درس اخلاق

2024 February
  ہمارا معاشرہ امیر المومنین علیہ السلام کے زہد کی سمت میں آگے بڑھے۔ مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم امیرالمومنین کی طرح زاہد بن جائیں۔ کیونکہ نہ ہم بن سکتے ہیں نہ ہم سے اس کا مطالبہ کیا گیا ہے لیکن ہم کو ان ہی کی راہ پر چلنا چاہئے یعنی فضول خرچی اور ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی سے پرہیز کرنا چاہئے۔ ایسی صورت میں ہم امیرالمومنین کے شیعہ کہے جائیں گے۔ فرمایا ہے: "ہمارے لئے زینت بنو۔" ہمارے لئے زینت بننے کا کیا مطلب ہے؟ مطلب یہ ہے کہ تمہارا عمل ایسا ہو کہ جب کوئی تم کو دیکھے تو کہے: واہ واہ امیر المومنین کے شیعہ کس قدر اچھے ہیں! وہ جو رشوت لیتا ہے، زینت نہیں ہے، عیب ہے۔ وہ جو بیت المال سے زیادہ رقم چاہتا ہے اور زیادہ لیتا ہے، یہ ایک شیعہ کے لئے عیب ہے۔ وہ جو برائیوں کے سلسلے میں آنکھیں بند کر لیتا ہے اور تقوے کی جانب معاشرے کی ہدایت و رہنمائی سے متعلق ذمہ داری کا کوئی احساس نہیں رکھتا، یہ چیز اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کے لئے عیب ہے۔ جو اپنی ذاتی زندگی میں فضول خرچی میں گرفتار ہے، یہ عیب ہے۔ افسوس کہ ہم فضول خرچی میں گرفتار ہیں۔ ہم برسوں سے اس بارے میں مسلسل نصیحت کرتے چلے آرہے ہیں خود اپنے آپ کو، عوام کو اور دوسروں کو برابر سمجھاتے رہتے ہیں اور بار بار کہتے ہیں، ہمیں آگے بڑھنا چاہئے اور معاشرے سے فضول خرچی کو کم کرنا چاہئے۔ امام خامنہ ای  21 ستمبر 2016    
2024/02/08
January
ابدی زندگی میں انسان کی نجات اخلاص عمل سے وابستہ ہے۔ خدا کے لئے کام کرنا اور عمل میں اخلاص ہونا باعث نجات ہے۔ یہ بہت سے مقامات پر نہیں ہوتا۔ بہت سے کاموں میں انسان سوچتا ہے کہ اس نے یہ کام خدا کے لئے کیا ہے، بعد میں جب خود ہی ذرا انصاف کے ساتھ توجہ دیتا ہے تو دیکھتا ہے کہ وہ عمل پوری طرح خالص نہیں ہے "وَ استغفِرُكَ مِمَّا اردتُ بہ وجہكَ فخالَطَنی ما لیس لک" یہ ان دعاؤں میں سے ایک ہے جو نافلۂ صبح اور نماز صبح کے درمیان پڑھی جاتی ہے (جس میں بندہ) کہتا ہے: خدایا! میں توبہ کرتا ہوں اس عمل سے جو میں نے چاہا تھا کہ صرف تیرے لئے انجام دوں لیکن اس میں "فخالَطَنی مالیس لک" ایسا جذبہ اور ایسی نیت شامل ہوگئی جو خدائي نہیں تھی ... جس جگہ بھی انسان کے لئے اخلاص عمل ممکن ہو، غنیمت ہے۔ امام خامنہ ای 2 مئی 2016
2024/01/11
2023 December
انسان، مادی مسائل سے مقابلے کے لئے اپنے جسم کو مضبوط بناتا ہے تو ایسے حادثات سے مقابلے کے لئے جو روح انسانی میں اپنا ایک ظرف رکھتے ہیں، انسان کو کیا کرنا چاہئے؟ میرا خیال یہ ہے کہ اس کے لئے انسان کو ایمان کی تقویت کرنی چاہئے۔ انسان کو اپنا ایمان امن و تحفظ عطا کرنے والے اطمینان بخش بنیادی نقطے تک قوی و مضبوط بنانا چاہیے۔ جب اس طرح کا ایمان ہوگا تو انسان اپنی زندگی کے کسی بھی مرحلے میں مایوسی و ناامیدی کا شکار نہیں ہوسکتا۔ آپ غور کر رہے ہیں؟ بنیادی طور پر وہ چیز جو انسان کو تباہ کردیتی ہے ناامیدی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو ایک انسان کو پہلے قدم کے بعد دوسرا قدم اٹھانے نہیں دیتی اور اسے کو برباد کر دیتی ہے اور اس کی تمام قوتوں کو نابود کر دیتی ہے۔ امام خامنہ ای  26 جولائی 1999  
2023/12/21
