قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے شمالی صوبے مازندران کے ہزاروں افراد، علما اور حکام کے اجتماع سے خطاب میں ماضی کے تاریخی واقعات کو مستقبل کے سفر کے لئے سبق آموز قرار دیا۔ آپ نے عوام کے مضبوط جذبہ ایمانی اور دانشمندانہ شراکت و تعاون کو گزشتہ تیس برسوں میں تمام سازشوں کے ناکام رہنے کی بنیادی وجہ قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: آج بھی عوام بالخصوص نوجوان نسل اور با اثر شخصیات کا اہم ترین فریضہ اسلامی انقلاب اور نظام کے دفاع کے لئے میدان میں حاضر رہنا اور حکام پر اعتماد رکھنا ہے جبکہ حکام کی سب سے اہم ذمہ داری بلا وقفہ اور ہمہ جہتی محنت و مشقت کرنا اور ملک کی ترقی کے عمل کی رفتار بڑھانا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اٹھائیس سال قبل آج ہی کے دن انجام پانے والے صوبہ مازندران کے شہر آمل کے عوام کے یادگار کارنامے کی مناسبت سے منعقدہ اجتماع میں چھبیس جنوری کے دن شہر آمل کے با ایمان و انقلابی عوام کی شاندار کارکردگی کو سراہتے ہوئے فرمایا: یہ بات اتنی اہم تھی کہ امام (خمینی رہ) نے اپنے تاریخی وصیت نامے میں بھی اس کا ذکر کیا تاکہ یہ فراموش نہ ہو اور آئندہ نسلوں کے لئے یادگار کے طور پر باقی رہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کے مختلف واقعات بال‍خصوص چھبیس جنوری کے آمل کے واقعے سے سبق لینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: شہر آمل کے کو ہزار محاذوں والے شہر کا خطاب دینے کی وجہ چھبیس جنوری کے واقعے میں اس شہر کی سڑکوں کا محاذوں میں تبدیل ہو جانا تھا لیکن حقیقت میں یہ خطاب دلوں کے ان محاذوں کی وجہ سے ہے جو دشمن کی یلغار کے مقابلے کے لئے ہر با ایمان اور پر جوش دل میں قائم ہوئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے بلند اہداف کی سمت سفر کے دوران شکست کھا جانے والی بعض قوموں کی کمزوریوں اور خامیوں سے واقفیت کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا: ان قوموں کی پیشقدمی رک جانے اور ان کی شکست کی اصلی وجہ خطرات سے نمٹنے کے لئے ان کی تیاریوں میں کمی تھی اور تاریخی واقعات کا ایک اہم ترین سبق در پیش واقعات کے لئے آمادہ رہنا اور ان کی مکمل شناخت کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کے گزشتہ تیس برسوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے بعض حلقوں اور گروہوں کے انحراف کے عمل اور سرانجام عوام کے مد مقابلے ان کے محاذ آرا ہو جانے کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا: انقلاب کے اوائل میں بعض افراد اور حلقے جو روشن خیالی اور عوامی خواہشات کی طرفداری کے دعویدار تھے اور ان کی زبان پر جمہوریت کے نعرے بھی تھے، وہ اسی قوم کے مد مقابل آ گئے اور انہی عوام سے مسلحانہ جنگ شروع کر دی، جنہوں نے بڑی بھاری قیمت ادا کرکے اسلامی نظام کی تشکیل کی تھی اور اس کے حق میں ووٹ ڈالے تھے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ان گروہوں اور حلقوں میں کفار، منافقین، مغرب نوازوں اور بظاہر دینداری کی بات کرنے والوں کی شمولیت کا ذکر کیا اور فرمایا: ان حلقوں نے پہلے تو روشن خیالی کی باتیں کرکے امام (خمینی رہ) اور اسلامی جمہوریہ کے اصولوں پر نکتہ چینی کی اور پھر رفتہ رفتہ انہوں نے سیاسی و فکری لڑائی کے میدان کو مسلحانہ جھڑپوں اور بلوؤں کے میدان میں تبدیل کر دیا اور (ایران پر عراق کی جانب سے مسلط کردہ) جنگ کے دوران حکام اور عوام کے سامنے بڑی مشکلات کھڑی کر دیں۔ آپ نے فرمایا کہ ایران کی اسلامی جمہوریت کا تشخص عوام اور ان کے عزم و ارادے اور ایمان پر استوار ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس زمانے میں اللہ تعالی کی مہربانی اور رہنمائی کے طفیل عوام میدان میں اترے اور انہوں نے تمام سازشوں کو نقش بر آب کر دیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کے اس کے بعد سازشوں کا سلسلہ ختم ہو گيا ہو البتہ اہم بات یہ تھی کہ بیدار عوام میدان میں موجود تھے اور انہوں نے آج تک اپنی پیشقدمی جاری رکھی۔ قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ تیس برسوں کے دوران اسلامی نظام کے مخالفین کی کارکردگی کا بھی تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا: اس محاذ سے بھی ہمیشہ دو واضح غلطیاں ہوئیں، پہلی غلطی یہ تھی کہ وہ خود کو عوام سے برتر سمجھتا تھا اور دوسری غلطی یہ تھی کہ اس نے ملت کے دشمنوں سے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کے مخالفین کی پہلی غلطی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: خود کو عوام سے بالاتر تصور کرنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر قوم نے قانونی عمل کے تحت کوئی اقدام یا انتخاب کیا ہے تو مخالفین، قوم کو معمولی لوگ قرار دے دیتے ہیں۔ آپ نے اسلامی نظام کے مخالفین کی ملت ایران کے دشمنوں سے وابستہ امیدوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: گزشتہ تیس برسوں کے دوران امریکی اور صیہونی حکومتیں اور دنیا کے صیہونی، ملت ایران کے سب سے بڑے دشمن واقع ہوئے ہیں اور آج بھی وہی سب سے بڑے دشمن ہیں اور ان دشمنوں سے امید لگانا بہت بڑی غلطی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: جب دشمن وارد میدان ہو گیا ہے تو ہمیں پوری طرح ہوشیار ہو جانا چاہئے اور اگر ہم سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی ہے تو فورا اس کی اصلاح کر لینی چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ تیس برسوں کے دوران امریکا کی سازشوں کی ناکامی کو بالکل واضح اور سامنے کی بات قرار دیا اور فرمایا: سازشوں کے بے اثر رہنے کی وجہ یہ ہے کہ اب اسلامی جمہوریہ ایران ابتدائی برسوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ طاقتور ہو چکا ہے اور پوری طاقت و سرعت کے ساتھ اپنی راہ پر رواں دواں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ سازشوں کی ناکامی اور شکست سے عبرت نہ لینے اور انہی سازشوں کو دہرانے کی دشمنوں کی کوششوں پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: امریکی کہتے ہیں کہ انہوں نے ایران کو انٹرنیٹ کے راستے سے شکست دینے کے لئے پینتالیس ملین ڈالر کا بجٹ منظور کیا ہے، یہ دشمن کی ناتوانی اور عاجزی کی انتہا ہے کیونکہ اب تک سفارتی، راستوں، پابندیوں، جاسوسی کروانے، مہرے خریدنے اور دیگر روشوں سے اسلامی نظام کا مقابلہ کرنے پر وہ ایسے کئی پینتالیس ملین ڈالر خرچ کر چکے ہیں لیکن ان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں لگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کے حقائق اور انقلابی عوام کی قدرت کا ادراک اور اندازہ کرنے سے دشمن کی عاجزی کو سنت الہی قرار دیا اور فرمایا: ملت ایران کے دشمنوں نے مدتوں سے یہ سازش رچی کہ کسی طرح تہران میں فساد و آشوب برپا کر دیں لیکن کیا اس سازش کا نتیجہ اسلامی جمہوریہ کی حفاظت کے تعلق سے عوام میں مزید بیداری و ہوشیاری پیدا ہونے کے علاوہ کچھ نکلا؟!
