بیسویں صدی کے آخر میں،جب عالم اسلام کا سیاسی-سماجی منظر نامہ بظاہر جمود اور بند گلی میں پھنسا ہوا تھا، اچانک فلسطین کی سرزمین کے حقیقی مالکوں کے عزم سے ایک تحریک نے جنم لیا جس نے واقعات کے دھارے کو بنیادی طور پر بدل کر رکھ دیا۔ اس بار صیہونی ریاست کو عوام کے اس عزم کا سامنا تھا جس نے برسوں کے ظلم و جبر اور قبضے کو سہنے کے بعد، سب سے آسان اوزاروں کے ساتھ اور ایمان پر بھروسہ کرتے ہوئے، پیچیدہ قبضے کے اکویشن کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب اس تاریخی تجربے کو دوبارہ پڑھنے سے ہمارے سامنے یہ سوال آتا ہے کہ کس طرح ایک قوم کا اجتماعی عزم، طاقت کے غیر متوازن حالات میں بھی، خطے کے سیاسی عمل کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؛ یہ ایک ایسا اکویشن ہے جو آج کے واقعات کے تجزیے میں دوگنا اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
1987 سے پہلے کی دہائیوں میں، فلسطینیوں نے فوجی قبضے اور سماجی اقتصادی پابندیوں کا ایک طویل تجربہ کیا تھا۔ 1967 سے، صیہونی ریاست کے زیر قبضہ دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ پٹی کے ساتھ، بہت سے فلسطینی نوجوان ایسے ماحول میں پروان چڑھے جہاں کسی بھی قسم کی کارروائی سے قبضہ ختم کرنے کی امید بہت کم تھی۔ وسیع پیمانے پر ناجائز آباد کاری، نقل و حرکت میں رکاوٹیں اور سب سے بڑھ کر، سرزمین پر قبضے نے معاشرے کے ایک اہم حصے، خاص طور پر نوجوان نسل کو محرومی اور مایوسی کا احساس دلایا۔
دشمن کے قبضے سے پیدا ہونے والے غصے اور نفرت کے جمع ہونے سے بارود کا ایک ڈھیر بنا جسے چنگاری کی ضرورت تھی تاکہ اس دہشت گرد اور قابض گروہ کو ایک سنگین اور وسیع تناؤ کا سامنا کرنا پڑے۔8 دسمبر 1987 کو جبالیا کے علاقے میں ایک صیہونی عنصر کی قیادت میں ایک ٹرک کے ذریعے کئی فلسطینیوں کے قتل کا واقعہ ہوا۔ یہ واقعہ وہی چنگاری تھی جس نے قابضوں کے خلاف عوامی غم و غصے اور نفرت کا دھماکہ کیا۔ اگلے گھنٹوں اور دنوں میں، آزادی کے متوالے فلسطینی مرد اور عورت بغیر کسی سرکاری حکم یا رہنمائی کے، سڑکوں پر نکل آئے اور قابضوں کے ساتھ وسیع پیمانے پر جھڑپیں ہوئیں۔ یہ تحریک پہلے واقعے کے علاقے تک محدود تھی، لیکن جلد ہی یہ قریبی شہروں اور علاقوں میں بھی پھیل گئی۔
انتفاضہ کی عوامی نوعیت
جیسا کہ کہا گیا ہے،پہلا انتفاضہ بہت سی مسلح تحریکوں کے برعکس، ایک خودرو اور عوامی تحریک تھی۔ مضبوط سماجی روابط اور ناانصافی اور قبضے کا مشترکہ احساس، اس تحریک کو ایندھن دینے والی طاقت بن گیا۔ اسکولوں اور یونیورسٹیوں سے لے کر محلوں تک، لوگوں نے خود سے منظم ہونا شروع کیا اور ہر فرد نے اپنی صلاحیتوں کے مطابق، تحریک میں حصہ لیا: نوجوانوں اور لڑکوں نے ہاتھ میں پتھر لے کر جدوجہد کی، خواتین نے مردوں کی حمایت اور خوراک اور طبی اشیاء کی فراہمی کے ذریعے، اور دکانداروں نے ہڑتال اور سماجی نافرمانی کے ذریعے اس تحریک میں شمولیت اختیار کی۔
تحریک کی تنظیم میں گروپوں اور دھاروں کا کردار
اگرچہ پہلا انتفاضہ بنیادی طور پر عوام سے ابھری ہوئی تحریک تھی لیکن کچھ مقامی دھاریں اور شخصیات نے اس تحریک کی ہم آہنگی اور حمایت میں کردار ادا کیا۔ مغربی کنارے پر، قوم پرست دھڑوں نے، خاص طور پر تحریک فتح اور فلسطین کی آزادی کی تنظیم (پی ایل او) نے، اطلاع کو پہنچانے ، اعلانات اور مختلف شہروں اور محلوں کے درمیان ہم آہنگی میں کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ غزہ پٹی میں بھی، نئی قائم شدہ اسلامی تحریکوں جیسے کہ اسلامی جہاد نے ہم آہنگی اور اطلاع کو پہنچانے میں کردار ادا کیا۔ شیخ احمد یاسین، غزہ میں اسلامی نیٹ ورکس کے بانی اور عالم دین نے، معاون اور سماجی ڈھانچے قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے قبضے کے خلاف عوامی مظاہروں کے ساتھ ساتھ، "حرکت المقاومة الاسلامیہ؛ حماس" کے نام سے ایک تحریک کی بنیاد رکھی۔ حماس نہ صرف ایک سیاسی-سماجی تنظیم کے طور پر، بلکہ اسلامی ڈھانچے کے ساتھ فلسطینی عوامی مزاحمت کے نمائندے کے طور پر سامنے آئی۔ ایک ایسا ڈھانچہ جو قبضے کے خلاف اجتماعی خواہش کو منظم کرنے کے قابل تھا۔ ان کے اس اقدام نے، مقامی مساجد اور فلاحی اداروں کا استعمال کرتے ہوئے، تعلیم اور سماجی خدمات فراہم کرنے کے لیے ایک نیٹ ورک قائم کیا جس نے بالواسطہ طور پر انتفاضہ کی عوامی فورسز کی حمایت کی۔ اس طرح، مختلف گروہوں اور فورسز نے معاون اور سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ لیکن تحریک کا محور وہ قوم تھی جو صیہونی قابض قوتوں کو اپنے عزم اور ایمان کی طاقت کا واضح پیغام بھیجنا چاہتی تھی۔
انتفاضہ کو دبانے کی کوشش
پہلے انتفاضہ نے، سارے مقبوضہ علاقوں میں آزادی کے متوالے فلسطینیوں کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا۔ صیہونی اپارتھایڈ حکومت نے فوجی قوتوں کو لیس کر کے شدید سرکوبی کا فیصلہ کیا۔ فلسطینی قوم نے بھاری قیمتیں اور نقصانات اٹھائے لیکن بدلے میں، صیہونی دشمن کو بھی بہت بھاری قیمت چکانا پڑی۔
قابل اعتماد ذرائع کے اعداد و شمار کے مطابق، تقریباً 6 سال کے انتفاضہ کے دوران، صیہونی حکومت کے ہاتھوں تقریباً 1600 فلسطینی شہید ہوئے جن میں سے 280 افراد 17 سال سے کم عمر کخے نوجوان تھے اور ساتھ ہی 115 فلسطینی ناجائز طور پر بسائے گئے صیہونیوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
صیہونی حکومت کی طرف سے فلسطینیوں کی وسیع پیمانے پر سرکوبی کی پالیسیوں نے جواس نے انتفاضہ کے شروعات کے برسوں میں اپنائی تھی دوسری شکل اختیار کر لی اور اب وہ مزید شدت کے ساتھ جاری ہے۔ان پالیسیوں میں مندرجہ ذیل کا ذکر کیا جا سکتا ہے:
