رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پیر کی صبح ملک بھر کے ہزاروں اساتذہ سے ملاقات میں اس صنف کی زحمتوں اور کوششوں کی قدردانی کرتے ہوئے آئندہ نسل کی حریت پسندی، عزت نفس اور دینداری کا تشخص رکھنے والی اور ممتاز اوصاف کی حامل اور رجحان ساز نسل کے طور پر تربیت کو اساتذہ اور تعلیم و تربیت کے شعبے کا بنیادی فریضہ قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اگر سماج ان اوصاف سے مزین ہو تو یقینی طور پر تیل کی آمدنی پر انحصار سے آزاد استقامتی معیشت، خود مختار ثقافت، معیار صرف کی اصلاح اور تسلط پسندی کے مقابلے میں مزاحمت و استقامت کا جذبہ جیسے اہداف کو جامہ عمل پہنانا ممکن ہو جائے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ تدریس ایک دشوار کام ہے اور اگر یہ کام خلوص نیت کے ساتھ رضائے پروردگار کے لئے انجام دیا جائے تو باعث نجات ہوگا اور تدریس کے پیشے میں خالصانہ نیت کے ساتھ کام کرنے کیلئے سازگار حالات بھی موجود ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے آیت اللہ مطہری شہید کی کاوشوں اور تصنیفات کو پرخلوص اور بابرکت عمل کی نمایاں مثال قرار دیا اور فرمایا کہ اس زمان شناس اور ضرورت شناس عالم دین کے اخلاص عمل کا نتیجہ ان کی نمایاں علمی کاوشوں کا لازوال بن جانا ہے، اس طرح سے کہ آپ کی شہادت کے دسیوں سال بعد بھی اس عظیم ہستی کی علمی خدمات سے اہل فکر بہترین انداز میں بہرہ مند ہو رہے ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا: البتہ اساتذہ کی صنف کی قناعت و اخلاص عمل کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکام اس سخت کوش صنف کی مادی ضرورتوں اور معیشتی مسائل سے بے توجہی برتیں، جیسا کہ میں نے بارہا کہا ہے اور پھر دہراتا ہوں کہ تعلیم و تربیت کے شعبے پر جو کچھ بھی خرچ ہوتا ہے وہ در حقیقت سرمایہ کاری ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد کہا کہ کلیدی موضوع یہ ہے کہ تعلیم و تربیت کا محکمہ آئندہ نسل میں کن اوصاف کو پروان چڑھانا چاہتا ہے اور ملک کو اپنا سفر جاری رکھنے کے لئے کیسی نسل کی ضرورت ہے؟ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آئندہ نسل کے لازمی اوصاف کا ذکر کرنے سے قبل ایک اور اہم نکتہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ نسل کی تربیت کے لئے ہمارے پاس ایسا میدان نہیں ہے جہاں ہمارا کوئی حریف نہ ہو، بلکہ عالمی سامراجی نظام کی شکل میں ایک حریف بھی ہمارے روبرو موجود ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا، صیہونی سرمایہ داروں اور بعض استکباری حکومتوں کو عالمی تسلط پسندانہ نظام کا مظہر قرار دیتے ہوئے زور دیکر کہا کہ تسلط پسندانہ نظام چاہتا ہے کہ ملکوں کی آئندہ نسلیں ایسی ہوں کہ عالمی مسائل میں ان کی فکر، ثقافت، نظر اور پسند سب کچھ اسی نظام کی مرضی کے مطابق ہو اور دانشور، سیاسی رہنما اور بااثر افراد بھی اسی طرز پر سوچیں، چاہیں اور عمل کریں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے سامراج کے اس منصوبے کی پرانی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مغربی مفکرین نے بارہا ہے کہا ہے کہ انیسویں صدی کی استعماری کشور گشائی کے بجائے بہت کم خرچ والی بہترین روش ملکوں کی نوجوان نسل کے اندر اپنی فکر اور ثقافت کا القاء کر دینا اور ایسے دانشوروں اور علمی شخصیات کی تربیت کرنا ہے جو سامراجی نظام کے سپاہیوں کا کام انجام دیں۔
رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق علاقے کی بعض حکومتیں استکباری طاقتوں کے اس منصوبے کا واضح نمونہ ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ حکومتیں اس وقت وہی کرتی ہیں جو امریکا کی مرضی ہوتی ہے، یہاں تک کہ اس کے منصوبے کے تمام اخراجات بھی خود ہی اٹھاتی ہیں اور جواب میں کوئی مراعات بھی نہیں لیتیں، اس کے عوض امریکی یہ کرتے ہیں کہ ان حکومتوں کو گرنے سے بچاتے ہیں اور انھیں تحفظ دیتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ ہماری حریف طاقت نے وطن عزیز کی آئندہ نسل کے لئے بھی یہی منصوبہ تیار کر رکھا ہے۔ آپ نے مقامی فکر و زبان و ثقافت کی بھرپور ترویج پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ افسوس کی بات ہے کہ بعض مواقع پر فارسی زبان کے بجائے انگریزی زبان کی ترویج کی جاتی ہے اور اب تو نوبت یہ آ گئی ہے کہ 'مہد کودک' (کنڈر گارڈن) میں انگریزی سکھائی جانے لگی ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ میری یہ بات غیر ملکی زبان سیکھنے کی مخالفت کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ اصلی بحث ملک میں بچوں اور نوجوانوں کے درمیان اغیار کی ثقافت کی ترویج سے ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دوسرے ممالک نے بیرونی ثقافت اور زبان کی ترویج کے سد باب کے لئے منصوبے بنائے ہیں، جبکہ ہمارے ملک میں اس ترویج کو روکنے کے لئے باقاعدہ منصوبہ نہیں ہے بلکہ اغیار کی ثقافت کی ترویج کے لئے ہم نے دروازے کھلے چھوڑ دئے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بعض مغربی ملکوں میں فارسی زبان کی ترویج کے راستے میں موجود گوناگوں رکاوٹوں اور دشواریوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ تو ہمیں فارسی زبان کی ترویج کی اجازت نہیں دے رہے ہیں مگر ہم ان کی ثقافت کی ترویج میں مصروف ہیں، کیا واقعی یہ عقلمندی کا کام ہے؟
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ میری اس بات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسکولوں میں انگریزی زبان کی تعلیم روک دی جانی چاہئے بلکہ اصلی بحث یہ ہے کہ ہمیں بخوبی علم ہونا چاہئے کہ ہمارا سامنا کس حریف سے ہے اور فریق مقابل ملک کی آئندہ نسل پر اثرانداز ہونے کے لئے کیا منصوبے رکھتا ہے؟
رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد ملک کی آئندہ نسل کی تربیت کے لئے ضروری معیاروں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ طلبہ کی تربیت میں سب سے اہم معیار جو مد نظر رکھنا چاہئے یہ ہے کہ آئندہ نسل میں دینی، غیرت مندانہ اور خود مختار شناخت پروان چڑھے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ ہمیں ملک کے بچوں اور نوجوانوں کی ایسی تربیت کرنا چاہئے کہ وہ خود منحصر سیاست، معیشت اور ثقافت کے راستے پر چلیں اور ان امور میں اغیار پر انحصار کو ناپسندیدہ تصور کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اس اعتبار سے ملک نقصانات سے دوچار ہے اور حد سے زیادہ فرنگی اصطلاحوں کا استعمال اس نقصان کی ایک مثال ہے جو طاغوتی (شاہی) دور کی میراث ہے۔
