اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے اقدار کی پابندی، انصاف پسندی، سادہ زیستی، رئیسانہ شان و شوکت سے پرہیز، سعی و کوشش، بلا وقفہ عوام کی خدمت اور سامراج کی مخالفت جیسی بنیادی پالیسیوں کی حفاظت پر تاکید کی اور فرمایا کہ عوام الناس کی زندگی کے لئے رفاہی وسائل کی فراہمی اور ترقیاتی منصوبے پر مزید توجہ کے سلسلے میں اقدام کیا جائے۔ قائد انقلاب اسلامی نے انقلاب کے شروعاتی برسوں کے صدر مملکت اور وزیر اعظم شہید رجائی اور شہید با ہنر کے یوم شہادت اور ہفتہ دولت کی مناسبت سے انجام پانے والی اس ملاقات میں ان دونوں شہیدوں کو مومنانہ مساعی و محنت اور اصولوں کی مکمل پابندی کا مظہر قرار دیا اور فرمایا کہ ان نورانی چہروں کی بقاء مخلص بندوں کے لئے اللہ تعالی کی جانب سے اظہار تشکر کی علامت ہے جو اپنے پورے وجود کے ساتھ اسلام کے لئے کام کرتے ہیں اور اپنے جملہ امور میں اسلامی اور انقلابی اقدار کو نمایاں رکھتے ہیں۔ آپ نے دو ہزار نو کے منصوبہ بند فتنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس فتنے سے ملک کی ترقی کے عمل اور کام کی روش پر بہت بڑی ضرب لگی اور دشمن کی امیدیں بڑھیں لیکن حکومت اور عوام نے اعتماد و ایمان و استقامت کے ساتھ کاموں کو آگے بڑھایا اللہ تعالی کے لطف و کرم سے بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں اس طرح یہ معاملہ بھی شہید رجائی اور شہید با ہنر کی پالیسیوں پر تواتر سے عمل کا مظہر بن گیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے انقلاب کے نعروں پر عمل آوری کو اپنے لئے باعث افتخار قرار دینے کی حکومت کی پالیسی کو اس کی کامیابیوں کا راز قرار دیا اور صدر مملکت اور کابینہ کے ارکان سے فرمایا کہ عوام انصاف پسندی، دین کی پابندی اور سامراج کی مخالفت کے نعروں پر عمل آوری کی بنا پر آپ کی پذیرائی کرتے ہیں لہذا آپ کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اس موقف کی پوری سنجیدگی کے ساتھ حفاظت کریں۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم

اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ایک اور ہفتہ حکومت کی مناسبت سے آپ دوستوں اور محترم عمائدین مملکت سے ملاقات کی توفیق عطا کی۔ آپ حضرات کی زحمتوں کی قدردانی کرتا ہوں اور آپ کے لئے بارگاہ رب العزت میں اجر و ثواب کی دعا کرتا ہوں۔ میں آپ حضرات کے سامنے کچھ باتیں اور انتباہات بیان کرنا چاہوں گا۔ البتہ یہ انتباہات محترم حکام کے سامنے خواہ وہ وزرائے محترم ہوں یا صدر محترم، بیان کئے جاتے رہتے ہیں تاہم بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں مجمعے میں بیان کرنا مناسبت ہوتا ہے کیونکہ ان میں اجتماعیت کا پہلو ہوتا ہے۔
سب سے پہلے تو ہم اپنے عزیز شہیدوں رجائی شہید، با ہنر شہید اور عراقی شہید کو یاد کریں گے۔ ان لوگوں نے در حقیقت انقلاب و انقلابی اقدار کی راہ میں اپنی پوری زندگی نچھاور کر دی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے بھی ان کے نام اور ان کے ذکر کو دوام عطا کر دیا۔ یہ ایک طرح سے اللہ تعالی کی جانب سے اپنے بندوں کے لئے اظہار تشکر ہے، ان اللہ شاکر علیم (1) ہمارا استحقاق نہیں ہے لیکن پھر بھی اللہ تعالی اظہار تشکر کرتا ہے۔ اللہ تعالی اپنے ان بندوں کا جنہوں نے پورے اخلاص کے ساتھ عمل کیا اور اپنا پورا سرمایہ (راہ خدا میں) صرف کر دیا، شکریہ ادا کرتا ہے۔ اظہار تشکر کا ایک نتیجہ یہی ہے کہ ان بندوں کا نیک نام برسہا برس تک زندہ رہتا ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ یہ نورانی چہرے ہمارے معاشرے میں ہمیشہ زندہ و پائندہ رہیں کیونکہ یہ اقدار کے مظہر ہیں۔ ان کے زندہ و پائندہ رہنے کا مطلب اقدار کا دوام اور تسلسل ہے، انشاء اللہ یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہے گا۔
بحمد اللہ اس سال (ہفتہ حکومت کے موقع پر) ماہ رمضان المبارک بھی ہے، یقینا اس مبارک مہینے کی برکتیں ملک اور حکومت کے شامل حال ہوں گی۔ میں خاص طور پر ان با عظمت شبہائے قدر میں دعا کرتا ہوں، گزشتہ شب جو انیسویں رمضان کی شب تھی واقعی میں نے خاص طور پر آپ عہدیداروں، صدر مملکت، وزراء اور دیگر حکام کے لئے دعا کی۔ حالانکہ ہماری دعا کسی قابل تو نہیں ہوتی لیکن بہرحال اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرنا چاہئے اور ہم نے کی۔ آپ حضرات بھی دعا کیجئے اور اللہ تعالی سے توفیقات کی التجاء کیجئے۔
