قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ کردستان کے صدر مقام سنندج میں آزادی اسکوائر پر عظیم الشان عوامی اجتماع سے خطاب میں شہر میں اپنے شاندار استقبال پر عوام کا شکریہ ادا کیا اور صوبے کے مہذب اور با ایمان عوام کی استقامت و ہوشیاری اور مجاہدت و جاں نثاری کو سراہا۔ آپ نے قومی وقار کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اہل اور با صلاحیت امیدواروں میں سے سب سے صالح ترین اور بہترین صدر کے انتخاب کے معیار بیان فرمائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اہم ترین اور بنیادی حیثیت کے حامل قومی وقار کے مسئلے کے علل و اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے اس مسئلے کو ایک سرفراز اور ترقی کی راہ پر گامزن معاشرے کی حقیقی زندگی کی علامت قرار دیا اور اسے اغیار کے مقابلے میں استقامت کا اہم عامل بتایا۔ آپ نے فرمایا: جس قوم کو اپنی تاریخ، ثقافت اور وجود پر کسی قسم کا احساس حقارت اور شرمندگی نہ ہو بلکہ وہ اپنے اس سرمائے، روایات و آداب اور تاریخ پر فخر کرے وہ قومی وقار کی دولت سے مالامال ہے اور یہ ہدف قرآنی تعلیمات کے مطابق قوت ایمانی پر تکیہ کرکے حاصل کیا جا سکتا ہے، کیونکہ عزت تو اللہ تعالی، رسول خدا اور مومنین سے مختص ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے سامراجی طاقتوں اور ان کے رحم و کرم پر چلنے والی حکومتوں کی ملت ایران کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی کوششوں کی جانب اشارہ کیا اور برطانیہ و امریکہ کے سلسلے میں ایران کی بد عنوان مطلق العنان قاجاریہ اور پہلوی حکومتوں کی ذلت آمیز پالیسیوں کو انقلاب سے قبل کے دور کی ملت ایران کی بہت بڑی مصیبت سے تعبیر کیا۔ آپ نے فرمایا: ملت ایران نے اسلام کا سہارا لیکر اس قوم اور اس سرزمین کے لئے مظہر وقار کا درجہ رکھنے والے عظیم الشان امام(خمینی رہ) کی قیادت میں اس مصیبت کے خلاف قیام کیا اور آج ایران کے لوگ ایرانی اور مسلمان ہونے پر فخر کرتے ہیں، ساتھ ہی دنیا کی بڑی طاقتیں بھی تسلیم کرتی ہیں کہ ان کی دھمکیوں کا با وقار ملت ایران اور طاقتور اور با نفوذ اسلامی نظام پر کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے قومی وقار کے تحفظ کو ایمان و اتحاد، شجاعانہ اقدام، استقامت و پائيداری اور کام، کوشش اور ابتکار عمل کے جذبے کی تقویت پر موقوف بتایا اور فرمایا: سیاسی واقعات کے تجزئے کے سلسلے میں قومی وقار کی حفاظت بڑا بنیادی نکتہ ہے، عوام بالخصوص نوجوانوں کو چاہئے کہ مسائل کا جائزہ لیتے وقت قومی وقار کی حفاظت کے علل و اسباب پر پوری توجہ دیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے قومی اتحاد میں رخنہ اندازی کرنے والے عناصر کو دشمن کے آگاہ یا بے خبر عوامل قرار دیا۔ آپ نے فرمایا: جو بھی شیعہ یا سنی کی حمایت اور مذہب کے نام پر قومی اتحاد کو نقصان پہنچائے، وہ شیعہ ہو یا سنی دشمنوں اور اسلام کے دشمنوں کا مہرہ ہے خواہ وہ خود یہ بات جانتا ہو یا اس سے لا علم ہو۔
