جب میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں تو غزہ میں صیہونی حکومت کی کارروائی کو دو ماہ ہوچکے ہیں۔ اس کارروائي کا خلاصہ ان الفاظ سے بہتر انداز میں نہیں کیا جا سکتا جو ایک تجزیہ نگار نے طنزیہ انداز میں کہے ہیں: "غزہ میں دو ماہ سے جاری اپنے آپریشن میں، اسرائیل، مزاحمتی کمانڈروں سے زیادہ اقوام متحدہ کے افسران کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔" اس بیان کی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسے استعارے کے طور پر نہیں بلکہ حقیقت کے طور پر پیش کیا گيا ہے۔
دریں اثنا صیہونی حکومت کی پروپیگنڈہ مشینری "حسبارہ" اس کا ایک بہادر چہرہ پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ پرفریب گرافکس اور فاسٹ ایڈیٹڈ ویڈیوز کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ صیہونی حکومت کسی طرح شمالی غزہ کو زیر کرنے اور وہاں سے مزاحمتی محور کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اس کا خیال ہے، جو کہ اس بار پوری طرح غلط ہے کہ اس طرح کی میڈیائي تحریف، فلسطینی کاز کے حامیوں کے عزم کو بالعموم اور استقامتی محور کے حامیوں کے عزم کو بالخصوص توڑ دے گی۔ حالانکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔
آئیے صیہونی حکومت کے کچھ بلند بانگ دعوؤں کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اس کا بنیادی دعویٰ تو یہ ہے کہ اس نے شمالی غزہ کو "گھیر لیا" ہے۔ یہ دعویٰ پوری طرح سے بے بنیاد ہے۔ غزہ پہلے ہی گھرا ہوا تھا۔ یہ کوئی عسکری کامیابی نہیں ہے۔ اس نے جو نام نہاد کامیابی حاصل کی وہ یہ ہے کہ وہ مشرق سے بہت کم آبادی والے وادی غزہ کے علاقے میں داخل ہوئي اور مغرب میں ساحل سمندر تک گھس گئي اور یوں اس نے غزہ کو شمالی اور جنوبی غزہ میں تقسیم کر دیا۔ وہ شمال مغرب سے بھی غزہ کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوئي اور وادی غزہ کے راستے مشرقی-مغربی روٹ سے ہوکر سمندر کے کنارے تک پہنچنے والی فورسز سے جاکر مل گئي ہے۔
ان دو کم آبادی والے روٹس کو چھوڑ کر، جہاں مزاحمتی فورسز کے پاس چیلنج کا موثر مقابلہ کرنے کے لیے زیر زمین انفراسٹرکچر موجود نہیں ہے، آئي ڈی ایف (صیہونی فوج) کے لیے کسی بھی جگہ انفنٹری کو اتارنا مشکل ہو گیا ہے، کوئي کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر بنانے کی بات تو رہنے ہی دیجیے۔ مجموعی طور پر وہ شمالی غزہ کے محض 40 فیصدی علاقے کو کنٹرول پائی ہے جس کا رقبہ صرف 150 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ میں نے یہاں "قبضہ" نہیں کنٹرول لفظ استعمال کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے زیادہ تر علاقوں میں، جن پر اس کا "کنٹرول" ہے، آئي ڈی ایف کی مستقل موجودگی نہیں ہے۔ اسرائيلی فضائيہ ایک زبردست بمباری کرتی ہے جس کے بعد توپ خانے سے گولہ باری کی جاتی ہے اور پھر بکتربند یونٹ وہاں پہنچنے کی کوشش کرتی ہے، وہ بھی پیادہ فوج کی مدد کے بغیر کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پیادہ فوجی، مزاحمتی فورسز کی گرفت میں آ جائیں۔ پہلے دو مرحلوں کے دوران، مزاحمت کے افراد گولہ باری کی شدت کم ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور صرف اس وقت حملہ کرتے ہیں جب فوجی، ٹینک سے باہر نکلتے ہیں اور انھیں قریب سے مارتے ہیں۔ یہ حملے زیادہ تر یاسین اینٹی آرمر گولے یا روسی اینٹی آرمر میزائل جیسے کورنیٹ اور کونکور کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں یہ حملے آئی ڈی ایف کے فوجیوں کو پروپیگنڈہ فوٹو اپ کرنے کے بعد فوری طور پر ابتدائی مقام پر واپس بھیج دیتے ہیں۔