· ان نوجوانوں کی سرکوبی کے لیےجنگ میں استعمال ہونے والی گولیوں کا وسیع پیمانے پر استعمال جن کا واحد اسلحہ پتھر تھا۔
· وسیع پیمانے پر گرفتاریاں، تشدد اور مار پیٹ۔
· نقل و حرکت پر شدید پابندیوں کی پالیسیاں نافذ کر کے فلسطینیوں کی زندگی میں خلل ڈالنا۔
· اسکولوں، یونیورسٹیوں اور بازاروں کو بند کروانا۔
· مظاہروں میں شرکت کے تمام ملزم یا مشتبہ افراد کے گھروں کو ڈھانا اور ضبط کرنا۔
یہی وہ مستقل پالیسیاں ہیں جو آج مختلف ٹیکنالوجیوں اور اے آئی کی مدد سے لاگو ہیں اور فلسطینیوں کی زندگی کو پہلے سے بھی زیادہ متاثر کر رہی ہیں۔
پہلے انتفاضہ میں صیہونی حکومت کے نقصانات
پہلا انتفاضہ،اگرچہ ایک غیر مسلح تحریک تھی، لیکن قابض حکومت کے لیے سیکورٹی، معاشی، سماجی اور سیاسی نقصانات کا ایک مجموعہ لے کر آئی جو اس وقت بے مثال تھا۔ سیکورٹی کی سطح پر، مسلسل مظاہروں، فلسطینیوں اور قابض فوجیوں کے درمیان بار بار ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں تقریباً 160 قابض فوجی مارے گئے اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ اس عمل نے دہشت گرد قابض فوج کو مغربی کنارے اور غزہ میں اپنی فورسز میں نمایاں اضافہ کرنے پر مجبور کر دیا اور مسلسل فوجی اخراجات بڑھا دیے۔ معاشی سطح پر ، صیہونی حکومت کو عدم تحفظ اور سول نافرمانی سے پیدا ہونے والی کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑا۔ داخلی سطح پر، پہلے انتفاضہ نے مقبوضہ علاقوں میں وسیع خلیج پیدا کر دی۔ قابضوں کے سامنے نئے سوالات آ گئے: کیا قبضہ جاری رکھنا معاشی اور سماجی طور پر قابل برداشت ہے؟ کیا ایک قوم کے عزم کے سامنے فوج کو کھڑا کر کے تحفظ ممکن ہے؟
اسی دور میں،صیہونی معاشرے کے درمیان خلیج اور گہری ہوئی۔ صیہونی معاشرے کے ایک حصے کے لیے یہ شک پیدا ہوا کہ کیا طاقت کے استعمال کی پالیسی سے کسی قوم کو مستقل طور پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ یہی اختلافات، بعد میں سیاسی ماحول میں، معاملے کو اوسلو معاہدے کو قبول کرنے کی طرف لے گئے۔ اوسلو معاہدے کے بعد اسحاق رابن کا قتل بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ معاہدے کے بعد، صیہونی معاشرے میں یہ خلیج نہ صرف کم نہیں ہوئی، بلکہ اس کی گہرائی میں اور اضافہ ہوا۔
بین الاقوامی سطح پر بھی،پہلے انتفاضہ کی وجہ سے دنیا کے میڈیا میں فلسطینیوں کی روایت کے نمایاں ہونے کے علاوہ، اس حکومت کے خلاف بین الاقوامی قراردادوں اور مذمتوں کی لہر اٹھی اور بالآخر، عالمی رائے عامہ میں صیہونی حکومت کی لیجیٹمیسی کی تصویر کو نقصان پہنچا۔
انتفاضہ، صیہونی حکومت کو مذاکرات کی میز پر کیسے لایا؟
