اسلامی گھرانہ

2025 December
عورت کی ایک اہم ترین ذمہ داری گھر کی خانہ داری ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ میرا یہ ماننا نہیں ہے کہ عورتوں کو سیاسی اور سماجی کاموں سے دور رہنا چاہیے، نہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر اس کے معنی یہ لیے جائيں کہ ہم "خانہ داری" کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں تو یہ گناہ ہوگا۔ خانہ داری، ایک کام ہے، بڑا کام ہے، اہم ترین و حساس ترین کام ہے، مستقبل ساز کام ہے۔ افزائش نسل ایک عظیم مجاہدت ہے۔ امام خامنہ ای 1 مئی 2013
2025/12/27
اسلام نے حقیقی معنیٰ میں خواتین کا بہت زیادہ احترام کیا ہے۔ اگر اس نے گھر کے اندر ماں کے کردار اور ماں کے احترام پر زور دیا ہے یا گھر کے دائرے میں رہ کر ایک خاتون کے گھریلو کردار، اثرات، حقوق و فرائض اور حد بندیوں پر تاکید ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اسلام ایک خاتون کو سماجی مسائل میں شرکت، سماجی جدوجہد میں حصہ لینے اور عوامی سرگرمیوں میں مشغولیت سے منع کرتا ہے۔ عورت کو ایک اچھی ماں اور اچھی بیوی بھی ہونا چاہیے اور سماجی امور میں بھی شرکت کرنا چاہیے۔ حضرت جناب فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) اسی طرح کی سماجی شخصیت کا مظہر ہیں، زینب کبریٰ (سلام اللہ علیھا) میں مختلف پہلوؤں کا اکٹھا ہونا ایک اور نمونہ ہے۔ امام خامنہ ای 27 جولائی 2005
2025/12/20
پرانے زمانے میں زیادہ تر کہا جاتا تھا کہ لڑکی کو نبھانا چاہیے، جیسے وہ اس بات کے قائل تھے ہی نہیں کہ لڑکے کو بھی نبھانا چاہیے۔ نہیں! اسلام یہ بات نہیں کہتا؛ اسلام کہتا ہے کہ شوہر اور زوجہ دونوں کو نبھانا چاہیے، دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بنا کر رکھنا چاہیے اور یہ طے کرنا چاہیے کہ گھریلو زندگی ایک دوسرے سے عشق و محبت کے ساتھ، پورے اطمینان و سکون اور شفاف طریقے سے گزاریں گے، جاری رکھیں گے اور اس کی حفاظت کریں گے۔ اگر ایسا ہو گیا جو کہ انشاء اللہ اسلامی تربیت کے ساتھ کرنا مشکل بھی نہیں ہے تو یہ گھرانہ وہی صحیح سالم گھرانہ ہوگا جیسا اسلام چاہتا ہے۔ امام خامنہ ای 2 اگست 1995
2025/12/13
بیرون خانہ اپنی مصروفیات کے سبب جو خواتین بچوں کی پیدائش سے گریز کرتی ہیں اور انسانی فطرت کے برخلاف زنانہ احساسات کا گلا گھونٹتی ہیں، خداوند عالم ان کے اس عمل سے راضی نہیں ہے۔ جو خواتین اولاد کی پیدائش، اولاد کی پرورش، بچے کو دودھ پلانے اور مہرومحبت کے ساتھ اسے اپنی آغوش میں پالنے اور بڑا کرنے پر دیگر امور کو، جو ان کے بغیر بھی ممکن ہیں، ترجیح دیتی ہیں، ایک بڑی غلطی کا شکار ہیں۔ انسان کے بچے کی تربیت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مہرومحبت کے ساتھ ماں کی آغوش میں اس کی پرورش ہو۔ امام خامنہ ای 10 مارچ 1997
2025/12/06
November
میں پورے ملک کے تمام لوگوں سے تاکید کرتا ہوں کہ شادیوں کو آسان بنائيں۔ بعض ہیں جو شادی کو مشکل بنا دیتے ہیں۔ مہر کی بھاری رقم اور جہیز کی بھاری (اور لمبی چوڑی) فہرست، شادی کو مشکل بناتی ہے۔ لڑکوں کے گھر والے بھاری جہیز کی توقع رکھتے ہیں اور لڑکیوں کے گھر والے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی جہیز، استقبال (بارات) اور عقد و رخصتی کی محفلوں کو زیادہ سے زیادہ رنگین کردیتے ہیں!! کیوں؟ آپ جانتے ہیں کہ اس کا اثر کیا ہوتا ہے؟ اس کا اثر یہ ہے کہ لڑکیاں اور لڑکے بغیر شادی کے (کنوارے) گھر میں پڑے رہتے ہیں کوئی شادی کا نام لینے کی جرات نہیں کرتا۔ امام خامنہ ای 23 نومبر 1994
2025/11/29
