قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج ماہرین کی کونسل کے سربراہ اور اراکین سے ملاقات کے دوران اپنی انتہائی اہم گفتگو میں اسلامی نظام کے مثبت اور امید افزا پہلوؤں اور اس نظام کی مستحکم پوزیشن کی نشاندہی کرتے ہوئے موجودہ حالات میں دشمن کے پیچیدہ اور تہہ در تہہ منصوبوں کی جانب اشارہ کیا۔ آپ نے اسلامی جمہوری نظام کے دشمنوں کی نرم جنگ میں ان کے منصوبوں کے بنیادی پہلو اور دیگر گوناگوں پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے عما‏ئدین اور غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کی ہوشیاری، بصیرت اور شجاعت کی ضرورت پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کی جڑوں کے استحکام اور مضبوطی کے ساتھ ہی اس نظام کے مخالفوں کی سازشوں میں تبدیلی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی نظام کے پاس مختلف چیلنجوں سے مقابلے کا تیس سالہ تجربہ ہے تاہم نظام کی ترقي اور اس کے ثمرات کے پیچیدہ ہونے کے مدنظر مخالفین کے منصوبوں اور سازشوں میں پیچیدگی آ گئی ہے اور ان پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ان کے مختلف پہلوؤں کی شناخت کی ضرورت ہے۔
حضرت آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے موجودہ حالات میں فوجی نوعیت کی جنگ کے امکان کو بہت ہی کمزور بتایا اور کہا کہ موجودہ وقت میں دشمن، ایک نفسیاتی جنگ کے ساتھ جسے نرم جنگ کہا جاتا ہے، اسلامی نظام کا مقابلہ کرنے کے لیے آيا ہے اور اس جنگ میں دشمن کا اصل ہدف، اسلامی نظام کے مضبوط پہلوؤں اور مواقع کو کمزور پہلوؤں اور خطروں میں تبدیل کرنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دے کر کہا کہ اسلامی نظام کے مخالفین نرم جنگ میں پروپیگنڈے اور ابلاغیات کے بے شمار حربوں سے کام لے کر ایک نظام اور ملک کے ایمان، عزم، بنیادوں اور ستونوں پر حملہ کرتے ہیں جس کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان کے وسط میں پوری تدبیر کے ساتھ آگاہانہ اور ہوشیارانہ موجودگی کی ضرورت ہوتی ہے، البتہ اس قسم کی موجودگي کو خدائی تائید بھی حاصل ہوتی ہے۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس کے بعد اسلامی نظام کے ساتھ نرم جنگ میں دشمن کی اصل سازشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امید کی علامتوں کو تبدیل کرکے انہیں مایوسی اور شک کی نشانیوں کی شکل میں پیش کرنا، لوگوں میں بدنصیبی اور ناامیدی کے جذبات برانگيختہ کرنا اور ایک معاشرے کے تحرک کو ختم کردینا، مخالفوں کی سازشوں میں سے ایک ہے۔
آپ نے اس موضوع پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے صدارتی انتخابات میں عوام کی پچاسی فیصد شرکت اور تیس سال بعد بھی اسلامی نظام سے قلبی وابستگی اور لگاؤ کے اس انداز سے اعلان اور بہت بڑی اور بےمثال اکثریت سے صدر جمہوریہ کے انتخاب کو ایک بہت اہم بات قرار دیا جسے نظام کے مخالفین شک و شبہے اور مایوسی و ناامیدی کی نذر کر دینا چاہتے ہیں۔ آپ نے ملک میں امید افزا مواقع کی بڑی تعداد کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا: مستحکم بنیادی تنصیبات اور برق رفتاری سے پیش قدمی کے لئے ملک کی آمادگی، نمایاں سائنسی ترقی، نظام کے تیس سالہ تجربات، توانائی سے سرشار اعلی تعلیم یافتہ و خود اعتمادی سے آراستہ نوجوان نسل اور ایسا منصوبہ جس نے آئندہ سولہ برسوں کے لئے ملک کی ترقی کے عمل کو معین کر دیا ہے، یہ سب نمایاں بلندیاں ہیں جنہیں اسلامی جمہوری نظام کے دشمن منفی پروپیگنڈے کرکے کمزوریوں اور مایوس کن باتوں کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے مختلف سطح پر تفرقہ اندازی کی کوششوں کو نرم جنگ میں دشمن کی ایک اور اہم اسٹریٹیجی قرار دیا اور فرمایا: اس وقت عمومی اتحاد اور عوام کی یکجہتی قابل مشاہدہ ہے جس کے مظہر کے طور پر ماہ مبارک رمضان کی جمعے کی نمازوں میں عوام کی شرکت، یوم قدس کے جلوسوں میں وسیع شراکت اور ملک بھر میں عید فطر کی نماز میں عوام کی پرشکوہ موجودگی کا نام لیا جا سکتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس اتحاد و یکجہتی کے سامنے سب کو سر تسلیم خم کرنا اور اس کو تقویت پہنچانے کی کوشش کرنا چاہئے۔
آپ نے بعض عناصر کے تفرقہ انگیز بیانوں اور اقدامات کو غفلت و جہالت کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا: قومی اور مذہبی اتحاد کی تقویت کے لئے حتی الوسع کوشش کرنا چاہئے۔
اپنی دشمنانہ حرکتوں کی جانب سے رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کے لئے اسلامی نظام کے دشمنوں کی سرمایہ کاری کو اسلامی نظام کے دشمنوں کی ایک اور پالیسی قرار دیتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس کا مطلب یہ نہیں کہ معاشرے کے مسائل کے حل میں انفرادی یا اجتماعی کوتاہیوں کو نظر انداز کیا جائے تاہم دشمن کی آشکارا منصوبہ بندیوں کا بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: کیا انتخابات کے بعد کے بعض مسائل پر دشمن کی خوشی کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور کیا اس کی جانب سے غافل ہوا جا سکتا ہے؟ ایران میں کالے کرتوتوں میں غرق رہ چکی دو سو سالہ سیاہ کاریوں والی برطانوی حکومت اور اسی طرح امریکی اور دیگر حکومتوں کے اقدامات جو بعض افراد کی تعریفیں کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہم ایرانی قوم کے طرفدار ہیں جبکہ ایرانی قوم اسلامی نظام کا جز ہے، بنابریں مخالفین کی اس تفرقہ انگیزی اور سازشوں سے غفلت نہیں برتی جا سکتی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: سارے لوگ بالخصوص خواص ہوشیار رہیں کہ کہیں اپنے اقدامات اور بیانات سے نظام کے دشمنوں کی سازشوں اور اہداف کے لئے مددگار نہ بن جائیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے چنندہ شخصیات، خواص اور سیاسی حلقوں کو بصیرت و سوجھ بوجھ کی تقویت کی سفارش کی اور فرمایا: انتخابات کے بعد بلووں میں جب دشمن پردے سے نکل کر آشکارا سامنے آ گيا تو کیسے اس عیاں موجودگی کا انکار کیا جا سکتا ہے۔ بنابریں بصیرت بہت اہم ہے کیونکہ افراد کے اندر اس کی موجودگی سے بہت سی انداز بدل جاتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ کے سلسلے میں صحیح ادراک کو نظام کی حفاظت کے لئے اہم ضرورت قرار دیا اور فرمایا: اسلامی جمہوریہ مختلف پہلوؤں پر استوار ایک حقیقت ہے اور ایک دوسرے سے وابستہ ان پہلوؤں پر بیک وقت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ کے عوامی اور اسلامی دو اہم پہلو ہیں اور عوامی و جمہوری پہلو نظام کے اسلامی پہلو پر مبنی ہے بنابریں اس میں سے اگر کسی ایک پہلو کو کمزور کیا گیا تو پورا مجموعہ کمزور ہو جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی معاشرے میں ولی فقیہ یا مذہبی قیادت کی ذمہ داری اس مجموعے کی حفاظت کرنا بتایا اور فرمایا: اس نقطہ نگاہ سے شخص اور معاشرہ، شریعت و عقل، روحانیت و مساوات، جذبات و حتمیت سب سے ایک ساتھ استفادہ کیا جاتا ہے اور اس مستحکم مجموعے سے انحراف اسلامی نظام سے انحراف پر منتج ہوگا۔ آپ نے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ان عناصر کے حامل اسلام کو امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی نظر میں حقیقی اسلام قرار دیا۔ آپ نے فرمایا: سلطنتی اسلام، سوشیلسٹ اسلام اور دیگر مختلف شکلوں میں پیش کئے جانے والے اسلام، امریکی اسلام ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے شجاعت اقدام کے ساتھ شجاعت فکر کو معاشرے بالخصوص خواص کی ایک اور عصری ضرورت قرار دیا اور فرمایا: جان و مال و آبرو کا ڈر، فضا و ماحول کا خوف اور نظام کے مخالفین کے سامنے پسپائی، موضوعات کے ادراک میں خلل اور رخنہ پڑنے کا موجب ہوتی ہے، بنابریں حق بات بیان کرنے میں تہمتوں اور دیگر باتوں کے اندیشے میں نہیں پڑنا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: امام (خمینی رہ) کی بڑی علمی، سیاسی و سماجی کامیابیوں اور آپ کی جانب لوگوں کے دل کھنچنے کی وجہ آپ کی بے مثال شجاعت تھی۔
قائد انقلاب اسلامی نے معاشرے بالخصوص اہم شخصیات کو خوفزدہ اور پسپا کرنے کے لئے مختلف ادوار میں فتنہ گر عناصر کی کوششوں کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا: چنندہ شخصیات اور خواص کو چاہئے کہ فتنے کے وقت بصیرت سے کام لیتے ہوئے معاشرے کو حقیقت سے آگاہ کریں، وہ انتہائی محتاط رہیں کیونکہ کبھی کبھی ان کی کنارہ کشی اور خاموشی بھی فتنہ کو ہوا دیتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے انتخابات کے بعد کے بلووں کو مکمل منصوبہ بند قرار دیا اور فرمایا: یہ سازش بھی اللہ کے فضل سے ناکام ہوئی اور دشمن کا تیر اسی کی جانب مڑ گیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: تیس سال بیت جانے کے بعد بھی ایران کا اسلامی نظام قوی و مستحکم ہے اور نصرت الہی کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے لیکن الہی فضل و کرم اسی صورت میں جاری رہے گا جب ہم سب اخلاص کے ساتھ انقلاب اور اس کے اہداف کی خدمت میں لگے رہیں اور اس راہ میں کسی بھی سعی و کوشش سے دریغ نہ کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ماہرین کی کونسل کی ایک اور اہم خصوصیت کے طور پر اس میں اہم مذہبی اور علم دین پر عبور رکھنے والے چہروں کی موجودگی قرار دیا اور فرمایا: اس کونسل کے اراکین کی تشویش و فکرمندی ہمیشہ اسلام و انقلاب کے تناظر میں عوامی فکرمندی کی آئینہ دار رہی ہے اور یہ ہمیشہ اصولوں اور اقدار کی محافظ رہی ہے۔ ذاتی قسم کی باتیں، گروہ بندی اور سیاسی حربوں کی کبھی بھی ماہرین کی کونسل میں کوئی گنجائش رہی ہے نہ رہے گی۔ آپ نے ماہرین کی کونسل میں صوبہ کردستان کے نمائندے ماموستا ملا محمد شیخ الاسلام کی شہادت پر مبارکباد اور تعزیت پیش کی اور فرمایا: اتحاد کے منادی اور نظام کے اصولوں پر یقین رکھنے والے اس عالم دین سے محرومی ایک خسارہ ہے لیکن جن لوگوں نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے وہ یاد رکھیں کہ اس دہشت گردانہ اور تشدد آمیز اقدام کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا اور نظام کے مخالفین کے اہداف پورے نہیں ہو سکیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: اس جرم کے تار سرحد پار دشمنوں کی خیفہ ایجنسیوں سے جڑے ہوئے ہیں، البتہ اہل سنت کرد طلبا اور عوام اس عظیم شہید کی راہ پر پورے اشتیاق سے چلتے رہیں گے۔
اس ملاقات کے آغاز میں ماہرین کی کونسل کے سربراہ آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی نے قائد انقلاب اسلامی سے ماہرین کی کونسل کی ملاقات کا موقع فراہم کئے جانے اظہار مسرت کیا اور آپ کے بیانات کو مشکل کشا قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بعض حالیہ مسائل کے باوجود ماہرین کی کونسل کا اجلاس نہایت اطمینان بخش رہا اور بڑی اچھی بحث و گفتگو انجام پائی۔