قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے شہر قم میں زبردست اور تاریخی عوامی استقبال اور پھر دختر رسول حضرت معصومہ کے روضہ اقدس کی زیارت کے بعد روضے سے ملحقہ وسیع و عریض میدان میں ٹھاٹھیں مارتے عوامی اجتماع میں پہنچ کر جذبہ مودت کے اظہار پر شکریہ ادا کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں قم کو شہر علم و بصیرت اور وادی جہاد و مجاہدت قرار دیا اور فرمایا کہ طول تاریخ میں شہر قم جس طرح علوم اہل بیت پیغمبر علیہم السلام کا مرکز رہا ہے، عصر حاضر میں بھی اسی انداز سے اعلی ترین الہی تعلیمات و معارف کے سرچشمے کی حیثیت سے عالم اسلام کے مشرق و مغرب کو اپنے جید اور عظیم الشان علما کی مجاہدت و بصیرت کی برکتوں سے بہرہ مند کر رہا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے عصری تاریخ کے حساس اور نازک موڑ پر یعنی انیس سو ترسٹھ کے عاشور اور پانچ جون پر اہل قم کے لا فانی کردار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اہل قم نے اس تاریخی موڑ پر امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی حمایت کرکے معاشرے میں علماء کی تحریک کو حرکت عطا کر دی اسی طرح انیس سو ستتر میں بھی اپنی بصیرت و آگاہی کی مدد سے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی شان میں استبدادی شاہی حکومت کی گستاخی کی پيچیدہ سازش کی گہرائی کا بھرپر ادراک کرتے ہوئے وہ اپنے نوجوانوں کا خون دیکر اسلامی تحریک کے فروغ میں صف اول میں شامل ہو گئے اور اس شہر کو عظیم الشان اسلامی انقلاب کے سرچشمے میں تبدیل کر دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے شہر قم کے عوام کو مخلص، صداقت پسند، پاک و پاکیزہ اور مثالی بصیرت کا حامل قرار دیا اور فرمایا کہ اگر اہل قم کی بیداری نہ ہوتی تو خاص اہمیت کے حامل اس شہر کے خلاف تیار کی جانے والی دشمنوں کی سازشیں ناکام نہ ہوتیں۔ قائد انقلاب اسلامی کے بقول شہر قم عوام کی بیداری اور با برکت دینی علمی مرکز کے وجود سے جہاد و بصیرت کا سرچشمہ بن گیا ہے، اہل قم دینی علمی مرکز اور علماء کی قدر و قیمت کو جانتے ہیں اور حالیہ بتیس برسوں میں اسلام اور انقلاب کے دفاع کے میدانوں اپنے با برکت کردار کا لوہا منوا چکے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے بزرگ عالم دین آیت اللہ حائری مرحوم کے زمانے سے لیکر آیت اللہ بروجردی مرحوم کے دور تک قم کے دینی علمی مرکز میں نظر آنے والے عظیم علماء اور مراجع تقلید اور بعد کے دور میں بھی آیت اللہ گلپایگانی، آیت اللہ اراکی، آيت اللہ مرعشی اور آیت اللہ بہجت جیسی عظیم علمی شخصیات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج بھی قم کے علوم دینیہ کے مرکز میں ایسے عظیم اور بزرگ علماء و افاضل موجود ہیں کہ ان کے وجود کی برکت سے یہ دینی علمی مرکز مایہ برکت اور مظہر مجاہدت بنا ہوا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے مذہبی ترین شہر یعنی قم سے اسلامی انقلاب کی تحریک کے آغاز اور عظیم عالم و فقیہ کی حیثیت سے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی قیادت کو ملت ایران کے انقلاب کی دینی و مذہبی ماہیت کی علامت و ثبوت قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ انقلاب کے دشمنوں نے بھی ایران کے انقلاب کی دینی ماہیت کا بخوبی ادراک کر لیا اسی لئے وہ اس سعادت بخش ماہیت کو نشانہ بنانے اور نقصان پہچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ دنیا کی استبدادی طاقتوں نے عوام کے دینی جذبے اور وفاداری کی صفت کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر دینی ماہیت کا معاملہ نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ انقلاب کے ذمہ دار افراد بعض مراعات حاصل کرکے دشمنوں کے سامنے لچک دکھاتے لیکن اسلام، ظالم کے سامنے جھکنے کی اجازت ہرگز نہیں دیتا اور عدل و انصاف، آزادی و حریت، معنویت و روحانیت اور ترقی و پیشرفت کا مژدہ سناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نظام کے عہدہ داروں نے