آپ نے فرمایا کہ استقامتی معیشت کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ضروری ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کے اندر خود مختار تشخص پیدا ہو۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ جب خود مختاری، استقامت اور پائيداری کا جذبہ نہ ہو تو اگر عہدیداران استقامتی معیشت کے لئے سیکڑوں جلسے کریں تب بھی صحیح اور مکمل نتیجہ نہیں ملے گا۔ آپ نے فرمایا کہ استقامتی معیشت، تیل کی آمدنی پر غیر منحصر معیشت اور خود مختار ثقافت اسی وقت با معنی بنے گی جب سماج میں خود مختار تشخص وجود میں آئے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق اسٹوڈنٹس کے اندر رجحان ساز جذبات اور ممتاز معیاروں کی تقویت بھی اساتذہ اور تعلیم و تربیت کے محکمے کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ایمان، تدبر، سماجی تعاون و شراکت اور معیار صرف کی اصلاح انھیں ممتاز معیاروں میں شامل ہیں جنھیں آئندہ نسل کے اندر پروان چڑھانا چاہئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے معیار صرف کے تعلق سے ملک کے اندر موجود مشکلات کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی کچھ مثالوں کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ غیر ملکی اشیاء کا استعمال اور دسیوں بلکہ سیکڑوں ارب کی مالیت کے 'ہائی کلاس' سامان کی اسمگلنگ، ملک کے اندر غلط معیار صرف کی مثالیں ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ معیار صرف کی اصلاح کے سلسلے میں ایک بنیادی کام آئندہ نسل کے اندر ثقافت سازی کرنا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مخالف نظریات کے سلسلے میں تحمل اور رواداری کا جذبہ بھی آئندہ نسل کی اہم صفات کا جز ہے۔ آپ نے فرمایا کہ سماج میں مخالف افراد کو تحمل کرنے کا کلچر مستحکم نہیں ہوا ہے، کیونکہ جیسے ہی کوئی ذرا سا طنز کرتا ہے اس کا جواب گھونسے سے دیا جاتا ہے، یہ عدم تحمل اور عدم رواداری ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق آداب کا خیال رکھنا، مودب رہنا، دینداری اور اشرافیہ کلچر سے اجتناب بھی طلبہ کی تربیت میں خاص طور پر مد نظر رکھے جانے والے معیار ہیں۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ آئندہ نسل میں ان خصوصیات کو گہرائی تک اتارنا اور ان کے بارے میں ثقافت سازی کرنا اساتذہ اور تعلیم و تربیت کے محکمے کا فریضہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ تعلیم و تربیت کا محکمہ اکیلے اس مقدس فریضے کو انجام نہیں دے سکتا، آپ نے اس سلسلے میں مختلف اداروں اور شعبوں کے کردار کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ تعلیم و تربیت کے محکمے کا ثقافتی شعبہ بھی اس سلسلے میں بہت موثر رول رکھتا ہے اور اس پر اہم ذمہ داریاں ہیں، اس شعبے کو چاہئے کہ اس راستے میں بامقصد، دانشمندانہ اور بھرپور محنت کے ساتھ اقدامات انجام دے جو سیاسی و اخلاقی و دینی اعتبار سے صحتمند ہوں، آپ نے فرمایا کہ اس سلسلے میں کسی بھی طرح کی کوتاہی ہوئی تو تعلیم و تربیت کے محکمے اور آئندہ نسل کو اس کا نقصان پہنچے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے آئندہ نسل میں ممتاز معیاروں کو پروان چڑھانے اور گہرائی تک اتارنے کے سلسلے میں قومی نشریاتی ادارے کو بھی بہت ذمہ دار ادارہ قرار دیا اور قومی میڈیا کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال بھی نوجوان نسل کے لئے قومی نشریاتی ادارے میں صحیح منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیا گيا لیکن اس پر عمل نہیں ہوا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ قومی نشریاتی ادارے (آئی آر آئی بی) کو چاہئے کہ ماہر اور اہل نظر افراد کے تعاون سے تعلیم و تربیت کے تعلق سے ایک خاص باب کا آغاز کرے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے گزشتہ ہفتے ایک طالب علم