رہبر انقلاب اسلامی کی ویب سائٹ KHAMENEI.IR نے لبنان کے مصنف اور سیاسی تجزیہ نگار طارق ترشیشی سے ایک انٹرویو کیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ صیہونی حکام سنہ 1948 سے ہی پورے فلسطین پر غاصبانہ قبضے اور گریٹر اسرائيل کی تشکیل کے درپے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "دو ریاستی راہ حل" صرف ایک سیاسی وہم ہے اور فلسطینی قوم کے حق کی بازیابی اور مقبوضہ علاقوں کی آزادی کی واحد راہ مسلحانہ مزاحمت ہے۔ ذیل میں اس انٹرویو کے اہم حصے پیش کیے جا رہے ہیں۔
"1948 کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ یہ جنگ، ان جنگی سلسلوں کا محض ایک دور ہے جن میں شامل ہونے کے لیے اسرائیل کو مکمل تیاری رکھنی چاہیے تاکہ اس کے ذریعے وہ ہر سمت میں اپنی سرحدوں کو پھیلا سکے۔" یہ جملہ، جو صیہونی فوج کے جنرل اسٹاف سے تعلق رکھنے والے دستاویزات کا ایک حصہ ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ "گریٹر اسرائیل" کے خواب کو پورا کرنے کے لیے "زمینی اور سرحدی توسیع" کوئی عارضی پالیسی نہیں بلکہ صیہونی حکومت کی ایک بنیادی اسٹریٹیجی ہے؛ یہ اسٹریٹیجی غاصب صیہونی ریاست کے قیام کے وقت سے ہی ہمیشہ اس کے ایجنڈے میں شامل رہی ہے۔(1)
یحییٰ ابراہیم حسن سنوار کی داستان صرف ایک انسان کی داستان نہیں ہے۔ یہ غاصبانہ قبضے، جدوجہد، مزاحمت اور ایک مقابلہ آرائی کی پیچیدگی کی داستان ہے جس نے دہائيوں سے نہ صرف مغربی ایشیا کے علاقے کو بلکہ دنیا کو متاثر کر رکھا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے 11 دسمبر 2024 کو اپنے خطاب میں کہا کہ صیہونی حکومت نے شام کے علاقوں پر قبضہ تو کیا ہی، ساتھ ہی اس کے ٹینک دمشق کے قریب تک پہنچ گئے۔ جولان کے علاقے کے علاوہ، جو دمشق کا تھا اور برسوں سے اس کے ہاتھ میں تھا، دوسرے علاقوں پر بھی قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ امریکا، یورپ اور وہ حکومتیں، جو دنیا کے دیگر ممالک میں ان چیزوں پر بہت حساس ہیں اور ایک میٹر اور دس میٹر پر بھی حساسیت دکھاتی ہیں، اس مسئلے میں نہ صرف یہ کہ خاموش ہیں، اعتراض نہیں کر رہی ہیں بلکہ مدد بھی کر رہی ہیں۔ یہ انہی کا کام ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے دوسرے ملکوں کے علاقوں پر اس طرح کے قبضے کا کیا حکم ہے اور اس سلسلے میں امریکا اور یورپ کی بے عملی کی وجہ کیا ہے؟