سوال: بنیامن نیتن یاہو سمیت صیہونی حکام کا سرکاری موقف، حال ہی میں نیتن یاہو نے کہا تھا کہ انھوں نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے سمجھوتے کو تسلیم نہیں کیا ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ تل ابیب عملی طور پر "دو ریاستی حل" پر یقین نہیں رکھتا۔ اس موقف کے پیش نظر اس حل کا حصول کس حد تک ممکن ہے؟
جواب: 1948 میں جب سے صیہونی ریاست وجود میں آئی ہے، تبھی سے وہ پورے فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی بنیاد پر قائم ہوئی ہے۔ اس تاریخ سے لے کر آج تک تل ابیب کی ڈکشنری میں "فلسطینی ریاست" نام کی کوئی چیز نہیں رہی ہے۔ اسی لیے اس حکومت کے لیڈر، چاہے وہ ماضی کے ہوں یا موجودہ، جھوٹ، فریب اور دھوکے کی پالیسی اپناتے چلے آئے ہیں تاکہ پہلے مرحلے میں بحر سے دریا تک "یہودی ریاست اسرائیل" کو قائم کیا جائے اور پھر اس منصوبے کو، جسے وہ "گریٹر اسرائیل" کہتے ہیں، آگے بڑھایا جائے۔ یہ اسرائیل لبنان، شام، اردن، عراق، کویت اور جزیرہ نمائے عرب کے شمالی حصے (یعنی شمالی سعودی عرب) پر محیط ہوگا۔ صیہونی اپنی توریتی سوچ کے ساتھ ان تمام علاقوں کو "تاریخی اسرائیل" کا حصہ سمجھتے ہیں۔ بنابریں اسرائیل کی جانب سے فلسطینی ریاست کے قیام سمیت کسی بھی حل کو قبول کیے جانے پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ 1967 سے اب تک اسرائیل کی طرف سے چھیڑی گئی غزہ کی جنگ اور دیگر جنگوں سمیت تمام جنگیں، درحقیقت فلسطین کو پوری طرح نقشے سے مٹانے اور جیسا کہ میں نے عرض کیا، بحر سے دریا تک خالص یہودی حکومت کے قیام کی کوشش کے تحت کی گئی ہیں۔
نیتن یاہو اور سبھی دشمن صیہونی لیڈروں کے بیان، چاہے ماضی میں ہوں یا اس وقت ہوں، ہرگز ایک فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کی نشاندہی نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ اوسلو معاہدے میں بھی، جس پر پی ایل او کے ساتھ دستخط ہوئے، یہ واضح ہو گیا کہ وہ محض وقت ضائع کرنے اور فریب کے درپے تھے۔ اس کی صاف وجہ یہ ہے کہ اوسلو معاہدے کے صرف ایک چھوٹے سے حصے پر عمل درآمد ہوا کیونکہ مغربی کنارے میں "فلسطینی خود مختار انتظامیہ" کو دیے گئے اختیارات صرف دکھاوے کے اور برائے نام تھے، جب کہ عملی طور اب بھی غرب اردن پر اسرائیل کا کنٹرول ہے۔ اس کے علاوہ، حال ہی میں صیہونی پارلیمنٹ میں غرب اردن کو اسرائیل میں ملحق کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، خاص طور پر اس وقت وہاں آبادکاری کا کام اتنا بڑھ چکا ہے کہ اب غرب اردن کے لیے اوسلو معاہدے میں متعینہ اس فلسطینی ریاست کا حصہ بننا ناممکن ہے، جس میں غزہ پٹی اور غرب اردن شامل ہیں۔
اس وقت ایک بنیادی منصوبہ زیر عمل ہے جس کا مقصد غرب اردن میں رہ رہے لوگوں کو جبری طور پر اردن کی طرف، الجلیل کے عربوں یا فلسطینیوں کو لبنان اور شام اور دیگر ممالک کی طرف اور غزہ پٹی کے مکینوں کو مصر اور دیگر علاقوں کی طرف منتقل کرنا ہے۔ تو تل ابیب سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اسرائیلی حکومت کے پہلو میں ایک فلسطینی ریاست کے قیام کو قبول کرے گا، ایک فضول اور بے بنیاد امید ہے۔
سوال: کیا "دو ریاستی حل" عملی طور پر غاصبانہ قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت کو اصل آپشن کے طور پر تسلیم کرتا ہے یا اس کی خلاف ورزی کرتا ہے؟ اگر دو ریاستی حل میں مسلح مزاحمت کے آپشن کی خلاف ورزی ہو تو مسئلۂ فلسطین پر عملی میدان میں کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
