جمعے کو انڈونيشيا کے نائب صدر نے اپنے وفد کے ہمراہ قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي سے ملاقات کي۔ قائد انقلاب اسلامي نے اس موقع پر اپني گفتگو ميں ناوابستہ تحريک کے اصولوں اور اس کي صلاحيتوں کي طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمايا کہ اس تحريک کے بانيوں کا مقصد صرف ايک نمائشي تنظيم کا قيام نہيں تھا بلکہ ايک موثر اور متحرک تحريک کا قيام ان کے مد نظر تھا اور آج اس مقصد کے احيا کي ضرورت ہے۔ آپ نے فرمايا کہ انڈونيشيا سميت جو اس تحريک کے بانيوں ميں سے ہے، تحريک کے رکن تمام ملکوں کو چاہئے کہ باہمي تعاون سے تحريک کي صلاحيتوں کو اجاگر کريں اور علاقائي نيز بين الاقوامي مسائل ميں موثر کردار ادا کريں۔
قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے مذہبی تصادم بالخصوص شيعہ اور سني مسلمانوں کے درميان تفرقہ اندازي کو خطرناک سازش قرار ديا اور فرمايا کہ اس قسم کے کام بعض طاقتوں کي حمايت اور ان کے زرخريد عناصر کے توسط سے انجام پاتے ہيں۔ آپ نے فرمايا کہ القاعدہ اور طالبان علاقے ميں امريکا کے اتحاديوں کي حمايت سے وجود ميں آئے ہيں اور امريکا ان کے مقابلے کے بہانے پاکستان اور افغانستان پر بمباري کر رہا ہے ليکن اس کا اصل مقصد ان ملکوں پر تسلط جمانا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے انڈونیشیا، مصر اور لیبیا میں نسلی اور مسلکی جنگ کی آگ بھڑکانے کی سازشوں کی طرف سے ہوشیار رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔
اس ملاقات میں انڈونیشیا کے نائب صدر جناب بوڈیانو نے تہران میں ناوابستہ تحریک کے کامیاب اجلاس پر خوشی ظاہر کی۔ انہوں نے انڈونیشیا اور ایران کی اقتصادی صلاحیتوں اور توانائیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تہران میں انجام پانے والے مذاکرات میں یہ اتفاق رائے ہوا ہے کہ دونوں ملکوں کے نجی سیکٹر کی تاجر برادری باقاعدہ حرکت میں آئے اور اقتصادی تعاون کی راہ ہموار کرے۔ انڈونیشیا کے نائب صدر نے عالمی مسائل میں وسیع اور زیادہ موثر کردار ادا کرنے کے لئے ناوابستہ تحریک کے اندر پائی جانے والی صلاحیتوں کی تعریف کی۔ جناب بوڈیانو نے انڈونیشیا میں نسلی اور مذہبی تنوع کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انڈونیشیا کی حکومت نے گوناگوں قومیتوں اور مسلکوں کے لئے پرامن بقائے باہمی کے سازگار حالات فراہم کرنے کی ہمیشہ کوشش کی ہے۔ انڈونیشا کے نائب صدر نے معاشی شعبے سے متعلق اپنے تحقیقی کام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں نے مزاحمتی اقتصاد کے تعلق سے حناب عالی کے نقطہ نگاہ کا مطالعہ کیا ہے جو مجھے بالکل نیا اور اہم نقطہ نگاہ محسوس ہوا۔