انھوں نے رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے عید میلاد النبی کو ختم نبوت یعنی انسان کی سعادت کے آخری اور مکمل نسخے کی تمہید بتایا اور کہا کہ انبیائے الہی پوری تاریخ میں انسان کے سفر کے قافلہ سالار رہے ہیں جو راستہ بھی دکھاتے ہیں اور فطرت، سوچنے کی طاقت اور عقل کو بیدار کر کے تمام انسانوں کو راہ معین کرنے کی قوت بھی عطا کرتے ہیں۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے مکے میں رسول خدا کی 13 سالہ جدوجہد، سختیوں، دشواریوں، بھوک اور قربانیوں اور اس کے بعد ہجرت کو امت مسلمہ کی بنیاد رکھنے کی تمہید بتایا اور کہا کہ آج بہت سے اسلامی ممالک ہیں اور دنیا میں تقریباً 2 ارب مسلمان رہتے ہیں لیکن ان پر "امت" کا اطلاق نہیں ہو سکتا کیونکہ امت، اس مجموعے کو کہا جاتا ہے جو پوری ہماہنگي اور بھرپور جذبے کے ساتھ ایک ہدف کی طرف بڑھتا ہے لیکن ہم مسلمان آج بکھراؤ کا شکار ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے تفرقے اور بکھراؤ کا نتیجہ، اسلام کے دشمنوں کا تسلط اور بعض اسلامی ممالک کے اندر یہ احساس پیدا ہونا ہے کہ انہیں امریکا کی حمایت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مسلمان متفرق اور بکھرے ہوئے نہ ہوتے تو وہ ایک دوسرے کے سہارے اور ایک دوسرے کے وسائل استعمال کر کے ایک متحدہ اکائي بن سکتے تھے جو تمام بڑی طاقتوں سے زیادہ طاقتور ہوتی اور پھر انھیں امریکا کے سہارے کی ضرورت نہ ہوتی۔
رہبر انقلاب نے امت مسلمہ کی تشکیل کے لیے مؤثر عناصر کے بارے میں کہا کہ اسلامی حکومتیں اس سلسلے میں مؤثر ہو سکتی ہیں لیکن ان کا جذبہ مضبوط نہیں ہے اور یہ عالم اسلام کے خواص یعنی سیاستدانوں، علماء، دانشوروں، پروفیسروں، بارسوخ طبقوں، صاحبان فکر، شعراء، مصنفین اور سیاسی و سماجی تجزیہ نگاروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکام میں یہ جذبہ پیدا کریں۔
انھوں نے کہا کہ اتحاد اور امت مسلمہ کی تشکیل کے کچھ کٹّر دشمن ہیں اور امت مسلمہ کے اندر پائی جانے والی بعض کمزوریاں خاص طور پر دینی اور مذہبی اختلافات کو بھڑکانا، امت مسلمہ کی تشکیل کو روکنے کے لیے سب سے اہم دشمنانہ حربوں میں سے ایک ہے۔
آيت اللہ خامنہ ای نے اس سلسلے میں مزید کہا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے ہی شیعہ اور سنّی اتحاد پر جو اتنا زیادہ زور دیتے تھے، اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم اسلام کو اتحاد سے طاقت حاصل ہوتی ہے۔
انھوں نے ایران کی جانب سے عالم اسلام کو اتحاد کا پیغام دیے جانے کے سلسلے میں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کو ہمارا اتحاد کا پیغام صداقت آمیز لگے تو ہمیں عملی طور پر اپنے اندر اتحاد پیدا کرنا اور حقیقی اہداف کی طرف بڑھنا ہوگا اور رائے یا سوچ کا اختلاف قوم کے اتحاد و یکجہتی کو متاثر نہ کرے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے غزہ، غرب اردن، لبنان اور شام میں صیہونیوں کے کھلم کھلا جاری بے شرمانہ جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے جرائم کا نشانہ مجاہدین نہیں بلکہ عام لوگ ہیں اور جب وہ فلسطین میں مجاہدین کو کوئي چوٹ نہ پہنچا سکے تو انھوں نے اپنا جاہلانہ اور خباثت آمیز غصہ نومولود بچوں، کمسن بچوں اور اسپتالوں کے مریضوں پر اتارا۔
انھوں نے کہا کہ اس مصیبت بار صورتحال کی وجہ، اسلامی معاشرے کی جانب سے اپنی اندرونی طاقت کو استعمال کرنے میں ناتوانی ہے۔ انھوں نے ایک بار پھر تمام اسلامی ممالک کی جانب سے صیہونی حکومت کے ساتھ معاشی روابط پوری طرح سے منقطع کیے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک کو صیہونی حکومت سے اپنے سیاسی تعلقات بھی پوری طرح سے کمزور اور اس کے خلاف سیاسی اور میڈیا حملے تیز کرنے چاہیے اور کھل کر دکھا دینا چاہیے کہ وہ فلسطینی قوم کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اس ملاقات کے آغاز میں صدر مملکت جناب ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اخوت پیدا کرنے کے سلسلے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، صیہونی حکومت کی جارحیت اور جرائم کو رکوانے کا راستہ، مسلمانوں کی اخوت اور اتحاد کو قرار دیا اور کہا کہ اگر مسلمان متحد ہوتے تو صیہونی حکومت میں موجودہ جرائم کو انجام دینے اور عورتوں اور بچوں کے قتل عام کی ہمت نہ ہوتی۔