قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صبح ماہرین کی کونسل کے سربراہ اور اراکین سے ملاقات میں گوناگوں مشکلات اور چیلنجوں سے مقابلے کی ملت ایران اور اسلامی نظام کی پالیسی کے درخشاں نتیجے کو قوم کی کامیابی اور انقلاب و اسلامی نظام کی افادیت کا ثبوت قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ قوم اور حکام تابناک مستقبل کے سلسلے میں یقین کامل کے ساتھ مایوسی و نا امیدی کے شیطان اور بد گمانی کے عفریت کا مقابلہ کرتے رہیں گے اور پختہ ارادے اور بلند ہمتی کے ساتھ ان کے قدم وقار و ترقی کی راہ پر بڑھتے رہیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے بعض کمیوں اور نقائص کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: گزشتہ تیس برسوں کے دوران ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب مسائل و مشکلات نے عوام اور عہدہ داروں کا پیچھا چھوڑا ہو لیکن (اس کے باوجود) ملنے والی غیر معمولی اور بسا اوقات نا قابل یقین ترقی بتاتی ہے کہ اسلامی نظام کے ڈھانچے میں عوام اور حکومت فکری، جذباتی اور سماجی امتزاج و ہم آہنگی کے ساتھ صحیح سمت میں پیش قدمی کر رہے ہیں اور ان کے پاس در پیش اور آئندہ تمام مسائل کے حل کی پوری صلاحیت و توانائی موجود ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے کچھ مشکلات کو نظرانداز کرنے سے پرہیز پر تاکید فرمائی اور کہا: ان مسائل کے حل کے لئے ہر ممکن کوشش کرنے کے ساتھ ہی اس نکتے کا ادراک ہونا چاہئے کہ کچھ ناپاک ارادے اور منفی، تنگ اور کمزور نگاہیں نا امیدی پھیلا کر ملک و قوم کو سعی و کوشش اور پیشرفت و ترقی سے دور رکھنے کی سعی کر رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ معاشرے کا افق تابناک ہے اور قوم بالخصوص نوجوان امید و سعی کے جذبات سے سرشار ہیں جبکہ حکام اور با اثر شخصیات نیز بڑے پلیٹ فارم کے مالک افراد کو چاہئے کہ عجلت پسندی اور غلط رد عمل سے معاشرے میں مختلف شعبوں کے سلسلے میں بد گمانی اور ناامیدی پھیلانے سے اجتناب کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کی موجودہ صورت حال کا مختلف زاویوں سے ماضی سے موازنہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تقریبا تیس سال قبل انقلاب مخالف (عناصر) اس وقت کے بعض حکام کی رضامندی سے تہران اور دیگر علاقوں میں سرگرمیاں کرتے تھے لیکن اب نظام کی دانشمندانہ اور صحیح روش و پیش قدمی اور ملک کی ترقی نے انقلاب کے مخالفین کو مایوسی و ناامیدی میں غرق کر دیا ہے۔
آپ نے سائنسی شعبے میں ملک کی غیر معمولی ترقی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ان میں سے بعض منصوبوں کا آغاز گزشتہ عشروں کے دوران ہوا تھا لیکن یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ بڑے منصوبوں کی بارآوری کے لئے بعص ارادے زیادہ کارآمد اور کچھ حوصلے زیادہ موثر واقع ہوتے ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مصنوعی سیارے کی ساخت، خلا میں پہنچانے کے عمل اور اس سے استفادے سے متعلق ٹکنالوجی کے حصول میں اسلامی جمہوریہ ایران کی کامیابی پر ایران کی ترقی کے مخالفین کی خفت اور ندامت آمیز رد عمل کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس عظیم کارنامے نے بم کی مانند پوری دنیا میں دھماکہ کردیا اور دنیا کے سائنسدانوں کو بھی ایرانی سائنسدانوں کی صلاحیتوں اور آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی ترقی سے آگاہی ہوئی۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے میڈیکل سائنس کے شعبے میں ایران کی قابل قدر ترقی کو مسائل و چیلنجوں سے اسلامی نظام اور قوم کی مقابلے کی پالیسی کا ایک اور ثمرہ قرار دیا۔
