رہبر انقلاب اسلامی نے ہفتہ 8 فروری 2020 کو حسینیہ امام خمینی میں اپنے خطاب میں کہا کہ اگر معاشرے میں یہ فکر عام ہو جائے کہ اللہ کا وعدہ ضرور پورا ہوتا ہے اور عہدیداران دانشمندی سے کام کریں تو خطرات کو مواقع میں تبدیل کیا جا سکتا ہے اور پابندیاں ملک کو تیل پر انحصار سے نجات دلا سکتی ہیں اور بہت سی مشکلات کا حل نکل سکتا ہے (۱(۔

رہبر انقلاب اسلامی کا  خطاب حسب ذیل ہے؛

بسم الله الرّحمن الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا ابی‌ القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آله الطّیّبین الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

برادران عزیز! اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی نہایت حساس اور اہم فورس فضائیہ کے کارکن حضرات! خوش آمدید! فضائیہ کے محترم کمانڈر کی تقریر کا شکریہ ادا کرتا ہوں، ترانہ پیش کرنے والی ٹیم، ان کے اشعار اور پیشکش کے انداز اور پروگرام پیش کرنے والے حضرات کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بہت اچھا پروگرام تھا۔

برسوں سے ناقابل فراموش اور حیرت انگیز واقعے کی یاد میں یہ اجلاس آج کے دن منعقد ہوتا آ رہا ہے۔ آپ نوجوانوں کی پرورش بحمد اللہ ایسے حالات میں ہوئی ہے کہ آپ کے لئے اس صورت حال کا تصور کرنا آسان نہیں ہے۔ پہلوی دور میں فضائیہ اقتدار، دربار اور امریکیوں کی بہت قریبی فورس تھی۔ ہمیں اس واقعے سے عبرت لینا چاہئے، اس میں درس ہیں، عبرتیں ہیں۔

پہلا درس جس پر توجہ رکھنا ہمارے لئے بہت اچھا ہے یہ ہے کہ طاغوتی حکومت کو وہاں سے ضرب پڑی جس کے بارے میں اسے دور دور تک اندیشہ نہیں تھا۔ اسی طرح جیسے اللہ تعالی قرآن میں بنی نضیر کے یہودیوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ : «فَاَتیٰهُمُ اللهُ مِن حَیثُ لَم یَحتَسِبوا» (۲) اللہ تعالی نے اس جگہ سے ان پر حملہ کیا کہ جس کا وہ تصور بھی نہیں کر رہے تھے۔ فضائیہ کے ایسے کمانڈر جو اغیار سے وابستہ تھے، اس دور میں فضائیہ کی جو خاص صورت حال تھی، یعنی امریکیوں، امریکی عہدیداروں اور امریکی تربیت گاہوں سے ان کا گہرا رابطہ اور تعلق، اس کے باوجود اچانک فضائیہ بے حد حساس موڑ پر اسلامی انقلاب کے حق میں میدان میں اتر پڑی۔ اس کی شروعات 8 فروری کو ہوئی جب وہ آئے اور انھوں نے آکر امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) سے ملاقات کی، آپ کی بیعت کی۔ اس کے بعد فوج کے بقیہ حصوں کا مقابلہ کیا جنہوں نے فضائیہ پر حملہ کیا تھا اور پھر ان دنوں وہ عجیب واقعات پیش آئے، مجھے نہیں معلوم کہ ان واقعات کی تفصیلات خود فضائیہ نے اپنے لئے کہیں درج کی ہیں یا نہیں۔ واقعی اگر انھیں درج نہیں کیا گيا ہے تو ان تفصیلات کو لکھا جانا چاہئے کہ تہران کی چھاونی میں کیا واقعات ہوئے۔ کس طرح ان پر حملے ہوئے اور کس طرح عوام نے ان کا دفاع کیا۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ اللہ تعالی نے دشمن پر وہاں سے حملہ کیا جہاں کے بارے میں دشمن سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ یہ مسئلے کا ایک رخ ہے۔