جواب: دو ریاستی حل، ایک غیرمستحکم اور کمزور بنیاد ہے کیونکہ کوئی بھی عقل مند انسان اس بات پر یقین نہیں کر سکتا کہ فلسطینی اپنی حکومت قائم کر سکتے ہیں جب کہ یہ حکومت دو الگ تھلگ حصوں، غرب اردن اور غزہ پٹی پر مشتمل ہو اور ان دونوں کے درمیان کوئی جغرافیائی رابطہ نہ ہو۔ ایسے حل کا عملی جامہ پہننا مشکل ہے اور اگر بالفرض اس پر عمل درآمد ہو بھی جائے تو غرب اردن ایک طرح سے اس علاقے میں ایک ایسی بلدیہ بن کر رہ جائے گا جسے اسرائیل نے غصب کر رکھا ہے اور اسی طرح غزہ پٹی بھی اسی ڈھانچے کے تحت ایک صوبہ یا بلدیہ ہوگی۔ ایسی حکومت کی ماہیت بہت کمزور ہوگی، نہ اس میں استحکام ہوگا اور نہ ہی اس میں فلسطینی خود مختارانہ طور پر اپنے معاملات سنبھال سکیں گے۔
جی ہاں، مزاحمت کا راستہ بدستور باقی رہے گا، جب تک فلسطینیوں کی اپنی کوئی ریاست نہیں ہے اور جب تک اپنی مقبوضہ سرزمین، یعنی تاریخی فلسطین، واپس لینے کی ان کی خواہش باقی ہے، مزاحمت کا راستہ باقی رہے گا، جیسا کہ ماضی میں تھا، آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ فلسطین کی نسلیں مزاحمت کی سوچ اور ایک آزاد خودمختار ریاست کے قیام اور فلسطین کی آزادی کے ہدف کے ساتھ پروان چڑھی ہیں اور یہ مزاحمت جاری رہے گی۔ مستقبل میں، یہ مسئلہ واضح ہو جائے گا۔ فلسطینی قوم پر جو قتل و غارت گری، دربدری، ایذا رسانی اور تباہی مسلط کی گئی ہے، اس نے نہ تو مزاحمت کی چنگاری کو کم کیا ہے اور نہ ہی اس کی روح کو ان لوگوں کے دلوں سے ختم کیا ہے۔ وہ صیہونی غاصبوں سے فلسطینی علاقوں کی آزادی کے ہدف اور خواہش کو اپنے ذہن و دل میں بدستور زندہ رکھیں گے۔
سوال: بعضی سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ فرانس سمیت کچھ مغربی ممالک کی جانب سے دو ریاستی حل کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش، علاقے میں صیہونی حکومت سے تعلقات کی استواری کے دائرے کو وسیع کرنے کی راہ ہموار کرنے کے لئے ہے۔ ان واقعات کے باہمی تعلق کے بارے میں آپ کا کیا تجزیہ ہے؟
جواب: اسرائیل کے ساتھ خطے کے ممالک کے تعلقات کو تیزی سے معمول پر لانے کی فرانس اور دیگر مغربی ممالک کی کوششوں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ مغربی ممالک، خاص طور پر امریکا سمجھتے ہیں کہ اگر دو ریاستی حل عملی جامہ پہن لیتا ہے، حالانکہ میرے خیال میں یہ ناممکن ہے لیکن فرض کر لیا جائے کہ یہ عملی جامہ پہن لیتا ہے، تو یہ حل بہت سے عرب ممالک کو مجبور کر دے گا کہ وہ "مسئلۂ فلسطین کے حل کے لیے ایک راستہ بنانے" کے نام پر اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو کھلم کھلا معمول پر لے آئیں۔ فلسطین کا مسئلہ 1948 سے ایک پیچیدہ مسئلہ بنا ہوا ہے جس کا علاقے کو سامنا ہے لیکن اسرائیل تمام عرب اور یہاں تک کہ غیر عرب ممالک اور خطے کی حکومتوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں میں ایک قبول شدہ حکومت بن جائے۔ یہی وہ ہدف ہے جسے حاصل کرنے کے لیے اسرائیل اپنی تشکیل کے وقت سے ہی کوشش کر رہا ہے۔
