قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے آغاز موسم بہار اور نئے سال کی شروعات پر آج شام کو فرزند رسول حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کے حرم مطہر کے خدام اور زائرین کے عظیم الشان اجتماع میں نئے سال کے نعرے یعنی بلند ہمتی اور کثرت عمل کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مختلف میدانوں اور شعبوں کی وضاحت کرتے ہوئے ترقی و انصاف کے عشرے سے موسوم اسلامی انقلاب کی عمر کے چوتھے عشرے کی ضروریات اور اہم عناصر و عوامل کی جانب اشارہ کیا۔ آپ نے انتخابات کے بعد پیش آنے والے واقعات کے دوران دشمنوں کی سازشوں اور کوششوں کے مقابلے میں قوم کے اتحاد و یکجہتی کی قدردانی کی اور فرمایا کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے آئندہ بھی فتح و کامرانی، قوم اور ملک کا مقدر بنے گی اور شکست و پسماندگی دشمن کا یقینی انجام ہوگا۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سال نو اور عید نوروز کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے اللہ تعالی کی ذات اور انبیاء الہی کی تعلمات پر ایمان و ایقان کو اسلامی جمہوریہ کی بنیاد اور اہم ترین شناخت قرار دیا اور متعدد قرآنی آیات کی روشنی میں فرمایا کہ اللہ تعالی پر ایمان اور اسلامی تعلیمات پر عمل آوری روحانی طمانیت و اعتلاء کے ساتھ ہی انسان کی مادی و دنیوی خوشبختی کو بھی یقینی بناتی ہے اور انسانی معاشروں کو رفاہ و پیشرفت کی منزل پر لے جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام کی جڑیں اسی اصلی بنیاد پر استوار ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے سن تیرہ سو نواسی ہجری شمسی کو بلند ہمتی اور کثرت عمل کے سال سے موسوم کئے جانے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ہر سال کے لئے معین کئے جانے والے نعرے محض رسمی اور دکھاوٹی عمل نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ان سے تمام مشکلات برطرف تو نہیں ہو جاتیں تاہم یہ ایک اشارہ ہوتا ہے جو راہ و روش کی نشاندہی کر دیتا ہے۔ اس سال بھی قوم اور ملک کی بلند اہداف پر توجہ کے پیش نظر زیادہ بلند ہمتی پیدا کرنے اور زیادہ مقدار میں اور زیادہ دلجمعی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے گزرے سال میں معیار صرف کی اصلاح (گزشتہ سال کا نعرہ) کے لئے حکام کے بعض اقدامات اور تحقیقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس ہدف تک رسائی کے لئے ابھی بہت فاصلہ طے کرنا باقی ہے لیکن اپنی جگہ پر یہ بات اہم ہے کہ ہم اس بنیادی ترین نعرے پر عمل آوری کی کوشش کریں کیونکہ جب تک معیار صرف کی اصلاح نہ ہوگی مشکلات بدستور برقرار رہیں گی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے علم و تحقیق کو اس سال کے نعرے (بلند ہمتی اور کثرت عمل) کی ایک اہم ترین جولان گاہ قرار دیا اور فرمایا کہ یونیورسٹیاں اور تحقیقاتی مراکز تمام شعبوں میں بلند اہداف کا تعین کریں اور بلند ہمتی اور بے تکان محنت کے ذریعے اس افتخار آمیز ہدف کی جانب بڑھیں تاکہ چند دہائياں گزرنے کے بعد وطن عزیز دنیا کا علمی ماخذ و مرجع بن جائے۔ آپ نے دستیاب وسائل اور ذخائر کے صحیح استعمال کے سلسلے میں بھی بلند ہمتی اور کثرت عمل کو قوم کی زندگی میں رونق اور رفاہ کا موجب قرار دیا اور سبسڈی کو معینہ ہدف کے دائرے میں لانے کے منصوبے کو اس سلسلے میں بہت موثر اور اہم قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس اہم منصوبے کے اجراء میں مجریہ اور مقننہ کے مکمل تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک طرف حکومت کے دوش پر اس عظیم منصوبے کے اجراء کی ذمہ داری ہے لہذا مقننہ سمیت تمام محکموں کو چاہئے کہ حکومت کے ساتھ تعاون اور اس کی مدد کریں اور دوسری جانب حکومت کو بھی چاہئے کہ صرف اسی چیز پر عمل کرے جو قانونی مراحل طے کرکے قانون کا درجہ حاصل کر چکی ہے تاکہ ہمدلی اور باہمی تعاون کی صورت میں اللہ تعالی بھی اپنی نصرت و مدد حکام کے شامل حال کر دے۔
ملکی پیداوار کو اعلی معیاروں کے مطابق بنانے تاکہ ایرانی محنت کشوں کی مساعی کے ثمرات غیر ملکی اشیاء اور مصنوعات کا مقابلہ کر سکیں اور پانچویں پانچ سالہ منصوبے سمیت تمام ترقیاتی منصوبوں میں عوام کی صحت و سلامتی پر خاص توجہ کو بھی قائد انقلاب اسلامی نے نئے سال کے نعرے پر عمل آوری کے سلسلے میں بے حد اہم قرار دیا۔ آپ نے صحت عامہ کے تعلق سے عمومی ورزش کے سلسلے میں بلند ہمتی اور کثرت عمل کو شخصی اور عمومی سعی و پیشرفت کے لئے معاشرے کی مزید آمادگی، پیش قدمی اور جوش و خروش کا موجب ٹھہرایا۔ قائد انقلاب اسلامی نے سرمایہ کاری اور روزگار کے نئے مواقع ایجاد کرنے کو بھی نئے سال کے نعرے پر عمل آوری کے دوسرے اہم میدان قرار دیا اور فرمایا کہ جن لوگوں کے پاس سرمایہ اور وسائل ہیں وہ اچھے ارادے کے ساتھ اور اسراف اور فضول خرچی سے بچتے ہوئے اپنی پونجی کو سرمایہ کاری اور روزگار کے نئے مواقع ایجاد کرنے کی راہ میں لگائیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے نئے نظریات سامنے لانے، مطالعے اور عوامی معلومات میں اضافے کو بھی ان چیزوں میں قرار دیاں جن کے لئے بلند ہمتی اور کثرت عمل کی ضرورت ہے۔ آپ نے اس سلسلے میں فرمایا کہ یونیورسٹیوں اور دینی تعلیمی مراکز میں خیالات کے آزادانہ اظہار کے فورم قائم کرکے معاشرے میں ایک قابل قدر فکری دھارا وجود میں لایا جا سکتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے غربت، بد عنوانی اور نا انصافی کا مقابلہ کئے جانے کو بلند ہمتی اور کثرت عمل کا متقاضی میدان قرار دیا اور اس بنیادی ہدف کے حصول کے لئے بلا وقفہ مساعی کی ضرورت پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سن اٹھاسی میں بائیس خرداد سے بائیس بہمن ( بارہ جون 2009 سے گيارہ فروری 2010) تک آٹھ ماہ کے درمیانی وقفے میں قوم کے شعور و آگاہی کی ضو فشانی کو قوم کی بصیرت کا ایک نیا باب قرار دیا اور فرمایا کہ افتخار اور عبرتوں سے بھرا ہوا یہ باب بڑی اچھی زمین ہے جس پر بلند ہمتی اور کثرت عمل کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے انتخابات کے بعد پیش آنے والے واقعات کے سلسلے میں عوام کی دانشمندانہ اور دور اندیشانہ کارکردگی کا حوالہ دیتے ہوئے سن اٹھاسی (ہجری شمسی) کو قوم کا سال اور قوم کی فاتحانہ و تابناک موجودگی کا سال قرار دیا اور فرمایا کہ انتخابات میں اسی فیصدی سے زائد شراکت اور چار کروڑ کی تعداد میں عوام کی تاریخی اور پر جوش موجودگی بے حد اہم واقعہ اور نظام کی مقبولیت کا جلوہ تھا۔ دنیا کے سیاستداں اور تجزیہ نگار اگر ظاہری طور اس درخشاں حقیقت کو چھپانے کی کوشش کریں تو بھی وہ اتنا تو ضرور سمجھ گئے ہوں گے کہ ملت ایران اپنی بات پر قائم ہے اور تیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی بدستور نظام کے بنیادی اصولوں کی وفادار ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نظام کے اسلامیت اور جمہوریت کے پہلوؤں کی ایک دوسرے سے جدائی کو محال قرار دیا اور انتخابات کے بعد پیش آنے والے واقعات کے سلسلے میں فرمایا کہ میں کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہتا تاہم دشمن کے طرز عمل سے واقف ہوں اور اسے پہچان سکتا ہوں، اسی طرح غیر جانبدار، صداقت پسند اور تیز بیں تجزیہ نگاروں اور عوام نے بھی ان واقعات کی ماہیت اور انداز پر غور کرنے کے بعد انہیں غیر ملکی عناصر سے منسوب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے بعض دیگر ممالک میں بھی اغیار کی جانب سے ایسی ہی طے شدہ سازشوں اور منصوبوں پر عملدرآمد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ جب سامراجی طاقتیں کسی ملک سے ناراض ہوتی ہیں تو انتخابات کے موقع کی تاک میں رہتی ہیں تاکہ اگر وہ لوگ جو ان کے منظور نظر نہیں ہیں انتخابات میں فتحیاب ہو جائیں تو کچھ لوگوں کو سڑکوں پر لاکر حالات کو خراب کر دیں اور اگر ضرورت پڑے تو بلوے اور آشوب برپا کرکے تشدد کے ذریعے انتخابات کے قانونی نتائج کو بدل دیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے انتخابات کے بعد رونما ہونے والے واقعات کی صورت میں دشوار ترین امتحان میں قوم کی کامیاب کارکردگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تشدد اور بلوؤں کے زور پر انتخابات کے نتائج کو تبدیل کرنے کی کوشش، خلاف شریعت اور خلاف قانون تھی اور ان واقعات میں قوم کی دانشمندانہ فتح و کامرانی متعدد عبرتوں اور اسباق کی حامل ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے قوم کو دو گروہوں اقلیت اور اکثریت اور فاتح و شکست خوردہ میں تقسیم کرنے اور انہیں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کر دینے کو قوم میں تفرقہ اور پھوٹ ڈالنے کی اغیار کی سازش قرار دیا اور فرمایا کہ دریں اثنا بعض شر پسند بھی میدان میں آ گئے تاکہ دشمن کی خواہش کی تکمیل کرتے ہوئے ایران میں خانہ جنگی شروع کروا دیں لیکن قوم بیدار تھی اور اس نے انہیں ناکام بنا دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انتخابات کے دن عوام چودہ ملین اور چوبیس ملین کے دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے اور ہر شخص نے اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دیا لیکن کوئی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ یہ دونوں گروہ اغیار کی سازشوں کو محسوس کرتے ہی آپس میں ضم ہو گئے اور پھر پوری قوم دانشمندی اور اتحاد کا مجسمہ بن کر دشمنوں، آشوب پسندوں اور بلوائیوں کے سامنے ڈٹ گئی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایران اور اسلام کی دشمن طاقتوں کی جانب سے بلوائیوں کی حمایت کا ذکر کیا وار فرمایا کہ اگر امریکی، برطانوی اور صیہونی اپنے شوم مقاصد کی تکمیل کے لئے تہران کی سڑکوں پر فورس اتارنے کی توانائی رکھتے تو وہ یہ کام ضرور کر گزرتے لیکن انہیں بھی معلوم تھا کہ یہ حرکت ان کو مہنگی پڑے گی لہذا سیاسی اور تشہیراتی میدان کا انہوں نے رخ کیا کہ شاید بلوائيوں کی حمایت کرکے داخلی اور عالمی رائے عام کے خیالات کو منحرف کر لے جائیں