ایک مجاہد کی زندگي اور زندگانی کا رخ، اس کی زندگي کے سخت رخ کی طرح ہی اہم ہے۔ ہم تکلفات کی بخیہ ادھیڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے بلکہ ہم جنگ کی صف اول اور شہادت میں دیکھتے ہیں، وہ اس راستے کا آخری اسٹاپ ہے جو مجاہدانہ زندگي سے شروع ہوا تھا۔ اخلاص کی زرخیز زمین، مومنانہ زندگي اور حیات طیبہ، ایمان و جہاد کے بیج کو اپنے اندر سمو لیتے ہیں اور پھر آخر میں جہاد و شہادت کا پھل دیتے ہیں۔ اس طرح سے شہادت، صرف ظاہری طور پر مرنا اور کسی ایک مقام پر رونما ہونے والا کوئی واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ خود ایک راستہ اور عمل ہے جو زندگی کے قلب سے شروع ہوتا ہے۔ شہادت، اس دنیوی حیات کو اس اخروی زندگي سے اس طرح متصل کرتی ہے۔

شہید مصطفی صدر زادہ پر تحریر کردہ کتاب کا تعارف

ایک مجاہد کی زندگي اور زندگانی کا رخ، اس کی زندگي کے سخت رخ کی طرح ہی اہم ہے۔ ہم تکلفات کی بخیہ ادھیڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے بلکہ ہم جنگ کی صف اول اور شہادت میں دیکھتے ہیں، وہ اس راستے کا آخری اسٹاپ ہے جو مجاہدانہ زندگي سے شروع ہوا تھا۔ اخلاص کی زرخیز زمین، مومنانہ زندگي اور حیات طیبہ، ایمان و جہاد کے بیج کو اپنے اندر سمو لیتے ہیں اور پھر آخر میں جہاد و شہادت کا پھل دیتے ہیں۔ اس طرح سے شہادت، صرف ظاہری طور پر مرنا اور کسی ایک مقام پر رونما ہونے والا کوئی واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ خود ایک راستہ اور عمل ہے جو زندگی کے قلب سے شروع ہوتا ہے۔ شہادت، اس دنیوی حیات کو اس اخروی زندگي سے اس طرح متصل کرتی ہے۔

"اسم تو مصطفی است" (تمھارا نام مصطفی ہے) اسی عمل کی تشریح ہے، اسی راستے کی تشریح ہے، انسان بننے کی تشریح ہے۔"اسم تو مصطفی است" انسانوں کی شہادت سے پہلے ان کے شہید ہونے کی تصویر کشی کرتی ہے۔ "اسم تو مصطفی است" ایک ایسی زندگي کی تشریح ہے جسے شہادت کا پھل توڑنا ہی ہے۔ اس موضوع کی اہمیت اس وقت کئي گنا بڑھ جاتی ہے جب ہمیں پتہ چلتا ہے کہ "اسم تو مصطفی است" کا اصل کردار ایک عورت ہے۔ ایک شہید کی بیوی جس نے اس کے ساتھ ساتھ جہاد کا مشاہدہ اور احساس کیا ہے۔ وہ ہر قدم کہانی کے ظاہری شہید کے ساتھ اور اس کی ہم نفس رہی ہے بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ مصطفی صدر زادہ نے یہ راستہ، سمیہ ابراہیم پور کے ساتھ ہی طے کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس راستے نے جس قدر مصطفی پر اثر ڈالا ہےاور انھیں بالیدگي عطا کی ہے، اسی قدر سمیہ ابراہیم پور کی ذات کے ظرف کو بھی وسیع تر کیا ہے۔

ایک برفیلے پہاڑ کی چوٹی

مصطفی صدر زادہ ایک مومنانہ اور مجاہدانہ زندگی کے برفیلے پہاڑ کی چوٹی ہیں اور اس پہاڑ کا ایک دامن ہے، "اسم تو مصطفی است" اس شہادت کا دامن ہے۔ یہ کتاب شہید مصطفی صدر زادہ کی زندگي کو داستان کی صورت میں بیان کرتی ہے۔ یہ شہادت اور جہاد کی ایک زنانہ روایت ہے جس کی راوی، شہید کی زندگي اور ان کے زمانے کے ایسے حصوں اور پہلوؤں کو دنیا کے سامنے لاتی ہے جن کے بارے میں یا تو بالکل بات نہیں کی گئي ہے یا بہت کم بات کی گئي ہے۔ ہم صرف شہید کی تصویر کا ایک فریم یا شہیدوں کے قبرستان میں ان کی قبر کا کتبہ دیکھتے ہیں جبکہ تصویر کا یہ فریم یا قبر کا کتبہ صرف ایک علامتی تصویر ہے جس نے اپنے اندر ایک زندگي اور ایک عمر کی تلخیص کر رکھی ہے۔

