قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کی یونیورسٹیوں کے طلباء کے ساتھ اپنی نشست میں اتحاد اور اخلاص پر خاص تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ معاشرے کو دباؤ اور شدت پسندانہ اقدامات سے اخلاص کی نعمت سے بہرہ مند نہیں کیا جا سکتا اور اسلام نے بھی کسی کو اس بات پر مامور نہیں کیا ہے کہ معاشرے کے ضعیف الایمان افراد میں اخلاص پیدا کرنے کے بہانے انہیں باہر نکال دیں۔

آپ نے شخصی، خاندانی، گروہی اور سماجی اخلاص میں اضافے کو معاشرے میں اخلاص کی ترویج کا بہترین طریقہ قرار دیا اور فرمایا کہ مخلصین کے دائرے کو جہاں تک ممکن ہو وسعت دی جائے اور یہ ہدف اسی صورت میں حاصل ہوگا جب ہر انسان سب سے پہلے اپنی ذات، اپنے خاندان، اپنے احباب اور سیاسی و سماجی امور کے رفقائے کار کے اندر اخلاص پیدا کرنے کی کوشش کرے۔

قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل طلبا یونینوں کے نمائندوں نے اپنی تقریروں میں متعدد تجاویز پیش کیں۔

قائد انقلاب اسلامی نے طلبا کی گفتگو کے بعد اپنے خطاب میں جلسے کو بیحد شیریں اور دلنشیں قرار دیا اور طلبا کی جانب سے پیش کی جانے والی تجاویز اور نکات کے سلسلے میں عملی اقدامات اٹھائے جانے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ نشست میں طلبا کے نظریات کا تنوع بہت دلچسپ رہا اور غور و فکر کے ساتھ مدلل باتوں کی پیشکش کی کوشش بہت حوصلہ افزا رہی۔

قائد انقلاب اسلامی نے طلبا یونینوں کے نمائندگان کی گہری باتوں کو طلبا یونینوں میں ہم خیالی کی وسیع صلاحیت کی علامت قرار دیا اور نشست میں بیان کی گئی باتوں کو تدبر، گہری فکر اور حقائق تک رسائی کی اچھی تمہید قرار دیا۔

قائد انقلاب اسلامی نے طلبا کے سوالات، تجاویز اور تنقیدوں کی پیشکش کی ضرورت سے متعلق ایک طالب علم کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے فرمایا کہ طلبہ کا طبقہ ملک کے بہترین طبقات میں ہے اور حکام کو چاہئے کہ طلبا کے درمیان جاکر اس تعلیم یافتہ اور فہم و شعور اور جوش و جذبے سے سرشار طبقے کے سوالات پر توجہ دیں۔

آپ نے اسی کے ساتھ مخاصمت و مخالفت سے سوالات اور تنقیدوں کے فرق کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ طلبا کی تحریک کے حلقے کے اندر یہ خیال نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ محکموں اور اداروں کی مخالفت اس کے فرائض کا جز ہے بلکہ اہم بات ہے سوالات کا پیش کیا جانا اور حکام سے اس کے جواب کے مطالبہ۔ ایک اور طالب علم نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ موجودہ حالات میں بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اتحاد کو محور قرار دیا جائے جبکہ بعض کا ماننا ہے کہ موجودہ حالات کا استفادہ کرتے ہوئے انقلاب سے غیر مخلص افراد کو الگ کیا جائے۔

قائد انقلاب اسلامی نے اسی بات کے جواب میں فرمایا کہ معاشرے کو دباؤ اور شدت آمیز اقدامات کے ذریعے اخلاص کی نعمت سے بہرہ مند نہیں کیا جا سکتا۔

قائد انقلاب اسلامی نے اصولوں کی بنیاد پر اتحاد پر اپنی تاکید کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس بنیاد پر ہم ہر شخص کے ساتھ اس حد تک متحد اور متصل ہیں جس حد تک وہ اصولوں کو مانتا ہے اور جو کوئی بھی اصولوں کو تسلیم نہیں کرتا وہ اتحاد کے دائرے سے فطری طور پر خارج ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے اپنے رسمی اور غیر رسمی موقف سے متعلق سوال کے جواب میں فرمایا کہ کوئی ہرگز یہ خیال نہ کرے کہ قائد انقلاب اعلانیہ رسمی موقف کے علاوہ کوئی غیر رسمی موقف بھی رکھتا ہے جسے وہ مخصوص حلقے میں پیش کرتا ہے، یہ تصور بالکل غلط ہے اور اگر کوئی شخص اس طرح کی کوئی بات کرتا ہے تو وہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کر رہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میرا نظریہ اور موقف برملا بیان کیا جاتا ہے کیونکہ اس اعلانیہ اور صریحی موقف کے علاوہ قائد انقلاب کا کوئی غیر رسمی موقف رکھنا نہ تو جائز ہے اور نہ ہی مناسب۔