لیکن وہ پھر بھی ناکام رہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے تیس دسمبر اور گيارہ فروری کے جلوسوں میں عوام کی بابصیرت شراکت کو اغیار پر ملت ایران کی سب سے زوردار اور کاری ضرب قرار دیا اور فرمایا کہ ان دونوں مواقع پر الگ الگ امیدواروں کو ووٹ دینے والے عوام متحد ہوکر میدان میں اترے اور راہ انقلاب اور صراط مستقیم پر گامزن رہنے کے سلسلے میں ملت ایران کی کامیابی کا مظاہرہ کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے مقدس شہر مشہد میں فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے حرم مطہر میں اپنے اس خطاب کے دوران اسلامی انقلاب کی عمر کی چوتھی دہائی یعنی ترقی و انصاف کی دہائی کی ضروریات اور لازمی باتوں کی یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا کہ ملک کے حقا‍ئق اور ضروری تیاریوں کے مکمل ہو جانے کے پیش نظر یہ دہائی ان دونوں تاریخی اور بنیادی اہداف کی سمت بڑے قدم اٹھانے کا بہترین موقع ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حکام کے تمام منصوبوں اور اقدامات میں ترقی و انصاف پر توجہ کو لازمی قرار دیا اور دستیاب مناسب مواقع اور میدانوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ آمادہ اقتصادی اور مواصلاتی بنیادیں، سائنس و ٹکنالوجی کے میدان کی ترقی جس نے بعض شعبوں میں ایران کو دنیا کے پہلے آٹھ یا دس ممالک کی صف میں پہنچا دیا ہے، اسلامی نظام کا عالمی اور علاقائی اثر و رسوخ اور اعتبار و اقتدار، ملک کے تیس سالہ سروسز اور مینجمنٹ کے تجربات اور بیس سالہ ترقیاتی منصوبہ وہ بنیادی ڈھانچہ ہے جس کی بنیاد پر ترقی و انصاف کے اہداف کی جانب وسیع پیش قدمی کے مقدمات فراہم ہو گئے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے تعلیم یافتہ، جوش و جذبے سے سرشاراور خود اعتمادی کی دولت سے مالامال نوجوان نسل کو دو عظیم اہداف یعنی ترقی و انصاف کی جانب ملک کی پیش روی کے اہم ترین مقدمات سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ ایرانی نوجوان آج اپنے اندر قوت و توانائی محسوس کر رہا ہے اور یہی قومی خود اعتمادی کی علامت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں ملت ایران کے سامنے موجود رکاوٹوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ دیگر ممالک کی مانند اسلامی مملکت ایران کے بھی کچھ دشمن ہیں لیکن امریکی حکومت کے برخلاف جو قوموں کی نفرت اور دشمنی کا سامنا کر رہی ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کو سامراجی اور توسیع پسند، حکومتوں صیہونی سرمایہ داروں اور انسانیت کے دشمنوں کی مخالفت کا سامنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے تدبر اور شجاعت کو قوم کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے دو اہم ترین ضرورتیں قرار دیا اور فرمایا کہ اگر شجاعت نہ ہو اور حکام، سامراجی طاقتوں کے کریہ چہروں اور اقدامات کو دیکھ کر ہراساں و حواس باختہ ہو جائیں تو ملک کی شکست یقینی ہو جائیگی، اسی طرح اگر تدبر اور ہوشیاری سے کام نہ لیا جائے تو ممکن ہے کہ دشمن فریب اور حیلہ گری کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کر لے۔
