آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بدھ کے روز عید الاضحی کی مناسبت سے ملاقات کے لئے آنے والے ہزاروں لوگوں سے خطاب میں ایمان اور اقدار الہی کی پابندی کو ایرانی قوم کی کامیابی کا راز بتایا اور فرمایا کہ اس مبارک پابندی کے استحکام کے سائے میں ملت ایران تمام میدانوں میں کامیاب اور سب سے آگے رہے گی اور دشمن بدستور ناکام اور نا امید رہے گا۔
  قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ایران کی مومن اور فداکار قوم اور مسلمین عالم کو عید الاضحی کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے  عید قربان کی حکمت  کے ادراک کو انفرادی اور قومی  زندگی کے مختلف میدانوں میں راستہ کھلنے کا وسیلہ قرار دیا اور فرمایا کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی عظیم قربانی اور خدا کی جانب سے اس پیغمبرحق کی عظیم قدردانی اس حکمت آمیز حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ فداکاری اور ایثار کے بغیر  بلندی ، پیشرفت اور عروج کا راستہ طے کرناممکن نہیں ہے ۔
  آپ نے ترقی اور بلندی کے نئے مرحلے تک پہنچنے کو  خدا کی طرف سے مسلسل جاری رہنے والے امتحانات  کا فلسفہ قرار دیا اور فرمایا کہ جو فرد اور قوم بھی وادی امتحان اور سختیوں اور مشقتوں کے دور سے گزر جائے وہ خدا کے فضل سے اعلی مقصد سے ایک قدم نزدیکتر ہوجاتی ہے ۔
   تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی (مطابق دو ہزار نو) کے فتنے سے ملت ایران کے کامیابی سے نکل جانے کو قائد انقلاب اسلامی نے امتحانات الہی کے فلسفے کی بحث میں واضح طور پر اشارہ فرمایا ۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس سلسلے میں فرمایا کہ اس فتنے سے نکل جانے میں ملت ایران کی کامیابی صرف اس قوم کی قوت و توانائی کے آشکارا ہوجانے میں ہی خلاصہ نہیں ہوتی بلکہ گزشتہ سال کے امتحان اور آزمائش میں ایرانی عوام کی مقتدرانہ کامیابی کے اصل معنی یہ ہیں کہ ملت ایران ایمان پر بھروسے اور بصیرت، موقع شناسی ، وقت کی ضرورت کے ادراک کے ساتھ ضروری اقدامات انجام دیکر اپنی حیات کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوئی اوراس کو  آخری منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے نئی توانائی حاصل ہوئی۔
  قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں پچیس آبان تیرہ سو اکسٹھ ہجری شمسی (مطابق سولہ نومبر انیس سو بیاسی ) کے اصفہان کے عوام کے ایثار وفداکاری کے کارنامے کو امتحانات الہی میں کامیابی و سرفرافرازی کا ایک اور نمونہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس عظیم دن اصفہان کے عوام نے تین سو ستر شہیدوں کا جنازہ اٹھانے کے ساتھ ہی اپنے مزید  ہزاروں نوجوانوں کو  محاذوں پر روانہ کیا اور اس طرح ایثارو فداکاری اور سرافرازی  کا عظیم کارنامہ رقم کیا۔
 آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے انقلاب سے پہلے، انقلاب کے دوران، مسلط کردہ جنگ اور ملک کی پیشرفت و ترقی کے مختلف میدانوں میں اصفہان کے مہذب ، انقلابی اور مومن عوام کی موجودگی کو اس صوبے کے عوام کے ایمان   وایثار اور جذبہ جہاد کی تجلی قرار دیا اور فرمایا کہ ان قابل فخر کارناموں پر غوروفکر سے اصفہان کے عوام کی باطنی صلاحیتوں اور تشخص کا ادراک ہوتا ہے اور ان کے شرف، پیشرفت اور پیشقدم رہنے کا راستہ آشکارا ہوجاتا ہے۔
