قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج شام ملک کے اعلی حکام سے ملاقات میں اہم داخلی و بیرونی امور میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے ماہ رمضان کو توبہ و طہارت، اخلاص اور تقوای کے سیاسی و سماجی پہلوؤں کی جانب توجہ کا بہترین موقع قرار دیا اور باہمی اتحاد و اخوت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ حکام کا اتحاد ایک اہم فریضہ ہے جسے نقصان پہنچانے کی عمدی کوشش خلاف شریعت اقدام ہے۔
آپ نے ماہ رمضان کو ماہ توبہ، احکام خدا وندی کے سامنے دل و جان سے خود سپردگی کر دینے، پاکیزہ ہونے اور آلودگیوں سے نجات حاصل کرنے کا مہینہ قرار دیا اور فرمایا کہ ہر سال ماہ رمضان، ہر روز کی پنج وقتہ نمازوں کی مانند جاگ اٹھنے، اللہ کی بارگاہ میں راز و نیاز کرنے اور دل و جان میں اجالا پھیلانے کا موقع ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے توبہ و استغفار کو ماہ رمضان کی اہم ترین خصوصیتوں میں قرار دیا اور اس تعلق سے حکام کی زیادہ سنگین ذمہ داریوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ غلط فکر و عمل اور راستے سے کنارہ کشی اور بارگاہ خدا وندی کی جانب واپسی کے لئے سب سے پہلے خامیوں، غفلتوں، کوتاہیوں اور کمیوں سے واقفیت کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے شخصی اور اجتماعی سطح پر توبے اور واپسی کے میدان کے بہت وسیع قرار دیا اور فرمایا کہ وہ افراد جو کسی بھی بنا پر معاشرے کے اندر اثر و رسوخ کے حامل ہیں وہ بہت محتاط رہیں، اپنے اثر و نفوذ والے شعبوں اور میدانوں میں رفتار و گفتار کے تئیں پوری طرح ہوشیار رہیں کیونکہ اگر شعبے نے اس عہدہ دار کی رفتار و گفتار کے مطابق رویہ اختیار کیا تو ساری غلطیوں کے لئے وہ عہدہ دار قصوروار قرار پائے گا۔
آپ نے فرمایا کہ توبہ اور فکر و عمل کی اصلاح کا مقصد تقوائے الہی ہے، تقوا کے شخصی پہلوؤں پر توجہ دینا اور محرمات سے پرہیز اور واجبات پر عمل بہت اہم ہے لیکن تقوا کے اس سے بھی اہم پہلو ہیں جن سے عام طور پر لوگ غافل رہتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے صحیفہ سجادیہ کی دعائے مکارم الاخلاق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے عدل و انصاف کے قیام، غیظ وغضب پر قابو، لوگوں کے تنازعے کے تصفئے، اتحاد پیدا کرنے والے اقدامات، معاشرے میں بھڑکائی جانے والی آگ پر پانی ڈالنے اور ان افراد کو جو ایمانی بھائیوں کے مجموعے سے کسی وجہ سے جدا ہو گئے ہیں، اس مجموعے میں واپس لانے کو تقوا کے اہم ترین پہلو قرار دیا۔
آپ نے فرمایا کہ یہ مسائل ہمارے اہم ترین موجودہ مسائل میں شامل ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے عدل و انصاف کی ترویج کو تقوا کا سب سے اہم ترین پہلو قرار دیا اور فرمایا کہ عدالتی امور میں انصاف، اجرائی امور میں انصاف، سماجی امور میں انصاف، ذخائر اور مواقع کی تقسیم میں انصاف، افراد کے انتخاب میں انصاف عدل و انصاف کے حقیقی مفہوم کے اہم مصداق ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فکر و عمل میں کجی پیدا کر دینے والے غصے پر قابو کو بھی تقوا کا ایک اور پہلو قرار دیا اور اختلافات و تفرقہ اندازی کے سد باب کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض لوگ سیاسی حلقوں اور افراد کے مابین آگ بھڑکانے کی کوششوں میں مصروف ہیں چنانچہ ان حرکتوں کا سد باب بھی تقوائے الہی کی مثالوں میں شامل ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے زیادہ سے زیادہ افراد کو ساتھ لیکر چلنے اور کم سے کم افراد کو خود سے دور کرنے کو بنیادی اصول اور پالیسی قرار دیا اور فرمایاکہ اس عمل کے لئے معیار اصولوں اور اقدار کو قرار دینا چاہئے تاہم اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے کہ لوگوں کے ایمان کے درجات مختلف ہیں، جو لوگ جماعت میں شامل تھے لیکن کسی غلطی یا غفلت کی بنا پر کنارہ کش ہو گئے ہیں انہیں رہنمائی اور نصیحت کے ذریعے راستے پر واپس لانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے روزے کو ایک اجتماعی عمل قرار دیا اور فرمایا کہ رمضان کے بابرکت دسترخوان پر بیٹھے ہوئے تمام افراد یعنی ملت ایران اور دیگر مسلم قومیں اگر اس خداداد موقعے سے توبہ و استغفار کے لئے بھرپور استفادہ کریں تو داخلی مسائل اور امت مسلمہ کی تمام مشکلیں حل ہو جائیں گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں اسی طرح ملت ایران اور عالمی سامراج کے درمیان جاری محاذ آرائی کے تناظر میں موجود حقائق پر توجہ کو داخلی اور بیرونی مسائل کے تجزئے میں بہت اہم قرار دیا اور فرمایا کہ اس بتیس سالہ مقابلہ آرائی کے حقائق پر توجہ دینے سے پتہ چلتا ہے کہ ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ، انقلاب اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اصولوں، اہداف اور راستے پر کاربند رہی ہے جبکہ دشمن کے محاذ میں کچھ تبدیلیاں ہوئی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کے دشمنوں کے محاذ میں روز افزوں کمزوری اور اسلامی جمہوریہ کی مسلسل ترقی و پیشرفت کو قابل لحاظ تبدیلی قرار دیا اور فرمایا کہ اگرچہ اسلامی جمہوریہ کے مد مقابل محاذ ایک بہت بڑی دروغگوئی کے ساتھ خود کو عالمی برادری سے تعبیر کرتا ہے لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ اس محاذ میں امریکا اور صیہونی حکومت کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔
آپ نے اس حقیقت کا تجزیہ کرتے ہوئے سطحی اور بنیادی قسم کی مخالفتوں کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ سے امریکا اور صیہونی حکومت کی محالفت بنیادی قسم کی مخالفت ہے۔
آپ نے اسی ضمن میں فرمایا کہ بنیادی مخالفت در حقیقت وجود کی مخالفت ہے اور جس طرح ہم صیہونی حکومت کے وجود کو جعلی و غاصبانہ قرار دیتے ہیں اور اس کی نابودی کو یقینی مانتے ہیں یہ حکومت بھی اسلامی جمہوری نظام کے وجود کی مخالف ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایران اور امریکا کے سلسلے میں پائی جانے والی بنیادی مخالفت کے مفہوم کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکی ہمارے طرز عمل میں تبدیلی کی لاکھ باتیں کریں حقیقت حال یہ ہے کہ ہمارے بارے میں ان کا نظریہ اسلامی نظام کے خاتمے کا نظریہ ہے جوابا ہم بھی سامراجی محاذ اور سپر پاور امریکا کی نفی کرتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملت ایران کے دشمن محاذ کی مسلسل بڑھتی کمزوری کی مثالیں اور اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے دنیا میں امریکا اور صیہونی حکومت کی عوامی حمایت و پذیرائی سے محرومی کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ان دونوں حکومتوں سے قوموں کی نفرتیں، حالیہ برسوں میں عراق، افغانستان اور فلسطین میں فوجی اقدامات میں ان کی ناکامی و شکست، شدید اقتصادی مندی، شام، لبنان اور فلسطین میں امریکا کی مشرق وسطی پالیسی کی ناکامی، امریکی اور اسرائیلی حکام میں خود اعتمادی کا فقدان اور افغانستان اور عراق کا غاصبانہ قبضہ جاری رکھنے یا وہاں سے نکل جانے کا فیصلہ کر پانے میں امریکا کی عاجزی ایران دشمن محاذ میں جاری تنزل کے عمل کی علامتیں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ کی ترقی کے عمل کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے سائنس و ٹنکالوجی کے شعبے میں حاصل ہونے والی مختلف کامیابیوں کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ مختلف میدانوں میں شاندار کارکردگی اور پیشرفت کے علاوہ سماجی اور معنوی لحاظ سے بھی ملت ایران میں بھرپور جوش و جذبہ پایا جاتا ہے اور گزشتہ سال انتخابات میں چار کروڑ رائے دہندگان کی شرکت ملک میں سیاسی و سماجی جوش و جذبے کی دلیل اور علامت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مسلمان قوموں میں اسلامی جمہوریہ کو حاصل وسیع عوامی حمایت و پذیرائی کی جانب اشارہ کیا اور گزشتہ تین عشروں کے دوران دنیا کی قوموں کی جانب سے اسلامی جمہوریہ کے حکام کے پر جوش استقبال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ملت ایران مشرق وسطی اور دنیا کے دیگر خطوں میں حاصل ہونے والے سیاسی تجربات کے ساتھ اور بلند ہمتی سے اپنی پیشروی کو جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ حقیقت اسلامی جمہوریہ کی مسلسل ترقی کی علامت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے دشمن محاذ کے مقابلے میں فکر و تدبر اور منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ ہمارے خلاف انہوں نے بھی منصوبہ بندی کر رکھی ہے لہاذا ہمیں آپس میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر اور عقل و خرد اور شجاعت کے ساتھ مسلسل آگے بڑھتے رہنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے دشمنوں کے منصوبوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اقتصادی دباؤ، فوجی دھمکیوں، نفسیاتی جنگ اور ملک کے اندر سیاسی خلفشار پھیلانے کی سازشوں کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ امریکی ان تمام منصوبوں کے ساتھ ساتھ یعنی پابندیوں، دھمکیوں اور قراردادوں کے ساتھ ہی مذاکرات کے لئے آمادگی کا بھی اعلان کرتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکا کی جانب سے مذاکرات کے لئے آمادگی کے اعلان کو بھی تکراری بات قرار دیا اور دھونس اور دھمکی کی فضا میں مذاکرات کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم دو معاملات یعنی مسئلہ عراق اور ایک دوسرے مسئلے میں جسے انہوں نے اہم ترین سیکورٹی معاملہ قرار دیا ہے امریکیوں سے مذاکرات کر چکے ہیں لیکن اس تجربے سے بھی ظاہر ہو گیا کہ مذاکرات کی میز پر جب وہ مدلل و منطقی باتوں کے سامنے لاجواب ہو جاتے ہیں تو دھمکی آمیز باتیں کرتے ہیں اور یکطرفہ طور پر مذاکرات توڑ دیتے ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ ہم نے واضح اور روشن وجوہات کی بنا پر امریکا سے مذاکرات کرنے سے انکار کیا ہے کیونکہ ہم دھونس اور دھمکی کے ماحول میں کئے جانے والے مذاکرات کو مذاکرات نہیں مانتے اور اسی لئے جیسا کہ ملک کے حکام نے اعلان