رہبر انقلاب نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے اس خطاب میں فرمایا کہ ایرانیوں کے نمایاں تشخص کے اس خاص پہلو سے مربوط حقائق میں تحریف کرنے کی دشمنوں کی کوششوں کی طرف سے ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں ملک میں روزانہ تقریبا 150 لوگوں کی اموات پر افسوس ظاہر کیا اور عوام کو طبی ہدایات پر سختی اور تسلسل کے ساتھ عمل کرنے کی دعوت دی۔

رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق مقدس دفاع کے مجاہدین اور قدیمی سپاہیوں کی عزت کرنا ملی فریضہ ہے جس پر اسلام کی بھی خاص تاکید ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ان عزیزوں کے کام اور ان کے شہید ساتھیوں کی عظمت کو سمجھنے کے لئے مقدس دفاع کے میدان کی عظمت اور ایران کی تاریخ کے اس اہم باب کی کیفیت اور حالات کو بخوبی سمجھنا ضروری ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ صدام تو بڑی طاقتوں خاص طور پر امریکہ کا ایک مہرہ تھا جبکہ ملت ایران کی اصلی جنگ اسلامی انقلاب سے چوٹ کھانے والے امریکہ، علاقے میں ایک جدید اسلامی ایرانی تشخص کے ظہور سے فکرمند طاقتوں، نیٹو اور مغربی و مشرقی یورپ کے ممالک سے تھی، انہوں نے صدام کو اکسایا تھا کہ اسلامی انقلاب اور نظام کو ختم کر دیں۔

جنگ کے آغاز سے پہلے صدام اور امریکہ کے درمیان ہونے والے معاہدے کے دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جنگ کے برسوں میں مشرق و مغرب کے ممالک کی عسکری، مالی اور انٹیلیجنس مدد امارات، کویت، سعودی عرب اور دیگر راستوں سے بھیجی جاتی رہی۔

آیت اللہ خامنہ ای کے مطابق دشمنوں کی ترغیب کے علاوہ ایران کے داخلی حالات کی وجہ سے بھی صدام کو حملے کی ہمت ملی۔ آپ نے فرمایا کہ جنگ کے آغاز کے سال میں وسائل اور کمانڈ کے اعتبار سے فوج کی نامناسب صورت حال، سپاہ پاسداران کی نئی نئی تشکیل، دفاعی وسائل کی شدید قلت، ایسے حقائق تھے جن سے دشمن آگاہ تھا اور انھیں مسائل کی وجہ سے اسے جنگ شروع کرنے کی ترغیب ملی۔

آٹھ سالہ جنگ شروع ہونے کے حالات کی تشریح کے بعد رہبر انقلاب اسلامی نے دشمنوں کے مقابلے میں ملت ایران کے فاتحانہ اور شجاعانہ دفاع کے کلیدی نکات اور ٹھوس عوامل پر روشنی ڈالی۔

آیت اللہ خامنہ ای نے اس سلسلے میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت و رہبری کو بہت حساس اور حیرت انگیز قرار دیا اور فرمایا کہ امام خمینی کو شروع سے ہی اس معرکے کے حقیقی دائرے اور پہلوؤں کا علم تھا اور آپ نے بڑی حیران کن ادراک کا ثبوت دیتے ہوئے اعلان کیا کہ یہ دو ہمسایہ ممالک کی جنگ نہیں ہے بلکہ اسلامی انقلاب اور ملت ایران کے دشمن اسلامی نظام کے مقابلے میں صدام کی پشت پر صف آرا ہو گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ امام خمینی نے بڑی عجیب دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملت ایران کو مقدس دفاع کے میدان میں اتارا کیونکہ آپ سمجھ گئے تھے کہ صرف مسلح فورسز کے میدان میں آنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں مقدس دفاع کے نتیجے میں حاصلے ہونے والے سرمایوں کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ان گراں قدر سرمایوں میں سے ایک امن و سلامتی ہے جو مقدس دفاع کی برکت سے حاصل ہوئی کیونکہ ملت ایران کے جذبہ دفاع نے ثابت کر دیا کہ وطن عزیز پر حملے کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے اور ہر حملہ آور کو دنداں شکن جواب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے کوئی بھی حملہ آور حملے سے پہلے سوچنے پر مجبور ہوگا اور اسے یہ فائدے کا سودا نہیں سمجھے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق خود اعتمادی کا جذبہ، فنی و سائنسی ایجادات کی جانب پیش قدمی بھی مقدس دفاع کے دوران حاصلے ہونے والے دیگر سرمائے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اسی دور میں جب ایران کے شہروں پر دشمن کے میزائل برس رہے تھے اور کوئی بھی ملک ہمیں میزائل اور وسائل دینے پر آمادہ نہیں تھا شہید طہرانی مقدم اور ان کے دوستوں نے میزائل انڈسٹری کی بنیاد رکھی۔ آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ آج کی میزائل توانائی اسی دور کے جذبہ خود اعتمادی اور سائنسی مہم کا نتیجہ ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے بظاہر ناممکن نظر آنے والے کام بھی انجام دینے کی جرئت اور ملک کے انسانی وسائل کے ارتقاء کو بھی مقدس دفاع کے دور میں حاصل ہونے والے سرمائے سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ مقدس دفاع کے دور کے انسانی وسائل کی ایک مثال شہید سلیمانی تھے جو علاقے کی سطح پر اور ڈپلومیسی کے میدان میں حیرت انگیز کارنامے انجام دیتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اس عزیز شہید کی سرگرمیوں کے وسیع دائرے کے بارے میں ملت ایران کو مکمل آگاہی نہیں ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ آٹھ سالہ مقدس دفاع کی ایک اور خاص بات یہ رہی کہ ملت ایران کو مغربی تمدن کی حقیقت سے بہتر آشنائی کا موقع ملا۔ آپ نے فرمایا کہ ایران کی معاصر تاریخ میں ملت ایران کے  خلاف مغربی حکومتوں کے عناد اور خباثتوں سے کئی بار پردہ ہٹا لیکن ان حکومتوں نے بد عنوان، انسانیت مخالف اور ڈکٹیٹر صدام حکومت کی  حمایت کرکے انسانی حقوق کے اپنے دعوؤں کو عملی طور پر پامال کیا اور اپنا اصلی چہرہ دکھایا، یہ عمیق شناخت بہت اہم ہے اور ہمارے تمام فیصلوں میں اس پر توجہ رہنا چاہئے۔