ایک بات تو یہ عرض کرنا ہے کہ دسویں حکومت کا یہ سال جو گزرا بڑا سخت اور دشوار سال تھا اور انصاف سے دیکھا جائے تو اس مدت میں حکام اور مجریہ کے عہدہ داران کی جانب سے جو مساعی انجام پائیں واقعی بہت با ارزش تھیں، اجر و ثواب کے قابل مساعی تھیں۔ یہ سال سیاسی اور سیکورٹی سے متعلق صورت حال کے لحاظ سے بھی بہت دشوار سال تھا اور معیشت و ثقافت جیسے ملک کے بعض شعبوں پر اغیار کے اثر انداز ہونے کے لحاظ سے بھی بہت سخت سال تھا۔ جن لوگوں نے سن تیرہ سو اٹھاسی (جون دو ہزار نو) کا فتنہ شروع کیا، اب خواہ اس کی منصوبہ بندی خود انہوں نے کی ہو یا دوسروں نے انجام دی ہو، میں مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہتا لیکن بہرحال اس فتنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی، اس سے امور مملکت کو شدید جھٹکا لگا۔ اگر یہ فتنہ رونما نہ ہوتا تو بلا شبہ ملک کے مختلف امور زیادہ بہتر طریقے سے انجام پاتے۔ ان لوگوں نے دشمنوں کی امیدیں بڑھا دیں، انہوں نے اسلامی نظام کے خلاف محاذ آرائی کرنے والوں کو حوصلہ عطا کر دیا۔
البتہ آپ حضرات نے ایمان و اعتقاد کے ساتھ اور استقامت و پائیداری کے ذریعے امور کو آگے بڑھایا، ملک اور نظام کو در پیش مسائل و مشکلات کو رفع کیا۔ ہم نے مشاہدہ کیا کہ آپ مختلف مراحل میں، سخت مواقع پر اور پر پیچ و خم راستوں سے بڑے مناسب انداز میں گزرے۔ میرے خیال میں یہ بات بہت اہم ہے جس سے آپ پر اللہ تعالی کے خاص لطف و کرم کا اشارہ ملتا ہے۔ بعض وہ کام جن کا ذکر صدر محترم نے اپنی مفصل رپورٹ میں کیا، ایسے کام ہیں کہ جو اسی سن تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی ( دو ہزار نو- دو ہزار دس) میں انجام پائے ہیں اور تمام تر مشکلات کے باوجود الحمد للہ بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔
یہ بھی در حقیقت دونوں شہیدوں یعنی شہید با ہنر اور شہید رجائی کی انہیں خصوصیات و صفات کا ایک نمونہ ہے جن کی جانب ہم نے اشارہ کیا۔ واقعی رجائی شہید اور با ہنر شہید ایسے ہی تھے۔ مومنانہ سعی و کوشش اور اصولوں کی سخت پابندی کے مظہر۔ انہیں جو بھی ذمہ داری دی جاتی تھی وہ امور مملکت میں اقدار اور اصولوں کی سخت پابندی کرتے نظر آتے تھے۔ گزشتہ برسوں میں بھی یہ سلسلہ رہا کہ ہفتہ حکومت منایا جاتا تھا اور ان دونوں گراں قدر شخصیات کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا تھا لیکن وہ افراد جو ان دونوں عزیز شہیدوں کی تعریف کرتے ہیں ان میں سب لوگ واقعی ان کے اہداف اور ان کے طرز عمل کے پابند نہیں ہیں۔ یہ تو آپ کا طرہ امتیاز ہے کہ الحمد للہ انقلاب کے بنیادی اصولوں کے پابند ہیں اور انقلابی نعروں پر ایقان اور ان پر عملدرآمد کو باعث افتخار تصور کرتے ہیں، یہ بہت بڑی توفیق ہے۔ اس حکومت کی ایک اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ اس نے انقلاب کے نعروں کو اپنا نعرہ بنایا ہے اور اس پر اسے احساس فخر بھی ہے۔ عوام نے بھی اسی وجہ سے آپ کی زبردست پذیرائی کی جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ عوام ان نعروں سے قلبی طور پر وابستہ ہیں، جذباتی طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ انصاف پسندی کا نعرہ عوام کے لئے جاذب و پرکشش ہے، رئیسانہ ٹھاٹ باٹ سے اجتناب کا نعرہ عوام کا پسندیدہ نعرہ ہے، عوامی خدمت کا نعرہ مقبول عام نعرہ ہے، سامراج کی مخالفت کا نعرہ سب کے دل کو چھو جانے والا نعرہ ہے، سادہ زیستی کا نعرہ ہر کسی کو پسند آتا ہے، سعی پیہم کا نعرہ سب کو خوش کرتا ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں عوام پسند کرتے ہیں اور ان کے خواہشمند ہیں۔ ایک بیدار معاشرہ اور بیدار ملک اپنے حکام سے انہیں چیزوں کا متمنی ہوتا ہے۔ انصاف کا مطالبہ، مساوات کا مطالبہ، عوامی خدمت کا مطالبہ، عوام سے دوستانہ روابط کا مطالبہ، دین کا مطالبہ، دینی اقدار کی پابندی کا مطالبہ، شریعت پر عمل آوری کا مطالبہ یہ سب عوام کے دل کی آواز ہے، اسے سب پسند کرتے ہیں۔ آپ لوگوں نے بحمد اللہ انہی نعروں کو اپنایا ہے اور عوام نے بھی اس کا خوب خیر مقدم کیا، آپ اس کی قدر کیجئے۔
میں چند موضوعات کے بارے میں کچھ سفارشات پیش کرنا چاہوں گا۔ حکومت کے کلی موقف اور منصوبوں کے سلسلے میں میری سفارش یہ ہے کہ آپ پوری شدت اور سنجیدگی کے ساتھ ان کی حفاظت کیجئے۔ اس موقف سے پیچھے نہ ہٹیئے۔ دینی موقف، اخلاقی موقف، انصاف پسندی کا موقف، عوامی خدمت کا موقف،عالمی سامراجی و استبدادی طاقتوں کی مخالفت کا موقف (ان میں ہرگز پیچھے نہ ہٹیئے)۔ عوام کے روز افزوں سیاسی شعور اور بالغ نظری کے نتیجے میں ان چیزو کے مطالبات بڑھ گئے ہیں۔ اس وقت سامراج کی مخالفت کا مسئلہ عوام کی نگاہ میں ماضی کے مقابلے میں اور انقلاب کے ابتدائي برسوں کی نسبت زیادہ واضح اور عیاں ہو گيا ہے۔ اب عوام اپنی آنکھوں سے خود بہت سی چیزوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں، انہوں نے خود تجربہ کیا ہے جس کے نتیجے میں بہت سی باتیں ان کے سامنے آ چکی ہیں۔ عوامی خدمت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، ملک کو آگے لے جانے کے لئے جہاد پیہم کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے۔ یہ آپ کا بنیادی موقف ہونا چاہئے اور ان چیزوں کو آپ ہرگز ہاتھ سے جانے نہ دیجئے۔