قائد انقلاب اسلامی نے ایک طالب علم کے سوال کے جواب میں نظام کی حفاظت کو اوجب الواجبات یعنی سب سے بڑا واجب قرار دیا اور فرمایا کہ نظام کی حفاظت کا مطلب اس کی ثقافتی اور اخلاقی حدود سمیت تمام حدود کی حفاظت اور پاسداری کرنا ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے ملک میں انصاف اور دیگر اسلامی اقدار کے مطابق ثقافتی اقدامات کے فقدان سے متعلق ایک طالب علم کے اعتراض کے جواب میں فرمایا کہ ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے سمیت ثقافتی محکموں کے ذمہ داران کو چاہئے کہ اس سلسلے میں زیادہ کوششیں کریں۔ قائد انقلاب اسلامی نے ثقافتی پیداوار کو وقت طلب کام قرار دیا اور اس کے لئے متعدد بنیادی ثقافتی و عقیدتی کاموں کی انجام دہی کو لازمی بتایا۔ آپ نے فرمایا کہ بد قسمتی سے اس مدت میں یہ بنیادی کام انجام نہیں دئے جا سکے بعض حکومتوں میں تو ثقافتی بنیادوں کو نقصان پہنچانے کی بھی کوشش کی گئی۔

آئین کی دفعہ چوالیس کے دائرے سے ثقافتی اور صحت عامہ کے شعبے کے باہر ہونے اور نجکاری کی اس میں شمولیت سے متعلق ایک طالب علم کے اشکال کی تصدیق کرتے ہوئ‍ے فرمایا کہ اس اعتراض پر توجہ دی جانی چاہئے۔

قائد انقلاب اسلامی نے دفعہ چوالیس کے بخوبی اجراء سے متعلق حکام کے بیانوں اور اس بارے میں پائے جانے والے مختلف نظریات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے طلبا سے سفارش کی کہ حکام کو طلبا کے اجلاسوں میں بلاکر اپنے اعتراضات اور سوالات پیش کریں۔

قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے طلبا کی دیگر ممالک کے طلباء اور عوام کے حلقوں تک رسائی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسے انقلاب کے پیغاموں کی ترویج کے لئے بہت مفید قرار دیا اور فرمایا کہ قوموں سے رابطے کے سلسلے میں بہت سے کام انجام دئے گئے ہیں تاہم اگر طلبہ کی رسائی منصوبہ بندی کے ساتھ ہو تو اس سلسلے میں بہت اہم ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے با صلاحیت افراد کی ہجرت کے موضوع پر بولتے ہوئے کہا کہ ممکن ہے کہ بعض اقدامات کچھ با صلاحیت افراد کے باہر چلے جانے میں موثر ثابت ہوئے ہوں لیکن اکثر و بیشتر اس کی وجہ وہ وعدے ہیں جو باہر سے کئے جاتے ہیں اور ان میں بعض وعدوں سے تو اسلامی جمہوریہ سے دشمنی کی بو بھی آتی ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے دینی اور ایمانی جذبے کو با صلاحیت افراد کی وطن واپسی میں موثر قرار دیا اور فرمایا کہ بعض نابغہ افراد اور ممتاز لوگ انہی جذبات کے تحت ملک کے اندر خدمت کے لئے واپس آ جاتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے طلبا کے ہاسٹل پر ہونے والے حملے کی تحقیقات کے بارے میں قائد انقلاب اسلامی کی تاکید پر توجہ دئے جانے سے متعلق ایک طالب علم کی تقریر کے رد عمل میں فرمایا کہ تحقیقات کا عمل سست تھا اور اس انداز سے آگے نہیں بڑھا جیسا بڑھنا چاہئے تھا تاہم یہ مسئلہ فراموش نہیں کیا گیا ہے اور انشاء اللہ اس میں پیشرفت ہوگی۔

قائد انقلاب اسلامی نے بعض اداروں میں اس مسئلے میں تعاون کے جذبے کی کمی کو تحقیقات کے عمل کی سست رفتاری کی ایک وجہ قرار دیا اور اس مسئلے کی مکمل تحقیقات کئے جانے پر خاص تاکید کی۔

