اسلامی گھرانہ

2025 June
پردے کے لیے عورت کا اہتمام، عورت کا خود اپنے لیے پردے یا حجاب کا اہتمام عورت کی عزت و تکریم ہے اور عورت کا احترام ہے، عورت کے لیے صاف ستھرا ماحول بنانا ہے، مغربی تہذیب میں اسی حرمت کو پامال کردیا گیا ہےاور روز بہ روز اس کی پامالی بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ اس کو مختلف نام بھی دیتے جارہے ہیں، اس مسئلے نے سب سے پہلا خراب اثر یہ پیدا کیا ہے کہ خاندان اور گھر کو اجاڑ دیا ہے، گھرانوں کی بنیاد کمزور ہوگئی۔ امام خامنہ ای 1 مئی 2013
2025/06/28
گھر، جسم و روح کی آسائش کا بہترین ماحول ہے، جسم و روح کی تھکن دور کرنے کا بہترین مرکز ہے، عشق و اخلاص کی حقیقی ترین فضا ہے، کسی بھی ماحول میں گھر کی طرح کا عشق و اخلاص قابل تصور نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی وجود پایا جاتا ہے۔ گھریلو عورتوں نے، عظیم ترین خدمات انجام دی ہیں۔ جن خواتین نے گھریلو خدمات اور خانہ داری کو ترجیح دی ہے ان کی خدمات کی قدردانی ضروری ہے۔ اگرچہ گھر سے باہر کی خدمات بھی خواتین کے ذمے رہی ہیں اور رہیں گی لیکن گھر، زنانہ خدمات کا اہم ترین حصہ ہے۔ امام خامنہ ای 3  فروری 2021
2025/06/07
May
اسلام میں شادی کا طریقہ بقیہ ادیان اور بقیہ قوموں سے مختلف ہے، تمہیدی اقدامات کے اعتبار سے بھی اور اصل شادی نیز اس کے تسلسل اور بقا و دوام میں بھی انسان کی بھلائی کو پیش نظر رکھا گیا ہے، البتہ بقیہ ادیان کی شادیاں بھی ہماری نظر میں معتبر اور محترم ہیں، لیکن یہ طریقہ جو اسلام نے معین کیا ہے، ہم اس کو بہتر مانتے ہیں، مرد کے لیے کچھ حقوق ہیں، عورت کے لیے بھی کچھ حقوق ہیں، زندگی کے آداب اور طریقے ہیں۔ اسلام نے شادی کے لیے ایک روش اور طریقہ معین کیا ہے، بنیاد یہ ہے کہ خاندان پائیدار اور خوشحال رہے۔ امام خامنہ ای 8 اپریل 1998
2025/05/31
افراد اور خاندانوں کی سعادت کے اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ فضول کی چیزوں کی پابندی، عیش و عشرت کی کثرت اور ضرورت سے زیادہ مادی امور سے آراستہ زندگی سے دوررہا جائے یا کم سے کم ان چیزوں کو زندگی کا اصل حصہ شمار نہ کریں، انھیں ایک ذیلی اور غیر ضروری چیز سمجھیں، زندگی کو شروع سے ہی سادہ و آسان بنائیں اور زندگی اور گھر کا ماحول قابل قبول اور قابل تحمل قرار دیں۔ سادگی، آرام و سکون سے منافات نہیں رکھتی بلکہ آرام و سکون بھی بنیادی طور پر سادہ زندگی گزارنے سے ہی میسر ہوتا ہے۔ امام خامنہ ای 9 جولائی 1998
2025/05/24
ظلم و ستم، امتیازی سلوک اور توہین و تحقیر ہر حال میں غلط ہے، اگر آپ دنیا کے اعلیٰ ترین مرد ہوں اور آپ کی بیوی، بالفرض تعلیم اور معلومات کے لحاظ سے ایک کم علم خاتون ہوں یا ایک نچلے خاندان اور طبقے سے تعلق رکھتی ہوں تب بھی آپ کو اپنی بیوی پر معمولی ترین ظلم اور اس کی اہانت کا حق نہیں ہے۔ بیوی بھی اسی طرح ہے، بعض اوقات ایک پڑھی لکھی لڑکی جو اعلی تعلیم یافتہ طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور مثال کے طور پر ایک ادنیٰ طبقے کے مزدور سے شادی کرلیتی ہے تو وہ بھی شوہر کی توہین کا حق نہیں رکھتی، شوہر بہرحال اس کے لیے سہارا ہے، اس کو اس پر تکیہ کرنا چاہیے۔ امام خامنہ ای 12 مارچ 2000
2025/05/18
