ایران کے خلاف امریکہ کی ظالمانہ پابندیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ خاص طور پر تین عشرے قبل اور ایران کی پرامن ایٹمی سرگرمیاں شروع ہونے کے بعد ایران کا معاشی، صنعتی اور اس سے متعلق بین الاقوامی میدان کا شاید ہی کوئي ایسا شعبہ ہوگا جو عالمی سامراج اور مغرب کی پابندیوں کے گزند سے محفوظ رہا ہو۔ ہر کچھ عرصے بعد بے بنیاد بہانوں سے ایران کے افراد اور اداروں کو پابندیوں کی طویل فہرست میں شامل کر دیا جاتا ہے اور امریکہ بدستور اس بات کی ناکام کوشش کر رہا ہے کہ اس طرح سے اسلامی جمہوریہ ایران کی اصولی پالیسیوں میں تزلزل پیدا کر دے۔

 البتہ یہ بات شروع سے ہی واضح تھی کہ ایرانی قوم ان پابندیوں سے جنھوں نے سب سے پہلے مرحلے میں عوام کی معیشت اور ان کی روزمرہ کی زندگي کو نشانہ بنایا ہے، ہرگز مرعوب نہیں ہوگي بلکہ وہ رہبر انقلاب اسلامی کی دانشمندانہ رہنمائي کے سائے میں ان خطروں کو مختلف میدانوں میں ملک کی ترقی و پیشرفت کے لیے مواقع میں بدل دے گی۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای پابندیوں سے مقابلے اور انھیں بے اثر بنانے میں ملک کے حکام اور پالیسی سازوں کے کردار کے ساتھ ہی ہمیشہ اس مکمل معاشی جنگ میں عوام کی بھرپور مشارکت پر بھی زور دیتے ہیں اور اس جنگ میں دوسرے طبقوں سے بڑھ کر پہلی صف کے مجاہدوں کی حیثیت سے مزدروں اور محنت کشوں کے رول پر تاکید کرتے ہیں۔

وہ عالمی یوم مزدور کے موقع پر مزدوروں اور محنت کشوں سے ہونے والی سالانہ ملاقات میں کام، روزگار اور مزدور کے مقام کے بارے میں اسلام کے نقطۂ نظر کو بیان کرنے کے علاوہ موجود حساس دور میں مغرب کی ظالمانہ پابندیوں سے مقابلے میں مزدوروں کے مرکزی کردار پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس سال بھی محنت کشوں سے ملاقات میں رہبر انقلاب کے خطاب کا ایک حصہ اسی اہم نکتے پر مرکوز تھا۔ انھوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ہم اس سے پہلے فوجی جنگ میں مصروف تھے اور اب یہ ایک اقتصادی جنگ ہے، کہا: "آج ہم اقتصادی جنگ کی حالت میں ہیں، جنگ، اقتصادی ہے۔ ابتدائے انقلاب کی آٹھ سالہ جنگ کی طرح یہ بھی مسلط کردہ جنگ ہے، وہ مسلط کردہ فوجی جنگ تھی، یہ مسلط کردہ اقتصادی جنگ ہے۔ امریکہ ایک طرح سے، امریکہ کے ساتھی ممالک الگ طرح سے ایران اسلامی، اسلامی جمہوریہ کے خلاف جنگ کر رہے ہیں، یہ اقتصادی جنگ ہے۔ اس اقتصادی جنگ میں جو  ہم پر مسلط کی گئی ہے، پہلی صف اور اگلا محاذ روزگار فراہم کرنے والوں اور محنت کشوں سے تعلق رکھتا ہے۔ اگلے محاذ پر ان کا کردار ہے لیکن میرے پیش نظر، یہ حصہ نہیں تھا بلکہ میرے پیش نظر یہ بات ہے کہ آپ جو امریکہ کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں، اپنے کام کی قدر کو سمجھیں۔ یعنی محنت کش اور روزگار فراہم کرنے والے اس جنگ کے ہراول دستے میں ہیں۔ آپ جتنا اچھا کام کریں گے، آپ کے اچھا کام کرنے میں جتنی مدد کی جائے اتنا ہی اس اقتصادی جنگ میں اتنے ہی اچھے اثرات مرتب ہوں گے ... دشمن دہشت گردی اور اسی طرح کے دیگر بہانوں سے ہم پر پابندی لگاتا ہے۔ ان پابندیوں کا اثر تدریجی طور پر کم ہو رہا ہے۔ کچھ سال پابندی لگائی، دیکھا کہ کوئی فائدہ نہیں ہے۔ معتبر عالمی مراکز کہتے ہیں کہ اس سال ایران کی ناخالص قومی پیداوار پچھلے سال سے زیادہ رہی ہے۔ تو کیوں زیادہ رہی ہے؟ اس لیے کہ زیادہ کام کر رہے ہیں، اس لیے کہ بہتر کام کر رہے ہیں، اس لیے کہ پابندیاں انہیں بے دست و پا نہیں کرپا رہی ہیں، اس لیے کہ انھوں نے بیرون ملک سے اور سرحدوں کے پار سے امید نہیں باندھی ہے۔ اس کی تقویت ہونی چاہیے۔ ملک میں اس جذبے میں اضافہ ہونا چاہیے۔" (2024/4/24)