قائد انقلاب اسلامی نے دشمن کی خدمت کرنے والے بعض نا واقف افراد کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا: بہت سے وہابی عناصر جو عراق، افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیاں کر رہے ہیں انہیں یہ نہیں معلوم کہ وہ (دشمن کی) مزدوری کر رہے ہیں، اسی طرح جو شیعہ اہل سنت کے مقدسات کی توہین کرے وہ دشمن کا نوکر ہے اور ممکن ہے اسے اس کی اطلاع نہ ہو۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: وہابی فرقے کی نگاہ میں دنیا بھر کے اہل تشیع اور محب اہل بیت سنی حضرات کافر ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس شوم نظرئے کے پیروکار مسلمان بھائيوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے پر تلے ہوئے ہیں اسی طرح اہل سنت کے مقدسات کی لا علمی میں یا عمدا توہین کرنے والے شیعہ اختلافات کے باعث ہیں۔ دونوں ہی گروہوں کی کارکردگی غیر قانونی اور شرعا حرام ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے حکومت کی جانب سے عوام کی ہمراہی کی تعریف کی اور حکومت کو عوام کے پر جوش اور بھرپور تعاون کی قدر کرنے کی ہدایت دی۔ آپ نے فرمایا: عوام بالخصوص نوجوانوں کے ابتکار عمل کے جذبے کی قدر کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے کردستان کے خطے کو ایمان و ثقافت و فن و صفا و وفاداری کی سرزمین اور عظیم جاں نثاری کا صوبہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا: اس خطے کے عوام کی مجاہدت کو ملت ایران کبھی فراموش نہیں کر سکتے جنہوں نے ہوشیاری کا ثبوت دیتے ہوئے اسلامی نظام کے حساس ترین ابتدائی سالوں میں ہی دشمن کی سازشوں کو پہچانا اور ان کا ڈٹ کا مقابلہ کیا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کردستان کے عوام سے اپنی قریبی آشنائی کا ذکر کیا اور فرمایا: اس صوبے کے با عظمت عوام امتحان کی گھڑی میں کامیاب ہو جانے والے عوام ہیں کیونکہ جب دشمن نے اپنی خبیثانہ پالیسیوں کے ذریعے ملت ایران کے عظیم پیکر میں مذہبی اور نسلی تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی تو کردستان کے عوام نے ہوشیاری اور پائیداری سے ان بڑی سازشوں کو ناکام بنایا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے سرسبز و شاداب قدرتی مناظر، عوام کے جذبہ مہر و محبت اور علاقے کے بزرگ علما و شعرا کو کردستان کے خوبصورت ثقافتی نمونوں میں قرار دیا۔ آپ نے فرمایا: ایران کی سربلندی کے مخالفین نے اوائل انقلاب سے ہی کوشش کی کہ اس صوبے کو فوجی علاقہ قرار دیں لیکن عوام کی حمایت سے طاقتور اسلامی نظام نے اس بڑے بحران کو حل کر لیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے صوبہ کردستان کو پسماندہ رکھنے کی پہلوی حکومت کی پالیسیوں کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا: انقلاب سے قبل اس صوبے کے طلبا کی تعداد صرف تین سو ساٹھ تھی اور خطے میں خواندگی کی شرح صرف تیس فیصد تھی، ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر تھے لیکن آج طلبا کی تعداد چالیس ہزار سے زائد ہے جو بیس سے زائد اعلی مراکز میں زیر تعلیم ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے کردستان کے علاقے میں اسلامی نظام کے ترقیاتی کاموں کو قابل قدر قرار دیا تاہم یہ بھی فرمایا کہ ابھی بہت سے دیگر کام ہیں جو عہدہ داروں کی توجہ اور ہمت کے طالب ہیں۔ اس خطے کی دو بڑی مشکلوں یعنی سرمایہ کاری کی کمی اور بے روزگاری کو حل کرنے کے لئے موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے نسلی تنوع کے سلسلے میں اسلامی نظام کے نقطہ نگاہ کو دین اسلام سے ماخوذ قرار دیا اور فرمایا: ہماری نظر میں، نسلی تنوع، سنہری موقع ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملت ایران کے عظیم پیکر کے مختلف اعضاء مکمل اتحاد، پر امن بقائے باہمی اور درگذر کے جذبے کے تحت ایک دوسرے کی صلاحیتوں اور استعداد کی تکمیل میں ممد و معاون بن سکتے ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ صوبہ کردستان کے سلسلے میں ہماری نظر محبت و اخوت اور اتحاد و یکجہتی کی نظر ہے اور جو بھی اس کا مخالف ہے وہ در حقیقت اسلامی نظام کی حکمت عملی کے خلاف کام کر رہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے صوبہ کردستان کے نوجوانوں کو اس سرزمین کے عوام کی فداکاری و جاں نثاری کی تاریخ کے مطالعے کی دعوت دی اور فرمایا: اس علاقے کے تاریخی واقعات میں بڑے سبق آموز نکات موجود ہیں، منجملہ یہ کہ جن بے گناہ خاندانوں کے نوجوانوں نے اغیار کے فریب میں آکر امریکہ اور صیہونزم کے اہداف کے لئے اپنی جانیں تلف کیں ہماری ہمدردانہ نظر میں وہ غمزدہ خاندان ہیں، یہ بھی ان نقصانات میں ہے جو انقلاب دشمن عناصر نے اس صوبے پر مسلط کر دئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کے شروعاتی برسوں میں انقلاب مخالف سرگرمیوں کو صوبہ کردستان میں ترقیاتی کاموں اور سرمایہ کاری کے مواقع کی تضییع کا باعث قرار دیا اور فرمایا: حکومتوں نے اس صوبے میں بہت سے کام انجام دئے ہیں، (شاہی حکومت کے) طاغوتی دور کے برخلاف اس وقت کابینہ ملک کے مختلف صوبوں اور شہروں کے دورے کر رہی ہے اور دور افتادہ علاقے کے عوام بھی صدر مملکت، وزرا اور دیگر حکام کو نزدیک سے دیکھ رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے سامراج کی پیچیدہ شازشوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا: دشمن بار بار ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد بھی خاموش نہیں بیٹھا بلکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے عوام اور حکام کی استقامت و پائیداری پر چراغ پا ہے، بنابریں سب کو چاہئے کہ پوری ہوشیاری کے ساتھ دشمن کی سرگرمیوں اور منصوبوں پر نظر رکھیں کیونکہ یہ اندیشہ ہے کہ دشمن اپنی روش بدل کر پھر اپنے پلید اہداف کی تکمیل کی کوشش کرے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ ملت ایران بالخصوص نوجوان پوری دانشمندی اور تمامتر توانائيوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک کی ارضی سالمیت اور اسلام کا دفاع کر رہے ہیں اور جس طرح اب تک دشمن کی کھوکھلی گرج اور چمک سے ہراساں نہیں ہوئے آیندہ بھی نہ خوفزدہ ہوں گے نہ پسپا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں مجوزہ انتخابات کو عظیم قومی امتحان قرار دیا اور فرمایا: صدارتی انتخابات میں عوام کی بھرپور اور سرگرم شراکت، بڑی اہمیت کی حامل ہے جو قومی عز و وقار میں اضافے اور ملک کی استقامت کی تقویت کا موجب بنےگی اور دشمن کو فتنہ پردازی، فساد انگیزی اور سازشوں کی جانب سے نا امید کرے گی۔ آپ نے آئندہ انتخابات کے سلسلے میں ملت ایران سے کینہ رکھنے والے دشمنوں کی حساسیت کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا: تقریبا ایک سال سے بتدریج جاری تشہیراتی مہم میں دشمنوں کی پہلی کوشش تو یہ ہے کہ انتخابات ہونے ہی نہیں دیں لیکن وہ ہرگز اس میں کامیاب نہ ہوں گے، انہوں نے یہی سازش پارلیمانی انتخابات کے سلسلے میں بھی تیار کی تھی لیکن ملت ایران کی قوت ارادی اور اللہ تعالی نے اس سازش کو نقش بر آب کر دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اغیار کی دوسرے مرحلے کی کوشش یہ ہے کہ عوام پولنگ کے مراکز کی جانب نہ جائیں اور انتخابات بالکل بے رونق ہو جائیں لیکن با شعور ایرانی عوام دشمن کی مرضی کے بالکل برخلاف، مکمل ادراک و آگاہی اور جوش و جذبے کے ساتھ ووٹنگ کے مراکز پر مجتمع ہوں گے کیونکہ وہ انتخابات کو قومی آبرو، قومی وقار کا ضامن اور قومی شعور کا معیار مانتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے صدر مملکت کو حاصل وسیع اختیارات کو آئندہ بائیس خرداد مطابق بارہ جون کے انتخابات کی اہمیت کا ایک سبب قرار دیا اور فرمایا کہ ملت ایران ملک کا انتظام چلانے کے عمل میں اپنے لئے فیصلہ کن اور موثر کردار کی قائل ہے اور اسے علم ہے اور وہ دیکھ رہی ہے کہ اس کا منتخب صدر اگر جوش و جذبے اور مضبوط قوت ارادی کا مالک ہو تو کتنی بڑی خدمات انجام دے سکتا ہے؟!
قائد انقلاب اسلامی نے صدارتی انتخابات کے سلسلے میں عوامی شراکت کو سب سے اہم معاملہ قرار دیا اور فرمایا: آئندہ انتخابات کے سلسلے میں دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ عوام امیدواروں کے بیچ سے جن کی اہلیت اور صلاحیت نگراں کونسل کی باریک بیں نظر سے گزرے گی، سب سے زیادہ با صلاحیت امیدوار کا انتخاب کریں۔
آپ نے فرمایا کہ جن امیدواروں کی اہلیت کی تائيد نگراں کونسل کر دے گی وہ سب با صلاحیت ہوں گے تاہم صدر مملکت کے انتخاب جیسے اہم ترین مسئلے میں کمتر پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ معیاروں کے سہارے با صلاحیت امیدواروں میں سے بہترین اور سب سے زیادہ با صلاحیت امیدوار کا انتخاب کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے سب سے زیادہ با صلاحیت صدر کے انتخاب کے معیار بیان فرمائے اور قوم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ایسے کا انتخاب کیجئے جو ملک کے درد کوسمجھتا ہو، عوام کے درد سے واقف ہو اور قوم کے درد سے خود بھی دردمند ہو۔ عوام کے بالکل قریب ہو، سادی زیستی کی عادی ہو، وہ خود بھی اور اس کا خاندان نیز اس کے اعزاء و اقارب تعیش پسندی، رئيسانہ ٹھاٹ باٹ اور اسراف سے گریزاں ہوں کیونکہ حکام میں رئيسانہ ٹھاٹ باٹ کی عادت بہت بڑی آفت ہے۔ آپ نے فضول خرچی اور اسراف سے حکام کی دوری کے سلسلے میں رواں سال کو معیار صرف کی اصلاح کے سال سے موسوم کئے جانے کا ذکر کیا اور فرمایا: اسراف اور ‌فضول خرچی سے مقابلہ برسوں کی مسلسل جد و جہد کا متقاضی ہے لیکن اگر حکام اور ان کے اقارب میں اسراف کی عادت ہو تو وہ اس سلسلے میں عوام کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔
قائد انقلاب اسلامی نے انتخابی امیداروں کو بھی انصاف، دوسروں کی شبیہ خراب کرنے سے اجتناب اور حق و صداقت پر بھرپور توجہ کی ہدایت دی اور فرمایا کہ امیدوار کبھی کبھی ملک کے حالات اور معاشی امور کے سلسلے میں غلط باتیں کرتے ہیں جن سے عوام کو تشویش لاحق ہوتی ہے۔ بنابریں امیدواروں کو چاہئے کہ ایسی باتوں سے جن میں بیشتر کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں فضا کو خراب نہ کریں۔