میاں بیوی جس وقت گھر میں آتے ہیں تو ان کا دل چاہتا ہے کہ گھر ان کو آرام و سکون، امن و امان اور راحت و آسودگی کا احساس عطا کرے، دونوں ایک دوسرے سے توقع رکھتے ہیں کہ کاش ماحول کو شاد و شاداب، زندگی کے لائق اور تھکن دور کردینے کے قابل بنادیں، یہ توقع بالکل بجا ہے، بےجا نہیں ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے اس طرح کی توقع رکھیں۔ میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لیے آرام و سکون کا ذریعہ ہونا چاہیے، آپ دونوں افراد کے لیے گھر امن و امان اور راحت و سکون کا مقام ہونا چاہیے۔ امام خامنہ ای 09 جون 2004
2025/05/10
میاں بیوی جس وقت گھر میں آتے ہیں تو ان کا دل چاہتا ہے کہ گھر ان کو آرام و سکون، امن و امان اور راحت و آسودگی کا احساس عطا کرے، دونوں ایک دوسرے سے توقع رکھتے ہیں کہ کاش ماحول کو شاد و شاداب، زندگی کے لائق اور تھکن دور کردینے کے قابل بنادیں، یہ توقع بالکل بجا ہے، بےجا نہیں ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے اس طرح کی توقع رکھیں۔ میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لیے آرام و سکون کا ذریعہ ہونا چاہیے، آپ دونوں افراد کے لیے گھر امن و امان اور راحت و سکون کا مقام ہونا چاہیے۔ امام خامنہ ای   09 جون2004
2025/05/05
زندگی کا میدان، مقابلے کا میدان ہے اور مرد اس میدان میں ہمیشہ ایک طرح کے اضطراب سے دوچار رہتا ہے، یہ بہت ہی اہم چیز ہے۔ اگر گھر میں اسے یہ آرام و سکون صحیح طریقے سے میسر رہے تو اس کی زندگی کامیاب گزرے گی، بیوی خود کو خوش بخت سمجھے گی، جو بچے اس گھر میں پیدا ہوں گے اور پرورش پائیں گے، وہ کسی نفسیاتی پیچیدگی کے بغیر پروان چڑھیں گے اور سعادتمند ہوں گے۔ یعنی اس رخ سے تمام گھر کے تمام افراد کے لیے خوش بختی و کامرانی کی راہ فراہم ہوگی۔ امام خامنہ ای   22 جولائی 1997  
2025/05/03
April
میاں بیوی کے باہمی تعاون سے مراد روحانی تعاون ہے کہ عورت، مرد کی ضرورتوں کو محسوس کرے، اس پر اخلاقی دباؤ نہ ڈالے۔ کوئی ایسا کام نہ کرے کہ اسے زندگی کے مسئلے میں دوری اور تنہائی کا احساس ہو اور وہ خدا نخواستہ غلط راہ اپنانے پر مجبور ہو۔ چنانچہ اگر شوہر کے کام کاج سے کسی حد تک گھر کے حالات متاثر ہو رہے ہوں جیسے وہ گھر کی ضروریات کو پورا نہ کر سکے تو زوجہ اس کے سامنے یہ بات نہ کہے۔ یہ باتیں بہت اہم ہیں، دوسری طرف مرد کا بھی فرض ہے کہ وہ عورت کی ضرورتوں کو محسوس کرے، اس کے احساسات کو سمجھے اور اس کے حالات کی طرف سے غفلت نہ کرے۔ امام خامنہ ای   29 اپریل 1996  
2025/04/26
شادی کا اصل مسئلہ دو وجودوں کی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ باہمی مفاہمت، انسیت اور یگانگت سے عبارت ہے۔ یقیناً یہ ایک قدرتی امر ہے لیکن اسلام نے جو طریقے، رسم و رواج اور اصول و آئین قرار دیے ہیں اور شادی کے لیے جو احکام بیان کیے ہیں، ان کے ذریعے اس میں دوام و برکت پیدا ہوتی ہے۔ میاں بیوی کو ایک دوسرے کو سمجھنا چاہیے، ہر ایک کو دوسرے کے درد و اور خواہشوں کو سمجھنا اور فریق مقابل کی ہمراہی کرنا چاہیے، اسی کو کہتے ہیں سمجھنا۔ مشہور کہاوت کے مطابق: زندگی میں افہام و تفہیم اور ایک دوسرے کو سمجھنا ضروری ہے، یہ چیزیں محبت بڑھا دیتی ہیں۔ امام خامنہ ای 25 اگست 1992
2025/04/19