کیا ہے کہ ہم مذاکرات کے تو حامی ہیں لیکن امریکیوں کے ساتھ نہیں جو دھمکی اور دھونس کی فضا میں پابندیوں کو جاری رکھتے ہوئے گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ فطری بات ہے کہ اگر وہ سپر پاور کی بوسیدہ سیڑھی سے نیچے اتر آئیں اور دھونس دھمکی چھوڑ دیں اور مذاکرات کے لئے اپنے مطلوبہ نتیجے کی قید نہ لگائیں تو ہم جیسا کے پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں، مذاکرات کے لئے آمادہ ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ در حقیقت مذاکرات کے قائل ہی نہیں وہ صرف دھونس اور دھمکی کی زبان میں بات کرنا جانتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ امریکیوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ دوسروں کی طرح وہ ایران پر دباؤ نہیں ڈال سکتے کیونکہ اسلامی جمہوریہ ایران کسی بھی دباؤ میں نہیں آئے گا اور اپنے مخصوص انداز میں اس کا جواب دے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایٹمی مسئلے میں بھی ایٹمی فیول سائیکل کو ملت ایران کا مسلمہ حق قرار دیا اور فرمایا کہ ایران کے حکام اور عوام اپنا یہ حق ہرگز نہیں چھوڑیں گےاور انشاء اللہ ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر اور ملک کے اندر ہی ان کے ایندھن کی پیداوار کی صورت میں اپنا یہ فطری حق حاصل کرکے رہیں گے۔
آپ نے ملت ایران کی ضرورت کا ایندھن فراہم کرنے سے متعق امریکیوں کے بیانات کو مہمل قرار دیا اور تہران ریئیکٹر کے لئے بیس فیصدی افزودہ یورینیم کی فراہمی کی سلسلے میں اغیار کی دروغگوئی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے دنیا میں سودے کے اصولوں کی بنیاد پر تقریبا بیس سال قبل اس ایٹمی پلانٹ کا ایندھن خریدا تھا لیکن انہیں جیسے ہی احساس ہوا کہ ہمیں بیس فیصدی افزودہ یورینیم کی دوبارہ ضرورت پڑ گی ہے انہوں نے گھناؤنا کھیل شروع کر دیا، یہ امریکا اور مغرب کی ایک بڑی غلطی تھی جس سے خود انہیں نقصان پہنچا۔
آپ نے بیس فیصدی کی سطح تک یورینیم کی افزودگی کے لئے ایران کے فیصلے اور امریکا اور دیگر ممالک کے جو ایٹمی ایندھن تیار کرتے ہیں قابل بھروسہ نہ ہونے کی حقیقت سامنے آ جانے کو بیس فیصدی افزودہ یورینیم کے بارے میں مغرب کے کھیل کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا ک اس معاملے میں تمام قوموں کے سامنے ثابت ہو گیا کہ وہ (مغربی حکومتیں) واقعی قابل اعتماد نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکا کی عسکری دھمکیوں کے بارے میں فرمایا کہ بہت بعید ہے کہ وہ ایسی کوئی حماقت کریں تاہم سب جان لیں کہ اگر اس دھمکی پر عمل آوری ہوتی ہے تو ملت ایران سے ٹکراؤ کا میدان صرف ہمارا علاقہ نہیں ہوگا بلکہ بہت وسیع علاقے میں یہ مقابلہ ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے امریکا کے جھوٹے پروپیگنڈے کو انتہائی مضحکہ خیز قرار دیا اور فرمایا کہ انہوں نے جیسا کہ افغانستان، عراق اور فلسطین میں ثابت کر دیا ہے کہ ان کی نظر میں انسانی جانوں کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ بڑی ڈھٹائی سے ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بات کرتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے دشمن کی سازشوں منجملہ اقتصادی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں اسلامی نظام کے حکام کی انتہائی