ملک کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز کے تقریبا ایک ہزار ممتاز طلبہ نے قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ ڈھائی گھنٹے تک چلنے والی اس ملاقات میں طلبہ نے اپنے مطالبات، تجاویز اور طلبہ برادری کے مسائل بیان کئے۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے طلبہ برادری کی مدبرانہ و ناقدانہ اور ذمہ دارانہ سوچ، مطالبات پیش کرنے کے جذبے اور جوش و خروش کی تعریف کرتے ہوئے غزہ کے واقعات کے عوامل و اسباب کا جائزہ لیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: یہ ناقابل تصور جرائم اس بھیڑیا صفت اور طفل کش حکومت کی ماہیت کا حصہ ہیں جس کا واحد علاج اس حکومت کی نابودی اور تباہی ہے اور اس وقت تک فلسطینیوں کی ٹھوس مسلحانہ مزاحمت اور اس مزاحمت کے دائرے میں غرب اردن تک کی توسیع اس وحشی حکومت کا سامنا کرنے کا واحد موثر طریقہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: صیہونیوں کے جرائم کی امریکا اور مغرب کی جانب سے بے شرمانہ حمایت ایک اہم تجربہ ہے جسے مغرب کے سلسلے میں اپنی سوچ، شناخت اور برتاؤ میں ہم سب کو مد نظر رکھنا چاہئے اور ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ امریکا کی اصلی ماہیت اور حقیقت یہی ہے اور ملت ایران یوم القدس کے موقعے پر اپنے پرشکوہ احتجاج سے ثابت کر دیگی کہ وہ مظلوموں کی مددگار اور ظالموں سے بر سر پیکار ہے۔
غزہ میں فلسطینی عوام کو در پیش مشکلات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ واقعات کھلے وحشی پن اور آہنی شکنجے والی پالیسی کا مظہر ہیں جو غیر قانونی اور جعلی صیہونی حکومت نے اپنی عمر کے چھیاسٹھ سال کے دوران اختیار کر رکھی ہے اور بار بار بڑے گستاخانہ انداز میں اس پر عملدرآمد اور ناز کرتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: جیسا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ فرماتے تھے، اسرائیل کو مٹ جانا چاہئے البتہ اسرائیل کی نابودی جو واحد حقیقی راہ حل ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس علاقے کے یہودی عوام کو ختم کر دیا جائے بلکہ اس منطقی کام کے لئے عملی تدبیر موجود ہے جسے اسلامی جمہوریہ ایران نے عالمی اداروں میں پیش کیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس عملی تدبیر کے مطابق جسے دنیا کی قوموں کی تائید بھی حاصل ہے، اس علاقے میں زندگی بسر کرنے والے عوام جو یہاں کے اصلی باشندے ہیں، ایک ریفرنڈم میں شرکت کرکے اپنی پسندیدہ حکومت کا انتخاب کریں اور اس طرح غاصب اور جعلی صیہونی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ البتہ فضل پروردگار سے اس بے رحم اور قاتل حکومت کی نابودی تک مقتدرانہ مقابلہ، ٹھوس اور مسلحانہ مزاحمت اس خانماں سوز حکومت کے سلسلے میں واحد مناسب روش ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ اگر غزہ کے میزائل نہ ہوتے تو صیہونی حکومت اپنی حرکت سے باز آ جاتی کیونکہ غرب اردن میں میزائل اور بندوق نہیں ہے اور عوام کے پاس واحد ہتھیار پتھر کے ٹکڑے ہیں مگر یہ حکومت وہاں بھی لوگوں کا قتل عام اور ان کی توہین کر رہی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے صیہونیوں کے ہاتھوں یاسر عرفات کی تحقیر اور زہر خورانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ غاصب حکام ساز باز کرنے والے عناصر کا بھی خیال نہیں کرتے، وہ صرف فلسطینیوں کی مقتدارانہ مزاحمت کی صورت میں ہی پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے جنگ بندی کے لئے جاری صیہونیوں کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جو حکومت ایسے جرائم کر رہی ہے جو انسان کے ذہن اور سوچ سے بھی پرے ہیں، وہ فلسطینیوں کی مقتدرانہ مزاحمت کے سامنے بے دست و پا ہوکر رہ گئی ہے اور راہ نجات کی تلاش میں ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صیہونیوں کو صرف طاقت کی زبان ہی سمجھ میں آتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ غزہ کے عوام کی حمایت مسلم اور غیر مسلم سبھی اقوام کا فرض ہے۔ آپ نے اسرائیل کی وحشی حکومت سے اقوام عالم کے اظہار نفرت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ان شاء اللہ یوم القدس کے موقعے پر دنیا ملت ایران کے جوش و خروش کا مشاہدہ کرے گی اور ایرانی عوام ثابت کر دیں گے کہ اس سرزمین میں فلسطین کی حمایت کا جذبہ بدستور موجزن اور خروشاں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران کے اندر کچھ فتنہ پرور عناصر کے نعرے نہ غزہ نہ لبنان کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ کچھ عناصر اس نعرے کے ذریعے ملت ایران کی حقیقت کو مسخ کرکے پیش کرنا چاہتے تھے لیکن عوام نے ایسا نہیں ہونے دیا اور آئندہ جمعے کو بھی ایک بار پھر عوام یہ دکھا دیں گے کہ وہ ہمیشہ مظلوموں کے مددگار اور ظالموں کے دشمن رہیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے استکباری طاقتوں اور ان میں سر فہرست امریکا کی جانب سے صیہونیوں کے ناقابل بیان جرائم اور بربریت کی بے شرمانہ حمایت پر انتہائی شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے فرمایا کہ غزہ کے واقعات اندوہناک اور غم انگیز ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ غزہ کے حالیہ واقعات اور اس سلسلے میں استکباری طاقتوں کے رویئے کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسی ضمن میں کہا کہ چند مغربی حکومتیں منجملہ امریکا اور خبیث برطانیہ ایسے جرائم کی حمایت کر رہے ہیں جنہیں کوئی معمولی سا انسان بھی تحمل نہیں کر سکتا اور طفل کشی، ایذا رسانی اور انہدامی کارروائیوں کے اس عمل پر امریکی صدر انتہائی مضحکہ خیز انداز میں کہتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنی سلامتی کے دفاع کا حق حاصل ہے! تو کیا فلسطینیوں کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنی سیکورٹی اور اپنی زندگی کا دفاع کریں؟!