درحقیقت، پہلے انتفاضہ نے ایک ایسا عمل شروع کیا جس کے نتیجے میں، آخرکار فلسطینی مسئلہ کا کئی دہائیوں کا سیاسی جمود ٹوٹ گیا۔ 1987 سے پہلے، قابض حکومت کو یقین تھا کہ وہ فوجی اوزاروں اور سیکورٹی مینجمنٹ کے ذریعے موجودہ صورت حال برقرار رکھ سکتی ہے۔ لیکن چھ سال تک مسلسل وسیع پیمانے پر احتجاج، سول نافرمانی، قبضے کی بھاری لاگت، انسانی اموات، عالمی میڈیا دباؤ اور تل ابیب میں سیاسی بحران نے آہستہ آہستہ اس تصور کو ڈھا دیا۔ انتفاضہ نے ثابت کر دیا کہ فلسطینی قوم نہ صرف قبضے کے تحت آبادی ہے، بلکہ ایک سیاسی عنصر ہے جو روزمرہ کی مزاحمت کو دشمن کے لیے اسٹریٹجک بحران میں بدل سکتی ہے۔ صیہونی حکومت کو احساس ہوا کہ میڈیا اور مواصلات کے دور میں لاکھوں انسانوں پر فوجی کنٹرول رکھنے کی لاگت ادا کر پانا ناممکن ہے۔ انتفاضہ کے آخری برسوں میں یہ صورت حال، بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کے ساتھ، اس بات کا سبب بنی کہ صیہونی حکومت نے پہلی بار، اگرچہ ناخواستہ اور مجبوری میں، فلسطینیوں کی سیاسی موجودگی کو مذاکرات کی شکل میں قبول کیا۔ میڈرڈ کانفرنس اور پھر اوسلو معاہدے کا راستہ انتفاضہ سے پیدا ہونے والی فرسودگی اور بین الاقوامی اہم واقعات جیسے سوویت یونین کے خاتمے سے نکلا۔ لیکن دوسری طرف، عوام کی توقعات اور مذاکرات کے سیاسی نتیجے کے درمیان ایک بنیادی خلیج پیدا ہو گئی۔ فلسطینیوں کا ایک بڑا حصہ یہ توقع کر رہا تھا کہ انتفاضہ کی بھاری قیمتیں - بچوں کے خون سے لے کر گرفتاریوں تک، لمبی ہڑتالوں سے لے کر معاشی بدحالی تک - مکمل آزادی کی راہ میں ایک قابل محسوس کامیابی کا راستہ کھولیں گی، لیکن اوسلو کی ساخت، آباد کاری اور قبضے کی مسلسل موجودگی کے ساتھ، ان توقعات کو پورا نہ کر سکی۔ اس طرح، انتفاضہ نے صیہونی حکومت کی ب
نیادی پالیسیوں کو بدل دیا، لیکن اوسلو سے حاصل ہونے والا سیاسی نتیجہ عوام کی اجتماعی خواہش کی گہرائی کو منعکس نہ کر سکا۔ یہ خلیج، جو اوسلو معاہدے کی میراث تھی، اگلی دو دہائیوں میں مزاحمت کے تجربات، اندرونی تبدیلیوں اور سیاسی جماعتوں میں عدم اعتماد کے پیدا ہونے کے پس منظر میں سے ایک بن گئی۔ زمینی سطح کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ فلسطینی اس کسی بھی سیاسی منصوبے کو مسترد کرتے ہیں جس میں "دریا سے لے کر سمندر تک" مکمل قبضے کا خاتمہ اور خودارادیت کا حق پورا نہ کیا جاتا ہو۔ انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ مزاحمت ہی فلسطین کی آزادی کا واحد راستہ ہے۔ 29 اپریل سنہ 2022 کو یوم القدس کے خطاب میں رہبر اسلامی انقلاب کا یہ جملہ اس فلسطینی خواہش کی گہرائی کی عکاسی کرتا ہے: "پچھلے برسوں میں فلسطین میں جو کچھ ہوا ہے، وہ صیہونی دشمن کے ساتھ تمام سازشی منصوبوں پر تنسیخ کی مہر ہے۔ کیونکہ فلسطین کے بارے میں کوئی بھی منصوبہ اس کے مالکوں یعنی فلسطینیوں کی عدم موجودگی یا ان کی رائے کے خلاف نافذ نہیں ہو پائے گا ۔ اس کا مطلب ہے کہ پہلے کے تمام معاہدے جیسے اوسلو، یا دو ریاستی عربی منصوبہ، یا سنچری ڈیل، یا تعلقات کی بحالی کا تحقیرآمیز حالیہ عمل، باطل ہو چکے ہیں۔"