حکومت کی بنیادی پالیسیوں میں جن چیزوں پر خاص توجہ دی جانی چاہئے ان میں ایک ہے عوام کے لئے آسائش و آرام کی فراہمی۔ عوام کی زندگی کو آسان بنایا جانا چاہئے۔ یہ ایک اہم موضوع ہے، اگر اس کا تجزیہ کیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ بہت سے معاشی مطالبات، حکومت کی کارکردگی کا ایک بڑا حصہ، گاؤں کو فعال بنانے کا معاملہ، ہجرت کی روک تھام، یہ ساری چیزیں اسی موضوع یعنی عوام کو آسائش اور آسودگی فراہم کئے جانے سے وابستہ ہیں، لوگ پرسکون اور آسودہ خاطر زندگی بسر کریں۔
ایک اور مسئلہ جو ہماری نظر میں حکومت کی بنیادی پالیسیوں کا جز قرار پانا چاہئے بیس سالہ ترقیاتی دستاویز ہے۔ یہ دستاویز در حقیقت ملک میں انجام پانے والا ایک اساسی کام تھا، جس کا ہر زاوئے سے مطالعہ کیا گيا، جائزہ لیا گيا اور تمام پہلوؤں کو زیر بحث لایا گیا۔ جو اہداف اس دستاویز میں طے کئے گئے ہیں وہ محض نعرے نہیں ہیں، زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر یہ دستاویز تیار کیا گيا ہے۔ یہ دستاویز در حقیقت ہمارے لئے بیس برسوں کا لائحہ عمل ہے۔ ان بیس برسوں میں سے پانچ سال تو گزر گئے ہیں۔ یہ بیس سال بھی دیکھتے ہی دیکھتے گزر جانے والے ہیں۔ ہمیں اس بات پر نظر رکھنی ہے کہ ہم نے کتنی پیشرفت کی۔ ایک اہم کام جو انجام پانا چاہئے، یہی ہے کہ ہم اس کا تجزیہ کریں کہ اس دستاویز میں معین شدہ اہداف کی جانب ہم نے کتنی پیش قدمی کی ہے۔ اگر ہم نے توجہ نہ کی، ہوشیار نہ رہے تو ہم اچانک محسوس کریں گے کہ معینہ وقت میں سے دس سال، بارہ سال گزر چکے ہیں اور ہم نے اس مدت میں جو راستہ طے کرنا تھا وہ طے نہیں کیا اور باقی ماندہ وقت کے اندر باقی راستہ طے کر پانا ناممکن ہے۔ اہداف تک رسائی کے لئے باقی بچے راستے اور انجام دی جانے والی کوششوں اور کاموں کو مد نظر رکھ کر وقت کی صحیح تقسیم انجام دی جانی چاہئے، تاکہ جیسے جیسے وقت گزرے اس گزرے ہوئے وقت اور دستیاب وسائل کے تناسب سے ہم پیشرفت بھی کرتے جائیں۔ میرے خیال میں اس کا با قاعدہ جائزہ لیا جانا چاہئے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے، آپ اس کا جائزہ لیجئے۔
اگر آپ نے محسوس کیا کہ ہم مثال کے طور پر پانچ برسوں کے دوران اہداف کے جتنا قریب پہنچنا چاہئے تھا، پہنچ نہیں پائے ہیں تو ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہئے کہ ہمارا پانچ سالہ منصوبہ کافی نہیں تھا جس کی وجہ سے ہم پانچ سال میں حاصل ہونے والی پیشرفت حاصل نہیں کر سکے۔ میرے خیال میں آپ بعض افراد کو مامور کریں جو حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے فکر و تدبر کے ساتھ اس بات کا جائزہ لیں کہ ہم نے مطلوبہ پیشرفت کی یا نہیں۔ البتہ ممکن ہے کہ ان امور کا بہت باریکی سے حساب کتاب نہ ہو سکے تاہم اجمالی طور پر اس کا ادراک تو کیا ہی جا سکتا ہے کہ ہم نے پیشرفت کی یا نہیں۔
ایک اور اہم مسئلہ جو بنیادی پالیسیوں کا جز ہے، یہی ترقی و انصاف کے عشرے کا مسئلہ ہے۔ ہم نے اعلان کیا ہے کہ (اسلامی انقلاب) کا یہ عشرہ ترقی و انصاف کا عشرہ ہے۔ اسے قبول کر لیا گيا اور ملک کے مختلف محکموں نے کہا کہ بالکل ہم اسے ترقی و انصاف کا عشرہ قرار دیں گے۔ اس دہائی کے بھی تقریبا دو سال گزر چکے ہیں۔ گوناگوں امور میں ترقی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں، یہ جو رپورٹیں پیش کی گئیں، بہت اچھی رپورٹیں تھیں۔ مختلف شعبوں میں پیشرفت کی عکاس تھیں لیکن اب سوال یہ ہے کہ انصاف و مساوات کا ہدف کیسے حاصل کیا جائے؟ ایک معیار اور ایک پیمانہ ضروری ہے جس سے ہم یہ اندازہ کر سکیں کہ سیاسی، ثقافتی، معاشی، تعلیمی اور دیگر شعبوں میں انصاف و مساوات کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ نہیں؟ مثال کے طور پر تعلیمی شعبے میں اعلی تعلیمی میدان میں انصاف کا پیمانہ کیا ہے؟ کیسے مساوات پر عمل کیا جائے؟ اس کا تعین ہونا چاہئے تاکہ اسے منصوبوں میں جگہ دی جائے اور مقام عمل اور اجرائی مرحلے میں اس پیمانے کو ملحوظ رکھا جائے۔ یہ چیز جب تک ہمیں معلوم نہ ہوگی، جب تک بیان نہ کی جائے گی، اس پر عمل نہیں ہو سکتا۔ بنابریں مختلف شعبوں میں انصاف و مساوات کے معیار اور پیمانے کا تعین اپنے آپ میں ایک بہت اہم چیز ہے۔ اسی طرح بجٹ صرف کرنے کے سلسلے میں، مثال کے طور پر ثقافتی شعبے کے بجٹ کو خرچ کرنے میں انصاف اور مساوات کا پیمانہ کیا ہے؟ انسان کس طرح اطمینان حاصل کر سکتا ہے کہ بجٹ صرف کرنے میں انصاف کی پابندی کی گئی ہے؟ ان چیزوں کے لئے معیار اور پیمانہ ضروری ہے۔