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: استکباری ممالک کے حکام نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ پست اور تخریبی کارروائیوں میں مصروف صیہونیوں کی حمایت کرکے وہ اپنی اور اپنے ملک کی عزت اقوام عالم کے سامنے نیلام کر رہے ہیں اور ان مجرمانہ اقدامات کے سلسلے میں ان کی ساز باز پر دنیا بڑا سخت محاسبہ کریگی۔
قائد انقلاب اسلامی نے مغربی حکومتوں کے گستاخانہ رویئے کے علل و اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ صیہونیوں کے جرائم کے دفاع کی جڑیں لبرل ڈیموکریسی اور اس طرز تفکر میں پیوست ہیں جو اخلاقی قدرو‎ں سے عاری ہے اور جس میں انسان دوستانہ جذبات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ مختلف معاملات میں اسلامی جمہوریہ ایران سے امریکا کے تصادم کی وجہ بھی یہی حقیقت ہے جسے ہم دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اس قضیئے کی روشنی میں امریکا کو اور اچھی طرح پہچان لیں اور اہم تجربے کے طور پر ہماری یہ شناخت امریکا کے ساتھ ہمارے برتاؤ اور اس کے بارے میں ہماری سوچ کے سلسلے میں مد نظر رہنی چاہئے اور یہ ہمارے عوام، طلبہ، مفکرین اور تمام افراد کے لئے ایک کسوٹی اور معیار ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ غزہ کے مظلوم عوام پر ہونے والے مظالم کے سلسلے میں استکباری طاقتوں کے رویئے سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان ، انسانیت اور انسانی حقوق پر ان کا کوئی یقین نہیں ہے اور آزادی و انسانی حقوق کے بارے میں وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں وہ آزادی اور انسانی حقوق کی تضحیک کے سوا کچھ نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہم یہ باتیں امریکی حکام کے لئے نصیحت کے طور پر بیان نہیں کر رہے ہیں بلکہ ہم خود اپنے لئے بیان کر رہے ہیں تا کہ ہم اپنا موقف واضح طور پر سمجھیں اور ہمیں معلوم ہو کہ کیسے لوگوں کے بارے میں ہم فیصلہ اور تجزیہ کرنے جا رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملک کے اندر امریکا، مغرب اور استکباری طاقتوں کے خلاف جو نعرے لگتے ہیں وہ امریکا کی ماہیت و حقیقت کی بنیاد پر ہیں، لیکن کچھ لوگ اس غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں کہ یہ نعرے غیر معقول اور متعصبانہ عمل ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایران میں امریکا مخالف اور مغرب مخالف سوچ ایک عاقلانہ اور صحیح تجربات اور تخمینوں پر استوار سوچ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے حکام اور اعلی عہدیداروں سے ملاقات میں اپنی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جیسا کہ بیان کیا گیا، دشمن کا اصلی ہدف ہمارے پالیسی ساز نظام میں خلل ایجاد کرنا ہے کیونکہ اگر پالیسی ساز نظام میں رخنہ پڑ جائے تو صحیح اعداد و شمار کے باوجود غلط نتیجہ اور رپورٹ پیش کی جائے گی اور تجربات بھی بے سود رہیں گے۔ قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ کچھ عشروں کے دوران مغرب کے رویئے سے ایران کو حاصل ہونے والے تجربات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ غنڈہ صفت رضا شاہ کی شکل میں عجیب و غریب ڈکٹیٹر کو اقتدار میں لانا، سنہ چالیس کے عشرے میں ایران پر قبضہ، تیل کے ذخائر کی لوٹ، اگست کی بغاوت، محمد رضا کی آمرانہ حکومت کی ہمہ جہتی پشت پناہی، اسلامی انقلاب کی فتح کو روکنے کے لئے غیر قانونی اقدامات، صدام کی بھرپور حمایت اور دوسری درجنوں سازشیں، سب بڑے قیمتی تجربات ہیں جن سے امریکا کے بارے میں ایرانی عوام کی شناخت اور بھی عمیق ہو گئی لیکن مغرب زدہ کچھ روشن فکر افراد مغرب کے تھنک ٹینکوں کی طرح غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہیں اور تلخ تجربات سے بھی صحیح نتیجہ نہیں نکال پاتے۔
