بسم الله الرّحمن الرّحیم

والحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المهدیّین المعصومین سیّما بقیّة ‌الله فی الارضین.

برادران عزیز، خواہران گرامی! خوش آمدید۔ آپ دور دراز کے شہروں سے، گرمی کے اس موسم میں تشریف لائے۔ آپ میں بہت سوں کے اندر جو خاص اخلاص ہے اس کی روشنی سے یہ حسینیہ آج منور ہو گیا، روشن ہو گيا۔ اس طرح کے اجتماعات سے انتظامی، سیاسی اور بین الاقوامی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ روحانی پہلوؤں کی بھی امید رکھنا چاہئے، توقع کرنا چاہئے، آس لگانی چاہئے۔ آپ کے درمیان یقینا پاکیزہ سانسوں، طاہر و نورانی دلوں والے اور مستجاب الدعوات افراد موجود ہیں۔ ہم نے ان سے امیدیں لگا رکھی ہیں، توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔

ماہ ذی الحجہ کا پہلا دن ہے۔ ذی الحجہ کا مہینہ بھی بڑا عجیب ہے۔ دعا کا مہینہ، مناجات کا مہینہ، اپنے پیغمبر عظیم الشان سے اللہ تعالی کی میقات کی یاددہانی کرانے والا مہینہ ہے۔ اس تضرع، دعا اور توسل کے سلسلے کا نقطہ کمال عرفہ کا دن ہے۔ اس دن ہم اللہ تعالی سے اپنے شہید امام کے راز و نیاز کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ دعائے عرفہ اپنے عالی مضامین کے ساتھ۔ اس کے بعد عید قربان کا دن ہے، جو بڑی قربانی کی یاد دلاتا ہے۔

 وَ فَدَیناهُ بِذِبحٍ عَظیمٍ‌ (۱) اس کے بعد ماہ ذی الحجہ کے دوسرے عشرے میں ہم قدم رکھتے ہیں۔ یہ غدیر کا عشرہ ہے۔ بڑا عجیب واقعہ ہے۔ یہ بہت اہم مہینہ ہے یہ ماہ محرم کا مقدمہ ہے۔ ان مواقع سے ہمیں روحانی استفادہ کرنا چاہئے۔

آپ میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ آپ کے دل پاکیزہ ہیں۔ آپ کی روحیں پاکیزہ ہیں۔ ہم جیسے لوگوں کے مقابلے میں جو ایک عمر گزار چکے ہیں آپ کی آلودگیاں بہت کم ہیں۔ آپ اللہ کی جانب متوجہ ہوں؛ «وَ اسئَلُوا اللهَ مِن فَضلِه» (۲) اپنے تمام امور میں فضل الہی کی دعا کیجئے۔ ذاتی امور میں بھی، سماجی امور میں بھی، سیاسی امور میں بھی اور بین الاقوامی امور میں بھی۔ اللہ تعالی آپ کی دعا قبول کرے گا۔ جب آپ کو فضل پروردگار اور الہی برکتوں کا یقین حاصل ہو جائے گا تو اس کی پہلی خاصیت یہ ہے کہ آپ اپنے اندر توانائی محسوس کریں گے، خود کو طاقتور محسوس کریں گے، کمزوری، خوف وغیرہ جیسے احساسات آپ سے دور ہو جائيں گے۔ یہ بڑی باعظمت کیفیت ہے، بڑی قیمتی صورت حال ہے۔ چونکہ آپ نے اللہ پر، لا متناہی قدرت اور لا زوال نعمت پر تکیہ کیا ہے اس لئے آپ کے اندر جو دوسرا احساس پیدا ہوگا وہ امید کا احساس ہے۔ آپ کے اندر امید کا جذبہ پیدا ہوگا۔ امید بڑھے گی اور آپ کا دل نور امید سے روشن ہو جائے گا۔ جب امید ہو، توکل ہو، خود اعتمادی ہو، قدرت خداوندی پر تکیہ ہو تو پھر قوم ناقابل تسخیر ہو جاتی ہے۔ ایک انسان طاقت کے اعتبار سے، عمل کے اعتبار سے اور پیشرفت کے اعتبار سے لازوال عنصر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ائمہ علیہم السلام کے فرمودات میں اور دعاؤں میں ہمیں اس قدر اللہ سے توسل کرنے، اللہ پر توکل کرنے، بارگاہ خداوندی میں تضرع کرنے کی جو ترغیب دلائی گئی ہے اس کا راز یہی ہے۔ جب آپ کا تکیہ اللہ پر ہوگا تو؛ اِنَّمَا یَکتَفِی‌ المُکتَفونَ‌ بِفَضلِ قُوَّتِکَ فَصَلِّ عَلىٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ اکفِنَا وَ اِنَّما یُعطِی المُعطونَ مِن فَضلِ جِدَتِکَ فَصَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ اَعطِنَا (3) پروردگار! جو لوگ دنیا میں طوفانوں کے سامنے ثابت قدم رہنے میں کامیاب ہوئے انھیں تیری قدرت کا کچھ حصہ عطا ہوا ہے تو اس میں سے ہمیں بھی عنایت فرما۔ صحیفہ سجادیہ میں دعا کی زبان میں امام سجاد علیہ السلام ہمیں سکھاتے ہیں کہ اس طرح دعا مانگو، اس انداز سے طلب کرو۔ یہ جو ہمیں سفارش کرتے ہیں دعا کی اور تضرع کی تو مقصد یہی ہے کہ ہم اپنے آپ کو ہی گم نہ کر دیں، ہم غلطی نہ کر بیٹھیں، خود کو حقیر نہ سمجھیں، کمزور نہ سمجھیں۔ اگر آپ کا تکیہ طاقت و ثروت کے لازوال سرچشمے پر ہوگا تو پھر آپ کسی اور کے محتاج نہیں رہیں گے؛ اللّهُمَّ اَغنِنا عَن هِبَةِ الوَهّابینَ بِهِبَتِکَ وَ اکفِنَا وَحشَةَ القاطِعینَ بِصِلَتِک (4) ساری دنیا بھی منہ موڑ لے تب بھی تم توانا ہو۔ ملت ایران کے اندر اس احساس کی بس ایک جھلک پیدا ہوئي تو چالیس سال سے وہ دنیا کی متکبر، بے شرم، بے غیرت اور ڈھیٹ طاقتوں کے مقابلے میں پوری مضبوطی سے ڈٹی ہوئی ہے۔ اس وادی میں ہمارے اور آپ کے پاس جو کچھ ہے وہ 'مشتے از خروارے' ہے۔ ہمیں اس سرمائے میں اضافہ کرنا چاہئے، اس طرح ہماری قوت و توانائی میں اضافہ ہوگا۔ یہ چند جملے ذی الحجہ کے تعلق سے تھے۔

میں آج آپ سے تین موضوعات کے بارے میں گفتگو کروں گا۔ البتہ مجھے سردی کا کچھ اثر ہے اور گلا صاف نہیں ہے، میں اس کے لئے آپ سے معذرت چاہتا ہوں، آپ معاف کیجئے گا۔ یہ چیزیں ہمیں میدان سے باہر نہیں کر سکتیں۔ ہم تو اپنی بات ضرور کہیں گے۔ تین موضوعات کے بارے میں اتنی گفتگو کروں گا جتنی کہ اس نشست کی فضا اور ماحول مجھے اجازت دے گا۔ ایک موضوع تو اقتصاد اور عوام کی معیشت کا ہے۔ یہ در پیش مسئلہ ہے اور اکثر افراد کے ذہنوں میں ہے۔ اس بابت چند نکات عرض کروں گا۔ ایک موضوع امریکہ کا ہے۔ امریکہ اور اس کی شر انگیزی وغیرہ کا مسئلہ۔ آجکل ان کی طرف سے اور ان جیسے افراد کی طرف سے کئی نئی باتیں کہی جا رہی ہیں، اس قضیئے کے بارے میں بھی اختصار سے کچھ عرض کروں گا۔ ایک موضوع عوام اور عہدیداران کے درمیان سیاسی و عمومی اتحاد و یگانگت اور باہمی تعاون وغیرہ کا ہے۔ ملک بھر میں عوام کو بھی اور عہدیداران کو بھی چاہئے کہ ایک دوسرے کی مدد کی کوشش کریں، ایک دوسرے کی تکمیل کریں۔