قائد انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں میں ضابطے کی بعض کارروائیوں میں انتہا پسندی کی ایک طالب علم کی شکایت کے جواب میں فرمایا کہ یونیورسٹیوں کو جو دشمنوں کی سازشوں کی آماجگاہ ہے ان کے حال پر چھوڑا نہیں جا سکتا چنانچہ ڈسپلن سے متعلق اقدامات ضروری ہیں تاہم کسی بھی مسئلے میں انتہا پسندی ٹھیک نہیں ہے۔

آپ نے یونیورسٹی کے ماحول میں آزادانہ فکر کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ مختلف سیاسی، سماجی، عقیدتی اور دیگر شعبوں سے متعلق موضوعات پر یونیورسٹیوں کے اندر مذاکرہ اور مناظرہ ہونا چاہئے تاہم اس بات کا خاص خیال رکھا جانا چاہئے کہ ان موضوعات کی جگہ یونیورسٹیاں اور ماہرین کا طبقہ ہے ریڈیو اور ٹی وی کا ادارہ اور عمومی مقامات نہیں۔

صدر مملکت کے بعض معاونین کی کارکردگی پر ایک طالب علم کی تنقید کے بارے میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ میں اس سلسلے میں کوئی مداخلت اور فیصلہ نہیں کرنا چاہتا، ممکن ہے کہ کوئی قابل گرفت بات ہو لیکن مسائل کو اصلی اور فروعی میں تقسیم کرنا چاہئے اور محتاط رہنا چاہئے کہ دوسرے درجے کے مسائل بنیادی اور تقدیر ساز مسائل کی جگہ نہ لے لیں۔

قائد انقلاب اسلامی نے اختلافات کو برملا کر دینے کے بعض حکام کے اقدام پر نکتہ چینی کرتے ہوئے فرمایا کہ اس بارے میں سنجیدہ انتباہ دے دیا گیا ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے اوپن اسلامی یونیورسٹی کے بارے میں پارلیمنٹ کے بل کے خلاف بعض طلباء کی جانب سے پارلیمنٹ کے سامنے کئے جانے والے احتجاج سے متعلق ایک طالب علم کی تقریر کے جواب میں فرمایا کہ اس بارے میں کوئی اظہار خیال نہیں کروں گا، البتہ اکثر مظاہرین کے نعروں میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں تھی تاہم بعض نعروں میں شدت اور تندی ضرور تھی اور طلبہ کو بھی چاہئے کہ تنقید برداشت کریں۔

قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں طلبا یونینوں کو سیاسی اختلافات سے متاثر نہ ہونے کی دعوت دی اور فرمایا کہ ہر طالب علم اور اسٹوڈنٹ یونین کا اپنا خاص مزاج اور پسند ہے لیکن یہ اختلاف، خلیج اور ٹکراؤ کا باعث نہیں بننا چاہئے۔

قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے اہم مسائل کے سلسلے میں طلبا یونین کے موقف اور تجزئے کو ضروری قرار دیا اور فرمایا کہ جن امور کا تعلق ملک کے مستقبل سے ہے جیسے اعلامیہ تہران یا سلامتی کونسل کی قرارداد ان کے بارے میں طلبہ کا موقف اور تجزیہ ضروری ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے سائنس و ٹکنالوجی کے میدان اور سماجی و دینی شعبے میں ملک کی خاطر خواہ پیشرفت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ برق رفتار پیشرفت کے لئے ضروری بنیادیں تیار کی جا رہی ہیں اور روحانی شعبے میں بھی انصاف پسندی کی ترویج اور زیادہ سے زیادہ کامیابیاں حاصل کرنے کے جذبے کو دیکھ کر امید بڑھتی ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کے دشمنوں کے محاذ کو رو بزوال اور اس کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی حرکت کو ارتقائی منزل میں قرار دیا اور فرمایا کہ دشمنوں کی تمام تر سازشوں کے باوجود بتیس سال سے یہ قوم ترقی کر رہی ہے اور انشاء اللہ ایمان اور عزم و ارادے کی قوت سے یہ قوم اس مایہ ناز پیشروی کو بدستور جاری رکھے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے طلبہ کو نوجوانی کے دور کی قدر کرنے اور حقیقت و جمال کے سرچشمے یعنی خدا وند عالم کا قرب حاصل کرنے کی نصیحت کی اور فرمایا کہ جوانی کے ایام میں تہذیب نفس اور دل کی پاکیزگی کی حفاظت زندگی کے بعد کے ادوار کی بنسبت زیادہ آسان ہے۔

آپ نے تہذیب نفس کے سلسلے میں ترک گناہ کو سب سے اہم قدم قرار دیا اور فرمایا کہ ترک گناہ کے بعد نماز اس سلسلے میں سب سے اہم واجب ہے اور خاص طور پر وہ نماز جو اول وقت اور حضور قلب کے ساتھ ادا کی جائے۔

