اگر ملک کے حکام کو اور نظام مملکت کے ذمہ داروں کو تنقیدوں کا نشان بنایا جائے اور ان کی کمزوریوں کو خود ان کی نگاہوں کے سامنے لایا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جب انسانی رقابت کی پوزیشن میں کھڑا ہو اور اسے اپنے مد مقابل کی تنقید کا سامنا کرنا پڑے تو وہ بہتر کام کرتا ہے۔ البتہ یہ تنقید انقلاب کے بنیادی اصولوں کے دائرے میں ہونی چاہیے۔ انقلاب کے اصول بھی معین ہیں کہ وہ کیا ہیں؟ انقلاب کے اصول، ذاتی ذوق اور لیقے سے تعلق نہیں رکھتے کہ کوئی بھی شخص کہیں سے اٹھے اور اصول انقلاب کی پلیٹ لگا کر اپنا سینہ پیٹنے لگے اور جب اس اصول کا جائزہ لیں تو پتہ چلے کہ یہ تو انقلاب سے ہی بیگانہ ہے۔ اصول انقلاب، اسلام ہے، (اسلامی جمہوریہ کا) آئین و قانون ہے، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے بیانات ہیں، امام (خمینی) کا وصیت نامہ ہے، نظام کی بنیادی پالیسیاں ہیں جو ملک کے آئین سے معین ہوئی ہیں۔ ان کے دائرے میں رہ کر اختلاف نظر، اختلاف منشا، اختلاف سلیقہ، بہت اہم نہیں ہے بلکہ اچھی بات ہے۔ یہ نقصان دہ نہیں ہے، یہ فائدہ مند ہے۔ اگر لوگ اصولوں کے دائرے میں رہ کر برتاؤ کرتے ہیں، تشدد نہیں کرتے، معاشرے کی سلامتی کو مجروح کرنے کی کوشش نہیں کرتے، معاشرے کے سکون کو ٹھیس نہیں پہنچاتے تو ان غلط کاموں سے جو کئے جارہے ہیں، جیسے جھوٹ اور افواہیں پھیلانا تو ان سے نظام کو کوئی نقصان پہنچنے والا نہیں ہے۔
امام خامنہ ای
11 ستمبر 2009
ایرانی قوم کے دشمنوں نے انقلاب کی شروعات سے لے کر اب تک پوری سنجیدگی سے جو کام کرنا چاہا ہے وہ سماج کے مختلف گروہوں کے درمیان ایک دوسرے کے سلسلے میں کدورت پیدا کرنا ہے، چاہے وہ سیاسی گروہ ہوں، چاہے دینی و مذہبی گروہ ہوں یا دوسرے گروہ ہوں۔ پوری تاریخ میں، سامراج، خاص طور پر برطانوی سامراج – جب وہ مشرق وسطی کے تمام علاقوں، ہمارے ملک اور دیگر ممالک پر مسلط تھا، اس پالیسی پر عمل کرتا رہا ہے، اس کے بعد دوسروں نے یہ بھی یہ پالیسی سیکھ لی۔ امریکی بھی اس وقت یہی کام کر رہے ہیں، ایرانی قوم کے دشمن بھی ہمارے ملک کے سلسلے میں اسی کام کو اپنی سازشوں میں شامل کیے ہوئے ہیں: دلوں کو ایک دوسرے سے مکدر اور طبقوں کو ایک دوسرے کے خلاف کر دیں ... آج وہ ایک بار پھر یہ خلیج اور یہ فاصلے پیدا کرنا چاہتے ہیں، جس طرح سے کہ وہ مذہبی فاصلوں کو بڑھا رہے ہیں اور مذہبی گروہوں کو ایک دوسرے سے دشمنی دکھانے کے لیے مجبور کر رہے ہیں تاکہ خلیج پیدا ہو جائے۔ لوگوں کے متحد ڈھانچے میں جو دراڑیں پڑ جاتی ہیں وہ دشمن کے لیے راستہ کھول دیتی ہیں اور دشمن، ان اختلافات کے ذریعے ایک معاشرے میں اور ایک ملک میں دراندازی کر سکتا ہے اور اپنی چالیں چل سکتا ہے۔ سبھی کو بہت زیادہ چوکنا رہنا چاہیے۔
امام خامنہ ای
22/11/2002
انقلاب کی سرکوبی اور انقلاب کو شکست دینا، جو ایک سامراجی منصوبہ تھا، اس خطے میں شکست کھا چکا ہے اور اس کے برخلاف انقلاب پر حملہ کرنے والے، امریکا جیسی بڑی اور طاقتور حکومت تک روز بروز شکست اور ہزیمت کے قریب ہوتے جا رہے ہیں۔ آج ہم خطے میں امریکی پالیسیوں کی شکست کی واضح علامتیں اور نشانیاں دیکھ رہے ہیں۔ یہ ہماری قوم، ہمارے جوانوں اور ہمارے تجزیہ نگاروں کے لیے اہم نکات ہیں جن پر واقعی بہت زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی روحانیت کے سہارے کھڑی ہونے والی عوامی فورس یا منہ زوری اور دھونس دھمکی کے سہارے ٹکی ہوئی مادی طاقت کے درمیان ٹکراؤ کی بڑی بحث جس پر سماجیات، اقوام کی نفسیات اور سماجی نفسیات کی بحثوں میں توجہ دی جانی چاہیے ... اس ملک اور اس قوم نے ہتھیاروں، ٹیکنالوجی اور مادی و ابلاغیاتی دولت سے مالامال طاقتور ملکوں کی سازشوں کو اہم ترین میدانوں میں پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ہے اور انھیں شکست دی ہے۔
امام خامنہ ای
14/9/2007
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران کی فوج کی فضائیہ کے کمانڈروں اور جوانوں سے ملاقات میں آٹھ فروری 1979 کو اسلامی انقلاب کی فتح کے وقت پیش آنے والے واقعے کو اللہ کے وعدوں پر امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اور مجاہدین کے مکمل اعتماد کا نتیجہ قرار دیا۔
'عشرہ فجر' کے آغاز اور اسلامی انقلاب کی پرشکوہ فتح کی اکتالیسویں سالگرہ کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای حسب معمول بانی انقلاب امام خمینی کے مزار پر پہنچے اور وہاں نماز ادا کی، قرآن کی تلاوت کی اور خراج عقیدت پیش کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس موقع پر شہیدوں کی قبروں کی بھی زیارت کی۔