آپ تمام عزیز جوانوں کے لئے میری سفارش، تہذیب نفس (یا تعمیر ذات) کی ہے۔ تہذیب نفس بہت اہم ہے، انفرادی پہلوؤں سے بھی اور اجتماعی پہلوؤں سے بھی، قرآن کے ساتھ انس، قرآن کے ساتھ رابطہ، نماز میں قلبی توجہ، اول وقت نماز کی ادائيگي، دعاؤں پر توجہ یہ سب وہ چیزیں ہیں جو میری نظر میں تہذیب نفس کے لئے ضروری ہیں۔ یہ لغزشوں کے وقت آپ کی مدد کرتی ہے کہ صحیح سلامت گزر جائیں۔ خوف، لڑکھڑانے کی ایک منزل ہے، تذبذب لڑکھڑانے کی ایک منزل ہے، کمزوری کا احسا س لڑکھڑانے کی ایک منزل ہے، نامناسب محرکات لڑکھڑا جانے کی ایک منزل ہے، لغزشوں اور بہکنے کے بہت سے مقامات ہماری راہ میں پائے جاتے ہیں خاص طور پر سماجی مسائل میں کام کرنے والوں کے لئے۔ لہذا ان لوگوں کو تہذیب نفس کی زیادہ ضرورت ہے اور وہ اس بات کے ضرورتمند ہیں کہ اپنی روحانی اور معنوی بنیادوں کو قوی کریں۔ میری نظر میں جس وقت آپ کی روحانی اور معنوی بنیادیں قوی ہوں گی تو فکری میدان میں بھی، فیصلے کرنے کے میدان میں بھی اور عملی میدان میں بھی آپ اپنے اندر زیادہ قوت و توانائی پیدا کرلیں گے اور ہمیں اپنی نوجوان نسل میں ان چیزوں کی ضرورت ہے۔ امام خامنہ ای  17 مئی 2020  
2023/12/14
نماز کے ذریعے نوجوان کا دل نورانی ہو جاتا ہے، وہ امید حاصل کر لیتا ہے، روحانی تازگی اور شادابی حاصل کر لیتا ہے، سرور و انبساط حاصل کر لیتا ہے۔ یہ حالات خاص طور پر نوجوانوں سے متعلق ہیں اور زیادہ تر جوانی کے ایام سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ لذت اٹھا سکتے ہیں اور اگر خدا ہم کو اور آپ کو توفیق عطا کر دے کہ پوری توجہ کے ساتھ نماز پڑھ سکیں تو دیکھیں گے کہ پوری توجہ کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز میں انسان سیر نہیں ہوتا۔ انسان جس وقت پوری توجہ کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو اس کو وہ لذت ملتی ہے جو تمام مادی لذتوں میں نہیں پائی جاتی، یہ توجہ (اور اخلاص) کا نتیجہ ہے۔ نماز میں بے توجہی اور نماز پڑھتے وقت کاہلی منافقین کی خصو صیات میں سے ہے۔ جو لوگ نوجوانی سے ہی نماز کے عادی ہوتے اور پورے خلوص سے نماز پڑھتے ہیں، یہ چیز ان کے اخلاق اور نیک عادات میں شامل ہوجاتی ہے اور پھر ان کو نماز میں مشقت نہیں ہوتی۔ عمر کے آخری حصے تک ہمیشہ اچھی طرح نماز ادا کرتے ہیں۔ امام خامنہ ای  19 نومبر 2008  
2023/12/07
November
ظلمات وہ تمام چیزیں ہیں جنہوں نے پوری تاریخ میں انسان کی زندگی کو تاریک اور تلخ کر دیا ہے، زہر آلود کر دیا ہے۔ یہ سب ظلمات ہیں۔ جہالت ظلمت یعنی تاریکی ہے، غربت تاریکی ہے، ظلم تاریکی ہے۔ امتیازی سلوک تاریکی ہے، شہوات میں ڈوب جانا تاریکی ہے، اخلاقی برائیاں اور سماجی نقائص یہ سب ظلمات ہیں۔ یہ وہ ظلمات یعنی تاریکیاں ہیں جنہوں نے پوری تاریخ میں بشریت کو رنج اور دکھ  دیے ہیں۔ بے ایمانی تاریکی ہے، بے مقصدیت بھی ظلمت یعنی تاریکی ہے۔ یہ بشریت کے بہت گہرے درد  اور مسائل ہیں۔ پیغمبر اعظم نے ان تمام مسائل کا حل، فکری حل بھی اور عملی حل بھی بشریت کے سامنے پیش کیا ہے۔ اگر ان مسائل سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہو تو علاج یہ ہیں۔ یہ پیغمبر کی شریعت اور قرآنی تعلیمات، بشریت کے مسائل کا علاج ہیں ۔ یہ پیغمبر اسلام نے بشریت کو پیش کیا ہے۔ امام خامنہ ای  3 اکتوبر 2023  
2023/11/30
