اس پروگرام کے آغاز میں بغداد انٹرنیشنل بک فیئر کے چیئرمین عبدالوہاب الراضی نے تقریر کی اور کہا کہ یہ ہمارے لیے باعث فخر ہے کہ اس کانفرنس میں آیت اللہ خامنہ ای جیسی علمی و معرفتی شخصیت اور عظیم انسان کی کتاب کی رسم اجراء عمل میں آ رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ بات میرے لیے بھی اور بغداد انٹرنیشنل بک فیئر منعقد کرنے والی کمیٹی کے لیے بھی مسرت بخش ہے کہ یہ پروگرام، کتب میلے کے ساتھ ساتھ منعقد ہوا ہے۔

اس کے بعد عراق میں حماس کے عرب اور اسلامی روابط کے امور کے ڈائریکٹر محمد الحافی نے تقریر کی اور کہا کہ سب سے پہلے تو میں فلسطین سے لے کر لبنان، عراق، یمن اور اسلامی جمہوریہ ایران تک راہ قدس کے شہیدوں پر درود و سلام بھیجنا ضروری سمجھتا ہوں اور اسی طرح اس راہ میں زخمی ہونے والوں کی جلد از جلد شفا کے لیے دعاگو ہوں۔ انھوں نے کہا کہ میں سنہ 1978 میں یعنی اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے ایک غیر ملکی رپورٹر کو دیے گئے انٹرویو میں انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے موقف کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ہم دنیا میں ہر جگہ مظلوموں کا دفاع کریں گے اور فلسطینی، اسرائیل کے مقابلے میں مظلوم واقع ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے ہم ان کی حمایت کرتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ "فلسطین کا ریفرنڈم" کتاب یہ بتاتی ہے کہ امام خامنہ ای کے افکار و نظریات بھی، مظلوم کی حمایت کے سلسلے میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے اسی نظریے کا تسلسل ہیں۔ انھوں نے اس کتاب کی رسم اجرا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ رہبر انقلاب کے افکار میں فلسطین کا خاص مقام ہے اور اسی طرح ان کی باتوں اور عمل میں بھی فلسطین کا خاص مقام ہے۔ عراق میں حماس کے عرب اور اسلامی روابط کے امور کے ڈائریکٹر محمد الحافی نے مزید کہا کہ میں"فلسطین؛ انسانی ضمیر میں" کانفرنس کے اسی پلیٹ فارم سے دوحہ کے عربی-اسلامی اجلاس کے شرکاء کو ایک پیغام دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اس وقت عالم اسلام کی نظریں آپ پر ہیں اور آپ کے سامنے دو آپشن ہیں؛ یا تو صیہونی حکومت سے مقابلہ کریں یا پھر اس کے اور اس کے منحوس منصوبوں کے سامنے سر جھکا دیں۔

اس کے بعد المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے پروفیسر سید جاسم الجزائری نے تقریر کی اور کہا کہ مسئلۂ فلسطین، ہمیشہ ہی عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے۔ اس وقت بھی یہ مسئلہ، امام خامنہ ای کی قیادت میں ایران کے اسلامی انقلاب کے لیے بہت اہم موضوع ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو، فلسطین کی حمایت کی وجہ سے مختلف مسائل اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن اس نے کبھی بھی فلسطین کی حمایت ترک نہیں کی ہے۔ انھوں نے مسئلۂ فلسطین کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی کے طرز فکر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آیت اللہ خامنہ ای مسئلۂ فلسطین کو دو پہلوؤں سے دیکھتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ مسئلۂ فلسطین دراصل عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔

المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے پروفیسر سید جاسم الجزائری نے مزید کہا کہ فلسطین کی نجات اور غاصب صیہونی حکومت کو درمیان سے ہٹانا، امام خامنہ ای کے بقول ایک ایسا مسئلہ ہے جو علاقائی ممالک کے مفادات سے جڑا ہوا ہے۔ اس لیے مسلم اقوام اور تمام اسلامی مذاہب کے لوگوں کو اس اہم حقیقت سے واقف ہونا چاہیے کہ فلسطین میں آج جو جنگ ہو رہی ہے وہ دراصل اسلام کے وجود کے خلاف جنگ ہے اور اسلامی اتحاد کے خلاف شروع ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ خطے میں صیہونی حکومت کی تشکیل، اسلام اور مسلمانوں کے اتحاد کے سامنے ایک رکاوٹ ہے اور مسلم اقوام کو، جیسا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ اور امام خامنہ ای نے زور دے کر کہا ہے، اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ دشمن، مختلف عنوانوں اور پرفریب نعروں کے ذریعے اپنا مقصد پورا کر لے۔

اس کے بعد بغداد کی المستنصریہ" یونیورسٹی کی فیکلٹی آف لا کے ڈین ڈاکٹر "مالک منسی الحسینی نے تقریر کی۔ انھوں نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ اگر ہم اس کانفرنس کے انعقاد کی جڑوں پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ کہنا ہوگا کہ فلسطینی عوام کے لیے ریفرنڈم کی تجویز نومبر 2019 میں دی گئی تھی جب اسلامی جمہوریۂ ایران نے "فلسطین کی سرزمین میں عوامی ریفرنڈم" کے زیر عنوان ایک تجویز اقوام متحدہ کو پیش کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ یہ تجویز، ایک جمہوری اور سیاسی عمل میں فلسطینی قوم کے مختلف حصوں کی وسیع شراکت پر مبنی ہے جس کا مقصد خود اپنے مستقبل کے تعین کے حق کا حصول ہے۔ یہ حق بنیادی طور پر اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقدمے اور اسی طرح اس کے آرٹیکل 55 میں تسلیم کیا گیا ہے، اس کے علاوہ جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 2526 اور سلامتی کونسل کی بہت سی دیگر قراردادوں میں بھی اس پر زور دیا گیا ہے۔

