بدھ کے روز رہبر انقلاب اسلامی کی موجودگي میں امام زین العابدین علیہ السلام کی شب شہادت میں ہوئي جس میں رہبر انقلاب اسلامی اور حسینی عزاداروں نے شرکت کی۔ یہ مجالس عزا کے سلسلے کی آخری مجلس تھی۔
اگر لوگ اسلامی اخلاق سے آراستہ ہوتے تو یزید، ابن زیاد، عمر سعد اور دوسرے افراد، یہ المیہ انجام نہیں دے سکتے تھے۔ اگر اتنے پست نہ ہوئے ہوتے، تو حکومتیں، چاہے وہ کتنی ہی فاسد کیوں نہ ہوتیں، کتنی ہی بے دین اور ظالم کیوں نہ ہوتیں، اتنا بڑا المیہ انجام نہ دے سکتیں۔
امام زین العابدین علیہ السلام تین کردار ادا کر رہے تھے۔ دو کردار ان کے اور بقیہ ائمہ علیہم السلام کے درمیان مشترک ہیں۔ اسلام اور اسلامی معاشرے کے سلسلے میں اپنی امامت کے ڈھائي سو سالہ عرصے میں ائمہ علیہم السلام جو اہم فریضہ ادا کر رہے تھے، ان میں سے ایک اسلامی معارف، اسلامی احکام، اسلامی فقہ کی تشریح اور اسلام پر مسلط کیے جانے والے انحرافات، تحریف اور کجی سے اس کی حفاظت تھی اور دوسرا، اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے راہ ہموار کرنا تھا، ایک ایسا الہی معاشرہ جس کا انتظام حکومت علوی کے تحت چلایا جائے۔
امام زین العابدین علیہ السلام پر اپنی امامت کے دوران ایک دوسرا فریضہ، واقعۂ عاشورا کو زندہ رکھنے کا بھی تھا اور یہ بھی ایکی درس ہے۔ واقعۂ عاشورا، ایسا واقعہ تھا جو اس لیے رونما ہوا تاکہ تاریخ، آئندہ نسلیں اور آخری زمانے تک کے مسلمان اس سے درس حاصل کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی
اگر ہم اس وقت کے فیض کو حاصل کر سکیں تو اس دن (عرفہ کے دن) دوپہر کے بعد کا وقت، بہشت کے اوقات میں سے ایک ہے۔ اتنی عظمتوں کی مالک امام حسین علیہ السلام جیسی شخصیت، اپنا آدھا دن اس دعا میں یوں ہی نہیں صرف کر سکتی۔ اس دعا کے معنوں پر غور کرنے کی ضرور کوشش کیجیے، غور کیجیے کہ دعا میں کیا کہا جا رہا ہے۔ یہ نہیں کہ بیٹھ کر اس پر غور کیجیے –ان میں غور و فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے– بس جب آپ بات کر رہے ہیں تو یہ ذہن میں رہے کہ آپ کسی سے بات کر رہے ہیں اور اس بات کے معنی کو سمجھیے کہ وہ کیا ہے۔ عرفے کے دن امام زین العابدین علیہ السلام کی دعا، امام حسین کی دعائے عرفہ کی شرح کی طرح ہے، گویا بیٹے نے اپنے والد کے الفاظ کے ذیل میں ایک حاشیہ، ایک شرح، ایک تشریح، دعا کی زبان میں لکھی ہے۔ دونوں کا الگ الگ لطف ہے۔
امام خامنہ ای
26 مئی 1993
قافلہ لوٹ کر مدینے آیا۔ مردوں میں فقط امام زین العابدین بچے تھے۔ آپ کے علاوہ وہ بیبیاں تھیں جنہوں نے اسیری برداشت کی اور غم اٹھائے۔ امام حسین ساتھ نہیں تھے۔ یہاں تک کہ شیر خوار بچہ بھی قافلے میں اب نہیں تھا۔ اگر یہ لوگ نہ گئے ہوتے تو سب زندہ ہوتے لیکن حقیقت فنا ہو جاتی، روحیں ختم ہو جاتیں، ضمیر مردہ ہو جاتے، پوری تاریح میں عقل و منطق مٹ جاتی اور اسلام کا نام تک باقی نہ رہتا۔