بغداد کے بین الاقوامی کتب میلے میں اس وقت "فلسطین کا ریفرنڈم" کتاب کے عربی ترجمے کی رسم اجرا، جو مسئلۂ فلسطین کی راہ حل کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی تجویز کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ خامنہ ای کے نظریات کے بارے میں ہے عمل میں آئی اور "فلسطین؛ انسانی ضمیر میں" نامی کانفرنس بھی منعقد ہوئی۔
اتوار 14 ستمبر کو دارالحکومت بغداد میں منعقد ہونے والے بک فیسٹول میں مسئلۂ فلسطین کے حل کے سلسلے میں رہبر انقلاب کے نظریات پر مشتمل کتاب "فلسطین کا ریفرنڈم" کے عربی ترجمے کی رسم اجراء عمل میں آئی جس میں عراق اور فلسطین کی متعدد اہم شخصیات موجود تھیں۔
فلسطینی قوم کی ہمہ گیر جدوجہد تب تک جاری رہنی چاہیے جب تک وہ لوگ، جنھوں نے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، فلسطینی قوم کی رائے کے سامنے جھک نہ جائيں۔
بغداد کے بین الاقوامی کتب میلے میں اس وقت "فلسطین کا ریفرنڈم" کتاب کے عربی ترجمے کی رسم اجرا، جو مسئلۂ فلسطین کی راہ حل کے بارے میں امام خامنہ ای کے نظریات اور اسی طرح اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی تجویز پر مشتمل، ہے عمل میں آئی اور "فلسطین؛ انسانی ضمیر میں" نامی کانفرنس بھی منعقد ہوئی۔
بغداد کے بین الاقوامی کتب میلے میں اس وقت "فلسطین کا ریفرنڈم" کتاب کے عربی ترجمے کی رسم اجرا، جو مسئلۂ فلسطین کی راہ حل کے بارے میں امام خامنہ ای کے نظریات اور اسی طرح اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی تجویز پر مشتمل ہے اور "فلسطین؛ انسانی ضمیر میں" نامی کانفرنس جاری ہے۔
سات عشروں سے حل طلب مسئلہ
فلسطین کا مسئلہ موجودہ دنیا کا سب سے پرانا حل طلب بحران ہے، یہ بحران کسی علاقے پر قبضے، لاکھوں افراد کی دربدری، انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی اور لگاتار جنگوں سے پیدا ہوا ہے اور جس نے ہر نسل کو مصائب اور نئے سوالات سے دوچار کیا ہے۔ مغربی طاقتوں اور ثالثی کرنے والے بعض علاقائی فریقوں کی طرف سے اب تک جو حل تجویز کیے گئے ہیں، وہ یا تو "مسلط کردہ سازباز" پر مرکوز ہیں یا انھوں نے فلسطینیوں کی اراضی کی جعلی تقسیم کے ذریعے غاصبانہ قبضے کی حقیقت کو چھپایا ہے۔ نتیجہ واضح ہے: نہ تو پائیدار امن قائم ہوا ہے، نہ دربدری اور جلاوطنی ختم ہوئی ہے، اور نہ ہی سلامتی اور انصاف قائم ہوا ہے۔ یہ کتاب اسی بنیادی مسئلے سے شروع ہوتی ہے: موجودہ حل کیوں کام نہیں کر رہے ہیں اور کون سا "حقیقت پسندانہ، منصفانہ اور جمہوری" حل ہے جو اس معیوب عمل کو ختم کر سکتا ہے؟
رائج راہہائے حل: "غاصب ریاست سے مصالحت" سے لے کر "اس سے تعلقات معمول پر لانے" تک