کی جانب سے آپ کو ارسال کئے گئے ایک خط اور اس میں ہائی اسکول کے طلبہ کے لئے قومی میڈیا میں مناسب پروگراموں کے فقدان کی شکایت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ قومی میڈیا میں فنکارانہ اور ماہرانہ طریقوں سے ایسے پروگرام بنائے جائیں جو نوجوانوں کی روحانی، فکری، دینی اور علمی تشفی و تسکین کا باعث بنیں، اس وقت بعض چینلوں کے پروگرام کسی بھی طرح ضرورتوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے وزارت مواصلاعت کو بھی آئندہ نسل کی تربیت کے سلسلے میں ذمہ دار شعبہ قرار دیا اور سائبر اسپیس کی وسعت اور اس میدان میں روز افزوں رفتار سے ہونے والے تغیرات نیز سائبر اسپیس سے نوجوانوں کے دائمی رابطے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ کوئی سائبر اسپیس کے استعمال کا مخالف نہیں ہے، بلکہ اصلی معاملہ یہ ہے کہ ایسے میدان میں جہاں لغزشوں کے امکانات ہیں صحیح استعمال کی زمین تیار کی جانی چاہئے، اسے اس کے حال پر نہیں چھوڑنا چاہئے کہ پھر اس پر کنٹرول نہ کیا جا سکے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے وزارت مواصلات اور سپریم کونسل برای سائبر اسپیس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کوئی سائبر اسپیس بند کروانے کی کوشش نہیں کر رہا ہے، کیونکہ یہ اقدام عاقلانہ نہیں ہے لیکن جب دیگر ممالک اپنی ثقافت کی حفاظت کے لئے سائبر اسپیس کے استعمال کے تعلق سے ضوابط بنا رہے ہیں تو ہم نے سائبر اسپیس کو آزاد کیوں چھوڑ دیا ہے؟
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق تعلیم و تربیت کے شعبے میں ایک اور ضروری کام اساتذہ کے اندر شادابی و نشاط کا جذبہ پیدا کرنا ہے اور اس پہلو سے ملک کے تعلیمی نظام کی اصلاح بھی لازمی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ملک کے تعلیمی نظام کی کہنگی اور فرسودگی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ موجودہ تعلیمی نظام یورپ کے تعلیمی نظام سے ماخوذ ہے اور عجائب گھر میں رکھی چیزوں کی مانند اچھوتا اور پرانا بنا ہوا ہے جبکہ اس کی جدیدکاری کی ضرورت ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق تعلیمی نظام کی جدیدکاری اگر مغرب کی تقلید کرکے انجام دی جاتی ہے تو یہ غلط ہے، آپ کا کہنا تھا کہ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کرنا تو اچھی بات ہے، مگر صاحب فکر و نظر افراد کو چاہئے کہ تعلیم و تربیت کے شعبے کی اصلاح کے پروگرام کے تحت ایک نیا تعلیمی نظام تدوین اور نافذ کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے نوجوان نسل کی مہارت بڑھانے اور اسے کارآمد بنانے کے لئے فنی اور ہنر آموز مراکز کی اہمیت پر توجہ کو تعلیم و تربیت کے شعبے کی ترجیحات میں قرار دیا اور فرمایا کہ رپورٹوں کے مطابق سماج میں 12 ہزار قسم کے کام اور پیشے پائے جاتے ہیں، تو کیا یہ مناسب ہے کہ الگ الگ استعداد رکھنے والے سارے طلبہ تعلیم کے دوران یکساں انداز سے ایک ہی راستہ طے کریں؟ آپ نے زور دیکر کہا کہ طلبہ کی استعداد کی شناخت اور پھر اس استعداد کی پرورش ہونی چاہئے تاکہ یہ تربیت یافتہ استعداد گوناگوں پیشوں اور کاموں میں جدت عملی کا مظاہرہ کر سکے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو میں سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں کے موضوع کو بھی اٹھایا۔ آپ نے کہا کہ آئین میں تعلیم و تربیت کے موضوع کو سرکاری موضوع قرار دیا گیا ہے لیکن اس کا مطلب ساری ذمہ داری حکومت کے دوش پر ڈال دینا نہیں، تاہم حکومت کی یہ ذمہ داری ضرور ہے کہ تعلیم و تربیت کے میدان میں اپنا کردار نبھائے، چنانچہ سرکاری اسکولوں کو ایک ایک کرکے پرائیویٹ اسکولوں میں بدلنا اور ان میں بعض اسکولوں کا بڑی مقدار میں فیس وصول کرنا ہرگز درست اور دانشمندانہ عمل نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ سرکاری اسکولوں کا معیار اتنا بلند ہونا چاہئے کہ لوگ ان اسکولوں کی جانب زیادہ راغب ہوں۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے وزیر تعلیم و تربیت کی فکری و عملی پاکیزگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس بہترین موقع کو اس ادارے میں اہم فرائض کی انجام دہی کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ 'دانشگاہ فرھنگیان' اس سلسلے میں کام کرنے والا بہت اہم ادارہ ہے جس کے ہمہ جہتی فروغ کے لئے جہاں تک ممکن ہو سرمایہ کاری کی جانی چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ملک کی تعمیر اور اسے مستحکم بنانے کی اہمیت اور اس سلسلے میں اساتذہ کے نمایاں کردار کا حوالہ دیتے ہوئے علم و دانش کو قوت و توانائی کی بنیاد قرار دیا اور کہا کہ طاقت صرف ہتھیار رکھنے سے نہیں ملتی بلکہ علم، ایمان، قومی تشخص، استقامت اور انقلابی شناخت قوت کے بنیادی عناصر ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ دشمن جب آپ کی طاقت دیکھ لے گا تو ناچار ہوکر پسپائی اختیار کرے گا، لیکن اگر ہم دشمن کو اپنی قوت کے بنیادی عوامل و ذرائع دکھانے میں تکلف اور اجتناب کریں گے یا خوفزدہ ہوں گے تو دشمن اور بھی گستاخ ہو جائے گا۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران کی بحری مشقوں کے خلاف امریکی کانگریس میں زیر غور بل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آج دشمن اپنی اوقات اور بساط سے بڑھ کر باتیں کر رہے ہیں اور منصوبے بنا رہے ہیں کہ ایران خلیج فارس میں کوئی فوجی مشق نہ کر سکے، جبکہ اس قسم کی باتیں سراسر حماقت ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ ایران کے بیدار عوام ان بے جا مداخلتوں کا جواب دینے پر قادر ہیں، رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ خلیج فارس ملت ایران کا مسکن اور جائے سکونت ہے اور خلیج فارس اور بحیرہ عمان کے ساحل کا بہت بڑا حصہ ملت ایران کی ملکیت ہے، لہذا اس علاقے میں ہماری موجودگی، فوجی مشقیں اور طاقت کا اظہار ضروری ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ یہ وضاحت تو امریکیوں کو کرنا چاہئے کہ وہ دنیا کے دوسرے سرے سے اٹھ کر یہاں کیوں آئے ہیں اور فوجی مشقیں کیوں انجام دیتے ہیں؟!
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ بڑی طاقتوں سے اسی انداز میں پیش آنا چاہئے، آپ نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ کی پائيداری اور اس کی قوت میں روز افزوں اضافہ دشمنوں کی شکست کا ثبوت ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ قرآن نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ خود کو اس طرح تیار کریں کہ دشمن ہمیشہ خوفزدہ رہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل وزیر تعلیم و تربیت علی اصغر فانی نے اپنی تقریر میں ہفتہ استاد کی مبارکباد پیش کی اور شہید مطہری، شہید رجائی اور شہید با ہنر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزارت تعلیم و تربیت کی کوشش یہ ہے کہ ثقافت سازی کرکے مزاحمتی معیشت کو جامہ عمل پہنانے کی سازگار زمین تیار کرے۔