استعماری طاقتوں کے سامنے کبھی پسپائی اختیار نہیں کی اور آئندہ بھی دین کی برکتوں کے سائے میں اسلام و انقلاب کے دشمنوں سے ان کی مقابلہ آرائی جاری رہے گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے دینی حقائق کے انکار اور انہیں کمزور کرنے کے لئے عالمی سامراجی محاذ کی گوناگوں سازشوں کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ سلمان رشدی کا ماجرا، مغرب کی بعض دین مخالف فلمیں، اہانت آمیز کارٹون اور قرآن سوزی دین اسلام کے دشمنوں کی ناکام سازشیں ہیں تاہم ملک کے اندر بھی ان کے بعض پیروکار، بے راہروی، دین کے سلسلے میں لاابالی پن اور جھوٹی عارفانہ باتوں کی ترویج کے ذریعے عوام بالخصوص نوجوان نسل کے دینی عقائد کی بنیادوں کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی ضمن میں اپنے ماہر افراد کی تقویت اور ان کی صلاحیتوں کے استعمال، بصیرت میں روز افزوں اضافے اور الہی وعدوں پر ایمان و ایقان کو ملت ایران کے لئے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے اہم ترین اسباق قرار دیا اور فرمایا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ ) نے ہمیں تعلیم دی کہ اگر مومنانہ انداز سے پامردی دکھائی جائے اور تدبیر و تدبر سے کام لیا جائے تو نصرت الہی یقینا آپ کے شامل حال ہو گی۔
قائد انقلاب اسلامی کے بقول اسلامی نظام سے عوام کی وفاداری کو کمزور کرنا دشمن کی دوسری اہم سازش ہے۔ آپ نے فرمایا کہ دینی عنصر کے علاوہ بھرپور اور وسیع عوامی حمایت بھی اسلامی نظام کے حکام کی استقامت و پامردی کی بنیاد ہے اور یہی وجہ ہے کہ دشمن عوام کی وفاداری کو نشانہ بنا رہا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عوام کو مایوس کرنے کے لئے افواہیں پھیلانے، حکام بالخصوص مقننہ، مجریہ اور عدلیہ کے سربراہوں کی نسبت عوام میں بد گمانی پھیلانے، ملک کی کمیوں کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور ترقی و پیشرفت وک نظر انداز کرنے کو عوام کے اعتماد و وفاداری کا خاتمہ کرنے کے مقصد سے جاری اسلامی نظام کے دشمنوں کی ایک روش قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حالیہ بتیس برسوں میں دین پر ضرب لگانے اور عوام کے جذبہ وفاداری کو کمزور کرنے کی غرض سے جاری دشمنوں کی سازشیں، منصوبہ بندیاں اور سرمایہ کاری کی شکست یقینی رہی ہے اور آئندہ بھی اس طرح کے اقدامات اور منصوبے ملت و نظام کے دشمنوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے۔ قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ سال عاشور کے روز شر پسندی کے واقعے پر عوام کے فوری اور دانشمندانہ رد عمل کو سازشی عناصر کی ناکامیوں کے تسلسل کی مثال قرار دیا اور فرمایا کہ ان حقائق سے ثابت ہو جاتا ہے کہ عوام کا دینی جذبہ اور ان کی معرفت و وفارادی روز بروز زیادہ عمیق تر ہوتی جا رہی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ سال کے صدارتی انتخابات میں پچاسی فیصدی ووٹنگ کو اسلامی نظام پر اعتماد اور اس سے عوام کی وفاداری کو ظاہر کرنے والا قومی ریفرنڈم قرار دیا اور فرمایا کہ جھلائے ہوئے دشمن نے اس قومی شراکت کے اثرات کو محو کرنے کے لئے فتنہ انگیزی کی کوشش کی لیکن عوام اس فتنے کے سامنے ڈٹ گئے اور دشمن کو منہ کی کھانی پڑی۔ قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ سال کے فتنے کے خلاف عوام کی ہوشیارانہ اور دانشمندانہ کارکردگی کو ملک کو سیاسی و سماجی بیکٹیریا سے محفوظ بنا دینے والے ٹیکے سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ انتخابات کے بعد رونما ہونے والا فتنہ دشمنوں کی توقعات کے بالکل برخلاف ملت ایران کی مزید بیداری پر منتج ہوا۔ قائد انقلاب اسلامی نے سامراجی طاقتوں کی چالوں کا تجزیہ کرتے ہوئے علمائے دین سے عاری اسلام کی ترویج کی دشمنوں کی کوششوں کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ انہیں عوام کی تحریک اور بیداری میں علمائے کرام کے موثر کردار کا بخوبی اندازہ ہو گيا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ علمائے دین سے خالی اسلام کی ترویج کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں چنانچہ دشمنوں کی ان سازشوں کے سلسلے میں بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے دین کو سیاست سے الگ رکھے جانے اور سیاست سے عاری اسلام کے نظرئے کی ترویج کو دشمن کی ایک اور چال قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی نظام کا مقابلہ کرنے کے لئے دشمن کی جانب سے تیار کیا گيا روڈ میپ اور بنیادی منصوبہ ہمارے لئے بھی ایک روڈ میپ قرار پا سکتا ہے اور وہ اس طرح سے کہ جس نقطے پر بھی ہمیں دشمن کی یلغار بہت شدید دکھائی دے ہم اس پر اور زیادہ توجہ اور تاکید کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایران کے خلاف عائد کی جانے والی پابندیوں کا بھی ذکر کیا اور فرمایا کہ ایرانی قوم اور یہ ملک انقلاب کی کامیابی کے شروعاتی دور سے ہی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے اور اسے ان مسائل کا سامنا کرنے کی حکمت عملی معلوم ہے اسی لئے حالیہ دنوں میں عوام پر دباؤ ڈالنے اور انہیں اسلامی نظام سے بیزار کر دینے کی غرض سے تیار کی گئ پابندیاں بھی، جیسا کہ حکام اور عوام بار بار کہہ رہے تھے، عملی طور پر ناکام رہیں اور عوام کی زندگی پر ان کے منفی اثرات بہت زیادہ نہیں پڑ سکے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی سلسلے میں مزید فرمایا کہ انیس سو اسی کی دہائی میں سخت ترین حالات کا سامنا کرنے والی قوم اس وقت وسیع اور اہم علمی ترقی کی بنیاد پر اپنے مستقبل کے تئیں زیادہ پر امید ہے اور اسی لئے سامراجی طاقتوں کے مقابلے پر ڈٹی ہوئی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں عوام اور حکام کے طرز عمل میں بعض نکات کو ملحوظ رکھے جانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ اس ضمن میں قائد انقلاب اسلامی نے سب سے پہلے قومی اتحاد کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ عوام و خواص کو چاہئے کہ قومی اتحاد کے مسئلے کو پوری سنجیدگی سے لیں، اتحاد کی صرف باتیں کرنا کافی نہیں ہے، کیونکہ قومی اتحاد کے کچھ معیارات ہیں ان پر عمل ضروری ہے۔
مجریہ، مقننہ اور عدلیہ سے عوام و خواص کی یکجہتی میں روز افزوں اضافہ بھی ان نکات میں سے ایک تھا جن پر قائد انقلاب اسلامی نے تاکید فرمائی۔
جذبہ ایمانی کی تقویت، نوجوانوں کی فکری ضروریات کی تکمیل، ان کے سوالات کے تشفی بخش جوابات پر بھی قائد انقلاب اسلامی نے تاکید فرمائی اور دینی تعلیمی مرکز کے عمائدین کو اس کی جانب توجہ دینے کی دعوت دی۔ مولویت کے صحیح تعارف کے لئے علمائے کرام، روشن فکر حضرات اور باخبر لوگوں کی مساعی کی ضرورت پر قائد انقلاب اسلامی نے زور دیا اور بصیرت کی ترویج، دشمن کی شناخت، ملک کی علمی پیش قدمی میں سرعت اور عوامی مشکلات کے ازالے پر تاکید فرمائی۔ قائد انقلاب اسلامی نے عوامی مشکلات بالخصوص معاشی مسائل، بے روزگاری اور دیگر مسائل کے حل کی ضرورت پر بھی زور دیا اور فرمایا کہ بلدیہ، محکمہ پولیس اور دوسرے ایسے ادارے جو براہ راست عوام کے رابطے میں رہتے ہیں اپنے اقدامات سے عوام کی مشکلات کو حل بھی کر سکتے ہیں اور اسی کے ساتھ ہی ان کی ناراضگی کا باعث بھی بن سکتے ہیں لہذا انہیں اپنی کارکردگی کے سلسلے میں بہت محتاط رہنا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں شہر قم کے سلسلے میں عالمی سطح پر پائی جانے والی حساسیت اور اس شہر پر رکھی جانے والی خاص نظر کی تشریح کی اور فرمایا کہ عالم اسلام کا سب سے عظیم اور سب سے بڑا دینی علمی مرکز، زیارت گاہیں اور روحانی مقامات شہر قم کی قومی اور عالمی خصوصیات ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے شہر قم کی مشکلات اور ترقیاتی کاموں کے لحاظ سے پسماندگی کا بھی ذکر کیا اور فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے بعد اور خاص طور پر گزشتہ چند برسوں میں مشکلات کو حل کرنے کے لئے بہت وسیع کوششیں کی گئیں لیکن اب بھی بہت سی مشکلات باقی ہیں جنہیں زیادہ محنت اور مربوط کوششوں کے ذریعے حل کیا جانا چاہئے۔