ایک اور اہم چیز جو بنیادی پالیسیوں میں خاص اہمیت کی حامل ہے، پانچ سالہ منصوبہ ہے۔ اس وقت پانچواں پنج سالہ منصوبہ پارلیمنٹ میں زیر بحث ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے درمیان اس تعلق سے حقیقی تعاون دیکھنے کو ملے گا۔ اگر مثال کے طور پر حکومت نے ایک پروگرام مرتب کیا اور وہ اپنے اس پروگرام پر مصر ہے۔ دوسری جانب پارلیمنٹ اس میں بنیادی تبدیلیاں کر دے تو سارا معاملہ درہم برہم ہو جائےگا۔ یا پھر پانچویں پنج سالہ منصوبے میں کچھ ایسی تبدیلیاں انجام دی جائیں جن میں ملکی اور قومی سطح کے مفادات کو مد نظر رکھنے کے بجائے کسی ایک شعبے اور علاقے کو مد نظر رکھا گيا ہو تو ایسی صورت میں بھی منصوبہ درہم برہم ہو جائے گا۔ اگر انسان کا نقطہ نگاہ علاقائی اور کسی ایک محکمے تک محدود ہے تو اسے بعض چیزیں بہت اہم اور بڑی نظر آئیں گی۔ یہ ایک سچائي ہے، واقعی احتیاج ہے۔ لیکن جب انسان ہمہ گیر نگاہ کا حامل ہوتا ہے تو وہی احتیاج اور وہی ضرورت جو اپنی جگہ پر ایک بڑی ضرورت محسوس ہو رہی تھی چھوٹی اور کم اہمیت کی حامل نظر آنے لگتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بقیہ اہم کاموں اور دستیاب وسائل کے مد نظر اس ضرورت اور احتیاج کو فوقیت نہیں دی جا سکتی۔ منصوبے کے سلسلے میں یہی نقطہ نگاہ ہونا چاہئے۔ محکمہ جاتی، علاقائی اور وقتی نقطہ نگاہ کا منصوبے پر غلبہ نہیں ہونا چاہئے۔ یہ تو رہی دوسرے فریق (پارلیمنٹ) کی بات۔ اس طرف (حکومت کے لئے) بھی یہ ضروری ہے کہ اس نے جو منصوبہ تیار کرکے دیا ہے اسے قابل تنقید سمجھے۔ ایک ایسا ماحول تیار ہو جس میں حکومت اور پارلیمنٹ دونوں اپنی اپنی جگہ پر نرمی اور لچک دکھائیں تاکہ باہمی مفاہمت کے نتیجے میں ایک اچھا اور منظم منصوبہ منظور ہوکر سامنے آئے جس پر حکومت اور پارلیمنٹ دونوں متفق ہوں اور اس پر عملدرآمد کیا جا سکے۔
معاشی شعبے میں بھی بڑے اچھے اقدامات کئے گئے ہیں جن کی جانب صدر محترم نے اپنی رپورٹ میں اشارہ کیا۔ بہت مناسب ہوگا کہ اس رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے، یعنی انجام شدہ کاموں کے بارے میں حکومت کی اس رپورٹ سے سب مطلع ہوں۔ میں جس چیز پر تاکید کرنا چاہوں گا وہ معاشی تبدیلی کا منصوبہ ہے جو نویں حکومت کے زمانے میں پیش کیا گيا۔ اس وقت سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم کا پروگرام، جو اسی اقتصادی تبدیلی کے منصوبے کا جز ہے، زیر بحث ہے اور اجرائی مرحلے کے قریب پہنچ گیا ہے۔ اس سلسلے میں سب متفق ہیں البتہ اس پر عملدرآمد کے طریقوں کے بارے میں ممکن ہے کہ الگ الگ خیالات ہوں۔ اس وقت اقتصادی تبدیلی کے منصوبے کے دوسرے پروگرام جن کا تعلق مالیاتی سسٹم، تجارتی سسٹم اور کسٹم وغیرہ سے ہے ان سے بھی غافل نہیں رہنا چاہئے، ان کے سلسلے میں بھی کام ہونا چاہئے۔ اقتصادی تبدیلی کا منصوبہ بڑا اہم اور وسیع منصوبہ تھا۔ میں جن چیزوں کے سلسلے میں خاص تاکید کرتا ہوں کہ انہیں ادھورا نہ چھوڑا جائے ان میں ایک اقتصادی تبدیلی کا منصوبہ بھی ہے۔ اسے آپ واقعی سنجیدگی سے پورا کیجئے۔
اقتصادیات کے سلسلے میں ایک اور اہم چیز جس پر ہم خاص تاکید کریں گے، بڑے اقتصادی معیارات ہیں۔ صدر محترم کی رپورٹ میں اس ضمن میں بعض نکات بیان کئے گئے لیکن میں خود بھی اس پر تاکید کرنا چاہوں گا۔ قیمتوں کے مسئلے پر واقعی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ترقیاتی منصوبے میں جو قیمتیں معین کی گئی ہیں ان کا عملی طور پر نظر آنے والی قیمتوں سے فاصلہ بہت زیادہ ہے۔ البتہ عالمی کساد بازاری اور اقتصادی مشکلات بھی ہمارے پیش نظر ہیں، ان چیزوں کا یقینی طور پر اثر تو پڑتا ہی ہے تاہم یہ کوشش کی جانی چاہئے کہ معیار کے طور پر جس کا تعین کیا گيا ہے خود کو اس کے زیادہ سے زیادہ قریب پہنچائیں۔ داخلی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے۔ جو اعداد و شمار پیش کئے جا رہے ہیں وہ بہت حوصلہ افزا اور امیدیں بڑھانے والے ہیں۔ سرمایہ کاری کا مسئلہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ مستقبل کا دار و مدار مختلف شعبوں میں کی جانے والی سرمایہ کاری پر ہے۔ خواہ وہ انرجی کا شعبہ ہے یا دیگر شعبے ہوں، ہر شعبے میں سرمایہ کاری لازمی ہے۔ روزگار کا معاملہ بھی اسی طرح بہت اہم ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے روزگار کے مواقع ایجاد کرنے کے سلسلے میں جو منصوبے تیار کئے جاتے رہے ہیں ان کے نتائج ویسے برآمد نہیں ہوئے جیسی توقعات تھیں۔ بے شک بہت سے کام انجام پائے ہیں، یہ ٹھیک ہے، برا نہیں ہے لیکن ہم اب بھی روزگار کے مسئلے میں مستغنی نہیں ہو سکے ہیں۔ منصوبوں کو زیادہ سے زیادہ ثمربخش بنانے کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے۔ معاشی شعبے میں جن چیزوں پر ہماری خاص تاکید ہے ان میں ایک آئین کی دفعہ چوالیس (نجکاری سے متعلق دفعہ) کی پالیسیوں کا مسئلہ ہے۔ ان پالیسیوں پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ نجکاری کے لحاظ سے گزشتہ کئي برسوں کا حالیہ کچھ برسوں سے موازنہ کیا جاتا ہے اور اعداد و شمار پیش کئے جاتے ہیں جو بالکل درست اعداد و شمار ہیں لیکن ان گزشتہ برسوں میں دفعہ چوالیس کی پالیسیوں کا ابلاغ عمل میں نہیں آيا تھا۔ یعنی جس زمانے میں دفعہ چوالیس کی پالیسیوں پر کوئی بحث شروع ہی نہیں ہوئي تھی ان برسوں کا موازنہ نہیں کرنا چاہئے۔ ہاں جب یہ ان پالیسیوں کا ابلاغ عمل میں آ گيا تو معاشی صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی اور ملکی معیشت میں ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ بنابریں اس دور سے پہلے کے برسوں کا موازنہ صحیح نتیجے پر پہچانے والا موازنہ نہیں ہے۔ ہمیں تو بعد کے برسوں کا جائزہ لینا چاہئے کہ دفعہ چوالیس کے بارے میں کیا کچھ انجام دیا گيا۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ دیکھئے! دفعہ چوالیس کا نچوڑ یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے عوام کے سرمائے اور پھر ان کی انتظامی صلاحیتوں کو معیشت میں شامل کریں۔ نجی شعبے کا عوامی سرمایہ اور انتظامی صلاحیت ملکی معیشت کا جز بنے۔ ورنہ اگر انتظام اور مینیجمنٹ حکومت کا ہی رہے گا تو مقصود حاصل نہیں ہوگا۔ البتہ یہ عمل اسی دائرے میں جس کی اجازت ان پالیسیوں میں دی گئی ہے اور ان باتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے قانون میں جن کا ذکر کیا گيا ہے انجام دیا جانا چاہئے۔ چونکہ یہ قانون بہت باریک بینی کے ساتھ تیار کیا گيا ہے اور بڑا اچھا قانون ہے۔ اس چیز کا خیال رکھا جانا چاہئے۔
ویسے یہ بھی درست ہے کہ بعض جگہیں ایسی ہیں کہ نجی شعبہ وہاں سرمایہ کاری کرنے سے قاصر ہے، یعنی اس میں سرمایہ کاری کرنے کی توانائی نہیں ہے۔ اب اس کا کیا کیا جائے؟ اگر نجی شعبہ اسی طرح قاصر رہا تو پھر کوئي مشکل حل ہونے والی نہیں ہے۔ اس کے لئے ایسی پالیسیاں تیار کی جائیں کہ آپ نجی شعبے میں اتنی توانائی پیدا کر دیں کہ وہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرے۔ یہ بھی انہی پالیسیوں کا جز ہو۔ حکومت اگر معاشی سرگرمیوں سے خود کو سبکدوش کر رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ معیشت سے اس نے بالکل کنارہ کشی کر لی ہے۔ ایسا نہیں ہے، پالیسی سازی کا عمل اب بھی حکومت کے ہی اختیار میں ہے۔ پالیسی سازی کا کام حکومت کو ہی انجام دینا چاہئے۔ نگرانی کا کام حکومت کو ہی انجام دینا چاہئے۔ انیس سو اسی کے عشرے میں جب بعض حضرات ملکی معیشت کو زیادہ سے زیادہ سرکاری کنٹرول میں کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے، میں یہ مثال دیتا تھا کہ فرض کیجئے کہ ایک گاڑی ہے جو اس بھاری بوجھ کو دوسری جگہ منتقل کر سکتی ہے اور آپ بھی اس گاڑی کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں یا آپ گاڑی کو ڈرائیو کر رہے ہیں۔ اچانک آپ نے گاڑی روک دی اور اس پر لادا گیا سامان اپنی پیٹھ پر لاد لیا ہے اور اب رینگتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ خود کو تھکا ماریں گے اور منزل تک پہنچ بھی نہیں پائيں گے، دوسری بات یہ کہ سارا سامان بھی نہیں جا سکے گا اور تیسری اہم چیز یہ ہے کہ گاڑی وہیں بیکار کھڑی رہے گی۔ نجی سیکٹر در حقیقت یہی گاڑی ہے۔ یہ باتیں میں اس وقت کہتا رہا لیکن کوئی اثر نہیں ہوا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) بھی کہتے رہے کہ عوام کے حوالے کیجئے! یہ افراد کہتے تھے کہ عوام سے مراد نجی سیکٹر نہیں ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی بات کی تفسیر بالرائے کرتے تھے کہ عوام سے مراد پوری قوم ہے۔ اب اگر ہم قوم کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو حکومت کو چاہئے کہ معیشت کو اپنے ہاتھ میں لے اور عوام کی مدد کرے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی بات کی اس طرح تعبیر کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ تفسیر غلط تھی۔
اب حالات بدل چکے ہیں۔ وہی لوگ جو اس زمانے میں کچھ اور باتیں کرتے تھے آج اپنے موقف میں ایک سو اسی درجہ کی تبدیلی کر چکے ہیں یعنی اب بھی وہ اعتدال کی حد پر نہیں رکے ہیں۔ پہلے افراط سے کام لیا اور اب تفریط سے کام لے رہے ہیں۔ ایک معتدل سطح بھی تو ہوتی ہے۔ معتدل سطح یہ ہے کہ عوام کے سرمائے اور عوام کی انتظامی سرگرمیوں کے لئے راستہ ہموار کیا جائے اور حکومت نگرانی اور رہنمائی کا کام کرے۔ اگر بلطف خدا یہ کام بحسن و خوبی انجام پا جائے، ظاہر ہے کہ کوتاہ مدت میں یہ کام انجام نہیں پائے گا، یہ دراز مدتی منصوبوں میں ہے اور اس کے لئے بہت محنت کی ضرورت ہے۔ بہر حال اگر اس میں کامیابی مل جائے تو واقعی ملکی معیشت کے لئے بڑے سازگار حالات پیدا ہو جائیں گے۔
اب اس سلسلے میں اسمگلنگ کی روک تھام، اقتصادی گھوٹالوں کا مقابلہ بھی وقت طلب بحثیں ہیں اور ان کا کسی نہ کسی طرح اقتصادی مسائل سے گہرا رابطہ ہے تاہم اس بارے میں ہم بہت کچھ کہہ چکے ہیں لہذا اب ان باتوں کا یہاں اعادہ نہیں کرنا چاہتے۔