آپ نے فرمایا کہ اس وقت نوجوان ایرانی سائنسدانوں کے ہاتھوں تیار کی جانے والی ہزاروں سنٹری فیوج مشینیں کام کر رہی ہیں۔ یہ حقیقت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ملک کی ترقی کی ٹرین برق رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے البتہ اس کے کچھ مسافر اس کی حرکت کو محسوس نہیں کر رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے مستقبل کی مشکلات کی بابت خوف و ہراس کو ان کے ممکنہ وقوع سے بدتر قرار دیا اور فرمایا: ملک کی ترقی اور اسے درپیش بڑی مشکلات کا حل ہو جانا امید کے پرچم ہیں جو اللہ تعالی پے در پے لہراتا ہے تاکہ اس کے مومن بندوں کو یقین ہو جائے کہ نصرت الہی کا وعدہ سچا ہے لیکن بد قسمتی سے بعض افراد چھوٹے موٹے مسائل کے بہانے حقائق کے سلسلے میں شکوک و شبہات پیدا کرکے امید کے لہراتے پرچم کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کی حالیہ سالگرہ کے موقع پر نکلنے والی ریلیوں میں عوام کی بھرپور شرکت کو ان کے قلبی اطمینان اور بھرپور امید کی علامت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ انقلاب اور نظام کے لئے عوام ہمیشہ میدان عمل میں حاضر رہتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ہفتہ اتحاد اور سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے مبارکباد بھی پیش کی۔
آپ نے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفے کی ولادت کو ولادت نور سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ تاریخ بشر کے اس عظیم واقعے سے روحانیت و ایمان و توحید ہی نہیں بلکہ تمام عالم وجود میں با سعادت اور پر امن و عدل سے آراستہ زندگی کا نور معرض وجود میں آیا اور انسانیت کی خوشبختی کی راہ وا ہو گئی۔
قائد انقلاب اسلامی نے اتحاد بین المسلمین کو بہت اہم اور بنیادی مسئلہ قرار دیا اور مختلف مکاتب فکر کے پیروکاروں کے درمیان موجود بعض اختلافات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ اختلاف نظر ٹکراؤ اور ایک دوسرے پر زیادتی کا موجب نہ بننے پائے اور مسلمانوں کی اخوت و یکجہتی کو نقصان نہ پہنچے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مسلم ممالک اور اقوام کے ما بین تفرقہ اندازی کی منظم سازشوں کو عالم اسلام کی پیشرفت و ترقی، وقار و سربلندی اور آزادی و خود مختاری سے سامراجی طاقتوں کی گہری دشمنی کی علامت قرار دیا اور فرمایا کہ اسلام دشمن طاقتوں نے اسی بائیس روزہ جنگ غزہ کے دوران اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ غزہ اور فلسطین کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر مسلم قوموں کے مظاہروں کا صیہونی فوج کی شرمناک شکست میں کتنا اہم کردار رہا۔ یہی وجہ ہےکہ وہ مسلم ممالک اور اقوام کے درمیان اختلافات و تفرقہ پیدا کرنے کی کوششوں سے دستبردار ہونے کا نام نہیں لیتیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایران میں اسلام کا پرچم لہرائے جانے کو مسلم اقوام کے دلوں کے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب میلان و رجحان کی بنیادی وجہ قرار دیا اور فرمایا کہ قرآن سے وفاداری، اسلام کی پیروی اور اس کے احکام کے نفاذ کی کوششوں نے ملت ایران کو مسلمانوں کے درمیان معزز و سربلند کر دیا اور عالم یہ ہے کہ دنیا بھر کے اسلامی معاشرے اسلامی جمہوریہ ایران کے مستحکم محاذوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ اس دلچسپ اور فیصلہ کن حقیقت پر کسی بھی صورت میں آنچ نہیں آنی چاہئے۔