  قائد انقلاب اسلامی نے جہاد کو اس کے وسیع معنی میں قوم کے رشد، پرجوش اور پر امید رہنے کا باعث قرار دیا اور فرمایا کہ جہاد یعنی اپنے فریضے کو سمجھتے ہوئے (میدان عمل میں ) موجود گی ، مسلسل آگے بڑھتے رہنا اور پیشرفت وترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے خلاف مجاہدت کرنا، یہ موجودگی کبھی جان اور مال کی قربانی  کے ہمراہ ہوتی ہے اور کبھی مختلف سماجی اور سیاسی شعبوں  حتی فکری اور عقلی میدانوں میں موجودگی کی شکل میں متجلی ہوتی ہے۔
  آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دشمن کی مسلسل ناکامیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایران کی مجاہد اور فداکار قوم سے مقابلے کو ناممکن قرار دیا اور فرمایا کہ اسلام ، انقلاب اور ایران کے  دشمنوں کا محاذ فوجی دھمکیوں اور جنگ کے ذریعے اس قوم کا مقابلہ نہ کرسکا اور اس وقت بھی جو لوگ پابندیوں کے ذریعے اس قوم کو جھکانے کی فکر میں ہیں وہ ناکام تگ و دو کررہے ہیں۔
  قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دشمن کی امید ، قوم میں اختلاف ڈالنے ، عوام اور حکام کے درمیان خلیج پیدا کرنے ، بدگمانیاں وجود میں لانے، اور ایسے مسائل میں جن کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اختلافات وجود میں لانے کی کوششوں سے وابستہ ہے  لہذا سب کو دشمن کی ان کوششوں کی طرف ہوشیار رہنا چاہئے۔
 آپ نے ان لوگوں پر جو گوشہ و کنار میں منفی باتیں بناکے اور بدگمانی، مایوسی اور تفرقہ پیدا کرکے، اسلامی نظام پر بیرونی طاقتوں کی مرضی کے الزامات لگانا چاہتے ہیں، سخت تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ درحقیقت قوم کے دشمنوں کی نیابت میں کام کررہے ہیں اور صیہونیوں اور امریکیوں کی تشہیراتی ناکامیوں کی تلافی کرنا چاہتے ہیں لیکن قوم جانتی ہے کہ اس قسم کے اقدامات واضح خیانت ہیں۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اخلاقی برائیوں اور منشیات کی ترویج کو دشمنوں کے سیاسی اہداف کا وسیلہ قرار دیا اور حکام ، قوم بالخصوص نوجوانوں کو اس سلسلے میں ہوشیار رہنے کی ہدایت فرمائی ۔
  قائد انقلاب اسلامی نے اصفہان کو علم دین اور مختلف علوم کا مرکز قراردیا اور اس شہر کی معتبر یونیورسٹیوں اور دینی تعلیم کے مراکز کی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اصفہان کسی زمانے میں ملک اور پوری اسلامی دنیا میں نور علم پھیلانے کا مرکز رہا ہے اور اس خطے کے علماء دانشوروں  اور فنکاروں کو اس حیثیت کے حصول کو اپنی فعالیتوں اور کاوشوں کا محور قرار دینا چاہئے ۔
  اس ملاقات کے آغاز میں اصفہان کے امام جمعہ اور ولی فقیہ کے نمائندے آیت اللہ طباطبائی نژادنے مقدس دفاع کے دوران اور اس کے بعد اصفہان کے عوام کے پر افتخار کارناموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پچیس آبان تیرہ سو اکسٹھ ہجری شمسی ( مطابق سولہ نومبر انیس سو بیاسی ) جہاد اور فداکاری کے میدان میں اصفہان کے عوام کے پیشقدم ہونے کا تاریخی دن ہے اور اسی لئے اس دن کو تاریخ اصفہان میں اصفہان کے فداکاری کے فخریہ کارنامے کا دن قرار دیا گیا ہے۔
  آیت اللہ طباطبائی نژاد نے مزید کہا کہ اصفہان کے عوام اسلام اور انقلاب کے دفاع کے مختلف میدانوں، جیسے انتخابات، علمی پیشرفت اور تعمیری سرگرمیوں کے میدان میں پوری ہوشیاری کے ساتھ ہمیشہ موجود رہے ہیں۔