ایک اور اہم موضوع جس کے بارے میں ہمیں کچھ سفارشات کرنی ہیں ملک کے انتظامی سسٹم کا موضوع ہے۔ اس سلسلے میں بالکل سامنے کی چیز یہی کابینہ ہے۔ کابینہ کی حیثیت بہت اہم ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ کابینہ کے دوش پر بہت بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ کابینہ کی سطح پر کئے جانے والے فیصلے سے سب کے اوپر ایک ذمہ داری عائد ہوتی ہے، عوام اور حکام سب کے لئے ذمہ داری کا تعین ہوتا ہے۔ ایک قانونی ذمہ داری طے پاتی ہے۔ لہذا کابینہ میں منظور شدہ باتوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اجرائی شعبے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو کابینہ ہی سب کچھ ہے۔
یہاں بعض بہت اہم مسائل پیش آتے ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ کابینہ کو چاہئے کہ اداروں کی باہمی پیشرفت کے لئے زمین ہموار کریں۔ عام طور پر مختلف اداروں اور محکموں کے درمیان ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے، ایسا صرف ہمارے یہاں ہی نہیں ہوتا بلکہ سبھی جگہ یہ چیز دیکھنے میں آتی ہے، یہ ایک فطری امر ہے۔ اس صورت حال میں کابینہ کا کردار یہ ہونا چاہئے کہ اس ٹکراؤ کو کمترین درجے تک نیچے لائے اور اگر ممکن ہو تو اسے بالکل ختم کر دے۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ میں ہمیشہ اس سلسلے میں ایک مثال دیتا ہوں کہ ایک چوراہا نہیں بلکہ ایسی جگہ ہے جہاں سے بہت سے راستے نکلتے ہیں، صدر جمہوریہ یہاں پر ٹریفک پولیس کا رول ادا کرتا ہے اور وزراء کی رہنمائی کرتا ہے۔ ایک کو روکتا ہے، دوسرے کو راستہ دیتا ہے۔ یعنی اس انداز سے عمل کرتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مددگار بنیں، ان میں آّپس میں ٹکراؤ نہ پیدا ہو۔ کابینہ کو بھی اسی طرح کا کردار ادا کرنا چاہئے۔
یہ ٹکراؤ اور اختلاف جو اجرائی امور میں پیش آتا ہے بسا اوقات میڈیا میں بھی منعکس ہونے لگتا ہے تو پھر اس میں رنگ روغن بھی شامل ہو جاتا ہے اور اس کی برائی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی ادارے نے کسی چیز کے بارے میں یا کسی مسئلے میں کوئی بات کہی، کوئی اظہار خیال کیا، کوئی اعلان کیا۔ دوسری طرف سے کوئي دوسرا ادارہ آکر اس کے برعکس اعلان کرتا ہے! نتیجتا عوام پریشان ہوتے ہیں۔ وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ ادارہ صحیح بات کہہ رہا ہے یا دوسرے ادارے کی بات درست ہے۔ اس طرح یہ مسئلہ عوام کی زندگی کو بھی متاثر کرتا ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ عوامی زندگي سے اس کا کوئي لینا دینا نہیں ہے۔ مسائل عوامی زندگی سے مربوط ہوتے ہیں۔ کوئی ادارہ اعداد و شمار جاری کرتا ہے، دوسرا ادارہ آکر کچھ الگ ہی اعداد و شمار بتاتا ہے۔ یہ بالکل نہیں ہونا چاہئے۔ تمام حکومتیں اس طرح کے مسائل سے دوچار ہوتی رہی ہیں۔ کابینہ کے ارکان کو اہم کردار ادا کرنے کا موقع دینا، ایک ساتھ جمع ہونے والے ان افراد کی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا جو اپنا وقت صرف کر رہے ہیں، محنت کر رہے ہیں ضروری ہے۔ تو آپ یہ کوشش کیجئے کہ ٹکراؤ کو بالکل کم کر دیں۔
ایک اور مسئلہ جو کابینہ کے تعلق سے بہت اہمیت کا حامل ہے، وزراء کا اجتماعی کردار ہے۔ آپ کے دوش پر مشترکہ ذمہ داریاں ہیں۔ آپ جب ایک ساتھ بیٹھتے ہیں تو آپ کی مشترکہ ذمہ داریاں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک وزیر کہے کہ صاحب! میں کوئی مداخلت نہیں کروں گا، میری کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ جب آپ فیصلے کا عمل انجام دینے والی اس ٹیم کے رکن بن گئے ہیں تو اس میں جو بھی خواتین و حضرات موجود ہیں سب ذمہ دار ہیں۔ سارے اہل نظر افراد ذمہ دار ہیں۔ جب آپ ایک ذمہ دار شخص ہیں تو فیصلے اور قرارداد کی تصحیح اور تکمیل میں مدد کریں۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ کابینہ کا اجلاس ہو رہا ہے اور ایک وزیر مثال کے طور پر اپنے کاموں میں مصروف ہے یا نشست کے موضوع گفتگو کے سلسلے میں کسی بھی تیاری کے بغیر آ جائے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ جس مسئلے پر کابینہ کے اجلاس میں بحث ہو رہی ہے اس کے بارے میں آپ کی کوئی مستقل رائے ہونا چاہئے۔ فیصلے کے عمل میں آپ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ چونکہ قانونی اور آئینی لحاظ سے آپ کا موثر کردار ہے اس لئے موضوع بحث کے بارے میں آپ کو غور و فکر بھی کرنا چاہئے، کابینہ کے اجلاس میں جو چیز منظور کی جانی ہے اس کے بارے میں آپ اپنی وزارت کی ماہر ٹیم کی مدد لیجئے! وزیروں کے اپنے اختیارات ہیں لہذا ان پر اعتماد کیا جانا چاہئے۔ مجریہ میں جو افراد سر فہرست ہیں یعنی وزرا ان کی صلاحیتوں پر بھروسہ کیا جانا چاہئے، وزراء کے دائرہ کار کا خیال رکھنا چاہئے۔
