غاصبانہ قبضے کی بنیاد پر حاصل ہونے والا وجود 

صیہونی حکومت نے اپنا وجود "غاصبانہ قبضے" کی بنیاد پر حاصل کیا ہے۔ اس حکومت نے " بغیر ملت کی زمین، بغیر زمین کی ملت کے لیے" کے جھوٹے نعرے کے ذریعے فلسطینیوں کی زمینوں پر غاصبانہ قبضے کی راہ ہموار کی۔ اسی تناظر میں، عرب دنیا کے امور کے تجزیہ نگار احسان الفقہی نے اخبار القدس العربی میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا ہے: "جھوٹ بولو، پھر جھوٹ بولو اور اس قدر جھوٹ بولو کہ لوگ اسے سچ مان لیں۔" یہی صیہونی پروجیکٹ کے پروپیگنڈا کی بنیاد ہے۔ ایک ایسا پروجیکٹ جو جھوٹی باتوں کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا اور جس نے ہر ممکن ذریعہ استعمال کر کے ان جھوٹی باتوں کو ناقابل تردید 'حقائق' میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ سرزمین فلسطین کو 'بے قوم' بتانا درحقیقت فلسطینیوں کی اراضی پر غاصبانہ قبضہ کرنے اور ان کی تاریخ و شناخت کو لوٹنے کی ایک کھلی کوشش تھی۔ البتہ انھوں نے مذکورہ نعرے کے ذریعے نہ صرف فلسطینی قوم کی تاریخ و تمدن کو جھٹلانے کی کوشش کی بلکہ اپنی عرب دشمنی کو بھی عیاں کر دیا اور خود کو عربوں سے برتر قوم ثابت کرنے کی کوشش کی۔"(2)

"گریٹر اسرائیل" صیہونی حکومت کا بنیادی ہدف

صیہونی حکومت برسوں سے "گریٹر اسرائیل" کے خواب کو پورا کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ خواب صرف عرب اراضی پر زیادہ سے زیادہ قبضہ کرکے ہی پورا ہو سکتا ہے اور صیہونی حکام نے بھی کبھی کبھار اس کا اعتراف کیا ہے۔ حال ہی میں صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو نے "گریٹر اسرائیل" کے حصول کی تل ابیب کی کوششوں کا اعتراف کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کہا: "میں ایک تاریخی اور معنوی مشن پر کام کر رہا ہوں اور جذباتی طور پر گریٹر اسرائیل کے نظریے سے جڑا ہوا ہوں۔"(3) اسے صرف صیہونی حکومت کے وزیر اعظم کے ذاتی خیالات نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ اس سے پہلے بھی دیگر صیہونی حکام نے اسی طرح کے بیان دیے ہیں۔ مثال کے طور پر، صیہونی وزیر خزانہ بیزیلل یوئل اسموتریچ کے متنازعہ بیان کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جنھوں نے کہا تھا: "میں صاف اور واضح طور پر کہتا ہوں کہ ہم ایک ایسی یہودی ریاست چاہتے ہیں جس کی سرحدیں اردن، سعودی عرب، مصر سے لے کر عراق، شام اور لبنان تک پھیلی ہوں۔ گریٹر اسرائیل کی سرزمین کو وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہونا چاہیے۔"(4) انھوں نے 2016 میں بھی ایک بیان میں، جو عرب اراضی پر صیہونی حکومت کی لالچی نظروں کو ظاہر کرتا تھا، زور دے کر کہا تھا: "یروشلم کی سرحدوں کو شام کے دارالحکومت دمشق تک پھیل جانا چاہیے۔ اسرائیل کو اردن پر قبضہ کر لینا چاہیے۔"(5) بنابریں "گریٹر اسرائیل" کا قیام، صیہونی حکومت کی خارجہ پالیسی کے بنیادی اہداف میں سے ایک ہے۔