دو دیگر محوروں پر بھی یہی صورتحال رہی ہے، جن میں سے ایک شمالی غزہ کے شمال مشرق میں اور دوسرا جنوب مشرق میں ہے۔ یہ بات اس وقت عیاں ہوئي جب مزاحمتی فورسز نے مرکز میں فلسطین اسکوائر اور غزہ شہر کے جنوب مشرق میں کارنی کراسنگ کو مختصر جنگ بندی کے دوران رہا کئے جانے والے اسرائیلی قیدیوں کو ریڈ کراس کے حوالے کرنے کی جگہ کے طور پر منتخب کیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ شمالی غزہ کو "کنٹرول" کرنے کے بارے میں آئي ڈی ایف نے کیمرے کے سامنے جو بھی دعویٰ کیا تھا وہ جھوٹی کارروائي کی فلم شوٹنگ سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔
یہاں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ صیہونی حکومت نے آئی ڈی ایف کی سب سے خاص یونٹس کو تعینات کیا ہے جن میں مشہور نحال، گولائی اور گیواتی بریگیڈز کے علاوہ شایتیت 13 اور سایریت متکل کی اسپیشل فورسز شامل ہیں۔ مؤخر الذکر دو فورسز کو 7 اکتوبر کی مسلحانہ کارروائي میں فلسطینی استقامت کے ہاتھوں تباہ کن نقصانات اٹھانے پڑے تھے۔ مختلف صلاحیتوں والے آئي ڈی ایف کے ایک لاکھ فوجی لڑائی میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ ریزرو فورسز کو بھی تعینات کر دیا گیا ہے۔ فوجیوں کی اتنی بڑی تعداد صرف 150 مربع کلومیٹر کے علاقے پر قبضہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے جو اس کی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
صیہونی حکومت کا دوسرا طے شدہ ہدف غزہ کے اندر استقامتی محور کے کمانڈ اور کنٹرول ڈھانچے کو تباہ کرنا تھا۔ اس ہدف کو حاصل کرنے میں تو وہ اور زیادہ برے طریقے سے ناکام رہی ہے۔ چند درمیانی اور ایک اعلیٰ درجے کے کمانڈر، القسام کے شمالی ریجنل کمانڈر اور ملٹری کونسل کے رکن احمد الغندور کی شہادت کے علاوہ آئی ڈی ایف کسی بھی مؤثر طریقے سے استقامتی محور کے ڈھانچے کو نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ حقیقت یہ ہے کہ مزاحمت اپنی شرائط پر جنگ بندی کرنے میں کامیاب ہوئی، جس کی پیشکش اس نے 8 اکتوبر کو ہی کر دی تھیں، اور اس نے اپنی مرضی سے وقت اور جگہ کا تعین کیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جنگ بندی اس کی شرطوں پر ہوئي۔ اب تصور کیجیے: مزاحمتی فورسز کے مختلف دھڑوں نے نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ آسانی سے ہم آہنگی قائم رکھی اور وہ ہم آہنگی کے ذریعے قیدیوں کو طے شدہ جگہ پر پہنچانے میں کامیاب رہے، جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ استقامتی دھڑوں کا باہمی رابطہ مضبوط اور بلا روک ٹوک جاری ہے بلکہ یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ نہ صرف صیہونی حکومت بلکہ اس کے اتحادی امریکا اور برطانیہ نے بھی قیدیوں کی تلاش کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کو 45 دنوں تک استعمال کیا لیکن وہ پوری طرح سے ناکام رہے۔ صیہونی حکومت ان قیدیوں کی رہائی کا اپنا تیسرا اہم ہدف بھی مزاحمت کے ساتھ جنگ بندی کیے بغیر اور اس کے مطالبات کو پورا کیے بغیر حاصل نہیں کر سکی۔