تو پہلا موضوع ہے اقتصادیات۔ معیشتی مشکلات۔ آج یہ ایسا موضوع ہے کہ جسے سارے عوام محسوس کر رہے ہیں۔ عوام کا ایک حصہ واقعی بہت سخت دباؤ میں ہے۔ گرانی ہے، اشیائے خورد و نوش، گوشت، مرغ، انڈے اور بقیہ چیزیں جو زندگی کی ضروریات ہیں، گھروں کے کرائے، گھروں میں استعمال کے سامان، دوسری چیزیں، مہنگائی بہت زیادہ ہے۔ اس سے لوگوں پر دباؤ پڑتا ہے۔ کچھ مشکلات در پیش ہیں۔ یا قومی کرنسی کی قدر میں گراوٹ۔ یہ سب ملک کی موجودہ اقتصادی مشکلات ہیں۔

ملک کےاقتصادی ماہرین اور بہت سے عہدیداران اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ ان تغیرات کی وجہ غیر ملکی پابندیاں نہیں ہیں، ان تغیرات کی وجہ اندرونی ہے، داخلی مشکلات ہیں۔ بہت سے عہدیداران نے بھی یہ بات کہی ہے، اس کا ذکر کیا ہے۔ ماہرین بھی جہاں تک مجھے اطلاع ملی ہے تقریبا سبھی اس پر اتفاق رائے رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ پابندیوں کا کوئی اثر نہیں ہے۔ کیوں نہیں، پابندیوں کا بھی اثر پڑا ہے۔ لیکن بنیادی وجہ ہماری اپنی کارکردگی ہے۔ اگر یہ کارکردگی اس سے بہتر ہو، مزید مدبرانہ انداز میں کام کیا جائے، بر وقت اقدام کیا جائے، جو کچھ آج ہو رہا ہے اس سے زیادہ استحکام کے ساتھ کام کیا جائے تو پابندیوں کا کچھ خاص اثر نہیں ہوگا۔ اس کا علاج کیا جا سکتا ہے، پابندیوں کا سامنا کیا جا سکتا ہے۔ بیشتر مشکلات ہمارے داخلی اور اندرونی مسائل کا نتیجہ ہیں۔ مثال کے طور پر آپ اسی فارن کرنسی اور  سونے کے سکے کا قضیہ لے لیجئے جو گزشتہ دو تین مہینے میں  پیش آیا۔ ایک بڑی رقم، بتایا گيا کہ اٹھارہ ارب ڈالر کی نقدی، ہمارے ملک کے لئے جو فارن کرنسی حاصل کرنے میں مشکلات سے دوچار ہے، خود اپنا پیسہ ہم بیرون ملک سے اپنے ملک میں نہیں لا پاتے ہیں، بڑی دشواری ہوتی ہے، اٹھارہ ارب ڈالر جیسی خطیر رقم بے تدبیری اور بے توجہی کی وجہ سے ایسے افراد کے ہاتھوں میں چلی گئی جنہوں نے اس کا غلط فائدہ اٹھایا۔ کسی نے کسی خاص سامان کی ڈیمانڈ دکھائی لیکن کوئی اور چیز امپورٹ کی۔ کسی مقصد کے لئے کسی چیز کی درخواست کی مگر حاصل ہونے والا زر مبادلہ اس مقصد کے لئے خرچ نہیں کیا۔ کہا کہ میں غیر ملکی سفر پر جانا چاہتا ہوں اور نہیں گئے۔ فارن کرنسی لے لی۔ کچھ مقدار استعمال کی اور بقیہ حصہ اسمگلروں کو بیچ دیا جو فارن کرنسی لیکر ملک سے باہر چلے گئے، یا کسی کو فروخت کر دیا اور اس نے جمع کرکے رکھ لیا تاکہ اس کی قیمت مہنگی ہوتی جائے اور پھر وہ دگنی یا تین گنا قیمت میں فروخت کرے اور بے تحاشا دولت حاصل کر لے۔ یہ سب مینیجمنٹ کی مشکلات ہیں۔ ان کا پابندیوں سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ ملک کے محترم عہدیداران کو اس کا اعتراف ہے، اسے مانتے ہیں کہ اس قسم کی مشکلات ہیں۔ بنابریں بہت سی مشکلات اس طرح پیدا ہوئی ہیں۔ ہماری انتظامی روش اور ہماری اجرائی پالیسیوں کی مشکلات ہیں۔

