابت کر دیا کہ سیاسی میدانوں کی جنگ میں بھی اس کی بصیرت و استقامت فوجی جنگ کی بصیرت و استقامت سے کمتر نہیں ہے۔ آپ نے تمام میدانوں میں بلند ہمتی اور کثرت عمل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ ملت ایران استبدادی اور غیر ملکیوں کی مداخلت کے طولانی دور کی پسماندگی کو ختم کرے۔ آپ نے ملک کے نوجوانوں کو عالمی سطح پر کم نظیر قرار دیا اور فرمایا کہ ایسے نوجوانوں کا وجود ملک کے درخشاں مستقبل کی نوید ہے اور یہ نوجوان اللہ تعالی کے لطف و کرم سے وہ دن اپنی آنکھوں سے ضرور دیکھیں گے جب ملک علمی، سیاسی اور عالمی اثر و رسوخ کے لحاظ سے اس مقام پر پہنچ چکا ہوگا جو عظیم ملت ایران اسلامی مملکت ایران کے شایان شان ہے۔