رہبر انقلاب اسلامی اپنے بیانوں میں بار بار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سائنس و ٹیکنالوجی، فوجی و دفاعی صنعت سمیت مختلف میدانوں میں ایران اسلام کی ترقی و پیشرفت کسی حد تک انہی پابندیوں کی مرہون منت ہے۔

وہ محنت کشوں سے اپنے ایک دوسرے خطاب میں اس گرانقدر موقع سے فائدہ اٹھانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ "میں زور دے کر کہتا ہوں کہ بہت سے معاملوں میں پابندی، ملک کے حق میں ہے، ایرانی قوم کے حق میں ہے، اس بات کو ہمدرد، چاہنے والے اور باخبر افراد بیان کرتے ہیں۔ جی ہاں! پابندی، کچھ مشکلات پیدا کرتی ہے، ممکن ہے کہ بینکنگ لین دین پر پابندی، تیل وغیرہ پر پابندی کچھ مشکلات پیدا کر دے لیکن بالآخر وہ ملک کے فائدے میں ہے۔ ملک کے ایک عہدیدار بتا رہے کہ کسی غیر ملکی نشست میں ایک غیر ملکی سیاستداں نے ہم سے کہا کہ جناب! آپ پابندیوں کے دوران اتنے پیشرفتہ ہتھیار بنانے میں کامیاب ہوئے، آپ کی صلاحیت بڑے اعلی پیمانے کی ہے، اگرچہ آپ پر پابندی تھی لیکن پھر بھی آپ اتنے زیادہ پیشرفتہ ہتھیار بنانے میں کامیاب ہوئے، اگر آپ پر پابندی نہ ہوتی تو آپ کیا کرتے؟ ان صاحب نے بتایا کہ میں نے اس سے کہا کہ اگر پابندیاں نہ ہوتیں تو ان میں سے کوئي بھی کام نہیں ہو پاتا۔ وہ صحیح کہہ رہے تھے۔ پابندی اس بات کا سبب بنتی ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کی طرف رجوع کریں، اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ملک کے اندر پیداوار کی کوشش کریں، اپنی جدت طرازیوں کو تلاش کریں، پہچانیں۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ آپ محنت کش ہیں، اونچی سطح کے محنت کش ہیں، آپ میں سے بہت سے اعلی تعلیم یافتہ ہیں، پیداوار کے اس امکان کی قدر سمجھیے، جدت طرازی کے اس امکان کی قدر سمجھیے، ملک کے اعلی حکام بھی اس کی قدر سمجھیں۔" (2019/4/24)

آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای پابندیوں کو بے اثر بنانے اور ان کے خاتمے کی واحد راہ، قومی پیداوار میں پیشرفت اور اس سلسلے میں حقیقی کوششوں کی طرف توجہ دینے کو قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اہم کام، محنت کشوں کے حوصلے اور کوشش پر منحصر ہے: "ان دنوں پابندیوں وغیرہ کی باتیں بہت زیادہ ہو رہی ہیں، البتہ ایک عرصے سے، کئی سال سے پابندیوں کے موضوع پر بات ہو رہی ہے، آج کل پھر اس پر بات ہو رہی ہے، میرے خیال میں پابندیوں کو بے اثر بنانے کا سب سے اچھا اور سب سے کامیاب طریقہ قومی پیداوار کو تقویت پہنچانے کے لئے حقیقی کوشش و محنت ہے صرف نعرے بازی نہیں بلکہ حقیقی محنت۔ اگر ہم قومی پیداوار کو حقیقت میں مستحکم بنانے میں کامیاب ہو گئے، حقیقی معنی میں ہم نے تقویت پہنچائی، اس پر کام کیا، منصوبہ بندی کی، لگن سے اس پر کام کیا تو یقین رکھئے کہ پابندیاں پہلے بے اثر ہوں گی اور اس کے بعد ہٹا دی جائیں گی۔ یعنی فریق مقابل جب دیکھے گا کہ پابندیوں سے ملک کو نقصان نہیں پہنچا بلکہ وہ اور بھی مضبوط ہو گیا اس کی ملکی سرگرمیاں اور زیادہ بڑھ گئی ہیں تو وہ پابندیاں ہٹانے پر مجبور ہو جائے گا۔" (2021/5/2)

رہبر انقلاب اسلامی کی نظر میں محنت کشوں کی کوشش صرف قومی پیداوار میں بہتری، معاشرے کی آسائش، خود کفیلی اور اغیار سے بے نیازی جیسے مادی پہلوؤں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کی معنوی گہرائي اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے، یہ ایک عبادت اور نیکی ہے جس سے محنت کش بھی اور وہ تمام افراد بھی جو اس سلسلے میں کسی بھی طرح سے کوشاں رہتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں، بہرہ مند ہوتے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں کہتے ہیں: "یہ محنت کش جو کارخانے میں کام کرتا ہے، یا ڈیزائنر یا مینیجر، یا کوئی بھی کام کرنے والا، اس لئے کام کرتا ہے کہ ایران اسلامی، جو آج معنوی اور خدائي جلووں کا مرکز ہے، رشد و ترقی کرے، پیشرفت کرے، اغیار سے بے نیاز ہو جائے، اس طاقت اور اس طاقت کی پابندیوں کی فکر اس کو نہ رہے، مستغنی ہو جائے تو اس محنت کے کام کا ہر لمحہ، ایک نیکی اور عبادت ہے۔ جو بھی اس کام میں مدد کرے وہ گویا اس عبادت میں بھی شریک ہے۔ خدا کا نظام یہ ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی کام میں دس افراد شریک ہوتے ہیں تو دس نیکیاں انجام پاتی ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ ایک نیکی کو دس میں تقسیم کریں۔ بلکہ خداوند متعال کے نزدیک ان میں ہر ایک کا ثواب الگ ہے۔" (1996/5/1)

بہرحال ملک کے معاشی ڈھانچے، اغیار سے بے نیازی اور مغرب کی ظالمانہ پابندیوں کے خاتمے میں کام، روزگار اور مزدور کے کلیدی کردار پر رہبر انقلاب اسلامی کی مسلسل تاکید ایسی ٹھوس حقیقت ہے جس پر ملکی عہدیداروں کی طرف سے بھی اور محنت کش طبقے کی طرف سے بھی توجہ، ایرانی قوم کے کٹّر دشمنوں کی سازشوں اور دھمکیوں کو ناکام بنانے کی بہترین راہ ہے۔