عرب اراضی کے کھنڈروں پر "گریٹر اسرائیل" کی تعمیر

"گریٹر اسرائیل" کے خواب کو عرب اراضی کے کھنڈروں پر تعمیر کرنے کی بات آج کل کی نہیں ہے بلکہ یہ کئی دہائیوں پرانی ہے۔ صیہونی حکومت کی کئی اہم شخصیات نے اس بارے میں بات کی ہے، جن میں سب سے اہم صیہونی حکومت کے بانی "تھیوڈور ہرٹزل" ہیں جنھوں نے "نیل سے فرات تک اسرائیل کی حکمرانی" کی اصطلاح استعمال کی۔(6) اس کے علاوہ صیہونی حکومت کے دائیں بازو کے بانی "زیو جابوٹینسکی" نے 1923 میں عربوں کو اس حکومت کا دشمن قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ "انھیں تل ابیب کے ساتھ تعاون پر مجبور کرنے کے لیے انھیں کچلنا ضروری ہے۔" چونکہ صیہونی حکومت کے وزیر اعظم "بنیامن نیتن یاہو" نے بارہا اور مختلف مواقع پر جابوٹینسکی کو اپنا آئیڈیل قرار دیا ہے، اس لیے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کا عرب دنیا کے بارے میں کیا نظریہ ہے۔(7) اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صیہونیوں نے "گریٹر اسرائیل" کے قیام کے اپنے ہدف کو پورا کرنے کے لیے کیا راستہ اختیار کیا اور اس وقت فی الحال کیا کر رہے ہیں؟

ملک فلسطین میں کبھی نہ ختم ہونے والی غاصبانہ قبضے کی بھوک

اس وقت فلسطینی علاقوں پر صیہونی حکومت کے غاصبانہ قبضے کو 80 سال یعنی تقریباً ایک صدی کا عرصہ ہو چکا ہے۔ 1948 میں صیہونیوں نے 7 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ان کےگھروں سے نکال باہر کیا اور قریب 500 گاؤں تباہ کر دیے اور اس طرح وہ فلسطین کے ایک بڑے حصے پر قابض ہو گئے لیکن یہ کہانی کا اختتام نہیں تھا - 1967 میں (عربوں سے چھے روزہ جنگ کے بعد) صیہونیوں نے غرب اردن اور غزہ پٹی سمیت فلسطین کے دوسرے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر لیا (غزہ پٹی کو انھوں نے 2005 میں خالی کر دیا)۔ اس بار انھوں نے 4 لاکھ 60 ہزار فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا۔(8) صیہونی حکومت کی توسیع پسندانہ پالیسی کے تحت انھوں نے ان تمام برسوں میں فلسطین کے کل رقبے کے 85 فیصد حصے پر غاصبانہ قبضہ کر لیا۔(9)

اب جب سرزمین فلسطینی پر غاصبانہ قبضے کو قریب 80 سال کا عرصہ ہو چکا ہے اور عملی طور پر غرب اردن کا صرف چھوٹا سا حصہ فلسطینیوں کے پاس بچا ہے، تب بھی اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے مزید علاقوں پر غاصبانہ قبضہ کرنے کی صیہونیوں کی کبھی نہ مٹنے والی بھوک واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ اسی سلسلے میں، صیہونی حکومت نے خود باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے کہ اس نے 2024 میں غرب اردن پر اپنا کنٹرول بڑھانے کے لیے گزشتہ 30 سال کا سب سے بڑا منصوبہ شروع کیا ہے۔ اس سال کے دوران یہ حکومت تقریباً 10 ہزار 640 دونم (ایک دونم 1000 مربع میٹر کے برابر) رقبے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔(10)