ڈاکٹر منسی الحسینی نے کہا کہ یہ وہی حق ہے جو 14 مئی 1948 کو، تقسیم کی قرارداد جاری ہونے کے ساتھ ہی، فلسطینی قوم سے چھین لیا گیا تھا۔ اسی لیے فلسطین کے ریفرنڈم کی تجویز، جو جعلی اور خیانت کار صیہونی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کی بنیاد پر قائم ہے، ایک حقوقی، قانونی، اور جمہوری تجویز ہے۔ انھوں نے کتاب "فلسطین کا ریفرنڈم" اور اس سلسلے میں رہبر انقلاب اسلامی کے نقطۂ نظر کے بارے میں کہا کہ اس کتاب یا ان کے نظریات میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے، وہ کسی بھی صورت میں زمین کے ایک حصے کو لوٹا کر کے حق واپس لینے کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ یہ ایک صحیح اور جمہوری عمل پر مبنی ہے؛ یعنی اقوام متحدہ کی ضمانت کے ساتھ، فلسطینی قوم کے تمام گروہوں، یعنی یہودیوں، عیسائیوں، عربوں اور دیگر فلسطینی باشندوں کی شرکت سے ایک عوامی ریفرنڈم کا انعقاد۔ یہ تجویز بین الاقوامی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی وجہ سے بے تحاشا مصائب برداشت کرنے والی ایک والی قوم کے خلاف صیہونی حکومت کی جارحیت کو روکنے کا ایک قانونی اور ٹھوس حل ہے۔

آخر میں، انقلاب اسلامی انسٹی ٹیوٹ کے بین الاقوامی امور کے سربراہ اور امام خامنہ ای کے دفتر کے نمائندے ڈاکٹر محمد اخگری نے تقریر کی اور کہا کہ اس باوقار اور گرانقدر محفل میں آپ کو کتاب "فلسطین کا ریفرنڈم" کی رسم اجراء کی خوشخبری پیش دیتے مجھے بے حد مسرت ہو رہی ہے۔ یہ کتاب بیت المقدس کی آزادی اور مظلوم فلسطینی قوم کے دفاع کے بارے میں امام خامنہ ای کے نظریات پر مشتمل ہے۔ انھوں نے زور دے کر کہا: یہ مسئلہ (مسئلۂ فلسطین) ہماری خارجہ پالیسی کی محض ایک شق نہیں ہے بلکہ یہ ایک مضبوط عقیدے کا سنگ بنیاد ہے جس پر ہمارے اسلامی انقلاب کی بنیاد اس کے ابتدائی دنوں سے رکھی گئی ہے۔ اسلامی انقلاب کے رہبروں نے مظلوم فلسطینی قوم کی حمایت کے منصوبے کو مستحکم کرنے میں کلیدی اور بنیادی کردار ادا کیا ہے اور ان کی باتوں اور موقف نے اس مقصد کے راستے پر فیصلہ کن اثر ڈالا ہے۔

ڈاکٹر اخگری نے کتاب "فلسطین کا ریفرنڈم" کے بارے میں بتایا کہ یہ کتاب دو اہم موضوعات میں تقسیم کی گئی ہے؛ مزاحمت اور عوامی ریفرنڈم۔ پہلے موضوع کے سلسلے میں رہبر انقلاب اسلامی اس واضح حقیقت پر زور دیتے ہیں کہ فلسطین کے مسئلے کا واحد حل صیہونی حکومت کے ظلم اور غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمت ہے، اور وہ سازباز اور مذاکرات کے ایسے تمام راستوں کو مسترد کرتے ہیں جو ظلم کو قبول کرنے پر مبنی ہیں کیونکہ تجربے سے ثابت ہو چکا ہے کہ یہ راستے محض فریب ہیں اور ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ ڈاکٹر اخگری نے مزید کہا کہ دوسرے موضوع کے سلسلے میں امام خامنہ ای اپنا تمدنی اور انسانی نظریہ پیش کرتے ہیں اور ایک جمہوری راہ حل کی تجویز دیتے ہیں اور وہ ہے اس سرزمین کے اصلی باشندوں کی شرکت سے، چاہے وہ جس مذہب اور فرقے کے ہوں، ایک عوامی ریفرنڈم کا انعقاد۔ جنوبی افریقا میں ریفرنڈم کا کامیاب تجربہ، جس کے نتیجے میں اپارتھائیڈ نظام کا خاتمہ ہوا اور اس سرزمین کے عوام کی مزاحمت ایک تاریخی فتح پر منتج ہوئی، اس حل کے ممکن اور قابل عمل ہونے کا ایک واضح گواہ ہے۔

آخر میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ دنیا کے آزاد منش انسانوں کی حمایت سے فلسطینی قوم کی مزاحمت، خداوند متعال کے لطف و کرم سے اپنے مطلوبہ نتیجے تک پہنچے گی۔ اس لیے، ہمیں امید ہے کہ مزاحمتی سوچ کے فروغ اور "فلسطین کا ریفرنڈم" منصوبے کی علماء، مفکرین، سیاست دانوں اور اسلامی امت کی اہم شخصیات کی طرف سے حمایت سے، اس یوم موعود کے طلوع کو رفتار عطا ملے گی۔

پروگرام کے اختتام پر، مقررین نے غزہ کے شہید احمد المہنا کے والد اور غزہ کے زخمی اسمہان جمعہ کے ساتھ مل کر کتاب "فلسطین کا ریفرنڈم" کی رونمائی کی۔