جس زمانے میں مجھے شہر بدر کرکے ایران شہر بھیج دیا گیا تھا، ہم لوگ مختلف مواقع پر وہاں کے ذمہ دار افراد سے رابطہ کیا کرتے تھے۔
مجھے بتایا گیا کہ گورنر کا ایک بھی نمایندہ آج تک ایران شہر نہیں آیا ہے!
۱۹۷۸ میں ایرانشہر میں سیلاب آیا اور اس کے نتیجے میں اسی فیصد شہر بالکل تباہ ہو گیا۔
میں نے خود شہر کی ایک ایک جگہ جا کر دیکھی، پچاس دن تک ہم لوگ امداد رسانی کا کام کرتے رہے مرکز تو دور کی بات زاہدان سے بھی کسی اہم شخصیت نے آ کر نہیں پوچھا کہ یہاں کیا ہوا ہے۔
کہنے کو تو شیر و خورشید ادارے کی طرف سے کچھ امداد بھیجی جا رہی تھی لیکن ہم شہر بدر افراد نے جو امداد جمع کی تھی اس کا وہ دسواں حصہ بھی نہیں تھی۔ تو ایک طرف تو اس کی مقدار بہت کم تھی اور دوسری طرف اس قلیل مقدار امداد کا بھی بڑا حصہ امداد رساں ہی ہڑپ کر جاتے تھے۔ یعنی ایران شہر جو کہ جغرافیائی لحاظ سے بلوچستان کا ثقافتی مرکز تھا ہمیشہ بے توجہی کا شکار رہا ہے۔ زاہدان کا بھی یہی حال تھا۔
دسیوں سال بعد کبھی ایسا اتفاق ہوتا تھا کہ اونٹ کی سواری اور شراب خوری کے لئے حکام بیرجند جاتے تھے۔ چونکہ حکام بیرجند میں عیاشیاں کرنے جاتے تھے اس لئے وہاں ایر پورٹ تھا اور چونکہ یہاں عیاشی کے وسائل فراہم نہیں تھے لہذا بلوچستان ان کا آنا ہی نہیں ہوتا تھا۔ ملک کا ہر پسماندہ علاقہ بے توجہی کا شکار تھا۔ بلوچستان ہو یا کوئی اور علاقہ۔
مازندران میں خوب ترقیاتی کام ہوئے تھےکیونکہ وہاں کی آب و ہوا سے لطف اندوز ہونے کے لئے حکام کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔
انقلاب سے پہلے کی حکومت کا یہ عالم تھا۔
ایک دلچسپ بات آپ کو بتاؤں، مازندران میں پانچ ایئرپورٹ ہیں جو شاہی حکومت کے دور میں بنائے گئے تھے۔
رامسر کا ایئر پورٹ جو رامسر ہوٹل استعمال کرنے کے لئے تھا آپ جانتے ہیں کہ کن لوگوں کے لئے تھا۔
ایک صوبے میں پانچ پانچ ایئرپورٹ، اور وہ بھی صرف طاغوتی حکومت کے عناصر کے لئے!
آپ بخوبی واقف ہیں کہ نوشہر کا ایئرپورٹ شاہ کی سالانہ سیر و تفریح کے لئے تھا، وہاں شاہ اور اس کے افراد عیاشی فرماتے تھے۔
ایک ایئر پورٹ ایک فوجی کیمپ کے لئے تھا یہ ایک مخصوص فوج تھی۔ میں نام نہیں لینا چاہتا۔ یہ بھی عیاشی کا سامان تھا۔
ساری کے نزدیک دشت ناز ایئر پورٹ جو آج کل مازندران کا سرکاری ایئرپورٹ ہے اور عوام کے استعمال میں ہے، انقلاب سے پہلے رضا خان کی بدکار و بدمعاش اولادوں کے لئے تھا۔
ہزاروں ایکڑ زرخیز زمین پر قبضہ کر کے ٹھیک اس کے وسط میں ایئرپورٹ بنایا گیا تھا۔ مینودشت میں شاہی نوکروں کے لئے ایک ایئرپورٹ تھا۔
حکومت اور اس سے مربوط مشینری کے لئے پانچ ایئرپورٹ موجود تھے لیکن عوام، اساتذہ، بیماروں اور دیگر ضرورتمند افراد کہ لئے نہ ایئرپورٹ تھا نہ ہوائی جہاز اور نہ ہی کوئي اور سہولت۔
حکومت کے لوگ سال میں کئی مرتبہ مازندران آتے جاتے تھے لیکن زاہدان ہی کی طرح ایک بار بھی عام لوگوں سے نہیں ملتے تھے۔
اسے کہتے ہیں غبار فراموشی۔
(صوبہ سیستان و بلوچستان کی ممتاز شخصیات سے ملاقات کے دوران 24/02/2003)