جولان سے سیناء تک عرب اراضی پر غاصبانہ قبضے کی توسیع

صیہونی حکومت کی "ہر سمت سرحدوں کی توسیع" کی حکمت عملی کے پیش نظر یہ اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ اس حکومت کی جانب سے غاصبانہ قبضے کا سلسلہ صرف فلسطینی اراضی تک محدود نہیں رہے گا بلکہ تل ابیب کی "زمینی توسیع" کی پالیسی دیگر عرب علاقوں کو بھی متاثر کرے گی۔ ایسا ہی ہوا اور 1967 میں عربوں سے چھے روزہ جنگ کے بعد صیہونی حکومت نے کئی سمتوں سے اپنی قبضہ شدہ سرحدوں کو وسیع کیا۔ اس بار صیہونیوں نے مصر کے " جزیرہ نمائے سینائی" اور شام کی "جولان کی پہاڑیوں" کو اپنے مقبوضہ علاقوں میں شامل کر لیا۔(11) صیہونی یہیں نہیں رکے اور 1982 میں بھی وہ لبنان کے اندرونی حصوں میں بڑے پیمانے پر جارحیت کرتے ہوئے بیروت تک جا پہنچے۔ اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ وہ بیروت اور لبنان کے کچھ دیگر مقبوضہ علاقوں سے پیچھے ہٹ گئے لیکن انھوں نے اس ملک کے جنوبی حصوں میں اپنا غاصبانہ قبضہ برقرار رکھا۔(12) یہاں تک کہ 2000 میں لبنان کی اسلامی مزاحمت نے جارحین اور غاصبانہ قبضہ کرنے والوں کو غیر مشروط طور پر جنوبی علاقوں سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔(13) تاہم ایک سلطنت قائم کرنے کے خواب دیکھنے والے صیہونی آج بھی لبنان کے جنوبی علاقوں جیسے "شبعا فارمز" اور "کفر شوبا" پر اپنا قبضہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔(14)

شام کو نگلنے کی کوشش

ایسا نظر آتا ہے کہ صیہونی حکومت اپنے غاصبانہ قبضے کو پھیلانے اور زمینی توسیع کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے کسی بھی حد کو تسلیم نہیں کرتی۔ اس کی واضح مثال گزشتہ چھے مہینوں میں اور بشار اسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس حکومت کے ذریعے شام میں کی جانے والی کارروائياں ہیں۔ صیہونیوں نے شام میں اپنی جارحانہ کارروائياں جاری رکھتے ہوئے جولان کی پہاڑیوں سے متصل بفر زون میں جبل الشیخ کے اسٹریٹیجک علاقے اور قنیطرہ صوبے کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔(15)

سنگاپور کی نانیانگ یونیورسٹی کے ایس راجارتنم اور اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے سینئر رکن جیمز ڈورسی صیہونی حکومت کی جارحانہ توسیع پسندانہ پالیسی کے بارے میں واضح الفاظ میں کہتے ہیں: یہ اقدامات خطرناک پیغام دے رہے ہیں۔ شام کی زمینوں بالخصوص مقبوضہ جولان سے متصل علاقوں پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوششیں اور مغربی کنارے میں بستیاں بسانے کا سلسلہ، یہ ظاہر کرتا ہے کہ تل ابیب یہودی ریاست کی سرحدوں کو پھیلانے کی پالیسی پر بھرپور طریقے سے کام کر رہا ہے۔"(16) حتیٰ کہ صیہونی اخبار ہاآریٹز نے ایک مضمون شائع کر کے یہ سوال اٹھایا ہے کہ "کیا اسرائیل خطے میں ایک سلطنت قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟" اخبار لکھتا ہے: "غزہ اور جنوبی لبنان پر قبضے کی کوششوں اور جولان کی پہاڑیوں میں اسرائیلی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے خطے میں سلطنت قائم کرنے کے تل ابیب کے ارادے کے بارے میں بات نہ کرنا بہت مشکل ہے۔"(17)

فلسطین، شام اور لبنان وغیرہ جیسے مختلف ملکوں میں صیہونیوں کے شدید ترین جرائم سمیت خطے کے تازہ حالات اور اسی طرح "گریٹر اسرائیل" کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں تل ابیب کے بڑے حکام کا کھل کر اور باضابطہ اعتراف ایسے عالم میں ہے کہ رہبر انقلاب نے تیس سال پہلے صیہونی حکومت کی اسی تسلط پسندانہ اور مجرمانہ ماہیت کے بارے میں انتباہ دیا تھا اور کہا تھا: "صیہونی اپنے اہداف سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔ انھوں نے "نیل سے فرات تک" کے اپنے اعلان کردہ ہدف کو واپس نہیں لیا ہے۔ ان کا ارادہ اب بھی یہی ہے کہ وہ نیل سے فرات تک کے علاقے پر قبضہ کر لیں! البتہ، صیہونیوں کی اسٹریٹیجی یہ ہے کہ پہلے دھوکے اور مکر و فریب سے اپنے قدم مضبوط کریں اور جب ان کا قدم جم جائے تو دباؤ، حملے، قتل و غارت اور تشدد کے ذریعے جہاں تک ممکن ہو آگے بڑھیں!(18) اب جب پوشیدہ رازوں پر سے پردے ہٹ گئے ہیں اور امن و آزادی کے دعویداروں کے چہرے سے نقاب ہٹ گئي ہے تو یہ سوال سامنے آتا ہے کہ جنگ، غاصبانہ قبضے اور سامراج کے علم برداروں سے تعلقات معمول پر لانا، سیکورٹی دلائے گا یا سیکورٹی چھین لے گا؟