اچھی اور مدبرانہ تیاریوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ملک کے حکام نے پابندیوں کی قرار داد اور امریکا اور یورپ کی یکطرفہ پابندیوں کے بارے میں بالکل صحیح فیصلے کئے ہیں اور انشاء اللہ ان تدابیر کے ذریعے اور اتحاد و اخوت کے سائے میں پابندیوں کو ایک موقعے میں تبدیل کر دیا جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس ضمن میں قومی پیداوار میں اضافے کو اہم قرار دیا اور فرمایا کہ امپورٹ پر صحیح طور پر کنٹرول کرنا چاہئے اور اس سلسلے میں اگر قوانین میں اصلاح کی ضرورت ہے تو پارلیمنٹ کو یہ ذمہ داری پوری کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں عقل پسندی، تدبیر و جرئت عمل کو بہت اہم قرار دیا اور زور دیکر فرمایا کہ دانشمندانہ اور شجاعانہ انداز میں، عزم راسخ کے ساتھ، کسی بھی کمزوری کا مظاہرہ کئے بغیر دور اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے اس سلسلے کو جاری رکھا جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اتحاد و اخوت کو اسلامی نطام کی تحریک کی مقتدرانہ پیشرفت کے سلسلے میں قوم اور نظام کا اہم ترین اثاثہ قرار دیا اور اس مسئلے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ملک کے حکام کا اتحاد و یکجہتی ایک فریضہ ہے اور اس کی عمدا مخالفت خاص طور پر اعلی سطح پر خلاف شرع فعل ہے۔
آپ نے معمولی اختلافات کو بہت بڑے بحران میں تبدیل کر دینے کی دشمن کی سازشوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مختلف امور میں مجریہ اور مقننہ کے درمیان اختلاف رائے کوئی المیہ نہیں ہے بلکہ اس اختلاف نظر کو نا قابل تلافی خلیج اور ناقابل مداوا زخم میں تبدیل کر دینا بہت بڑی خطا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسی ضمن میں فرمایا کہ ہم نے کچھ عرصہ قبل نگہبان کونسل سے درخواست کی ہے کہ جن امور میں پارلیمنٹ اور حکومت کے درمیان کوئی اختلاف ہے ان میں مداخلت کرے تاکہ اختیارات و فرائض کا تعین کرکے مسائل کو حل کر دیا جائے اور محکموں کو ایک دوسرے سے الگ رکھنے کے قانون پر جو آئین کا جز ہے عمل ہو۔
آپ نے اصولوں کی حفاظت و پاسداری اور دشمن کے مفادات کے لئے کام کرنے سے اجتناب پر بار بار تاکید کی اور فرمایا کہ دشمن عوام کو حکام سے بد ظن کرنے کی کوشش میں ہے بنابریں کسی کو بھی ایسی کوئی بات منہ سے نہیں نکالنی چاہئے جس سے عوام حکومت، پارلیمنٹ یا عدلیہ کے تعلق سے کسی بد گمانی کا شکار ہوں۔
قائد انقلاب اسلامی نے متعلقہ اداروں کی جانب سے پیش کردہ اعداد و شمار پر بیجا سوالیہ نشان لگانے پر نکتہ چینی کی اور فرمایا کہ اس طرح کے کاموں سے جو عوام میں بے اعتمادی پیدا کرتے ہیں گریز کیا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ جن عوامل اور تدابیر کی جانب اشارہ کیا گيا وہ قدرت الہی سے توسل، نصرت خداوندی کے وعدے کی تکمیل کے مکمل یقین کی صورت میں نتیجہ خیز ہوں گی اور ایرانی عوام اور حکام انہی عزت بخش عوامل پر تکیہ کرتے ہوئے اس سلسلے کو ماضی کی مانند بدستور قائم رکھیں گے۔
اس موقع پر صدر مملکت ڈاکٹر احمدی نژاد نے اپنی تقریر میں ثقافتی، اقتصادی، سائنسی، تعمیراتی، ترقیاتی، صنعتی، معدنیاتی، خارجہ پالیسی جیسے مختلف میدانوں اور دفتری نظام کی اصلاح اور داخلی حالات پر قابو رکھنے کے تعلق سے حکومت کی کوششوں اور سرگرمیوں کی ایک مفصل رپورٹ پیش کی۔