دعا، خداوند متعال کا عشق دل میں برقرار رکھتی ہے۔ تمام خوبیوں اور اچھائیوں کا مظہر ذات اقدس پروردگار ہے دعا اور خداوند تعالی کے ساتھ انس اور ہم کلامی، یہ محبت انسان کے دل میں پیدا کردیتی ہے۔ دعا زندگی کی مشکلات کے سامنے صبر و حوصلے کی قوت انسان کو بخشتی ہے۔ ہر وہ شخص جو اپنی زندگی کے دوران کسی حادثے سے دوچار ہوتا ہے مشکلیں اور سختیاں اس کے دامنگیر ہو جاتی ہیں۔ دعا انسان کو قوت و توانائی عطا کرتی ہے اور انسان کو حادثات کے مقابل قوت و استحکام بخش دیتی ہے۔ لھذا روایت میں دعا کو (مومن کے) اسلحے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ امام خامنہ ای 21 اکتوبر 2005  
2023/11/23
روایت ہے کہ دعا’’ مُخ العبادۃ ‘‘ عبادت کا مغز اور ما حصل ہے، عبادت کی روح دعا ہے ۔ دعا کا کیا مطلب ہے؟ مطلب ہے خداوند متعال سے باتیں کرنا، در اصل خدا کو اپنے پاس محسوس کرنا اور اپنے دل کی بات اس کے سامنے رکھنا۔۔۔ دل میں خدا کی یاد زندہ و تازہ رکھنا غفلت اور لاپروائی کو ختم کرتا ہے جو تمام انحرافات، کجروی اور انسانی کی خرابیوں کی جڑ ہے۔ دعا غفلت کے پردے ہٹا دیتی ہے، دعا انسان کے دل سے غفلت کو دور کر دیتی ہے انسان کو خدا کی یاد میں لگا دیتی ہے اور خدا کی یاد دل میں بیدار رکھتی ہے۔ سب سے بڑا نقصان جو دعا سے محروم افراد کو اٹھانا پڑتا ہے یہ ہے کہ خدا کی یاد ان کے دل سے نکل جاتی ہے۔ خداوند متعال سے غفلت انسان کے لئے بہت بڑا خسارہ ہے۔  امام خامنہ ای  30 اکتوبر 1998  
2023/11/16
اسلام دشمنوں کی ہمیشہ یہی خواہش رہی ہے کہ مسلمانوں کے دلوں کو مضطرب کریں۔ اسلام کی طویل تاریخ میں ایسے واقعات بہت پیش آئے ہیں۔ اسلام سے پہلے بھی نبی اکرم (ص) سے قبل خدا کے عظیم نبیوں کے جہادی اقدامات کے دوران جو مومنین راہ ایمان پر خود کو محکم واستوار رکھ سکے انھوں نے روحانی سکون حاصل کرلیا۔ یہ روحانی سکون ہی ان کو پورے اختیار کے ساتھ راہ ایمانی میں قائم و استوار رکھ سکا اور وہ کبھی مضطرب نہیں ہوئے اور نہ ہی اپنی راہ سے بھٹکے کیونکہ تشویش اور اضطراب و بے چینی کی حالت میں صحیح راہ پر قائم رہنا دشوار ہو جاتا ہے۔ وہ انسان جس کو روحانی سکون میسر ہو اس کی فکر صحیح رہتی ہے، وہ صحیح فیصلے کرتا ہے اور صحیح اقدام کرتا ہے۔ یہ سب رحمت الہی کی نشانیاں ہیں، آج ہمارا انقلابی معاشرہ، ہمارے مومن و دیندار عوام اس بات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ یہ آرام یہ سکون اور یہ عزت و وقار اپنے اندر زیادہ سے زیادہ پیدا کریں، ’’الا بذکر اللہ تطمئن القلوب‘‘ یہ خدا کا ذکر اور یاد ہے جو ہمارے دلوں کو، ہماری دنیا اور زندگی کے طوفانوں میں محفوظ رکھتا ہے، لہذا خدا کی یاد کو غنیمت جائیے ۔ امام خامنہ ای  19 جون 2009  
2023/11/09
انسان سر سے پاؤں تک نیازمند ہے۔ ان مشکلات سے نجات اور ان ضرورتوں کی تکمیل کا مطالبہ ہم کس سے کریں؟ خداوند متعال سے، کیونکہ وہ ہماری حاجتوں سے واقف ہے۔ خدا جانتا ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ کیا ضروری ہے، اور کون سی چیز آپ اس سے مانگ رہے ہیں۔ لہذا اپنے خدا سے مانگئے۔ آپ کے پروردگار نے فرمایا ہے: "مجھ سے دعا کرو" یعنی مجھ کو پکارو میں تم کو جواب دوں گا، البتہ یہ جواب دینا، ضرورت پوری کر دینے کے معنی میں نہیں ہے۔ وہ فرماتا ہے: میں تم کو جواب دیتا ہوں اور لبیک کہتا ہوں، "استجب لکم"۔  یقینا یہ الہی استجابت بہت سے مواقع پر حاجت کی تکمیل اور جو کچھ آپ نے خدا سے چاہا ہے اس کی تکمیل کے ساتھ ہے۔ انسان ضرورتمند ہے اور ان ضرورتوں کی تکمیل کا وہ مطالبہ کرتا ہے خدا کے گھر کے دروازے پر جانا چاہیے تاکہ دوسروں کے سامنے گڑگڑانے سے بے نیاز ہوجائیں۔ امام خامنہ ای  15 فروری 1995    
2023/11/02