لیکن اب غزہ کی جنگ، امریکا میں ایک بہت بڑے استثنا میں تبدیل ہو چکی ہے۔ غزہ کی جنگ اور بائيڈن کی جانب سے صیہونی حکومت کی بے دریغ حمایت کی وجہ سے آخری سروے رپورٹوں میں بتایا گيا ہے کہ پہلی بار امریکی جوانوں کے درمیان بائیڈن کی مقبولیت میں بڑی شدید کمی آ گئي ہے اور اس کا فیصد ٹرمپ سے بھی کم ہو گيا ہے۔(1) اسی طرح عربوں اور امریکیوں کے درمیان ان کی حمایت کی شرح جو سنہ 2020 میں 42 فیصدی تھی، گھٹ کر صرف 17 فیصدی رہ گئي ہے۔(2) اس کے علاوہ صیہونی حکومت کی حمایت کے مسئلے پر آج کل واشنگٹن میں سیاسی کشیدگي بہت زیادہ بڑھ گئي ہے اور اس وقت امریکا کے 40 سے زیادہ اراکین پارلیمنٹ اور سنیٹرز، غزہ میں جنگ بندی کی حمایت کر رہے ہیں۔(3)

لیکن بائيڈن کی مقبولیت میں کمی اور امریکا کے داخلی بحران، ان مسائل کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہیں جو غزہ کی جنگ کی وجہ سے امریکا کے سامنے آئے ہیں۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن اور صیہونی حکومت سے غزہ کی 50 روزہ جنگ نے امریکا پر جو مالی بوجھ ڈالا ہے وہ اس کے لیے ناقابل تلافی ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جس نے رہبر انقلاب اسلامی کے بقول خطے کی پالیسیوں اور موقف کو 'ڈی امیریکانائیزیشن' کی سمت بڑھا دیا ہے اور مغربی ایشیا میں امریکی منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے۔

1. صیہونی حکومت سے اسلامی ممالک کے تعلقات معمول پر لانے کے امریکی پلان کی شکست

حالیہ جنگ کی وجہ سے خطے میں امریکیوں کی وہ پہلی اور سب سے بڑی پالیسی، جسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے، صیہونی حکومت کے ساتھ عرب اور مسلم ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانا ہے۔ "معاہدۂ ابراہیم" (Abraham Accords) کے نام سے موسوم اہم منصوبہ، جو ٹرمپ حکومت کے دور میں شروع ہوا تھا اور بائيڈن کی حکومت میں بھی 7 اکتوبر تک بڑی سنجیدگي سے جاری رہا، اٹلانٹک کونسل انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ فریڈ کیمپ کے مطابق اب اس منصوبے کی کامیابی کا کوئي چانس نہیں ہے۔ اسی تناظر میں انھوں نے کچھ ہفتے پہلے ایک انٹرویو میں کہا تھا: "میرے خیال میں حالیہ واقعات کی ایک بڑی قربانی، سعودی عرب اور اسرائيل کے تعلقات کی بحالی ہے ... سمجھوتے کا امکان پایا جاتا تھا اور لوگ اس کے ہونے اور نہ ہونے کو ففٹی ففٹی مان رہے تھے لیکن اس وقت اس سمجھوتے کا امکان زیرو فیصد ہے۔"(4) یا امریکا میں ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کی سینیر ریسرچ فیلو زینب ریبوا کا ماننا ہے کہ حالیہ جنگ میں حماس اور استقامتی محاذ کو حاصل ہونے والی پہلی فتح، عربوں اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کا رک جانا ہے۔(5)  اسی طرح نیویارک ٹائمز کے کالم نگار تھامس فریڈمین کا کہنا ہے کہ غزہ پٹی پر صیہونی فوج کا حملہ جاری رہنا، معاہدۂ ابراہیم کا شیرازہ پوری طرح سے بکھر جانے کے مترادف ہے۔(6)

دلچسپ بات یہ ہے کہ غزہ میں امریکا اور صیہونی حکومت کے ہولناک جرائم نے، صیہونی حکومت سے تعلقات کی بحالی کے اسلامی ممالک میں پائے جانے والے کچھ حامیوں کو بھی خواب غفلت سے بیدار کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر مصر میں صیہونی حکومت سے تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کے سب سے بڑے حامیوں میں سے ایک، ڈاکٹر اسامہ الغزالی نے، اس عمل کی حمایت کرنے پر مصر کے عوام اور غزہ کے شہیدوں سے معافی مانگي ہے۔ انھوں نے کہا: "اسرائيلیوں کے سلسلے میں خوش فہمی کے سبب، جنھوں نے اس جنگ میں اپنے نفرت انگیز، مجرمانہ اور نسل پرستانہ جذبے کو عیاں کر دیا ہے، میں معافی مانگتا ہوں۔"(7)