حکومتی انتظامی امور کے سلسلے میں ایک اور اہم نکتہ موازی کاموں سے متعلق ہے۔ حکومت کے اندر موازی کام نہیں انجام دینا چاہئے۔ موازی کام کی کئی برائیاں ہیں۔ سب سے پہلی برائي تو یہی ہے کہ افرادی قوت کا غیر ضروری استعمال ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مالی اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ فیصلوں میں تضاد پیدا ہو جاتا ہے۔ جب کسی ایک کام کے لئے دو اداروں کو ذمہ دار بنا دیا جائے گا تو ایک ادارہ کچھ فیصلہ کرے گا اور دوسرا ادارہ کوئی اور فیصلہ کرے گا۔ مجریہ کے اندر اور باہر کے بعض اداروں کے درمیان بعض جگہوں پر موازی کام دیکھنے میں آتے ہیں۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ اس موازی کام کے مسئلے کو کسی صورت سے حل کریں۔ لہذا مجریہ کے اندر کے دو اداروں میں موازی کام تو بالکل بھی نہیں ہونا چاہئے۔ ممکن ہے کہ کچھ استثنائی صورتیں ہوں جہاں موازی کام کی ضرورت ہے لیکن مجموعی طور پر موازی کام درست نہیں ہے۔
انتظامی امور کے سلسلے میں بھی ایک بات عرض کرنا چاہوں گا۔ میں بعض اوقات مجریہ کے افراد کے ایسے شکوے سنتا ہوں جو انہیں دوسرے اداروں سے ہیں۔ بسا اوقات آپ کا یہ شکوہ بجا ہوتا ہے۔ یعنی صورت حال ویسی ہی ہے جیسی آپ نے دوسرے شعبوں مثلا مسلح فورسز غیرہ سے پیدا ہونے والے اپنے شکوے میں بیان کی ہے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ اجرائی عہدیداروں کی شکایت بجا ہے اور وہ اپنی اس شکایت میں حق بجانب ہیں۔ میں چونکہ خود بھی مجریہ کا حصہ رہ چکا ہوں اس لئے مجھے وہاں کام کی کثرت اور صورت حال کا اندازہ ہے، لہذا میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ شکایت صحیح ہے لیکن جہاں یہ ہوتا ہے کہ اکثر امور میں آپ حق بجانب ہیں وہیں ممکن ہے کہ آپ کی کوئی بات قابل گرفت ہو۔ لہذا آپ کے اندر تنقید قبول کرنے کا جذبہ بھی ہونا چاہئے۔ مجریہ کے عہدیداروں کو ایسا ہونا چاہئے کہ وہ تنقید اور نکتہ چینی کو خندہ پیشانی کے ساتھ سنیں۔ البتہ یہ چیز بہت دشوار ہوتی ہے لیکن بہرحال آپ کو سعہ صدر کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ کیونکہ آلۃ الریاسۃ سعۃ الصدر (سربراہ کا ہتھیار سعہ صدر ہے) اگر آپ انتظامی امور کے ذمہ دار ہیں تو آپ کے اندر سعہ صدر ہونا لازمی ہے۔ آپ کو کچھ چیزیں برداشت کرنا ہوں گی۔ ایک دو سال قبل آپ حضرات یہاں تشریف لائے تھے۔ میں نے ثقافتی مسئلے میں مجریہ سے ایک شکوہ کیا تھا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت کے اندر ثقافتی امور پر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔ بڑے بجٹ، مختلف کاموں کی انجام دہی، ثقافتی امور پر بار بار تاکید یہ سب اچھی چیزیں ہیں۔ یہ توجہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے لیکن اسی سال کے اوائل کی بات ہے یا گزشتہ سال کا واقعہ ہے کہ جب ثقافتی امور کے بجٹ کی بات آئی تو میں نے صدر محترم سے کہا کہ جب میں نے یہ سنا کہ آپ نے اتنا بڑا بجٹ منظور کیا ہے تو اس کے استعمال اور خرچ کی بابت مجھے تشویش ہوئی۔ یوں تو خوش ہونا چاہئے کہ ثقافتی امور کے لئے بجٹ بڑھا دیا گيا ہے۔ متعلقہ عہدیداروں کو جب زیادہ بجٹ ملتا ہے تو انہیں فکر رہتی ہے کہ یہ بجٹ استعمال ہونا چاہئے کیونکہ اگر اس سال استعمال نہ کیا گيا تو دوسرے سال یہ بجٹ نہیں ملے گا لہذا اسے خرچ کرنا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بجٹ کا ثقافتی امور میں صحیح جگہ پر صرف کرنا واقعی مشکل کام ہے، یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ثقافتی کام تعمیراتی کام کی مانند نہیں ہیں کہ زمین اور تعمیراتی مصالحہ مہیا کرکے کہہ دیا جائے کہ لیجئے عمارت تیار کیجئے۔ ثقافتی عمارت کا مصالحہ بہت مشکل سے ہاتھ آتا ہے، اس شعبے کے معمار اور استان فن انسان کی تلاش بہت دشوار کام ہے۔ لہذا میرا خیال یہ ہے کہ ثقافتی امور میں بہت زیادہ احتیاط سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں اس کا تعین کرنا چاہئے کہ ثقافتی امور میں ہم کن چیزوں کو ترجیح دیں۔ بعض گزشتہ حکومتوں میں یہ مطالبہ کیا گيا کہ ثقافتی کام انجام دینا ہے لہذا ثقافتی امور کے لئے بجٹ چاہئے۔ ثقافتی کام کے نام پر شاہراوں پر شاہ عباسی سرائيں تعمیر کی گئيں۔ یہ بات صحیح ہے کہ شاہ عباسی سرائے کی تعمیر اور انہیں آباد کرنا آثار قدیمہ کے تعلق سے ایک اچھا کام ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ثقافتی امور میں یہی ترجیحی کام ہیں؟ ہمارے اوپر عالمی سطح پر تشہیراتی حملے ہو رہے ہیں، ہماری قوم کی مقامی ثقافت پر سوالیہ نشان لگانے کے لئے سیاست کو ثقافتی امور کے لئے، معیشت کو ثقافتی امور کے لئے اور فن کو ثقافتی امور کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہیں (دشمنوں کو) معلوم ہے کہ اگر وہ ہماری ثقافت کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو کوئی مزاحمت باقی نہیں رہے گی۔ اگر آج سامراج کی مخالفت کی جا رہی ہے، اگر اغیار کی مداخلت کے خلاف استقامت و پائيداری نظر آ رہی ہے تو یہ سب مقامی ثقافت کی دین ہے۔ کسی قوم کی ثقافت کو اگر باہر سے کوئی آکر تبدیل کر دے تو سب کچھ اس کے اختیار میں چلا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری ثقافت کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ روح انقلاب سے، روح ایمان سے اور روح آزادی سے محروم کرنے کے لئے جاری عظیم ثقافتی یلغار کو دیکھتے ہوئے ہماری سب سے اہم ثقافتی ترجیح یہ ہونا چاہئے کہ ہم جائیں اور قدیمی شاہ عباسی سرایوں کو آباد کریں؟! یہ اہم ثقافتی کام کی تشخیص میں ہونے والی غلطی ہے۔ ثقافتی شعبے میں ہماری توجہ خاص طور پر پیداوار پر مرکوز ہونا چاہئے۔ گزشتہ ہفتے طلبہ سے میری ملاقات ہوئی، یہ میری خوش قسمتی ہے کہ طلبہ سے ہونے والی ملاقاتیں کم نہیں ہیں، میں نے دیکھا کہ ان انقلابی نوجوانوں نے، مستقبل کے امید بخش غنچوں نے ثقافتی پیداوار اور تخلیقات پر زور دیا۔ اس بارے میں بات کی کہ ہماری ثقافتی پیداوار کی کیا صورت حال ہے اور کیا ہونا چاہئے؟
اس سلسلے میں دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جب آپ نے اہم ثقافتی کاموں کی نشاندہی کر لی، آپ کو وہ امور نظر آ گئے جن پر ثقافتی بجٹ صرف ہونا چاہئے تو اب ان کاموں کے مندرجات اور مضمرات پر توجہ دیں۔ مثال کے طور پر دس انقلابی فلمیں بنانا ہیں، ایسی دس فلمیں تیار کرنا ہیں جو اقدار کی حامل ہوں۔ یا کچھ کتابیں شائع کرنا ہے تو یہ دیکھیں کہ کون سی باتیں، کس طرح سے اور کس تاکید اور مضبوطی سے پیش کی جائیں اس میں آرٹ اور فن کا کس طرح استعمال کیا جائے؟ یہ سب بڑے ظریف اور سخت کام ہیں۔ ثقافتی شعبے میں تشریفاتی اور دکھاوے کے کام نہیں کرنا چاہئے۔ ثقافتی کاموں کی نمائش اور دکھاوے سے فائدہ حاصل ہونا تو در کنار نقصان پہنچتا ہے۔ ثقافتی شعبے میں بنیادی اور پرمغز کام انجام دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور آج ملک کو اس کی شدید احتیاج بھی ہے۔
صدر محترم نے اپنی تقریر میں ایک بات کہی کہ ہم اپنے وزیر خارجہ کو دیکھ نہیں پاتے کیونکہ وہ اکثر اوقات سفر پر ہوتے ہیں۔ غیر ملکی دوروں کی یہ کثرت، یہ آمد و رفت واقعی قابل قدر چیز ہے لیکن یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ سفارت کاری صرف آمد و رفت اور نشست و برخاست کا نام نہیں ہے، یہ سب چیزیں سفارت کاری کا قالب اور پیکر ہیں، یہ سفارت کاری کی ظاہری شکل ہے جو اپنی جگہ پر بیشک بہت اہمیت کی حامل ہے لیکن ہر پیکر کی ایک روح بھی ہوتی ہے، سفارت کاری کے شعبے میں اس روح کی تقویت کی جانی چاہئے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ سفارت کار بڑی محنت کر رہے ہیں، ان کی زحمتوں کی ناقدری نہیں کرنا چاہئے تاہم میں یہ یاد دہانی کرانا مناسب سمجھتا ہوں۔ مثال کے طور پر ہم نے ایک اجلاس منعقد کیا ہے، ایک نشست کا اہتمام کیا ہے۔ دیکھنا چاہئے کہ اس سے کیا نتیجہ حاصل ہو رہا ہے؟ بعض اوقات نتیجہ بہت اچھا ہوتا ہے جیسے یہی نیویارک میں منعقد ہونے والا این پی ٹی کا اجلاس تھا۔ یہ بہت اہم اور دلچسپ اجلاس تھا۔ اسی طرح دوسرے بہت سے کام ہیں، ملاقاتیں، مذاکرات، نشستیں وغیرہ جن کا مجھے علم ہے، بعض اوقات واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ ہاں یہ بہت نتیجہ خیز کام ہے جو انجام دیا گيا ہے، یعنی بالکل واضح ہوتا ہے کہ ایک اہم کام انجام پایا ہے جبکہ بعض کام ایسے ہیں جن کے لئے ابھی زیادہ تیاری اور غور و خوض کی ضرورت ہے۔
سفارتی امور میں تمام سرگرمیاں صحیح مضمون اور صحیح رخ کے ساتھ انجام دی جانی چاہئے۔ تمام سفارتی کام وزارت خارجہ کی مرکزیت میں انجام دئے جائیں اور وزارت خارجہ کی طرف سے رہنمائی ہو۔ دوسرے ملکوں سے اقتصادی مذاکرات میں بھی میرے خیال میں وزارت خارجہ کے اس شعبے کو جو اقتصادی امور کی ذمہ داری سنبھالتا ہے تمام متعلقہ سرگرمیوں کا مرکز قرار پانا چاہئے۔
اللہ تعالی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم وہ کام انجام دینے میں کامیاب ہوں جن کی ہم سے توقع ہے اور جن کے بارے میں ہمیں اللہ تعالی کو جواب دینا ہے۔ دعائے مکارم الاخلاق میں آیا ہے کہ : «و استعملنى لما تسئلنى غدا عنه» یعنی پالنے والے! مجھے ان کاموں میں مصروف کر دے جن کے بارے میں تو کل قیامت کے دن مجھ سے سوال کرے گا۔ ہم سے کچھ چیزوں کے بارے میں سوال کیا جانے والا ہے، ہمیں ان کاموں کی انجام دہی میں کامیابی حاصل کرنا چاہئے۔ اللہ تعالی ہمیں یہ توفیق عنایت فرمائے کہ اپنے فرائض پورے کریں اور اسی سمت میں آگے بڑھیں۔ اللہ تعالی آپ کو اجر عطا کرے اور ہمارے ملک میں کام، محبت، محنت، مجاہدت اور انقلابی جذبے میں روز بروز اضافہ فرمائے۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

1) بقره: 158