اس کے بر عکس مومنین کو ایسی جگہ سے قوت اور سہارا ملا کہ جس کے بارے میں انھوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اسلامی تعریف، اسلامی ثقافت کے مطابق اور ہماری دینی اصطلاح میں اس کا نام ہے؛ «رزق لایُحتَسَب»۔  وَ مَن یَتَّقِ اللهَ یَجعَل لَه مَخرَجـًا * وَ یَرزُقهُ مِن حَیثُ لا یَحتَسِب (۳) جو لوگ تحریک میں سرگرم تھے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے انھیں اتنی عظیم کامیابی مل سکتی ہے کہ اس زمانے کی فوج سے وابستہ بے حد حساس مراکز میں سے ایک، آکر انقلاب کی خدمت کرنا شروع کر دے اور امام خمینی کی بیعت کرے۔

یہ 8 فروری کے واقعے سے ملنے والا اہم سبق ہے۔ ہمیں اپنے آج کے اندازوں اور تخمینوں میں بھی اس کو مد نظر رکھنا چاہئے۔ میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں۔ آپ یہ ذہن میں رکھئے کہ دشمن کو ایسی جگہ سے ضرب پڑ سکتی ہے کہ جس کے بارے میں اس نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ جبکہ آپ جو اللہ کے بندے، اللہ پر ایمان رکھنے والے اور صراط مستقیم پر چلنے والے ہیں، ایسی جگہ سے اپنی مدد ہوتے دیکھیں گے کہ وہ آپ کے لئے «رزق لایُحتَسَب» ہوگی، آپ کو اس کی توقع بھی نہیں رہی ہوگی۔ میرے خیال میں یہ بڑا کلیدی نکتہ ہے کہ ہم اس بات پر توجہ رکھیں کہ دنیا کے سارے واقعات و تغیرات دنیوی اور مادی تخمینوں اور اندازوں کے مطابق ہی انجام نہیں پاتے۔ یہ بھی سوچنا چاہئے کہ کبھی کبھی اللہ تعالی کوئی نیا راستہ، شارٹ کٹ راستہ پیدا کر دیتا ہے اور اس طرح کی صورت حال بن جاتی ہے۔

ایک اور مسئلہ اللہ کے وعدے پر یقین رکھنے کا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں کئی جگہوں پر بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ اگر کوئی راہ خدا میں اور دین کی راہ میں سعی و کوشش کرتا ہے تو اللہ اس کی مدد کرے گا۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے: وَلَیَنصُرَنَّ اللهُ مَن یَنصُرُه (۴) اس بیان میں «لَیَنصُرَنَّ الله» تاکید کی کئی علامتیں ہیں۔ یعنی اللہ تعالی ضرور نصرت کرتا ہے ان لوگوں کی جو دین خدا کی، اللہ کے دین کی نصرت کرتے ہیں۔ یہ ایک وعدہ ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ کا ہے۔ اس وعدے پر یقین رکھنا چاہئے۔ 8 فروری 1979 کے دن یہ واقعہ ہو جانے کے باوجود اور یہ دیکھ لینے کے باوجود کہ فوج کے ایک حصے نے آکر انقلاب کی بیعت کر لی ہے، کچھ لوگ تھے جنہیں یقین نہیں ہوا، جو مطمئن نہیں ہوئے۔ اس وقت بھی انھیں امید نہیں تھی کہ کامیابی ملے گی۔ لیکن امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کو اللہ کے وعدے پر اعتماد تھا۔ امام اور وہ افراد جو امام کے نقش قدم، امام کی فکر اور امام کے راستے پر چلنے والے تھے انھیں یقین تھا کہ یہ وعدہ ضرور  پورا ہوگا، انہوں نے تحریک کی رفتار کم نہیں ہونے دی۔ جب لوگوں میں یقین ہو، مستقبل کی امید ہو تو وہ اپنے قدموں کی رفتار کم نہیں ہونے دیں گے۔ یہ بڑا اہم طرز فکر ہے کہ انسان یقین رکھے کہ اللہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرتا ہے۔ یہ بھی قرآن کی آیت ہے؛ وَ مَن ‌اَوفیٰ بِعَهدِه مِنَ الله (۵) اللہ سے بڑھ کر ایفائے عہد کرنے والا  کون ہے؟ اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے اور وہ اپنا وعدہ پورا کرے گا۔