صیہونی حکومت کی تشکیل کے بعد ایک دن، بن گورین اپنے مشیر موشے شارٹ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، جو بعد میں اس کا وزیر خارجہ بنا اور بن گورین کے بعد دو سال تک حکومت کا سربراہ رہا۔ بن گورین دو سال تک اقتدار سے دور رہ کر آرام کرنا چاہتا تھا، اسی لیے موشے شارٹ دو سال تک وزیر اعظم بنا رہا یہاں تک کہ بن گورین واپس اقتدار میں آ گیا۔ اس نشست میں، بن گورین نے موشے شارٹ سے کہا: "ہم نے یہ حکومت تو بنا لی ہے لیکن ایک ایسے علاقے میں جس میں اس کے دشمن بھرے ہوئے ہیں، یہ حکومت کس طرح پائیدار رہ سکے گی؟" موشے شارٹ نے جواب دیا کہ ہمیں اسرائیل کے اطراف کے تین عرب ممالک کو تقسیم کرنا ہوگا اور انھیں قبائلی ریاستوں میں بدلنا ہوگا تاکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مذہبی اور قبائلی ٹکراؤ میں الجھے رہیں۔ شارٹ نے اس سے کہا: "ہم مصر کو تین ممالک میں تقسیم کریں گے: ایک عیسائی ریاست کے طور پر شمالی مصر یعنی اسکندریہ وغیرہ، ایک سنّی حکومت کے طور پر مصر کا وسطی حصہ یعنی نیل سے سینا اور غزہ پٹی کی سرحد تک اور ایک نوبی(1) ریاست کے طور پر جنوبی مصر جو کسی طرح سوڈان سے جڑ جائے۔" وہیں شام کے بارے میں، موشے شارٹ نے کہا: "ہم اسے تین یا چار ممالک میں تقسیم کریں گے: علوی، کرد، سنّی اور دروزی اور اسی طرح عراق کو بھی کرد، سنی اور شیعہ جیسے تین ممالک میں تقسیم کریں گے۔ اس نے اس کام کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "اس طرح ہم ان ممالک کے درمیان مسائل پیدا کریں گے تاکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ قبائلی اور فرقہ وارانہ تصادم میں مصروف ہو جائیں۔ اس صورتحال میں، اسرائیل محفوظ رہے گا اور کسی کے پاس بھی اس پر حملہ کرنے یا یہاں سے یہودیوں کو نکالنے کی طاقت نہیں ہو گی۔"
در حقیقت اگر ہم غور سے دیکھیں کہ اس وقت خطے میں کیا ہو رہا ہے، خاص طور پر "طوفان الاقصیٰ" آپریشن اور لبنان، اسلامی جمہوریہ ایران اور یمن کے خلاف جنگ کے بعد، تو ہم واضح طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ صیہونی حکومت اور اس کے لیڈران ایک ایسے منصوبے پر عمل درآمد کی راہ پر قدم بڑھا رہے ہیں جس کا مقصد اسرائیل کے اطراف کے خطے کو فرقہ وارانہ حکومتوں میں تقسیم کرنا ہے جو آپس میں دست و گریباں ہوں۔ میرے خیال میں اگر یہ منصوبہ عملی جامہ پہن لیتا ہے یا اگر اسرائیل اور امریکا، عرب اور اسلامی ممالک پر یہ سازش مسلط کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو "گریٹر اسرائیل" کی تشکیل کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔ یہ وہی چیز ہے جس کا نقشہ نیتن یاہو نے تقریباً دو مہینے پہلے پیش کیا تھا اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا، یہ "گریٹر اسرائیل" لبنان، شام، عراق، کویت، اردن، سعودی عرب کے شمالی حصے اور جزیرہ نمائے سینا پر مشتمل ہوگا۔
بہرحال، مغربی ایشیا میں ہر قسم کے واقعے کا امکان موجود ہے، خاص طور پر امریکی اور صیہونی منصوبوں کے تسلسل اور "مغربی ایشیا کا چہرہ بدلنے" کی تل ابیب اور واشنگٹن کی باتوں کے پیش نظر۔ اس تبدیلی کا مفہوم ایک نئے مشرق وسطیٰ (مغربی ایشیا) کی تشکیل ہے جو پوری طرح ان کے تسلط میں ہوگا۔ اگرچہ بظاہر حکومت مقامی نظاموں کے ہاتھ میں ہوگی لیکن درحقیقت یہ نظام، امریکا اور اسرائیل کے دباؤ اور ان کی مرضی کے مطابق کام کریں گے۔
(1) نوبہ کے علاقے کی طرف اشارہ کہ جو مصر کے جنوب میں دریائے نیل کا ایک وسیع و عریض ساحلی علاقہ ہے۔