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: حالیہ واقعات اس بات کا سبب بنے کہ عام لوگوں میں اسلامی جمہوریہ کی حفاظت کے لئے پہلے سے زیادہ پر زور انداز میں میدان میں آنے کی ذمہ داری کا احساس پیدا ہو۔ آپ نے فرمایا: متعدد مواقع پر دشمن کی بعض سازشیں اسلامی نظام سے جبرا مراعات حاصل کرنے کے لئے تھیں لیکن امام (خمینی رہ) نے کسی بھی موقع پر کوئی غنڈہ ٹیکس نہیں دیا اور یہ سب جان لیں کہ ہم بھی قوم یا اپنی طرف سے کسی کو کوئی جبری مراعات ہرگز نہیں دیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملت ایران اپنی حق بات پر قائم ہے اور اس سلسلے میں ہرگز کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ آپ نے فرمایا: ملت ایران، خود مختار، ترقی کی راہ پر گامزن، اسلامی احکامات پر عمل پیرا اور اپنے عقائد اور حقوق کی حفاظت و پاسبانی کے لئے توانا رہنا چاہتی ہے، کیا یہ منطقی مطالبات کوئی جرم ہے؟
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا: اسلامی احکامات کی بنیاد پر ہمارا عقیدہ ہے کہ جب بھی حق و باطل کا مقابلہ ہوتا ہے تو اگر اہل حق اپنے بر حق مطالبے کی راہ پر سچے دل سے ڈٹ جاتے ہیں تو باطل کی شکست یقینی ہو جاتی ہے اور گزشتہ تیس برسوں کا تجربہ اس کا بین ثبوت ہے۔
آپ نے موجودہ حالات میں عوام اور عہدہ داروں کے فرائض بیان کرتے ہوئے فرمایا: عوام اور حکام بالخصوص نوجوانوں اور ان افراد کا کھ عوام میں جن کی بات اپنا ایک اثر رکھتی ہے، سب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ میدان میں موجود رہنے کے تعلق سے اپنی فرض شناسی کو قائم رکھیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: عوام نے ہمیشہ اپنی اس فرض شناسی کا ثبوت پیش کیا ہے، جس کی ایک مثال تیس دسمبر کو (ملک گیر جلوسوں کی شکل میں) دیکھنے میں آئی اور گیارہ فروری کو بھی عوام ماضی کی طرح اپنی آمدگی، موجودگی اور بیداری کا مظاہرہ کریں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مشکلات کے حل کے لئے بلا وقفہ مدبرانہ سعی و کوشش کو ملک کے حکام کا فریضہ قرار دیا اور فرمایا: تینوں محکموں (عدلیہ، مقننہ، مجریہ) کے حکام اور دیگر عہدہ داروں کو چاہئے کہ عوام کی خدمت اور امور کی مدبرانہ انجام دہی کو اپنا فریضہ جانیں اور ایک لمحے کے لئے بھی اس سے غفلت نہ برتیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: ملک کی ترقی کا عمل ایک لمحے کے لئے بھی سست روی کا شکار نہ ہو بلکہ اس کی سرعت اور ہمہ گیری میں اضافہ ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حکام کے تعلق سے عوام کی ذمہ داری، حکام پر اعتماد اور ان کی حمایت جاری رکھنا قرار دیا اور فرمایا: دشمن کا ایک ہدف عوام کو حکام کی جانب سے بد گمانی میں مبتلا کرنا ہے لہذا اس سلسلے میں سب کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: حکام کی حمایت اور پشت پناہی کا مطلب متنبہ نہ کرنا اور ان پر بجا اور منطقی تنقید سے اجتناب نہیں ہے تاہم یہ لازمی انتباہ اور تنقید ایک محاذ کے دو افراد کے باہمی انتباہ کے مانند ہو ٹکراؤ اور مقابلے کی صورت میں نہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: بے شمار قرائن و شواہد سے واضح ہے کہ دست خدا اس قوم کی پشت پناہی کر رہا ہے اور اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی مقبول دعاؤں کے طفیل اس قوم کو بلند منزلوں تک پہنچائے گا اور اس قوم کے سامنے دشمن کو ذلیل و رسوا کرے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں شمالی صوبہ مازندران بالخصوص اس صوبے کے شہر آمل کے عوام کی شجاعت اور کارناموں کی قدردانی کرتے ہوئے فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ، علم و دانش، فقاہت و معرفت و عرفان سمیت گوناگوں میدانوں میں آمل کی تصویر اور شبیہ بہت درخشاں ہے اور اس وقت بھی خدا رسیدہ آملی علمائے کرام، دینی تعلیمی مرکز کے افتخارات اور ملک میں علما کی صنف کے بیش قیمتی سرمائے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل صوبہ مازندران میں ولی امر مسلمین آيت اللہ العظمی خامنہ ای کے نمائندے اور صوبے کے مرکزی شہر ساری کے امام جمعہ آيت اللہ طبرسی نے اپنی تقریر میں صوبہ مازندران کے عوام کی قابل فخر تاریخ اور اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس علاقے کے عوام کی گہری عقیدت کا ذکر کیا اور اسلامی انقلاب کے مختلف اہم مراحل میں بالخصوص اٹھائیس سال قبل چھبیس جنوری کے واقعے میں عوام کی بے مثال جانفشانی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مازندران کے عوام امام (خمینی رہ) کے اہداف، اسلامی انقلاب کے اقدار کی حفاظت اور رہبر انقلاب اسلامی کے فرمان کی اطاعت کے لئے ہمیشہ آمادہ و تیار ہیں۔