ان سب کے علاوہ عرب دنیا میں را‏ئے عامہ بھی صیہونی حکومت کو تسلیم کیے جانے کی سخت مخالف ہے۔ کچھ عرصے پہلے دوحہ کے ایک انسٹی ٹیوٹ نے ایک سروے رپورٹ جاری کی جس میں 14 عرب ملکوں کے لوگوں سے پوچھا گيا تھا کہ وہ صیہونی حکومت سے تعلقات قائم کرنے کے کس حد تک حامی ہیں؟ اس سروے میں تیونس کے 90 فیصدی، عراق کے 92 فیصدی، قطر کے 87 فیصدی، مصر کے 84 فیصدی، کویت کے 85 فیصدی، لبنان کے 84 فیصدی اور اسرائیل کے ساتھ مشترکہ سرحد رکھنے والے اردن کے 94 فیصدی لوگوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔ یہاں تک کہ مراکش میں بھی، جس کے سنہ 2020 سے صیہونی حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں، دو تہائي سے زیادہ لوگوں نے کھل کر کہا کہ وہ اس غیر قانونی حکومت سے تعلقات قائم کیے جانے کے خلاف ہیں۔(8) ایک دوسرے معتبر سروے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ سعودی عرب کے صرف دو فیصدی لوگ، صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کیے جانے کے حامی ہیں۔(9)

2. امریکا کی اسٹریٹیجک اتحادی صیہونی حکومت کمزور پڑ چکی ہے

"اگر اسرائيل کا وجود نہ ہوتا تب بھی ہمیں ایک اسرائيل بنانا ہی ہوتا تاکہ وہ اس علاقے میں ہمارے مفادات کی حفاظت کرے۔"(10) یہ امریکا کے صدر جو بائيڈن کا مشہور جملہ ہے، جسے انھوں نے کئي بار دوہرایا ہے۔ یا امریکا کے صدارتی انتخابات کی ایک امیدوار نکی ہیلی نے کچھ دن پہلے اپنے ایک متنازعہ بیان میں کہا تھا: "اسرائيل کو جتنی امریکا کی ضرورت ہے، اس سے کہیں زیادہ امریکا کو اسرائیل کی ضرورت ہے۔"(11) یہ بیان، امریکا اور اسرائيل کے اٹوٹ رشتے کو بخوبی واضح کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ امریکا کو خطے میں اپنی ایک طاقتور پراکسی فورس کی کتنی زیادہ ضرورت ہے۔

اب یہی صیہونی حکومت، رہبر انقلاب اسلامی کے الفاظ میں پچاس دن سے زیادہ ہو گئے ہیں کہ ناک آؤٹ ہو گئي ہے اور اس کی حیثیت پر کاری ضربیں لگ چکی ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سات اکتوبر سے اب تک صیہونی حکومت کو ہونے والے عدیم المثال جانی نقصان میں کم از کم 400 صیہونی فوجی مارے جا چکے ہیں اور 1000 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں جن میں سے 202 کی حالت نازک ہے۔(12) اس کے علاوہ غزہ کی جنگ نے اب تک نیتن یاہو حکومت کو 53 ارب ڈالر سے زیادہ کا مالی نقصان پہنچایا ہے۔(13) اور تخمینہ ہے کہ جاری سال میں اسرائيل کی معاشی پیشرفت میں 1 اعشاریہ 4 فیصدی کی کمی آئے گي۔(14) ہتھیاروں کے میدان میں بھی صیہونی فوج پر کاری ضربیں لگي ہیں اور صرف غزہ پر حملے کے دوران ہی اس کے 335  ٹینک اور بکتربند گاڑیاں تباہ ہو گئي ہیں۔ اسی طرح صیہونی حکومت کو انٹیلی جنس کے شعبے میں بھی جو زبردست چوٹ پہنچی ہے، اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ دی ویک (The Week) میگزین کے مطابق 7 اکتوبر کو حماس کی جانب سے مقبوضہ علاقوں کے اندر کیے جانے والے حملوں نے اسرائيل کی انٹیلی جنس سروسز کی شہرت پر خط بطلان کھینچ دیا ہے۔(15)

بنابریں کہا جا سکتا ہے کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن اور غزہ کے عوام کی پچاس روزہ استقامت نے امریکا کے اس دیرینہ اتحادی کی بین الاقوامی عزت کو نیلام کر دیا اور خطے میں امریکا کی پراکسی فورس یعنی صیہونی حکومت کو بری طرح سے کمزور کر دیا۔