صدر مملکت ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے ثقافتی مسائل کو حکومت کی خاص توجہ کے مسائل میں قرار دیا اور اسلامی انقلاب کے ثقافتی اہداف اور فضا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ثقافتی بجٹ میں تین گنا اضافہ کیا ہے اور کابینہ کے صوبائی دوروں میں ثقافتی گروہوں پر اقدار کی راہ میں تمام سرگرمیوں کو وسعت دینے اور با ہدف بنانے کی ذمہ داری رہتی ہے۔
ڈاکٹر احمدی نژاد نے سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے میں حکومت کے اقدامات کی وضاحت کرتے ہوئے تحقیقاتی پروجیکٹوں کے بجٹ میں اضافے، تعلیم و تربیت کے نظام میں اصلاح، آرٹس کے موضوعات میں اصلاح، طبی شعبے، علاج معالجے اور طبی تعلیم میں قابل لحاظ کامیابیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرو اسپیس شعبے میں ترقی بہت نمایاں رہی اور بہت جلد ایران کا نیا مصنوعی سیارہ خلاء میں روانہ کیا جائے گا۔
صدر مملکت نے ملک کو ایک عظیم تعمیراتی ورکشاپ سے تعبیر کیا اور ملک کے بجلی گھروں کی گنجائش میں اضافے، سیکڑوں زیر تعمیر ڈیموں، تیل کی ضرورت کی تکمیل کے عمل کو مقامی بنانے، شہروں اور دیہاتوں میں گیس سپلائی کے نیٹ ورک کی توسیع، داخلی سرمایہ کاری اور داخلی ٹھیکیداروں کی مدد سے پارس جنوبی گیس فیلڈ کے باقی ماندہ فیز کو ڈیولپ کرنے کے عمل کی شروعات، پیٹروکیمیکل مصنوعات کی پیداوار اور ایکسپورٹ اور تجرباتی طور پر پیٹرول کی پیداوار میں اضافے کی جانب اشارہ کیا۔
ڈاکٹر احمدی نژاد نے ہاؤسنگ شعبے میں خاص طور پر مسکن مہر نامی ہاؤسنگ پروجیکٹ کے سلسلے میں کئے جانے والے اقدامات، معدنیاتی اور صنعتی اشیاء کے ایکسپورٹ میں وسعت، صنعتی کامپلیکسوں کی تعمیر، اقتصادی شرح ترقی میں اضافے، افراط زر میں کمی، سہام عدالت سے موسوم حصص کی تقسیم، شیئر بازار کی اچھی پوزیشن اور تیل کے علاوہ دیگر اشیاء کے ایکسپورٹ کے اعداد و شمار پیش کئے اور کہا کہ حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اہم اقدامات میں سے ایک سبسڈی کو با ہدف بنانے کا منصوبہ ہے جو دقیق منصوبہ بندی کے ساتھ اور پوری سنجیدگی سے اجرائی مراحل سے گزر رہا ہے۔
صدر مملکت نے ملک کی داخلی فضا، حکام کے اتحاد و یکجہتی، عوام کے جوش و خروش اور نظام سے ان کے گہرے لگاؤ کو اطمینان بخش قرار دیا اور تسلط پسندانہ نظام اور ملت ایران کے دشمنوں کی ناکام تگ و دو اور اقتصادی دباؤ بڑھانے کی کوششوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فضل پروردگار سے ملت ایران دشمنوں کی ان غیر اخلاقی حرکتوں کو بنیادی اقتصادی اصلاحات اور تبدیلیوں اور قومی پیداوار میں مقدار اور کیفیت کے لحاظ سے ارتقاء کے موقع میں تبدیل کر دے گی۔
ڈاکٹر احمدی نژاد نے ملت ایران کے خلاف منظور کی جانے والی قرارداد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ قرارداد تسلط پسندانہ نظام کی ناکامی اور بند گلی سے نکلنے کی اس کی کوششوں کی علامت ہے لیکن ملت ایران کے دشمنوں کو جان لینا چاہئے کہ ان قراردادوں کے ذریعے انہیں نجات ملنے والی نہیں ہے اور جلد ہی وہ اپنے اس اقدام پر پشیماں ہوں گے۔
صدر مملکت نے ملت ایران کو انصاف کے تناظر میں گفتگو اور مذاکرات کی حامی قوم قرار دیا اور کہا کہ ملت ایران منصفانہ مذاکرات کا خیر مقدم کرتی ہے لیکن اپنے حقوق سے ذرہ برابر بھی پسپائی اختیار کرنے کو تیار نہیں ہے۔