یہ مسائل صرف ذاتی مسائل نہیں ہیں، یہ سماجی اور عمومی مسائل کا معاملہ ہے۔ جب کوئی مومن سماج، کوئی مومن مجموعہ، کوئی مومن فضائیہ اس طرح کا یقین رکھتی ہو تو پختہ عزم کے ساتھ خطرات کو مواقع میں تبدیل کر دے گی۔ ابھی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہم نے اتنی تعداد میں جنگی طیاروں اور مسافر طیاروں کی مرمت کی، اوورہالنگ کی، خاصی تعداد میں طیارے بنا بھی لئے۔ یہ کامیابیاں ہماری فضائیہ کے لئے کب ممکن ہو پائیں؟ اس وقت جب اس نے اغیار سے آس لگانا چھوڑ دیا۔ یعنی اغیار نے دھمکی دی۔ کہا کہ ہم آپ کو یہ چیزیں نہیں دیں گے، آپ کو نہیں بیچیں گے، آپ تک نہیں پہنچنے دیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چند سال قبل انہوں نے ہم سے گودام کا کرایہ بھی طلب کیا۔ ہمارے وہ وسائل جن کی قیمت وہ وصول کر چکے ہیں اور وہ وسائل انھوں نے ہمیں نہیں دئے، انھیں وسائل کو اپنے گوداموں میں رکھنے کا کرایہ بھی ہم سے مانگ رہے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام کو ایک کارآمد فضائیہ اپنے پاس رکھنے کا موقع نہ دیا جائے لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری فضائیہ جو ان دنوں کسی جنگی طیارے اور مسافر طیارے کے پرزے کی مرمت کرنے سے بھی قاصر تھی، جسے مرمت کرنے کی اجازت بھی نہیں تھی، آج وہی فضائیہ باقاعدہ طیارہ بنا رہی ہے۔ یعنی مشکلات کو مواقع میں تبدیل کر دیا گيا۔ خطرات کو مفادات میں بدل دیا گیا۔ مومن مجموعے کی یہ خاصیت ہوتی ہے۔

آپ مجموعی طور پر ملکی حالات کو دیکھئے تو یہاں بھی یہی صورت حال ہے۔ انقلاب کے شروع ہی سے ہم پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان حالیہ برسوں میں پابندیاں زیادہ شدت کے ساتھ جاری رہیں۔ یعنی ان میں زیادہ شدت پیدا کر دی گئی۔ وہ فخریہ کہتے بھی ہیں کہ ہم نے اسلامی جمہوریہ کے خلاف شدید ترین پابندیاں لگائی ہیں۔ یہ پابندیاں حقیقی معنی میں مجرمانہ اقدام ہے۔ یہ لوگ مجرمانہ عمل انجام دے رہے ہیں۔ یعنی ان کی دھمکیاں ایسی ہیں جن کی مذمت ساری دنیا کی رائے کرتی ہے۔ اس لئے کہ یہ صرف امریکہ کی طرف سے پابندیاں عائد کرنے کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ امریکہ کی طرف سے دوسروں سے جبرا ایران پر پابندیاں لگوانے کا قضیہ ہے۔ یعنی آپ اس طرح سمجھ لیجئے کہ امریکہ کے مختلف ادارے کوشش کرتے ہیں کہ کمپنیوں، مختلف افراد اور حکومتوں سے دائمی رابطے میں رہیں اور ان سے کہتے رہیں کہ آپ ایران سے کوئی تجارت نہ کیجئے۔ یعنی ایک ہمہ جہتی پابندیاں۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ یہ ان کے بس کی بات ہے یا نہیں؟ یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن وہ یہ کام کر رہے ہیں جو واقعی ایک مجرمانہ فعل ہے۔