3. علاقے کے ممالک میں امریکا کی مخالفت میں اضافہ

بائيڈن حکومت کی جانب سے غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کی ہمہ گير حمایت کی وجہ سے، علاقائي حکومتوں کے درمیان امریکا کی مخالفت اور اس ملک کے سلسلے میں اسلامی اقوام کے درمیان غیظ و غضب میں بہت زیادہ اضافہ ہو گيا ہے۔ یہ وہ بات ہے جس کی جانب رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے کچھ روز پہلے کے خطاب میں اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا: "اس علاقے میں جیوپولیٹکس کا نقشہ تبدیل ہونے کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ ڈی امیریکنائیزیشن (امریکی اثر و رسوخ ختم کرنے) کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بعض ممالک جو سو فیصد امریکی پالیسیوں کے تابع تھے، انھوں نے بھی امریکا سے دوری بنانا شروع کر دی، یہ تو آپ دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں، اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔"

اسی سلسلے میں سی این این نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ بائيڈن حکومت کو پوری عرب دنیا میں متعین امریکی سفارتکاروں کی جانب سے ایسے سنجیدہ انتباہات ملے ہیں کہ غزہ میں اسرائيل کے موت کے ننگے ناچ کی امریکا کی جانب سے حمایت کی قیمت، عرب عوام کی ایک پوری نسل کی جانب سے امریکا کی حمایت کو گنوانے کی صورت میں ادا کرنی ہوگي۔(16) واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے کرایا گيا نیا سروے، اس دعوے کی تصدیق کرتا ہے۔ اس سروے کے مطابق خطے کے 6 عرب ملکوں کے عوام کے درمیان صرف 7 فیصدی لوگوں کا ماننا ہے کہ امریکا نے غزہ کی جنگ میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔(17) اسی طرح مصر کے مشہور اخبار الاہرام کے ایڈیٹوریل بورڈ کے سربراہ نے بھی کچھ دن پہلے ایک ادارتی نوٹ میں واضح الفاظ میں لکھا تھا کہ امریکا، اس وقت عرب دنیا کا سب سے بڑا دشمن ہے۔(18) اقوام متحدہ میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی حالیہ قرارداد کے خلاف علاقائی ممالک کی ووٹنگ، اس بات پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔

المختصر یہ کہ غزہ کی جنگ نہ صرف صیہونی حکومت کی غیر قانونی حیات پر ایک کاری ضرب تھی بلکہ اس نے امریکا کے زوال کی رفتار بھی بڑھا دی اور مغربی ایشیا میں امریکی منصوبوں کے شیڈول کو بھی درہم برہم کر دیا۔ یہ جنگ، داخلی اور بین الاقوامی دونوں لحاظ سے امریکی حکومت کے لیے، صرف گھاٹے کا سودا رہی ہے جبکہ اس نے علاقائي اقوام کو مغربی ایشیا سے امریکا کا بوریا بستر پوری طرح سے سمیٹے جانے کی نوید دے دی ہے۔

  1. https://www.nbcnews.com/meet-the-press/meetthepressblog/number-public-polls-show-young-voters-turning-biden-rcna125794
  2. https://www.aljazeera.com/news/2023/10/31/gaza-war-biden-support-plummets-to-17-percent-among-arab-americans#:~:text=Washington%2C%20DC%20%E2%80%93%20Arab%20American%20support,according%20to%20a%20new%20survey.
  3. https://twitter.com/CoriBush/status/1729911554030891513
  4. https://twitter.com/SquawkStreet/status/1711417465719103917
  5. https://twitter.com/zriboua/status/1729823915659190392
  6. https://www.nytimes.com/2023/10/16/opinion/israel-gaza-war.html
  7. https://twitter.com/clashreport/status/1727592672636932468
  8. https://arabcenterdc.org/resource/arab-opinion-index-2022-executive-summary/
  9. https://www.timesofisrael.com/saudi-israeli-normalization-effort-takes-a-violent-detour-after-hamas-attack/
  10. https://www.middleeastmonitor.com/20221027-if-there-were-not-an-israel-wed-have-to-invent-one-biden-says-again/
  11. https://twitter.com/NikkiHaley/status/1718636483006111969
  12. https://www.aa.com.tr/en/middle-east/1-000-israeli-soldiers-officers-injured-since-outbreak-of-war-on-gaza-on-oct-7/3067008
  13. https://www.bloomberg.com/news/articles/2023-11-27/israel-extends-rate-pause-as-currency-rallies-despite-war-shocks
  14. https://www.aa.com.tr/en/economy/war-in-gaza-expected-to-result-in-a-14-reduction-in-israels-economic-growth-in-2023-/3064240
  15. https://theweek.com/politics/is-this-the-end-of-the-israeli-intelligence-services-vaunted-reputation
  16. https://edition.cnn.com/2023/11/09/politics/biden-diplomats-warn-middle-east-fury/index.html
  17. https://www.washingtoninstitute.org/policy-analysis/united-states-rapidly-losing-arab-hearts-and-minds-through-gaza-war-while
  18. https://www.memri.org/reports/board-chairman-egyptian-state-daily-al-ahram-us-arab-worlds-no-1-enemy-it-more-nazi-hitler