تاریخ کا سبق: حقیقی طاقت قوموں کے عزم میں پوشیدہ ہے
فلسطینیوں کا پہلا انتفاضہ عوام کے دلوں سے اٹھنے والی طاقت کی ایک زندہ مثال تھا۔ وہ عوام جو قابضوں کے خلاف ہاتھ میں پتھرلے کر ڈٹ گئے،جس کا فلسطینی مسئلے کے عمل پر ایک قابل مشاہدہ اثر پڑا۔ ایک ایسا اثر جو ماضی کے سالوں میں عرب فوجیں اپنے جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ بھی، اس حکومت پر اپنے حملوں میں نہیں دکھا پائی تھیں۔ اس تجربے نے ثابت کر دیا کہ کوئی بھی سیاسی حل یا اعلی سطحی معاہدہ صیہونی حکومت کے قبضے اور لالچ پر قابو نہیں پا سکتا اور اس وجہ سے فلسطینی عوام نے ایک مضبوط اور سنجیدہ مزاحمت کی تشکیل دی۔ پہلا انتفاضہ، بازاروں اور سڑکوں سے لے کر اسکولوں اور کیمپوں تک، نہ صرف ایک احتجاج تھا بلکہ ایک خودرو اور مربوط تحریک تھی جس نے دنیا کو آزادی اور خودارادیت کے حق کا پیغام بھیجا۔ وقت گزرنے کے ساتھ، فلسطینی مزاحمت ترقی کرتی گئی۔ اوزار اور مقابلے کا طریقہ بہتر ہوا اور مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا، انہیں سادہ پتھروں سے لے کر سیف القدس اور طوفان الاقصی جیسی کارروائیوں تک۔ لیکن تحریک کی روح ہمیشہ عوامی ہی رہی اور یہ مزاحمت کے بنیادی ستون یعنی معاشرے کے اتحاد، یکجہتی اور ایمان کو ظاہر کرتی ہے جس کے سامنے کوئی بھی طاقت کھڑی نہیں ہو سکتی۔ 1 اکتوبر سنہ 2011 کو انتفاضہ کی حمایت میں کانفرنس میں رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیا: "فلسطین نے عرب حکومتوں پر انحصار کرنے اور اقوام متحدہ جیسے عالمی فورموں کی طرف ہاتھ بڑھانے کے بجائے - جو سامراجی حکومتوں کے جرم میں شریک تھے - اپنے آپ پر، اپنے نوجوانوں پر، اپنے گہرے اسلامی ایمان پر اور اپنے قربانی دینے والے مردوں اور عورتوں پر بھروسہ کیا۔ یہ، تمام فتوحات اور کامیابیوں کی کنجی ہے۔" یہ بیان فلسطینی مزاحمت کی تمام مؤثر تحریکوں کی نوعیت کو بیان کرتا ہے: حقیقی طاقت معاشرے کے دلوں میں، مشترکہ ایمان میں اور مردوں اور عورتوں کی یکجہتی اور قربانی میں پوشیدہ ہے۔ کوئی بھی طاقت جو اس حقیقت کو نظرانداز کرتی ہے، وہ ناکام ہوکر رہے گی۔ فلسطینیوں کے تجربے نے دنیا کو دکھایا کہ آزادی اور استقامت صرف اپنے آپ پر، معاشرے پر اور مشترکہ ایمان پر بھروسہ کر کے ممکن ہے اور تاریخ کی سمت بدلنے والی طاقت کا بہاؤ نیچے سے اوپر کی طرف بڑھتا ہے۔
مصنّف: محمد مہدی اسد اللھی
https://info.wafa.ps/pages/details/34334
https://alkhanadeq.com/event.php?id=114