قائد انقلاب اسلامی نے صحیح مدبرانہ طرز فکر کے احیاء کو اسلامی انقلاب کی اہم خدمات کا جز قرار دیا اور فرمایا کہ عوام کی خواہش کے برخلاف کچھ عناصر اس کوشش میں ہیں کہ وہی مغرب زدہ پست افراد ایک بار پھر ملک کی باگڈور سنبھال لیں، لہذا اس سوچ کا سد باب کرنے کی ضرورت ہے اور یہ استقامت اور امتناعی اقدام بالکل بجا اور منطقی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے پہلے حصے میں طلبہ سے اپنی ملاقات کو بہت مفید اور ملک کے نوجوانوں میں جذبہ ایمانی اور عقل و منطق اور جوش و خروش کا آئینہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ طلبہ یونینوں کے نمائندوں نے آج جو باتیں بیان کیں ان سے طلبہ کے اندر اسی جذبے کا عندیہ ملتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ممکن ہے کہ بیان کی گئي بعض باتیں غیر منطقی، ناقابل عمل یا غلط ہوں مگر سب سے اہم بات طلبہ کے اندر پایا جانے والا جوش و خروش اور اپنے مطالبات پیش کرنے کا جذبہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ سب سے اہم، نوجوان طالب علم کے اندر جوش و خروش، امید و نشاط اور اپنے مطالبات پیش کرنے کا جذبہ اور ملکی مسائل پر توجہ نیز میدان عمل میں ان کی موجودگی ہے جو باعث مسرت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ نوجوان طالب علم کے اندر جوش و جذبہ اور مطالبات پیش کرنے کی جرئت ہونی چاہئے اور فضل پروردگار سے یہ جذبہ ملک کے نوجوانوں کے اندر موجود ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ طلبہ کے اندر تنقید اور مطالبے کی جرئت کے ساتھ اخلاقیات، انصاف اور شرعی حدود کی پابندی بھی ضروری ہے اور ایسی باتوں سے اجتناب کیا جانا چاہئے جن کے بارے میں علم و یقین نہ ہو۔ قائد انقلاب اسلامی نے طلبہ سے فرمایا کہ فرض شناسی، تنقید اور مطالبات پیش کرنے کا یہ جذبہ اس وقت تک آپ کے اندر قائم رہنا چاہئے جب آپ مستقبل میں ملک کے عہدیداروں کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالیں گے، کیونکہ اگر ایسا ہوا تو ملک کی کشتی ساحل نجات سے جا لگے گی۔
قائد انقلاب نے ملک میں جاری علمی مہم کو معاشرے کے مسائل کے حل کی طرف موڑنے کے سلسلے میں طلبہ کی تاکید کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آج ملک اور یونیورسٹیوں کے اندر علمی کام اور مساعی، زندہ کامیاب اور قابل تحسین عمل کی صورت اختیار کر چکی ہیں لیکن یہ علمی کاوشیں ملکی مشکلات کے حل کے عملی اقدامات کا مقدمہ بننا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دنیا کے معتبر علمی مراکز میں ریسرچ پیپر کی اشاعت قابل تعریف علمی کام ہے لیکن اصلی ہدف یہ ہے کہ علمی و تحقیقاتی کام ملک کی عملی ضرورتوں کے مطابق انجام پائے۔
طلبہ سے اپنے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے معاشرے کی ثقافت اور معاشی انتظامی طریقوں کے باہمی رابطے کے بارے میں بھی گفتگو کی۔ آپ نے فرمایا کہ ہم یہ مانتے ہیں کہ معاشی انتظامی طریقے ممکن ہے کہ ثقافتی رجحانات پر اثر انداز ہوں لیکن سب سے اہم اور حیاتی مسئلہ ثقافتی طرز فکر اور سمت و جہت ہے جسے ہر سطح پر مد نظر رکھا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ نوے کے عشرے میں جب معاشی انتظامی روش پر اعتراضات ہو رہے تھے، قائد انقلاب اسلامی کی طرف سے ثقافتی یلغار کا موضوع اٹھایا گیا، اس کی وجہ ثقافت کے موضوع کی حد درجہ اہمیت اور ہر سطح پر ثقافتی پہلو کے گہرے اثرات ہیں۔
اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل بعض طلبہ نے الگ الگ موضوعات پر اپنے نظریات و خیالات پیش کئے۔