قائد انقلاب اسلامی نے مقدس دفاع میں علمی شخصیات کی بھرپور شرکت اور موجودگی کو راہ خدا میں قربانی دینے اور جام شہادت نوش کرنے کا جذبہ عام ہو جانے کا ثبوت قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے تعلیم و تربیت کے شعبے کے شہدا پر کانفرنس، شہید طلبہ پر کانفرنس اور شہید فنکاروں پر کانفرنس کی منتظمہ کمیٹیوں کے ارکان سے ملاقات میں شہدیوں کو ہمیشہ خراج عقیدت پیش کئے جانے اور ان کی گراں بہا یادوں کو فراموش ہونے سے بچانے پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ شہیدوں کی یاد میں نشستوں کا اہتمام در حقیقت جہاد اور شہادت کی روش کو زندہ رکھنے کی کوشش ہے اور ضروری ہے کہ معاشرے میں شہیدوں کی یاد اور ان کی زںدگي میں پائے جانے والے اہم نکات کی ترویج کی جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلام، قرآن کریم اور اسلامی تعلیمات کی بقاء و دوام میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت و جہاد کے کلیدی کردار کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر معاشرے میں شہدا کی یاد اور شہادت کا موضوع ایک زندہ حقیقت کے طور پر پیش کیا جاتا رہے گا تو پھر شکست کا کوئی تصور ہی باقی نہیں رہے گا اور ایسی قوم ہمیشہ بے خوفی کے ساتھ ترقی و پیشرفت کے راستے پر آگے بڑھتی رہے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملت ایران کا عظیم کارنامہ یہ رہا کہ اس نے سامراجی طاقتوں اور تسلط میں جکڑی قوموں کے درمیان دنیا کی تقسیم پر خط بطلان کھینچ دیا۔ آپ نے فرمایا کہ حالانکہ اس وقت تسلط پسند طاقتوں نے گوناگوں حربوں کے ذریعے مظلومین اور مستضعفین پر تسلط قائم کرنے کے امکانات پیدا کر لئے ہیں، لیکن اس صورت حال کے سامنے الہی اور اخلاقی بنیادوں پر استوار اسلامی انقلاب کے نام کی ایک حقیقت پورے قد سے کھڑی ہے اور تسلط پسنداںہ نظام کا شجاعت کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے چوٹیوں کی جانب اسلامی انقلاب کی دائمی پیش قدمی اور اس پیش قدمی کو روکنے میں دشمنوں کی بار بار ناکامی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ مقدس دفاع کے زمانے میں کچھ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ اگر طلبہ محاذ جنگ پر جائیں گے تو یونیورسٹیاں خالی ہو جائيں گي اور ملک کے علمی و سائنسی میدان میں خلاء پیدا ہو جائے گا، لیکن بعد میں ثابت ہوا کہ راہ خدا میں جہاد اور شہادت کی برکتیں بہت زیادہ ہیں، چنانچہ اسی جہاد کے نتیجے میں آج ہمارے ملک کے علمی و سائنسی شعبے کی پوزیشن قابل افتخار اور دوسرے تمام شعبوں سے زیادہ بہتر ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے شہیدوں کا نام اور شہادت کی ثقافت کو زندہ رکھنے کو ملک کی بنیادی ضرورت قرار دیا اور کہا کہ شہادت کی ثقافت کا مطلب ہے عوام اور تمام انسانیت کے بلند مدت اہداف و مقاصد کے لئے ایثار اور قربانی پیش کرنے کی ثقافت اور یہ ثقافت مغرب کی انفرادیت (Individualism) کے کلچر کے بالکل برخلاف ہے جو ہر چیز اور ہر اقدام کو اپنے ذاتی و شخصی مفادات کی کسوٹی پر تولنے کی دعوت دیتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ جس معاشرے میں بھی شہادت اور ایثار کا جذبہ عام ہو جائے، وہ معاشرہ ترقی کرے گا اور ایسے معاشرے میں ترقی کا سفر رک جانے یا پسماندگی کا کوئی امکان نہیں رہے گا۔

نوٹ: قائد انقلاب اسلامی کا یہ خطاب تعلیم و تربیت کے شعبے کے شہیدوں پر کانفرنس، شہید طلبہ پر کانفرنس اور شہید فنکاروں پر کانفرنس کا اہتمام کرنے والی منتظمہ کمیٹیوں کے ارکان سے مورخہ 27 بہمن 1393 ہجری شمسی مطابق 16 فروری 2015 کو ہونے والی ملاقات سے متعلق ہے جسے میلاد ٹاور کے کانفرنس ہال میں تعلیم و تربیت کے شعبے کے شہیدوں پر ہونے والی کانفرنس میں آج بتاریخ 7 اسفند 1393 26 فروری 2015 کو پڑھا گیا۔