طاقت کے زعم میں کیے جانے والے مذاکرات کی وضاحت معروف فلسطینی تجزیہ نگار رمزی بارود نے ان الفاظ میں کی ہے: "حماس کا موقف تبدیل نہیں ہوا ہے لیکن یہی بات اسرائیل کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔ اسرائیل کا موقف، چاہے وہ سیاسی ہو یا فوجی، ابہام اور تضادات کا حامل ہے۔ فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ اسرائیل نے منگل 28 نومبر کو جنگ بندی کی شرائط کی خلاف ورزی کی ہے، ویسے ہی اس نے جوابی کارروائی کی۔ ایک بار پھر، حماس کا پیغام یہ ہے کہ وہ کمزور پوزیشن کی وجہ سے جنگ بندی پر راضی نہیں ہوئی ہے اور جیسے ہی ضروری ہو وہ لڑائی دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔"
اب جبکہ جنگ دوبارہ شروع ہو گئی ہے، ہم کیا توقع رکھیں؟ پہلے مرحلے میں اپنے کسی بھی آپریشنل یا حتیٰ کہ ٹیکٹکل اہداف کے حصول میں ناکام رہنے کے بعد آئي ڈی ایف اب مزاحمت کی فوجی طاقت کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جنوبی غزہ میں آپریشن شروع کر کے اسے امید ہے کہ وہ مزاحمت کو دو محاذوں پر لڑنے پر مجبور کر دے گی اور اس طرح اسے کم موثر بنا دے گی لیکن یہ کام کہنا آسان ہے، کرنا مشکل ہے۔ آئي ڈی ایف نے ابھی تک شمالی غزہ کے گھنی آبادی والے علاقوں جیسے کہ سابقہ جبالیہ پناہ گزین کیمپ کی جگہ اور الزیتون اور الشجاعیہ جیسے استقامتی فورسز کے مضبوط علاقوں میں قدم نہیں رکھا ہے۔ یہیں پر مزاحمت کا زیر زمین انفراسٹرکچر سب سے زیادہ مضبوط ہے۔ جنگ بندی سے ایک دن پہلے آئی ڈی ایف نے غزہ شہر کے اطراف کی سڑکوں پر گھسنے کی اپنی پہلی سنجیدہ کوشش کی جس کے بعد اس نے اپنے 13 فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا۔ زمینی ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ڈی ایف کو ہونے والا جانی نقصان، اس کے دعوے سے کم از کم تین گنا زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ الشاطی ساحلی کیمپ میں بھی، جو عملی طور پر تین اطراف سے گھرا ہوا محلہ ہے اور اس میں مزاحمت کے استعمال کے لیے بہت محدود زیر زمین انفراسٹرکچر ہے، آئي ڈی ایف اب تک کسی بھی طرح سے گھسنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
7 اکتوبر کو استقامتی محور کو جو اسٹریٹیجک فتح حاصل ہوئي، اسے اب ختم نہیں کیا جا سکتا، صیہونی حکومت یہ بات جانتی ہے۔ غزہ میں شہریوں کے خلاف اس کی جانب سے طاقت کا بے دریغ استعمال اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دو مہینوں کے حملوں کے بعد بھی کسی طرح کی ٹیکٹکل جیت تک حاصل کرنے میں ناکامی نے اس کی جھنجھلاہٹ اور مایوسی کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اسی وجہ سے عام شہریوں اور انفراسٹرکچر پر اس کے حملے تیز ہو گئے ہیں۔ لیکن کسی بھی طرح کی سفاکانہ تباہی اس کی اسٹریٹیجک شکست کو چھپا نہیں سکتی۔
اپنے کسی بھی فوجی ہدف کے حصول میں ناکامی سے مایوسی اور جھنجھلاہٹ کا شکار صیہونی حکومت نے ایک بار پھر عام شہریوں کا قتل عام اور بنیادی شہری تنصیبات کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ مغرب اور خلیج فارس کے علاقے نیز مشرق وسطیٰ کی دیرینہ سلطنتوں کی غیر تحریری منظوری سے خواتین اور بچوں سمیت سیکڑوں شہریوں کا دوبارہ قتل عام کیا جا رہا ہے۔ مغرب اور ان سلطنتوں کا وجود کئی لحاظ سے میدان جنگ میں صیہونی حکومت کی کارکردگی سے جڑا ہوا ہے اور دونوں ہی کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسکتی ہوئي دکھائی دے رہی ہے۔