صدیقۂ کبریٰ کو فرشتوں کا سلام و تہنیت

روحانی پہلو سے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ایسی ہستی ہیں کہ جب وہ عبادت کے لیے کھڑی ہوتی تھیں تو اللہ کے ہزاروں مقرب فرشتے ان سے مخاطب ہوتے تھے، انھیں سلام کرتے تھے، انھیں تہنیت پیش کرتے تھے اور ان سے وہی بات کہتے تھے جو اس سے پہلے فرشتے حضرت مریم اطہر سے کہہ چکے تھے: یا فاطمۃ ان ا‌للہ اصطفاکِ و طھّرکِ و اصطفاکِ علی نساء العالمین. (1990-01-16)

فاطمی جہاد کے پہلو

جب ہم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی عبادت اور روحانیت کے بارے میں بات کرتے ہیں تو بعض لوگ سوچتے ہیں کہ جو شخص عبادت میں مصروف ہے اور ایک عابد، گڑگڑانے والا اور دعا و ذکر میں مشغول رہنے والا ہے وہ کوئی سیاسی انسان نہیں ہو سکتا، یا بعض لوگ سوچتے ہیں کہ جو شخص اہل سیاست ہے وہ اگر ایک عورت ہے تو خاتون خانہ نہیں ہو سکتی، وہ سوچتے ہیں کہ یہ آپس میں ایک دوسرے کے منافی ہیں۔ جبکہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے ان تینوں چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا۔ (1989-12-13) اور اگر ہم ان کی زندگی پر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ یہ زندگی جہاد، جدوجہد، کوشش، انقلابی کام، انقلابی صبر، تعلیم و تعلم، تقریر، نبوت کے دفاع، امامت کے دفاع اور اسلامی نظام کے دفاع کے لحاظ سے کوشش اور جدوجہد کا ایک بحر بے کراں ہے۔ (1990-01-16)

حق ولایت کا عالمانہ دفاع

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا تشریح کے جہاد کے پہلو سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے انتقال کے بعد رونما ہونے والے اہم سیاسی واقعات میں ایک مکمل، انتھک اور سرگرم مجاہد ہیں۔ (1989-12-13) ان انتہائی دشوار اور ناقابل بیان حالات میں پیغمبر کی دختر مسجد میں آتی ہیں اور وہ معرکۃ الآراء خطبہ، اس مثالی انداز میں پیش کرتی ہیں اور حقائق کو بیان کرتی ہیں۔ (2017-03-19) البتہ یہ تشریح ایک عالمانہ تشریح ہے۔ آپ اس خطبے کی تمہید میں دیکھتے ہیں کہ اس عظیم خاتون کی زبان گہر بار سے حکمت و معرفت کے چشمے رواں ہیں، اس اعلیٰ ترین سطح پر جو ہمارے لیے قابل فہم ہے، معارف الہی و معارف اسلامی اس خطبے میں بیان ہوئے ہیں۔ (2010-06-03) یہ ایسا خطبہ ہے جو علامہ مجلسی کے بقول "فصاحت و بلاغت کے بزرگوں اور دانشوروں کو بیٹھ کر اس کے الفاظ اور جملوں کا مطلب بیان کرنا چاہیے!" یہ خطبہ اتنا پرمغز ہے! (1992-12-16)

معاشرے کی ہدایت و رہنمائی

سماجی مسائل میں کردار ادا کرنے کے سلسلے میں روایات ہمیں بتاتی ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے پاس صرف نبوت اور امامت کا عہدہ نہیں تھا ورنہ معنوی لحاظ سے پیغمبر اور امیر المومنین علیہم الصلاۃ و السلام اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے ... ایک اٹھارہ سال کی خاتون، اس روحانی اور عرفانی منزل تک، اس حکمت، اس بیان، سیاسی و سماجی مسائل کے اس تجزیے، اس دور اندیشی اور اپنے زمانے کے سب سے بڑے مسائل سے نمٹنے کی اس طاقت تک پہنچ گئی ہے۔ (1993-11-29) لہذا پوری قطعیت کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ایک حقیقی رہبر کے کردار میں ہیں۔ (2017-03-19)