"اسم تو مصطفی است" اور اس طرح کی دوسری کتابیں، جہاد کی ثقافت کی راوی سمجھی جاتی ہیں۔ ایسی کتابیں شہیدوں کی زندگي کا پوشیدہ آدھا حصہ ہوتی ہیں اور چونکہ ان میں میدان جنگ کی فرنٹ لائن پر موجودگي اور براہ راست نسبت نہیں ہوتی اور ان میں گولوں، توپ اور ٹینک کا ذکر نہیں ہوتا، اس لیے عموما ان پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فرنٹ لائن کے مجاہد، اسی  ماحول کا فطری نتیجہ ہوتے ہیں۔ اگر زندگي نے جہادی رجحان پیدا کیا ہے تو وہ اس سہارے اور پس منظر کی وجہ سے ہے جس پر کم ہی توجہ دی گئي ہے اور اس کی اہمیت اور ضرورت، سانس کے لیے ہوا کی طرح ہے۔ اتنا ہی حیاتی لیکن اتنا ہی غیر مرئي اور پوشیدہ۔

آج کی زندگي کے راوی

یہ زندگي کے راوی ہیں لیکن ایسی زندگي کے راوی جو آخر میں شہادت کے نام کے ایک حلقے کے ساتھ ایک دوسری  زندگي سے متصل ہونے والی ہے۔ زندگي کی یہی روایت، ان کتابوں کا ایک دوسرا اہم پہلو ہے۔ یہ کتابیں، مقدس دفاع کے ادب کی دوسری اصناف کے برخلاف جو سنہ انیس سو اسی کے عشرے کے جہاد کی راوی ہیں اور انھیں تین عشرے گزر چکے ہیں، پوری طرح سے آج کی ہیں۔ "اسم تو مصطفی است" کی راوی، ان جوانوں میں سے ہیں جو معاشرے کے آج کے حالات میں زندگي گزار رہے ہیں اور ان ہی معاشی، سماجی، سیاسی اور ثقافتی نشیب و فراز سے دوچار ہیں جن کا سامنا آج کی زندگي میں تمام ہم وطنوں کو ہے۔

اس طرح کی کتابوں کے راویوں کو، ان تمام لوگوں کی طرح جو آج کے معاشرے میں زندگي گزارتے ہیں، بہت سی باتوں اور سختیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن سے ممکنہ طور پر معاشرے کا ہر فرد دوچار ہوتا ہے۔ ان انسانوں کا وجود اور اپنے ماحول اور اپنے اطراف پر جو اثر یہ ڈالتے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی ذات میں پائی جانے والی گنجائش ان تمام رکاوٹوں اور سختیوں سے کہیں بالاتر ہے اور امید بھی انسائيکلوپیڈیاز میں گم ہو جانے والے ہزاروں الفاظ کی طرح ایک لفظ نہیں بلکہ ایک حقیقی اور زمینی مفہوم ہے۔

"اسم تو مصطفی است" نہ صرف اس طرح کے خیالات پر مہر باطل ثبت کرتی ہے کہ نئے زمانے میں مومنانہ زندگي کا امکان ختم ہو گيا ہے بلکہ روزمرہ کے واقعات و حادثات میں اسلامی انقلاب کے انسان کو دکھا کر، نئے زمانے میں مومنانہ زندگي کے مختلف امکانات کی قارئين کی نظروں کے سامنے تصویر کشی کرتی ہے۔ یہ تصویر نہ تو خیالی اور وہمی ہے اور نہ ہی آئيڈیلسٹک ہے بلکہ عین حقیقت ہے اور حقیقت سے نکلی ہوئي ہے۔ یہ وہ زندگي ہے، شہادت جس کا ایک حصہ ہے اور اس راستے کا ایک اسٹاپ سمجھی جاتی ہے۔ بنابریں "اسم تو مصطفی است"، زندگي کی روایت ہے۔