کسی دوسرے ملک پر قبضے کا مسئلہ، بین الاقوامی قوانین کے ابتدائي اصولوں میں سے ایک ہے اور اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ 2 کی چوتھی شق میں (threat or use of force) یعنی کسی ملک پر غاصبانہ قبضے یا اس کی ارضی سالمیت کی خلاف ورزی کے لیے طاقت کے استعمال یا دھمکی کے عنوان سے اس اصطلاح کا استعمال کیا گيا ہے اور اسے غیر قانونی بتایا گيا ہے۔
تاریخ میں، چاہے وہ ہم عصر تاریخ ہو یا ماضی کی تاریخ ہو، کسی دوسرے ملک پر حملہ، کسی دوسرے ملک کے علاقے پر قبضہ، جنگ شروع ہونے کی ایک اہم وجہ رہی ہے۔ جیسے پہلی عالمی جنگ، دوسری عالمی جنگ، کوریا کی جنگ، ویتنام کی جنگ اور اسی طرح عراق کی جنگ جب صدام نے کویت پر حملہ کر دیا تھا اور اسی طرح کی بہت سی دوسری مثالیں۔ بنیادی طور پر جنگيں شروع ہونے کی ایک اہم دلیل، جن میں کروڑوں لوگ مارے گئے ہیں، دوسرے ملک کی سرزمین پر قبضے کی کوشش ہے۔
اس لحاظ سے رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب میں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ اگر یہی کام کسی اور وقت کسی دوسری جگہ ہو یعنی کوئي ملک کسی دوسرے ملک کی سرزمین میں داخل ہو جائے تو مغربی ممالک اور تسلط پسند ممالک اسے ایک بہانے میں بدل دیتے ہیں اور اسے بہت بڑا جرم بتا کر اس سے غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ یہاں دوہرا رویہ پوری طرح واضح ہے۔ یوکرین کے ہی مسئلے کو لیجیے، جو مشرق کی سمت نیٹو کے پھیلاؤ کا نتیجہ ہے، یہ امریکا اور بعض یورپی ملکوں کی جانب سے اربوں ڈالر خرج کیے جانے اور لاکھوں لوگوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کا سبب بنا ہے، کیوں؟ اس لیے کہ عالمی سامراج کے سرغناؤں اور مغرب کے میڈیائي پروپیگنڈے کے مالکوں کے بقول روس نے یوکرین کی سرزمین پر حملہ کیا ہے۔ جس ملک نے کسی دوسرے ملک کے علاقوں پر حملہ کیا ہے اگر وہ ایسا ملک ہو جس سے امریکا کی دشمنی ہو تو امریکی اربوں ڈالر خرچ کرنے اور لاکھوں لوگوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کے لیے بھی تیار رہتے ہیں لیکن اگر ان دونوں ملکوں میں کشیدگي کم ہونے کی بات ہو یا صلح کا امکان ہو تو امریکی اس کے لیے بالکل تیار نہیں ہوتے بلکہ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ اس جارحیت کا جواب دیا جانا چاہیے۔ یہ چیز ہم نے یوکرین میں بھی دیکھی کہ یوکرین کی حکومت، جنگ کی شروعات سے ہی روسی فریق کے ساتھ صلح کے ایک سمجھوتے تک پہنچنا چاہتی تھی لیکن بائيڈن حکومت نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ اس نے ایسے عثمان کا کرتا بنا دیا ہے، ہنگامہ آرائي کی ہے، کیوں؟ کون سا المیہ رونما ہو گيا ہے؟ حملہ ہوا ہے، ایک ملک نے دوسرے ملک کی سرزمین پر جارحیت کی ہے۔ لیکن اگر یہی جارحیت اور یہی حملہ صیہونی حکومت کا ہو، جیسا کہ اس نے کچھ مہینے پہلے لبنان میں کیا، غزہ میں اس نے جو بھیانک جرائم کیے اور اب شام میں یہی کیا ہے تو امریکی آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے پوچھا گیا کہ اسرائيل، شام کے علاقوں پر قبضہ کر رہا ہے، پہلے اس نے کہا کہ ایک بفر زون تھا، ہم اس بفر زون کو اپنے کنٹرول میں لیں گے۔ پھر جب اس پر قبضہ کر لیا تو مزید آگے بڑھا۔ سی این این نے حال ہی میں رپورٹ دی ہے کہ اسرائيل، دمشق کے قریب کے دیہی علاقوں تک پہنچ گيا ہے اور دمشق سے صرف 16 میل کی دوری پر ہے۔ اگر صورتحال دوسری ہوتی یعنی قبضہ کرنے والا اسرائيل نہ ہوتا تو اس وقت امریکا، برطانیہ، فرانس جو کام کرتے وہ یہ ہوتا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک ہنگامی نشست بلاتے۔ اگر حملہ اور قبضہ کرنے والا اسرائيل کے علاوہ کوئي دوسرا ہوتا تو اس کی مذمت کرتے اور اسے ساتویں شق کے ذیل میں لے آتے اور اگر وہ پھر بھی غاصبانہ قبضہ جاری رکھتا تو اس پر حملہ کر دیتے، فوجی حملہ کر دیتے، کیوں؟ اس لیے کہ کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر حملہ اور قبضہ کیا گيا ہے۔ لیکن جب فریق مقابل صیہونی حکومت ہے تو یہ چیز میتھیو ملر کے انٹرویو میں بہت واضح تھی۔ رپورٹر نے جب ان سے اس سلسلے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ میں اسرائيلی حکومت تو نہیں ہوں جو اس کا جواب دوں۔ ٹھیک ہے، آپ اسرائيلی حکومت نہیں ہیں لیکن اپنے اس جواب کا ذرا موازنہ کیجیے، ان جوابوں سے جو آپ ایسے ہی معاملوں میں پہلے دے چکے ہیں۔ یہ میتھیو ملر کا جواب ہے جو کہہ رہے ہیں کہ ہم اس سلسلے میں کھل کر کچھ کہنے سے پہلے اسرائيلی حکام سے مشورہ کریں گے اور ہم ان سے بات کر رہے ہیں۔ بس اتنا ہی۔
گزشتہ دنوں میں جو وسیع پیمانے پر جارحیت ہوئي جس کے تحت اسرائيل نے شام میں چار سو سے زیادہ مقامات کو نشانہ بنایا اور امریکیوں نے بھی قریب اسّی جگہوں کو ٹارگٹ کیا، یہ اقوام متحدہ کے منشور کے خلاف ہے۔ اسی لیے عالمی حقوق کے منشور میں "طاقت کے استعمال" (use of force) کی عبارت کو عمومی طور پر درج کیا گيا ہے جس کا ایک پہلو اس ملک کی زمین پر قبضہ ہے یعنی کسی ملک کی زمین پر قبضہ اسی کے ذیل میں آتا ہے اور پچھلے کچھ دنوں میں اسرائيلیوں اور امریکیوں نے شام میں جو بمباریاں اور حملے کیے ہیں، وہ بھی اسی کے ذیل میں آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان اس سلسلے میں زیادہ بولنے کے خواہاں نہیں ہیں کیونکہ خود امریکا، اقوام متحدہ کے منشور کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔
یہ نکتہ بھی رہبر انقلاب کے خطاب میں ہے کہ کیوں اس وقت شام کی سرزمین کے ایک حصے پر غاصبانہ قبضہ کر رہے ہیں؟ کیوں شام کی بنیادی اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا رہے ہیں؟ اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ جلد یا بدیر شام، مزاحمتی محاذ کی طرف لوٹ آئے گا۔ امریکی اور اسرائيلی فریق کا تجزیہ یہی ہے اور یہ صحیح تجزیہ بھی ہے۔ کیوں صحیح تجزیہ ہے؟ اس لیے کہ شام کے لوگ کبھی بھی اس حکومت کے تحت زندگي گزارنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے جو امریکا اور اسرائيل کی نوکر اور پٹھو ہو۔ انھیں نوکروں کی ضرورت ہے، یعنی یہ چاہتے ہیں کہ یا تو وہاں ایک پٹھو ظالمانہ حکومت رہے یا پھر انارکی کی صورتحال رہے۔ یہ بات رہبر انقلاب کے پچھلے خطاب میں بھی تھی اور بہت بعید ہے کہ امریکی، شام میں ایک پٹھو حکومت قائم کر پائيں اور ایسے لوگوں کو اقتدار میں لے آئيں جو امریکا کے غلام ہوں۔ رہبر انقلاب نے جو الفاظ استعمال کیے تھے وہ یہ تھے کہ "شام کے جوان ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیں گے اور اپنے ملک کو آزاد کرا کے رہیں گے۔" چونکہ امریکی اور اسرائيلی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ شام کے عوام امریکا اور اسرائيل کے پٹھو کسی آمر کے تحت زندگي گزارنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اسی لیے وہ یہ کام کر رہے ہیں۔ وہ اس موقع سے غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آخر کار شام، ایک ایسے ملک کی حیثیت سے جس کے علاقوں پر پہلے بھی صیہونی حکومت نے حملہ اور قبضہ کیا ہے، جلد یا بدیر مزاحمتی محاذ کی ایک کڑی میں تبدیل ہو جائے گا اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر شام کی بنیادی اور فوجی تنصیبات کو تباہ کر رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن یہ ہتھیار اور یہ وسائل ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آ جائیں گے جو انھیں، بچوں کی قاتل اس حکومت کے خلاف استعمال کریں گے۔