پچھلے منصوبوں کے ڈھانچے نے زیادہ تر فلسطین کو سودے بازی کے ایک موضوع میں تبدیل کر دیا ہے: ایک ایسی حکومت کے ساتھ مذاکرات جو طاقت کے بل پر قائم ہوئی ہے، حقیقی خودمختاری کے بجائے "کم اختیارات والی خود مختار ریاستوں" کو قبول کرنا یا امریکا کے ذریعے، جو خود کو چودھری سمجھتا ہے، مسئلے کے حل کی امید میں اس حکومت سے تعلقات معمول پر لانا۔ ان منصوبوں میں نہ تو بحران کی جڑ، یعنی اصل زمین کے مالکوں کے حق خود ارادیت اور نہ ہی فلسطینی قوم کی مرضی پر توجہ دی گئی ہے۔ اس طرح کے طریقۂ کار کا نتیجہ صیہونی حکومت کے ذریعے فلسطین پر مزید غاصبانہ قبضے کے سوا کچھ نہیں رہا ہے۔
ریفرنڈم کا انعقاد، مسئلۂ فلسطین کے حل کے لیے اسلامی جمہوریہ کی منصفانہ اور ڈیموکریٹک تجویز
یہ کتاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے نظریات کو مرتب طریقے سے یکجا کر کے، جن کی بنیاد اسلامی تعلیمات ہیں، ایک واضح اور قابل آزمائش راہ حل پیش کرتی ہے: تمام آوارہ وطن فلسطینیوں کی اپنی سرزمین پر واپسی کے بعد حکمراں ڈھانچے کے تعین کے لیے، پوری تاریخی سرزمین فلسطین پر سبھی اصل فلسطینیوں کے درمیان، چاہے وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں، یا یہودی ہوں، ایک قومی ریفرنڈم کا انعقاد۔
اس تناظر میں سرزمین فلسطین کے حقیقی مالکوں کے ووٹوں کو جمہوری طریقے (عوامی رائے سے رجوع یا ریفرنڈم) سے یکجا کیا جائے گا۔ اس منصوبے کی بنیادی خصوصیات حسب ذیل ہیں:
1۔ تمام آوارہ وطن فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر واپسی کا حق
2۔ بین الاقوامی نگرانی میں معتبر منظم اور جامع ریفرنڈم کا انعقاد
3۔ پورے فلسطین پر فلسطینیوں کی اکثریت کے ووٹوں سے ایک منتخب حکومت کی تشکیل
4۔ فلسطین میں مقیم غیر مقامی مہاجرین کے بارے میں فیصلے کا اختیار عوامی ووٹ سے منتخب حکومت کو سونپنا
کتاب تشریح کرتی ہے کہ یہ حل نہ صرف جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے مطابق ہے بلکہ معتبر بین الاقوامی حقوق کے معیارات، اپنے مستقبل کے تعین کے حق سے لے کر انسانی حقوق کی ضروریات تک، سے بھی ہماہنگ ہے، یہاں تک کہ اس کے عملی نفاذ کی تجویز بھی اقوام متحدہ کو پیش کی جا چکی ہے اور ایک دستاویز کے طور پر دستیاب ہے۔
"ریفرنڈم" کیوں کارگر ثابت ہوتا ہے؟ اس کے کارگر ہونے کے تین پہلو
اخلاقی پہلو: فیصلے کا معیار "سرزمین کے مالکوں کا حق" ہے۔ یہ منصوبہ کسی مذہبی گروہ کو خارج نہیں کرتا اور مسلمانوں کے ساتھ ہی یہودی اور عیسائی فلسطینیوں کو بھی باضابطہ طور پر تسلیم کرتا ہے۔ یہ منصوبہ غیر جانبدارانہ انصاف پر مبنی ہے۔
قانونی پہلو: اپنے مستقبل کے تعین کا حق ایک عالمگیر اصول ہے۔ ریفرنڈم اس حق کے عملی جامہ پہننے کا وسیلہ ہے اور بین الاقوامی عدالتی اداروں کے مشورتی فیصلوں سے ہماہنگی رکھتا ہے۔