 

  1. https://www.aljazeera.net/politics/2025/3/2/%D8%A7%D9%84%D8%B2%D8%AD%D9%81-%D9%85%D9%86-%D8%BA%D8%B2%D8%A9-%D8%A5%D9%84%D9%89-%D9%84%D8%A8%D9%86%D8%A7%D9%86-%D9%88%D8%B3%D9%88%D8%B1%D9%8A%D8%A7-%D9%87%D9%84-%D8%AA%D8%AD%D9%82%D9%82
  2. https://www.alquds.co.uk/%D8%A3%D9%83%D8%B0%D9%88%D8%A8%D8%A9-%D8%A3%D8%B1%D8%B6-%D8%A8%D9%84%D8%A7-%D8%B4%D8%B9%D8%A8-%D9%84%D8%B4%D8%B9%D8%A8%D9%8D-%D8%A8%D9%84%D8%A7-%D8%A3%D8%B1%D8%B6/
  3. https://www.aljazeera.net/opinions/2025/8/15/%D8%AE%D8%B1%D9%8A%D8%B7%D8%A9-%D8%A5%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%D9%8A%D9%84-%D8%AA%D9%81%D8%B6%D8%AD-%D8%AE%D8%B7%D8%B7-%D9%86%D8%AA%D9%86%D9%8A%D8%A7%D9%87%D9%88
  4. https://alkhanadeq.com/post/7723/%D8%A5%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%D9%8A%D9%84-%D8%A7%D9%84%D9%83%D8%A8%D8%B1%D9%89-%D9%85%D8%B4%D8%B1%D9%88%D8%B9-%D8%B3%D9%85%D9%88%D8%AA%D8%B1%D9%8A%D8%AA%D8%B4-%D9%84%D8%A7%D8%AD%D8%AA%D9%84%D8%A7%D9%84-%D8%A7%D9%84%D8%AF%D9%88%D9%84-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%B1%D8%A8%D9%8A%D8%A9
  5. https://www.aljazeera.net/politics/2024/10/12/%D9%85%D9%86-%D9%87%D9%8A%D8%B1%D8%AA%D8%B2%D9%84-%D8%A5%D9%84%D9%89-%D8%B3%D9%85%D9%88%D8%AA%D8%B1%D9%8A%D8%AA%D8%B4-%D8%A3%D9%88%D9%87%D8%A7%D9%85-%D8%A5%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%D9%8A%D9%84
  6. https://www.independentarabia.com/node/611647/%D8%AA%D8%AD%D9%82%D9%8A%D9%82%D8%A7%D8%AA-%D9%88%D9%85%D8%B7%D9%88%D9%84%D8%A7%D8%AA/%D8%A5%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%D9%8A%D9%84-%D8%A7%D9%84%D9%83%D8%A8%D8%B1%D9%89-%D8%AD%D9%84%D9%85-%D8%B5%D9%8A%D9%81-%D9%8A%D9%85%D9%8A%D9%86%D9%8A-%D8%A3%D9%85-%D9%85%D8%B4%D8%B1%D9%88%D8%B9-%D8%AD%D9%82%D9%8A%D9%82%D9%8A%D8%9F
  7. https://www.aljazeera.net/politics/2024/8/18/%D9%85%D9%86-%D9%87%D9%88-%D8%AC%D8%A7%D8%A8%D9%88%D8%AA%D9%86%D8%B3%D9%83%D9%8A-%D8%A7%D9%84%D8%B0%D9%8A-%D9%8A%D9%82%D8%AA%D8%AF%D9%8A-%D8%A8%D9%87-%D9%86%D8%AA%D9%86%D9%8A%D8%A7%D9%87%D9%88
  8. https://www.alquds.co.uk/%D8%A3%D9%83%D8%B0%D9%88%D8%A8%D8%A9-%D8%A3%D8%B1%D8%B6-%D8%A8%D9%84%D8%A7-%D8%B4%D8%B9%D8%A8-%D9%84%D8%B4%D8%B9%D8%A8%D9%8D-%D8%A8%D9%84%D8%A7-%D8%A3%D8%B1%D8%B6/