یہی پابندیاں ایک موقع میں تبدیل ہو سکتی ہیں چنانچہ اب تک کافی حد تک ان کی وجہ سے ہمارے لئے مواقع پیدا ہوئے ہیں اور آئندہ بھی یہ پابندیاں ہمارے لئے بڑا موقع پیدا کر سکتی ہیں۔ اگر ہم عہدیداران بھی دانشمندی سے کام کریں تو ملکی معیشت کو تیل پر انحصار کی صورت حال سے نجات دلا سکتے ہیں۔ تیل پر انحصار کی کیفیت سے معیشت کو نجات دلا سکتے ہیں، انحصار کو ختم کر سکتے ہیں۔ ہماری اقتصادی مشکلات کی بنیادی اور اہم وجہ یہ ہے: تیل پر انحصار، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں دولت پیدا کرنے کے لئے افرادی قوت، داخلی توانائیوں کو پروان چڑھانے، گوناگوں صلاحیتوں اور توانائیوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے نتیجے میں ہم مطمئن ہو گئے کہ ہم تیل فروخت کریں گے اور ملک کی ضروریات پوری ہو جائیں گی۔ ملک کی مشکلات کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ اب اگر ہم یہ ہدف پورا کر لے گئے تو گویا ہم نے دشمن کی طرف سے پیدا کی جانے والی مشکلات کو مواقع میں تبدیل کر لیا ہے۔

اس طرف ان کی بھی توجہ ہے۔ میں یہ بھی عرض کر دوں۔ ان میں جو سمجھدار ہیں، جو بوکھلاہٹ میں مبتلا ہیں، جو متوجہ نہیں ہیں ان کو چھوڑئے! لیکن ان میں جو سمجھدار ہیں ان کی توجہ اس نکتے پر ہے۔ کچھ رپورٹوں میں میں نے دیکھا کہ وہ زور دے رہے ہیں کہ ایران کو اپنی معیشت کو تیل سے آزاد کرنے کا موقع نہیں دینا چاہئے۔ وہ اپنے حلقوں میں یہ بات کرتے ہیں کہ تیل پر عدم انحصار کی صورت حال ایرانی معیشت کے لئے نہیں پیدا ہونا چاہئے۔ کوئی طریقہ تلاش کیجئے، اگر آپ پابندیاں نہیں ہٹاتے تو کوئی بات نہیں، لیکن کوئی راستہ تلاش کیجئے یا کوئی راستہ کھول دیجئے کہ ایران پوری طرح تیل سے قطع تعلق نہ کرنے پائے۔ کیونکہ اگر ایران نے تیل کی آمدنی سے رابطہ ختم کیا تو تیل پر عدم انحصار والی معیشت کی طرف جائے گا۔ اس پر ان کی توجہ ہے اور اس کے لئے وہ کام کر رہے ہیں۔ ہم عہدیداران کو اپنے حواس بجا رکھنا چاہئے۔ ملک کے حکام، بالخصوص اقتصادی شعبے کے عہدیداران بہت توجہ رکھیں۔ تو 8 فروری کے واقعے کا ایک اہم سبق یہ ہے: اللہ کے وعدوں پر اعتماد، «رزق لایُحتَسَب» کی امید رکھنا، میدان میں موجود رہنے اور دائمی پیش قدمی کی ترغیب جو نصرت خداوندی کا ذریعہ بنتی ہے۔

