سنہ 1979 میں ایران کے اسلامی انقلاب کی شاندار کامیابی کے بعد امریکہ نے، جو ایران اور خطے میں اپنے غیر قانونی مفادات کو اپنے ہاتھ سے نکلتا ہوا دیکھ رہا تھا، اسلامی جمہوریہ کے خلاف ایک ہمہ گير جنگ شروع کر دی۔ براہ راست فوجی مداخلت (واقعۂ طبس) اور بغاوت کی پلاننگ اور پشت پناہی سے لے کر نئے تشکیل شدہ اسلامی نظام کی سرنگونی کے ارادے سے ایران پر حملے کے لیے عراق کی بعثی حکومت کو ترغیب دلانے اور اسے سر سے پیر تک مسلح کرنے تک امریکہ نے ایرانی قوم کے عظیم انقلاب کو چوٹ پہنچانے کے لیے کسی بھی کام سے دریغ نہیں کیا۔ آخرکار فوجی محاذ پر شکست کے بعد اس نے ایران کی مسلم قوم کے خلاف ایک دوسری یلغار شروع کی۔ اس بار اس نے معاشی، عسکری، دفاعی، سائنسی و تکنیکی، صنعتی اور تجارتی میدانوں میں یکطرفہ طور پر انتہائي سخت پابندیاں نافذ کر کے بزعم خود اس بات کی کوشش کی کہ اپنے مطالبات کے آگے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے۔
سوربھ کمار شاہی کا کہنا ہے کہ اپنے آپریشنل یا حتی ٹیکٹکل اہداف حاصل نہ کر پانے کی وجہ سے جھلاہٹ کا شکار صیہونی حکومت ایک بار پھر فلسطینی شہریوں پر حملے کر رہی ہے۔
آج سے کچھ مہینے پہلے شاید ہی کوئي یہ سوچ سکتا تھا کہ امریکی حکومت کی ایک سب سے بڑی تشویش اور بنیادی مشکل، خارجی پالیسی کا ایک مسئلہ ہوگا کیونکہ کبھی بھی ریاستہائے متحدہ امریکا میں عالمی مسائل، انتخابات پر چنداں اثر انداز نہیں ہوتے اور وہ اس ملک کے صدر کی مقبولیت میں بہت زیادہ تبدیلی لانے کی طاقت نہیں رکھتے۔
"اسم تو مصطفی است" کتاب کیوں پڑھیں؟
زندگی کی داستان
جہاد، ایک مجاہد انسان کی زندگي اور منش کا ایک حصہ ہے۔ اگر مومن کی زندگي کے کئي حصے ہوں تو جہاد اور جنگ، اس کا صرف ایک حصہ ہے، سارے حصے نہیں۔ اگر مومن کی زندگي قوس قزح ہو تو جہاد اور جنگ اس کا ایک رنگ ہے، سارے رنگ نہیں۔ تو ایک مومن کا جہاد اور جنگ، ایک سخت مردانہ مفہوم ہونے سے زیادہ، ایک ایسا مفہوم ہے جس کی جڑ اس کی زندگي اور انسانیت میں پیوست ہے۔ موضوع پر اس طرح نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ جہاد کا ایک رخ، سخت، مستحکم اور کڑا ہے جو میدان جنگ کی صف اول میں نظر آتا ہے جبکہ اس کا دوسرا رخ، تمام دیگر انسانی امور کی طرح نرم، لطیف اور ظریف ہے۔
"سرباز روز نھم" (نویں دن کا سپاہی) اسلامی انقلاب کے انسان کی داستان ہے
سادہ اور پیچیدہ، ایک کثیر جہتی ایکویشن
"اب کئي سال بعد میں محسوس کرتا ہوں کہ جس قدر میں اس شہید کے بارے میں غور اور تحقیق کرتا ہوں، اتنا ہی اس سے دور ہوتا جاتا ہوں۔ میں اور مصطفی صدر زادہ ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ کسی زمانے میں، میں کشتی سیکھا کرتا تھا۔ شہریار میں، میں اسی جم میں جایا کرتا تھا جہاں کسی زمانے میں مصطفی بھی کشتی سیکھنے جایا کرتے تھے۔ اس وقت میری زندگي کی ایک حسرت یہ ہے کہ میں، مصطفی کی ظاہری زندگی کے وقت ان سے کیوں نہیں ملا! میں بھی ثقافتی کام کرتا ہوں۔ اسی مسجد امیر المومنین میں گيا تھا، میں نے مصطفی کو کیوں نہیں دیکھا تھا!" ہم محمد مہدی رحیمی سے انٹرویو کر رہے تھے جو ایک مصنف اور محقق ہیں اور جنھوں نے مصطفی صدر زادہ پر کتاب لکھنے کا منصوبہ، سنہ 2015 میں ان کی شہادت کے کچھ ہی دن بعد بنا لیا تھا اور بقول ان کے آج تک وہ اس کام میں مصروف ہیں۔