قائد انقلاب اسلامی نے ماہ رمضان المبارک کے روزے، قرآن، دعا بالخصوص صحیفہ سجادیہ میں مذکور دعاؤں سے انسیت اور نافلہ نمازوں پر توجہ کو تہذیب نفس کے تعلق سے بہت اہم قرار دیا اور فرمایا کہ شخصی اور سماجی زندگی کے مختلف مراحل میں بعض افراد کی لغزشوں کی وجہ وہ گناہیں ہیں جو انسانوں سے سرزد ہوتی ہیں بنابریں نوجوانی کے ایام میں ترک گناہ کی مشق اور زندگی کے نشیب و فراز میں انحراف کا شکار نہ ہونے کی تمرین بہت اہم ہے۔

نشست کے اختتام پر قائد انقلاب اسلامی کی امامت میں نماز مغربین ادا کی گئی اور پھر طلباء نے قائل انقلاب اسلامی کے ساتھ روزہ افطار کیا۔

یہ ملاقات تین گھنٹے تک چلی، اس میں بارہ ہزار طلباء نے شرکت کی اور اہم علمی، ثقافتی، سماجی، سیاسی اور اقتصادی مسائل پر اپنے نظریات بیان کئے۔

طلبہ نے اپنی تقریروں میں اجرائی عہدہ داروں کی جانب سے اپنے معاونین کے انتخاب میں مکمل توجہ دئے جانے، انتخابات سے بہت پہلے ہی انتخابی رقابت شروع کر دینے سے اجتناب کئے جانے، طلبا یونینوں کے سیاسی حلقوں کے زیر اثر نہ رہنے، حال و مستقبل میں فتنے کی پیچیدگیوں کے مقابلے میں بصیرت سے کام لینے، طلبا کی عقیدتی بنیادوں کی تقویت، مختلف سطح کے حکام میں جہادی اور رضاکارانہ جذبے کی تقویت، ایٹمی حقوق کے حصول کے سلسلے میں قائد انقلاب اسلامی کی تدابیر کی قدردانی، ملک کے عز و وقار کے محاذ کے سپاہیوں کی حیثیت سے ممتاز طلبا کی صلاحیتوں سے منصوبہ بند طریقے سے استفادہ کرنے، اسلامی انقلاب کے اہداف کی تکمیل کی بنیادی شرط کے طور پر انصاف کے مطالبے کی ترویج، ایران کو دنیا کے سائنسی مرکز میں تبدیل کرنے کے اسٹریٹیجک ہدف کے حصول کے لئے باریک بینی کے ساتھ منصوبہ بندی، علم و دانش پر مرکوز معیشت کی جانب قدم بڑھانے کی ضرورت، سیاسی سطح پر تخریبی روئے اور بد اخلاقی پر روک لگانے، علمی جمود سے بچنے کے لئے یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی قدردانی میں خالص علمی ضابطوں پر توجہ دینے، بیت المال لوٹنے والے کے خلاف سخت عدالتی کارروائی، جامع ثقافتی نقشے اور اسلامی ترقی کے ماڈل کے تعین کی ضرورت، قومی خود اعتمادی کی تقویت، پابندیوں کو خود انحصاری پر مبنی ترقی کے موقعے میں تبدیل کرنے کے لئے صحیح منصوبہ بندی، مختلف سائنسی شعبوں کے تحقیقاتی مراکز کے قیام، ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے درمیان وسائل کی منصفانہ تقسیم، اسلامی انقلاب کے مشکل کشا پیغامات کی ترویج پر زیادہ توجہ دینے، نجکاری کے صحیح ضوابط پر توجہ دینے، فقر، بد عنوانی اور تفریق و امتیاز سے مربوط اور منصوبہ بند مقابلہ، ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے کے پروگراموں میں اسلام کے صحیح سماجی و اقتصادی اصولوں پر توجہ دینے، نرم جنگ کے پیچیدہ مفہوم کے بارے میں طلبا کی واقفیت و آگاہی میں اضافے، ممتاز صلاحیت والے افراد کی ملک سے ہجرت کی مشکل کو قابو میں کرنے کے لئے ان کی خاطر کام کی مناسب فضا اور سہولیات کی فراہمی کے اقدامات، کوئے دانشگاہ یا یونیورسٹی لین پر حملے کے واقعے کی تحقیقات کے بارے میں قائد انقلاب اسلامی کی تاکید کی روشنی میں مکمل تحقیقات اور اسی طرح دیگر اہم تجاویز اور نظریات پیش کئے۔