قائد انقلاب اسلامی نے دشمن کے اصلی منصوبوں سے واقفیت و آشنائی اور اغیار کی سازشوں اور کارروائیوں کے جواب میں بر محل اور بر وقت فیصلہ کرنے کو تدبر کا حقیقی مفہوم قرار دیا اور فرمایا کہ صیہونی عناصر، امریکا اور قوم کے دوسرے دشمن کبھی بھیڑئے تو کبھی روباہ کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں، کبھی ان کا تشدد پسندانہ تو کبھی فریب کارانہ روپ سامنے آتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے گزشتہ سال (سن تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی) کے پہلے دن کی اپنی تقریر میں بیان کی گئی باتوں کی یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا کہ جیسا کہ بیان کیا گیا، حکام نے نئے امریکی صدر کے بظاہر آگے بڑھے ہوئے (دوستی) کے ہاتھ پر دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گہری نظر رکھی تاکہ یہ پتہ چل جائے کہ اس ملائم دستانے کے اندر دشمنی کا پنجہ تو پوشیدہ نہیں ہے، بعد میں یہی چیز سامنے آئی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ کے ساتھ انصاف پسندانہ تعلقات قائم کرنے سے متعلق امریکی حکومت کے آشکارا و پنہاں دعوؤں اور پیغامات و خطوط کی ترسیل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ سارے دعوے عملی میدان میں الٹے ثابت ہوئے اور امریکی صدر نے انتخابات کے بعد کے واقعات کے سلسلے میں بد ترین موقف اختیار کیا اور عوام پر حملہ کرنے والوں اور بلوائیوں (کے عمل) کو عوامی تحریک سے تعبیر کیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے عزائم کی قلعی کھول دی۔
قائد انقلاب اسلامی نے جمہوریت اور شہری حقوق کی حمایت پر مبنی امریکی حکومت کے جھوٹے دعوؤں پر شدید تنقید کی اور فرمایا کہ امریکی حکومت انتخابات میں ملت ایران کے عظیم کارنامے اور مختلف مواقع پر عوام کے متحدہ نعروں کو نظر انداز کر دیتی ہے، عراق اور افغانستان کے عوام کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے اور غزہ میں بچوں کے قاتلوں کی حمایت کرتی ہے اور اس کے بعد انسانی حقوق کا دم بھی بھرتی ہے، آپ نے فرمایا کہ حقائق نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ حکومت سرے سے ایسی پوزیشن میں ہے ہی نہیں کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات کرے۔
آپ نے فرمایا کہ ہم ان تمام حکومتوں کو جو سامراجی عزائم و مقاصد کے ساتھ اسلامی جمہوریہ اور ملت (ایران) کے سامنے آنا چاہتی ہیں، بتا دینا چاہتے ہیں کہ ایرانی عوام اور حکام انہیں قابل مذمت جانتے اور ان کی حقیقت کو خواہ وہ کسی بھی لباس میں ہوں پہچانتے ہیں اور وہ ملت ایران کے مفادات اور ایران کی ترقی کے عمل میں ذرہ برابر بھی پسپائی اختیار نہیں کریں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بفضل الہی اور عظیم الشان ملت ایران کی استقامت، یکجہتی، شجاعت، دور اندیشی اور دانشمندی و ہوشیاری کے نتیجے میں دشمن اسلامی نظام پر ضرب لگانے اور عوام کو نظام سے جدا کرنے پر ہزگز قادر نہیں ہو سکے گا اور اس ملک اور اس قوم کا مستقبل ترقی و فتحیابی کا آئینہ بنے گا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی تقریر سے قبل ولی امر مسلمین کے نمائندے آيت اللہ واعظ طبسی نے ولی امر مسلمین، قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ قائد انقلاب اسلامی کی رہنمائی و قیادت، حکام کی مدبرانہ کارکردگی اور عوام کے مقتدرانہ تعاون کے طفیل میں اسلامی مملکت ایران اپنی راہ پر گامزن رہے گا۔