اگر ملک کے حکام کو اور نظام مملکت کے ذمہ داروں کو تنقیدوں کا نشان بنایا جائے اور ان کی کمزوریوں کو خود ان کی نگاہوں کے سامنے لایا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جب انسانی رقابت کی پوزیشن میں کھڑا ہو اور اسے اپنے مد مقابل کی تنقید کا سامنا کرنا پڑے تو وہ بہتر کام کرتا ہے۔ البتہ یہ تنقید انقلاب کے بنیادی اصولوں کے دائرے میں ہونی چاہیے۔ انقلاب کے اصول بھی معین ہیں کہ وہ کیا ہیں؟ انقلاب کے اصول، ذاتی ذوق اور لیقے سے تعلق نہیں رکھتے کہ کوئی بھی شخص کہیں سے اٹھے اور اصول انقلاب کی پلیٹ لگا کر اپنا سینہ پیٹنے لگے اور جب اس اصول کا جائزہ لیں تو پتہ چلے کہ یہ تو انقلاب سے ہی بیگانہ ہے۔ اصول انقلاب، اسلام ہے، (اسلامی جمہوریہ کا) آئین و قانون ہے، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے بیانات ہیں، امام (خمینی) کا وصیت نامہ ہے، نظام کی بنیادی پالیسیاں ہیں جو ملک کے آئین سے معین ہوئی ہیں۔ ان کے دائرے میں رہ کر اختلاف نظر، اختلاف منشا، اختلاف سلیقہ، بہت اہم نہیں ہے بلکہ اچھی بات ہے۔ یہ نقصان دہ نہیں ہے، یہ فائدہ مند ہے۔ اگر لوگ اصولوں کے دائرے میں رہ کر برتاؤ کرتے ہیں، تشدد نہیں کرتے، معاشرے کی سلامتی کو مجروح کرنے کی کوشش نہیں کرتے،  معاشرے کے سکون کو ٹھیس نہیں پہنچاتے تو ان غلط کاموں سے جو کئے جارہے ہیں، جیسے جھوٹ اور افواہیں پھیلانا تو ان سے نظام کو کوئی نقصان پہنچنے والا نہیں ہے۔

امام خامنہ ای

11 ستمبر 2009