جدوجہد میں والد اور شوہر کی حمایت

زنانہ اور گھریلو جہاد کے پہلو سے بھی، مثال کے طور پر شعب ابی طالب کے واقعے میں، اس بچی نے، پیغمبر کے لیے نجات کے ایک فرشتے کی طرح، اپنے والد کے لیے ایک ماں کی طرح ، اس عظیم انسان کے لیے ایک عظیم تیماردار کی طرح مشکلات اور مسائل کو برداشت کیا۔ پیغمبر کی غم گسار بن گئيں۔ (1992-12-16) اس کے بعد اور حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد بھی پیغمبر بالکل اکیلے ہیں، یہ کچھ برس کی بچی، فاطمہ زہرا وہ واحد ہستی ہے جس کا، اپنی تمام تر عظمت کے ساتھ پیغمبر کو سہارا ہے، فاطمۃ ام ابیہا کا جملہ، اسی وقت کا ہے۔ (1994-09-20) اس کے مقابل جب ایک آیت نازل ہوئی اور اس نے مسلمانوں کے لئے لازمی کر دیا کہ وہ پیغمبر کو "یا رسول اللہ!" کہہ کر بلائیں تو جب پیغمبر گھر پہنچے، حضرت زہرا آئيں اور انھوں نے کہا: "یا رسول اللہ! سلام علیکم" پیغمبر اکرم نے انھیں گلے سے لگا لیا اور کہا کہ یہ تمھارے لیے نہیں ہے، تم مجھے پدرگرامی کہہ کر ہی بلاؤ، اس سے میرے دل کو سکون ملتا ہے، یہ مجھے اچھا لگتا ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے پیغمبر کی محبت اس طرح کی ہے۔ (1985-03-12) جہاں تک شوہر کی بات ہے تو کوئی بھی سال بلکہ کوئي بھی ایسا چھے مہینہ نہیں گزرا جس میں ان کے شوہر جہاد فی سبیل اللہ کے لیے تیار نہ ہوئے ہوں اور میدان جہاد میں نہ گئے ہوں اور اس عظیم اور فداکار خاتون نے کبھی بھی ایک مرد مجاہد اور میدان جنگ کے دائمی سپاہی اور علم بردار کی ہمسری میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ (1990-01-16) امیر المومنین نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں فرمایا: اپنی ازدواجی زندگی میں انھوں نے ایک بار بھی مجھے غصہ نہیں دلایا اور ایک بار بھی میری بات نہیں ٹالی۔ فاطمہ زہرا، اپنی اس عظمت و منزلت کے ساتھ گھر کے ماحول میں ایک زوجہ اور ایک خاتون ہیں۔ (1992-12-16)

عوام کو سادہ زندگی کی عملی تعلیم

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے جہاد کا ایک مصداق یہ تھا کہ وہ اپنے عمل سے معاشرے کی تربیت کرتی تھیں۔ مثال کے طور پر اس واقعے میں، جب سورہ ہل اتیٰ نازل ہوا، انھوں نے خود اپنی اور اپنے گھر کے تمام افراد کی بھوک پر صبر کیا اور یتیم، مسکین اور اسیر کی مدد کی (2020-2-15) اور معاشرے کو ان اقدار کی طرف متوجہ کرایا۔ اسی طرح جب فتوحات اور مال غنیمت کا راستہ کھلتا ہے تو رسول خدا کی بیٹی، دنیا کی لذتوں، تعیشات اور ان چیزوں میں سے کسی کو بھی ذرہ برابر بھی اپنے اندر راہ نہیں دیتیں، جو نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کے دلوں کو بھاتی ہیں۔" (1992-12-16)

فاطمہ، اسلام کے شایان شان انسان کا نمونہ

"یہ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی خصوصیات ہیں۔ ہمیں انھیں نمونے اور آئيڈیل کے طور پر پیش نظر رکھنا چاہیے اور خود کو اس آئيڈیل کے قریب کرنا چاہیے۔" (2016-3-31) انھیں نمونہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں بھی "حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے راستے پر چلنا چاہیے۔ ہمیں بھی درگزر کرنا چاہیے، ایثار کرنا چاہیے، اللہ کی اطاعت کرنی چاہیے، عبادت کرنی چاہیے ... ہمیں بھی ہر حال میں کوشش کرنی چاہیے تاکہ حق کو قائم کر سکیں۔ ہمیں بھی کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ کیا ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ اپنے زمانے کے بڑے معاشرے کے سامنے یک و تنہا ڈٹ گئی تھیں؟" (1991-12-26) بنابریں حضرت زہرا کی شخصیت، سیاسی، سماجی اور جہادی پہلوؤں سے ایک ممتاز، نمایاں اور عظیم شخصیت ہے، جس سے دنیا کی تمام مجاہد، انقلابی، نمایاں اور سیاسی خواتین درس لے سکتی ہیں۔" (1990-1-17)

آخری نکتہ یہ ہے کہ اسلام کی اس عظیم خاتون کی زندگی بتاتی ہے کہ مسلمان خاتون، سیاست کے میدان میں شامل ہونے، کام، کوشش اور محنت کے میدان میں داخل ہونے اور اسی طرح تعلیم، عبادت، شوہر داری اور اولاد کی تربیت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو نمونۂ عمل بنا سکتی ہے۔ (1993-12-8)