آپریشنل پہلو: کتاب نعروں سے آگے بڑھ کر "عملدرآمد کا پلان" پیش کرتی ہے: فلسطینیوں کی جامع شناخت اور رجسٹریشن، فلسطینی عوام کے نمائندوں کی شرکت سے ایک بین الاقوامی اجرائی کمیٹی کی تشکیل، امدادی فنڈ کی تخصیص اور الیکشن کی نگرانی اور ووٹرز کی سیکورٹی کے طریقۂ کار کی تیاری۔ اس کا نتیجہ فلسطینیوں کی وطن واپسی، ووٹنگ، حکومت کی تشکیل اور حکومتی فیصلہ سازی کا ایک مرحلہ وار راستہ ہے۔
اس فریم ورک میں مزاحمت اور جمہوریت کا باہمی تعلق
یہ کتاب فلسطینی قوم کی قانونی جدوجہد کو جمہوریت کا متبادل نہیں بلکہ جمہوریت کے نفاذ کو مسلط کرنے کا ذریعہ قرار دیتی ہے: جب تک ووٹ کا حق اور واپسی کا حق باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا، تب تک غاصب کو ریفرنڈم قبول کرنے پر مجبور کرنے کے لیے عوامی مزاحمت ایک اخلاقی اور سیاسی حق ہے۔ دوسرے الفاظ میں، مزاحمت اور ریفرنڈم دو متوازی خطوط ہیں جو پورے فلسطین پر فلسطینی حکمرانی پر منتج ہوتے ہیں۔
کتاب اور اس کا مواد
کتاب دو اصل ابواب پر مشتمل ہے:
پہلے باب میں "شکست خوردہ راہہائے حل" کا گہرائی سے جائزہ لیا گیا ہے اور مزاحمت کے فلسفے، تھوپی گئی مصالحت کی نفی اور "حق" کے معیار کی بحالی کی ضرورت کو پیش کیا گیا ہے۔
دوسرے باب میں "اسلامی جمہوریۂ ایران کے نظریے" کی تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے: فلسطین کے فلسطینیوں کی ملکیت ہونے کے اصول، فیصلہ کرنے کے ان کے حق سے لے کر ریفرنڈم کے انعقاد کی تفصیلات، مشارکت کے دائرے، بین الاقوامی اداروں کے کردار اور عملدرآمد کے چار مراحل کو بیان کیا گيا ہے۔ کتاب کے ضمیمے میں اقوام متحدہ کو بھیجا گیا سرکاری خط شامل ہے جو "قومی ریفرنڈم" کے قانونی اور عملی فریم ورک کی دستاویز سازی کرتا ہے۔
یہ کتاب کن لوگوں کو پڑھنا چاہیے؟
مشرق وسطیٰ کی اسٹڈیز اور بین الاقوامی حقوق اور امن کے محققین اور طلباء، سول اور میڈیا ایکٹیوسٹس، پالیسی ساز اور سفارت کار اور وہ تمام قارئین جو کئي عشروں پر محیط ایک طویل ترین تنازعے کے خاتمے کے لیے ایک منصفانہ، ڈیموکریٹک اور قابل عمل حل کی جستجو میں ہیں۔ یہ کتاب فکری و نظریاتی فریم ورک بھی پیش کرتی ہے، آپریشنل نقشہ بھی دکھاتی ہے اور قانونی بنیادیں بھی مہیا کراتی ہے، خاص طور پر فلسطینی قوم کی آواز کو مسئلے کے حل کا حتمی اور آخری معیار قرار دیتی ہے۔
"فلسطین کا ریفرنڈم" بے بنیاد معاہدوں کی بندگلی سے نکل کر حق اور رائے شماری کے واضح راستے پر واپسی کی ایک دعوت ہے۔ اگر ہم پائیدار امن چاہتے ہیں، تو ہمیں خودمختاری اس کے حقیقی مالکوں کو واپس کرنی ہوگی، اور یہ کتاب پوری وضاحت کے ساتھ اس کی انجام دہی کا راستہ دکھاتی ہے۔
فلسطینی قوم کی ہمہ گیر جدوجہد جاری رہنی چاہیے تاکہ وہ لوگ، جنھوں نے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، فلسطینی قوم کے ووٹوں کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو جائيں۔
امام خامنہ ای5 جون 2019