آٹھ فروری کے انھیں ایام میں اور اس سے چند روز قبل امریکہ اپنے تمام وسائل بروئے کار لایا۔ ایک اعلی رتبہ فوجی افسر 'ہائیزر' کو تہران بھیجا، اقتدار میں موجود اہم افراد سے رابطے کئے کہ شاید کچھ کر سکے۔ بغاوت وغیرہ کچھ کروا دے تاکہ  انقلاب کی پیش قدمی رک جائے۔ انھوں نے بہت سے اقدامات کئے۔ اس سب کے باوجود ملت ایران فتحیاب ہوئی اور انھیں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ یہ اللہ کے وعدے پر اعتماد اور اس پر توکل کا نتیجہ تھا۔ البتہ اب ان کے اقدامات اور ان کے وسائل پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے، آج دشمن زیادہ پیچیدہ اقدامات کر رہے ہیں، لیکن ہمارے اقدامات بھی کافی گہرے اور پیچیدہ ہیں۔ آج بحمد اللہ ملک کے سیاسی شعبے میں، ملک کے عسکری ڈھانچے میں، ملک کے فنی و تکنیکی شعبے میں، اسی طرح دوسرے گوناگوں شعبوں میں جو سرگرمیاں انجام پا رہی ہیں وہ بہت منصوبہ بند، نپی تلی، منطقی، پیچیدہ اور آگے بڑھنے والی ہیں۔ یہی گہری اور پیچیدہ صورت حال ملک کی اسٹریٹیجک گہرائی کی ضمانت بنی اور اس نے دشمن کو دھول چٹا دی۔

میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ لوگ، خاص طور پر نوجوان اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی فضائیہ کے اندر جذبہ امید سے سرشار دل کے ساتھ، مستقبل کے تعلق سے پرامید نظر کے ساتھ، اس فورس کو مضبوط بنانے کے لئے جو بھی ضروری ہے وہ کیجئے۔ آپ میں جو بھی جہاں بھی ہے، اسی جگہ کو سب سے بنیادی اور سب سے مرکزی جگہ  تصور کرے۔ جو فرائض آپ کے دوش پر ہیں، فنی امور سے مربوط جو چیزیں ہیں، پروازوں سے مربوط جو چیزیں ہیں، ادارے سے مربوط جو چیزیں ہیں، اس کے علاوہ جو بقیہ اہم کام ہیں، انھیں پوری توجہ سے انجام دیجئے۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ملک ہر پہلو سے طاقتور بنے، ان میں ایک عسکری پہلو بھی ہے۔ ہم کسی کے لئے خطرہ پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ ہم جو عسکری قوت اور دفاعی بالادستی پر تاکید کرتے ہیں، اس کی سفارش کرتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ کسی ملک یا کسی قوم کو ڈرانا اور خطرے میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ خطرہ پیدا کرنے کے لئے نہیں بلکہ خطرات کا سد باب کرنے کے لئے ہے۔ ملکی سلامتی کی حفاظت کے لئے ہے۔ اگر آپ کمزور ہوں گے تو دشمن کا حوصلہ بڑھے گا اور وہ آپ کو پریشان کرنے اور ستانے کی فکر میں رہے گا۔ لیکن اگر آپ طاقتور ہیں تو دشمن آپ کے قریب آنے کی ہمت بھی نہیں کرے گا۔ ہمیں طاقتور بننا چاہئے تاکہ جنگ کی پیشگی روک  تھام ہو، ہمیں طاقتور بننا چاہئے تاکہ دشمن کے خطرات ختم ہو جائیں۔ آپ بھی، سپاہ پاسداران کا فضائی و خلائی شعبہ بھی اور وزارت دفاع کا صنعتی شعبہ بھی وسائل و آلات بنانے میں، افرادی قوت کے مینیجمنٹ میں، اسی طرح ان تمام کاموں میں جو آپ جیسے ادارے کے ذمے ہوتے ہیں، بھرپور کوشش کرے کہ توفیق خداوندی سے، فضل الہی سے اس مقام تک پہنچ جائے جو ایک خود مختار، آزاد اور سربلند معاشرے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ مجھے اس کی پوری امید ہے۔