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مرد کو گھر میں عورت کا کردار مل جاتا ہے اور عورت، مطلق العنان حاکم بن جاتی ہے۔ وہ مرد پر حکم چلاتی ہے، اس سے کہتی ہے کہ یہ کام کرو اور وہ کام نہ کرو اور مرد بھی دست بستہ سر جھکا دیتا ہے۔ یہ مرد وہ نہیں ہوسکتا جس پر عورت تکیہ کر سکے، عورت اچھے سہارے کو پسند کرتی ہے۔ دوسری جانب بعض اوقات مرد بھی کچھ چیزیں عورت پر تھوپ دیتا ہے جیسے (گھر کی) تمام خریداری، کام کاج اور آنے جانے والوں سے بات چیت کرنا اور مسائل کا نپٹانا عورت کے ذمے ڈال دیتا ہے۔ گھرانے کے کرداروں میں تبدیلی کا نقصان کے علاوہ کوئی اور نتیجہ نہیں ہے۔ امام خامنہ ای 12 مارچ 2000
2025/11/22
ایک دوسر ے کی نسبت شوہر و زوجہ کے باہمی فرائض مختلف ہیں لیکن ان میں توازن پایا جاتا ہے۔ خداوند عالم قرآن میں سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 288 میں ارشاد فرماتا ہے: اور دستورِ شریعت کے مطابق عورتوں کے کچھ حقوق ہیں جس طرح کہ مردوں کے حقوق ہیں۔ جس مقدار میں حق ان (بیویوں) کا ہے اسی مقدار میں حق ان کے مد مقابل (شوہروں) کا ہے یعنی جتنی ایک بات حق کے طور پر ان (خواتین) سے تعلق رکھتی ہے اتنی ہی ایک بات فریق مقابل سے بھی تعلق رکھتی ہے مطلب یہ ہے کہ اُن کے بھی کندھوں پر اتنی ہی ذمہ داری ہے۔ یعنی کسی پر جو بھی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اس کے بدلے میں اسے ایک حق بھی دیا گیا ہے۔ جسے بھی جو  امتیاز دیا گیا ہے اس کے مقابلے میں ایک ذمہ داری بھی رکھی گئي ہے؛ ایک مکمل توازن۔ امام خامنہ ای 2 جنوری 2023
2025/11/15
گھرانے میں عورت، کبھی بیوی کے کردار میں سامنے آتی ہے، کبھی ماں کے کردار میں سامنے آتی ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی اپنی خصوصیات ہیں، بیوی کے کردار میں عورت سب سے پہلے آرام و سکون کا مظہر ہے کیونکہ زندگی تلاطم اور الجھنوں سے بھری ہوئي ہے۔ مرد اس دریائے زندگی میں کام کاج کی مشغولیت اور پریشانیوں سے الجھا ہوتا ہے۔ وہ جب گھر آتا ہے تو اسے آرام و سکون کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اطمینان اور راحت چاہتا ہے۔ یہ چین اور سکون گھر میں بیوی پیدا کرتی ہے۔ مرد عورت کے پہلو میں آرام و سکون کا احساس کرے۔ عورت آرام وسکون کا سرچشمہ ہے ۔ عورت، بیوی کی حیثیت سے مکمل عشق اور آرام و سکون ہے۔ امام خامنہ ای 2 فروری 2023
2025/11/08
لڑکی اور لڑکا، دلہن اور دولھا آپس کے رشتۂ محبت کو مضبوط کریں کیونکہ محبت وہ بندھن ہے جو ان کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھے رکھتا ہے، دونوں باہم اور محفوظ رہتے ہیں، محبت انھیں جدا نہیں ہونے دیتی، یہ بہت اچھی چیز ہے۔ محبت ہوگی تو وفاداری بھی ہوگی، بے وفائی، بدقماشی اور ایک دوسرے سے خیانت و کدورت ان کے درمیان نہیں پیدا ہوگی، محبت ہوگی تو ماحول انس و الفت کا ہوگا، زندگی کی فضائیں اچھی، قابل استفادہ، شیریں و خوشگوار ہو جائیں گی۔ امام خامنہ ای 15 دسمبر 1997
2025/11/01
October
زیادہ تر گھرانوں کی تباہی کی وجہ ایک دوسرے کا خیال نہ رکھنا ہے۔ مرد کو پاس و لحاظ رکھنا نہیں آتا، عورت سمجھداری نہیں دکھا پاتی۔ وہ حد سے زیادہ سختی اور غصے سے کام لیتا ہے، یہ بے صبری کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ہر بات پر اعتراض و احتجاج ہوتا ہے۔ اگر کبھی غلطی ہو گئی تو وہ فورا غضبناک نہ ہو جائے، یہ نافرمانی نہ کرے۔ ایک دوسرے سے تعلقات بنائے رکھیں تو کوئی بھی گھر بکھرے گا نہیں اور کنبہ محفوظ رہے گا۔  امام خامنہ ای 8 فروری 1997
2025/10/25