  9. https://www.aa.com.tr/ar/%D8%A7%D9%84%D8%AA%D9%82%D8%A7%D8%B1%D9%8A%D8%B1/77-%D8%B9%D8%A7%D9%85%D8%A7-%D8%B9%D9%84%D9%89-%D9%86%D9%83%D8%A8%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D8%B4%D8%B9%D8%A8-%D8%A7%D9%84%D9%81%D9%84%D8%B3%D8%B7%D9%8A%D9%86%D9%8A-%D8%A3%D8%B1%D9%82%D8%A7%D9%85-%D9%88%D8%AD%D9%82%D8%A7%D8%A6%D9%82-%D8%A5%D8%B7%D8%A7%D8%B1/3566938
  10. https://www.aljazeera.net/news/2024/3/22/%D8%A5%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%D9%8A%D9%84-%D8%AA%D9%86%D9%81%D8%B0-%D9%81%D9%8A-2024-%D8%A3%D9%83%D8%A8%D8%B1-%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D9%8A%D9%84%D8%A7%D8%A1-%D8%B9%D9%84%D9%89
  11. https://www.aljazeera.net/encyclopedia/2016/6/5/%D8%A7%D9%84%D9%86%D9%83%D8%B3%D8%A9-%D8%A5%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%D9%8A%D9%84-%D8%AA%D9%87%D8%B2%D9%85-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%B1%D8%A8-%D9%81%D9%8A-%D8%B3%D8%AA%D8%A9-%D8%A3%D9%8A%D8%A7%D9%85
  12. https://www.aljazeera.net/encyclopedia/2024/7/12/%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%8A%D8%A7%D8%AD-%D8%A7%D9%84%D8%A5%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%D9%8A%D9%84%D9%8A-%D8%B9%D8%A7%D9%85-1982-%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%B1%D8%A8-%D8%A7%D9%84%D8%AA%D9%8A
  13. https://www.almayadeen.net/articles/25-%D8%A3%D9%8A%D8%A7%D8%B1-2000-%D9%8A%D9%88%D9%85-%D8%A7%D9%87%D8%AA%D8%B2%D8%AA-%D9%85%D9%86%D8%B8%D9%88%D9%85%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D9%87%D9%8A%D9%85%D9%86%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%8A%D8%A9
  14. https://www.palestine-studies.org/ar/node/1657031
  15. https://www.aljazeera.net/politics/2025/3/2/%D8%A7%D9%84%D8%B2%D8%AD%D9%81-%D9%85%D9%86-%D8%BA%D8%B2%D8%A9-%D8%A5%D9%84%D9%89-%D9%84%D8%A8%D9%86%D8%A7%D9%86-%D9%88%D8%B3%D9%88%D8%B1%D9%8A%D8%A7-%D9%87%D9%84-%D8%AA%D8%AD%D9%82%D9%82
  16. https://www.aljazeera.net/politics/2025/3/2/%D8%A7%D9%84%D8%B2%D8%AD%D9%81-%D9%85%D9%86-%D8%BA%D8%B2%D8%A9-%D8%A5%D9%84%D9%89-%D9%84%D8%A8%D9%86%D8%A7%D9%86-%D9%88%D8%B3%D9%88%D8%B1%D9%8A%D8%A7-%D9%87%D9%84-%D8%AA%D8%AD%D9%82%D9%82
  17. https://www.aljazeera.net/politics/2025/3/2/%D8%A7%D9%84%D8%B2%D8%AD%D9%81-%D9%85%D9%86-%D8%BA%D8%B2%D8%A9-%D8%A5%D9%84%D9%89-%D9%84%D8%A8%D9%86%D8%A7%D9%86-%D9%88%D8%B3%D9%88%D8%B1%D9%8A%D8%A7-%D9%87%D9%84-%D8%AA%D8%AD%D9%82%D9%82
  18. https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=2608