اوائل انقلاب سے اب تک ہم فضائیہ سے ہمیشہ بہت مانوس رہے۔ ہم نے اس فورس کے کمانڈروں، اس کے اعلی رتبہ افسران کے ساتھ کام کیا۔ آج بحمد اللہ فضائیہ کافی پیشرفت کر چکی ہے۔ اس نے بڑے قدم اٹھائے ہیں، بڑے کام انجام دئے ہیں۔ آج اسلامی جمہوریہ کی فضائیہ میں، اسلامی جمہوریہ کی فوج کے فضائی شعبے میں بہت قابل اور با صلاحیت افراد موجود ہیں۔ میں نے بعض نوجوانوں کو دیکھا جنہوں نے بہت بڑے کارنامے انجام دئے ہیں۔ بحمد اللہ یہ فورس پیشرفت کے لئے ضروری توانائی، استعداد اور صلاحیت سے آراستہ ہے۔ ان صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے استعمال کیجئے اور روز بروز ان شاء اللہ زیادہ طاقتور بنئے۔ میں بھی دعا کروں گا کہ اللہ تعالی آپ کی توفیقات میں روز بروز ا‌ضافہ کرے۔

آپ یقین جانئے کہ شکست ملت ایران کے دشمنوں کا مقدر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملت ایران کے دشمن راہ باطل پر ہیں اور اس راستے پر چل رہے ہیں۔ غلط راستے پر چل رہے ہیں۔ اگر امریکہ کے گزشتہ صدور پردے کے پیچھے ریشہ دوانیاں کرتے تھے تو آج اعلانیہ، بے نقاب ہوکر اپنی بدعنوانیوں، اپنے انحراف، اپنی جنگ افروزی، اپنی فتنہ پروری، دوسروں کے سرمائے اور ثروت پر اپنی حریصانہ نظر کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ راستہ، باطل راستہ ہے، شیطان کا راستہ ہے۔ شیطان کا یہ راستہ وہی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے: اُولئکَ الَّذینَ لَعَنَهُمُ اللهُ وَمَن یَلعَنِ اللهُ فَلَن تَجِدَ لَه نَصیرًا (6) اللہ جس پر لعنت بھیجتا ہے اور جسے راندہ درگاہ کر دیتا ہے، اسے کوئی نصرت نہیں ملے گی، اس کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ یہ امر واقعہ ہے۔ جبکہ آپ کا مددگار موجود ہے اور وہ مددگار خود خدائے عزیز و حکیم ہے۔ ان شاء اللہ وہ آپ کی نصرت کرے گا اور آپ اپنی منزل مقصود پر پہنچیں گے۔

ان شاء اللہ آپ کو توفیقات حاصل ہوں، اللہ آپ کی مدد کرے، روز بروز آپ کی پیشرفت جاری رہے، آپ آگے بڑھتے رہیں۔

والسّلام علیکم و رحمة‌الله و برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں جو ایران کی فضائیہ کے کمانڈروں کی طرف سے امام خمینی کی بیعت کے تاریخی واقعے کی سالگرہ پر انجام  پائی اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی فضائیہ کے کمانڈر جنرل عزیز نصیر زادہ نے ایک رپورٹ پیش کی۔

۲) سوره‌ حشر، آیت نمبر ۲ کا ایک حصہ

۳) سوره‌ طلاق، آیت نمبر ۲ اور ۳ کا ایک حصہ؛ «...جو اللہ کا خوف رکھتا ہے اللہ اس کے لئے نجات کے راستے کھول دیتا ہے اور ایسی جگہ سے جس کے بارے میں اس نے سوچا بھی نہیں تھا اسے رزق پہنچاتا ہے۔..»

۴) سوره‌ حج، آیت نمبر ۴۰ کا ایک حصہ

۵) سوره‌ توبه، آیت نمبر ۱۱۱ کا ایک حصہ

6) سوره‌ نساء، آیت نمبر ۵۲