جب بھی فارن کرنسی یا سونے کے سکے کو غلط انداز سے دیا جائے گا تو اس کے دو فریق ہوں گے۔ ایک تو وہ جو آکر اسے لے گا، مثال کے طور پر وہ اسمگلر ہے یا اسمگلر کو فروخت کرتا ہے، دوسرا فریق وہ ہے جو اسے دے رہا ہے۔ ہم پوری طاقت سے اس کے پیچھے پڑے ہیں جو لے رہا ہے۔ اقتصادی بدعنوان، اسمگلر۔ حالانکہ بڑی غلطی اس کی ہے جس نے دیا ہے۔ اس پر توجہ دینا چاہئے۔ حال ہی میں عدلیہ نے جو کام شروع کیا ہے اور جو بہت مناسب اقدام ہے، اس میں اسی پہلو پر توجہ دی جا رہی ہے۔ بلا وجہ کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا ہے، یہ مناسب نہیں ہے۔ لیکن خلاف ورزی تو ہوئی ہے۔ ایک بڑی غلطی تو ضرور ہوئی ہے۔ ہم اسے خیانت کا نام نہیں دیں گے۔ اس حقیر کی زبان اس طرح نہیں چلتی کہ آرام سے کسی پر خیانت کا الزام لگا دیں۔ نہیں، لیکن غلطی تو ہوئی ہے اور بڑی غلطی ہوئی ہے جس کا نقصان عوام کو اٹھانا پڑا ہے۔ جب اچانک زر مبادلہ کی قیمت اتنی بڑھ جائے یعنی ریال کی قیمت نیچے آئی ہے تو جو شخص یومیہ مزدوری کرتا ہے یا معولی تنخواہ پر ملازمت کرتا ہے اس کے لئے تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ جب ریال کی قیمت نیچے آ جائے گی، جب قومی کرنسی کی قیمت گر جائے گی تو یہی مشکلات پیدا ہوں گی جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ تو ایک نکتہ یہی ہے کہ پابندیوں کا اثر تو ہے، ایسا نہیں ہے کہ کوئی اثر نہ ہو لیکن اس منفی اثر کا بڑا حصہ ہمارے اپنے طرز عمل اور انتظامی اقدامات کا نتیجہ ہے۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ دشمن یہیں پر حالات کا غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ دشمن تو گھات لگا کر بیٹھا ہے۔ ہمارا دشمن بھی ہے۔ ہماری قوم ایسی ہے کہ مختلف وجوہات کی بنا پر اس کے خبیث اور رذیل دشمنوں کی کمی نہیں ہے۔ وہ اطراف میں گھات لگا کر بیٹھے ہیں۔ انھوں نے جیسے ہی ملک کے اندر اس مشکل کو دیکھا فورا زخم پر جمع ہو جانے والی مکھیوں کی طرح آکر اس مشکل پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اس سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔ شور مچانے لگتے ہیں کہ اسلامی نظام یہ نہیں کر پایا، اسلامی نظام کمزور تھا۔ مایوسی پھیلاتے ہیں، عوام کو مضطرب کرتے ہیں۔ پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ آپ تو دیکھ ہی رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ عالمی تشہیرات سے آپ کس حد تک آگاہ ہیں۔ اب تو سوشل میڈیا آپ سب کی رسائی میں ہے۔ دائمی طور پر سو سمتوں سے اسلامی نظام کے خلاف، اسلام کے خلاف، اسلامی جمہوریہ کے خلاف، ملک کے سارے اداروں کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ کوئی شخص کوئی غلطی کرتا ہے تو دشمن اس کا غلط فائدہ اٹھاتا ہے۔ یہ دشمن کی شر پسندانہ حرکتیں ہیں۔ اب جب دشمن یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ ملک بند گلی میں پہنچ چکا ہے تو کیا کرنا چاہئے؟

میرا یہ کہنا ہے؛ میں یہ کہتا ہوں کہ ملک میں کوئی بند گلی نہیں ہے۔ اسی اقتصادی میدان میں بھی کوئی بند گلی نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی راہ حل نہ ہو۔ ہرگز نہیں۔ ملک کی مشکلات، اقتصادی مشکلات شناختہ شدہ ہیں اور راہ حل بھی شناختہ شدہ ہے۔ بس یہ کام انجام دینے والے ان شاء اللہ بلند ہمتی کا مظاہرہ  کریں، کمر ہمت کسیں، ویسے یہ کام شروع کر دیا گیا ہے، کچھ کام انجام دیا جا چکا ہے جس کے بارے میں میں ابھی مزید کچھ تفصیلات بتاؤں گا۔ انسان دیکھ رہا ہے، میں جو یہاں بیٹھا ہوں، مجھے مومن، انقلابی، دلچسپی رکھنے والے، اچھی فکر والے، خلاقی صلاحیت والے نوجوانوں کی طرف سے دائمی طور پر خطوط اور پیغامات ملتے ہیں۔ میں انھیں اجرائی اداروں کے پاس بھیج دیتا ہوں کہ وہ استفادہ کریں۔ یہ چیزیں میرے پاس آتی ہیں۔ میں نے حال ہی میں دیکھا کہ تقریبا چالیس اقتصادی ماہرین نے جن میں بعض بڑے معروف ہیں اور بعض کو ہم جانتے ہیں، صدر مملکت کو ایک خط لکھا ہے۔ ملک کی اقتصادی مشکلات کی فہرست تیار کی ہے اور اس کا علاج بھی تجویز کیا ہے۔ میں نے ان کا خط بڑی توجہ سے پڑھا۔ میں نے دیکھا کہ بالکل صحیح ہے۔ میں نے دیکھا کہ یہ خط ہمدردانہ جذبے کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ ایسے افراد ہیں جن کی حکومت، انتظامیہ اور صدر محترم وغیرہ سے کوئی مخالفت نہیں ہے۔ وہ بھی اجرائی شعبوں میں کام کرنے والے حلقوں کا حصہ ہیں۔ لیکن اقتصاد میں ساختیاتی خامیاں ہیں۔ انھوں نے ملکی معیشت کی پیشرفت کے راستے میں موجود مشکلات کا پتہ لگا لیا ہے اور پھر اسے قلمبند کرکے بھیج دیا ہے۔ 20 حل لکھے ہیں۔ میں نے دیکھا تو جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، تقریبا یہ سارے حل بالکل درست ہیں۔ یہ وہی چیزیں ہیں جو ہم کئی سال سے الگ الگ برسوں کے لئے نعرے کے طور پر منتخب کرتے رہے ہیں۔ کلی پالیسیاں جو تینوں شعبوں کے لئے بھیجی جاتی ہیں، اگر ساری نہیں تو بیشتر چیزیں ایسی ہیں جو ان پالیسیوں میں ہم ذکر کر چکے ہیں۔ یہ ماہرین اقتصادیات جو آزاد ہیں، صاحب رائے ہیں، اہل فکر ہیں، انھوں نے ان چیزوں کو بیان کیا ہے۔ تو راہ حل موجود ہے۔ یہ جو دشمن نے اور اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک کے اندر کچھ پست لوگوں نے کسی اخبار میں، کسی ویب سائٹ پر یہ پروپیگنڈا کیا کہ "ملک بند گلی میں پہنچ گيا ہے۔ اب کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ فلاں شیطان اکبر کی پناہ میں جانے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔" یہ تو سراسر خباثت ہے۔ بالکل راستہ موجود ہے۔ راہ حل موجود ہے۔ یہ راستے موجود ہیں جو عہدیداران کے ہاتھ میں ہیں۔ انھیں نافذ کر سکتے ہیں۔ ان پر عمل کر سکتے ہیں۔ میں نے بتایا کہ ان میں سے بعض پر عمل شروع بھی ہو چکا ہے۔ البتہ اس میں مزید سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میں آپ سے یہ باتیں کہہ رہا ہوں، یہ منظر عام پر کہہ رہا ہوں۔ تاہم ملک کے صدر اور ملک کے عہدیداران سے خصوصی ملاقاتوں میں یہی باتیں میں بارہا کہہ چکا ہوں۔ وہ جاکر اس پر کام کرتے ہیں اور اپنی توانائی کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ انھیں چاہئے کہ اچھے افراد اور کام کرنے والے افراد کا انتخاب کریں۔ انھیں مومن نوجوانوں کی خدمات لیں۔ ہمارے پاس افراد کی کمی نہیں ہے۔ ہمارے پاس کام کے لئے آمادہ، محنت کے لئے کمر بستہ پر جوش و با صلاحیت افراد کی کمی نہیں ہے۔ ابھی حال ہی میں یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے تقریبا پانچ ہزار افراد نے مجھے خط لکھا، اپنے دستخط کئے۔ میں نے ابھی خود وہ خط نہیں پڑھا ہے۔ لیکن اس کی اطلاع مجھے ملی ہے۔ انھوں نے لکھا کہ ہم انقلاب کی اور آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ ہم آمادہ ہیں۔ یہ آمادہ ہیں، کام کے لئے آمادہ ہیں۔ ہمارے پاس افرادی قوت کی کمی نہیں ہے۔ الحمد للہ ملک افرادی قوت سے مالامال ہے۔ ان سے استفادہ کرنا چاہئے۔ ان سے مدد لینی جائے، ان شاء اللہ کام انجام پائیں گے۔

میں نے آخری دفعہ منظر عام پر، عید فطر کے دن، نماز میں، عہدیداران  کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ ملک میں نقدی کی مقدار بہت بڑھ گئی ہے۔ یہ بھی غلطیوں کا ایک نتیجہ ہے۔ یہ ایک غلط پالیسی کا نتیجہ ہے کہ ملک میں نقدی کی مقدار اتنی زیادہ بڑھ جائے اور گوناگوں مشکلات پیدا ہوں۔ میں نے کہا کہ عہدیداران اگر ایسے راستے نکال سکیں جن سے یہ نقدی، پیداواری معیشت کی جانب جائے، خواہ صنعتی شعبے میں، یا زرعی شعبے میں، یا ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں تو یہی نقدی جو آج ایک مشکل بن گئی ہے، بڑی مددگار ثابت ہوگی۔ اس نقدی کی نصف مقدار کو ہی صحیح سمت میں لے جائیں۔ یہ صورت حال ہے۔ میں اس وقت بھی محترم حکومتی عہدیداران سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ میں حکومت کی حمایت کرتا ہوں۔ میں ہر حکومت کی حمایت کرتا ہوں۔ میں تاکید کے ساتھ یہ سفارش کر رہا ہوں کہ آپ بیٹھ کر سوچئے، صاحب رائے اور ماہر افراد کی مدد لیجئے جو نقدی کی اس بڑی مقدار کو پیداوار کی جانب لے جا سکیں۔ یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ یہ قابل عمل ہے۔ یہ حکومتی اور اقتصادی عہدیداران کی ذمہ داری ہے۔ انھیں یہ کام کرنا چاہئے۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ جو لوگ اقتصادی مسائل کا تجزیہ کرتے ہیں اور کبھی کبھی رپورٹیں پیش کرتے ہیں اور ملک کے اعلی عہدیداران تک اپنے یہ تجزئے پہنچاتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بازار میں جو مشکل پیش آئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ دشمن اگست یا نومبر سے پابندیاں عائد کرنے والا تھا اور چونکہ اقتصادی شعبے میں سرگرم افراد کو اس کا علم  تھا اس لئے انھوں نے خود کو نئے حالات کے لئے آمادہ کیا۔ بہت اچھی بات ہے۔ جب اقتصادی شعبے میں کام کرنے والے افراد کو معلوم تھا کہ پابندیاں لگنے والی ہیں اور انھوں نے خود کو آمادہ کر لیا تو ملک کے عہدیداران کو تو پابندیوں سے نمٹنے کے لئے اور بھی پہلے تیاری کر لینی چاہئے تھی۔ میں نے عرض کیا کہ پابندیوں کا اثر محدود ہوتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تیس فیصدی، کچھ کہتے ہیں بیس فیصدی۔ مجھے مقدار کا علم نہیں ہے کہ میں کہوں تیس فیصدی یا بیس فیصدی، لیکن اتنا جانتا ہوں کہ اثر محدود ہے۔ اگر پابندیوں کا واقعی اثر ہوتا ہے تو آپ کو جب معلوم تھا کہ پابندیاں لگنے والی ہیں تو آپ خود کو آمادہ کر لیتے۔ آّپ خود کو تیار کیجئے۔ سب تیاری کریں۔ اب بھی یہی کرنا چاہئے۔ ابھی دیر نہیں ہوئی ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ بہت دیر ہو چکی، کوئی کہتا ہے کہ اب ممکن نہیں ہے تو فضول بات کرتا ہے۔ یا وہ جاہل ہے یا یونہی بے بنیاد باتیں کر رہا ہے۔ جی نہیں، کوئی دیر نہیں ہوئی ہے۔ اب بھی دشمن کے معاندانہ اور خبیثانہ اقدام کے مقابلے میں، ابھی اس دشمن کی بھی خبر لیتے ہیں، ضروری اقدامات انجام دیں۔ یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ جی نہیں، کچھ نہیں ہو سکتا، اب تو ہاتھ سے سب نکل چکا ہے، یعنی سارے راستے بند ہو گئے ہیں، اگر کوئی ایسی بات کہتا ہے تو یا وہ جاہل ہے یا پھر میں نے عرض کیا کہ کسی کو خیانت کی نسبت نہیں دینا چاہتا، لیکن بہرحال اگر جہالت کا نتیجہ نہیں تو اس کی بات خائنوں والی ہے۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ تھا۔

 ایک اور موضوع ہے کرپشن کا۔ ایک بہت ضروری کام ہے کرپشن کا سد باب۔ عدلیہ کے محترم سربراہ نے پرسوں مجھے جو خط لکھا اور ہم نے جواب دیا اور تاکید کی، یہ ایک اہم اور مثبت قدم ہے بد عنوانی اور بدعنوان لوگوں سے نمٹنے کے لئے۔ بدعنوان کو سزا ضرور ملنی چاہئے۔ ہم یہ بات کیوں اعلانیہ کہتے ہیں اور اس پر تاکید  کرتے ہیں؟ اس لئے ایسا کرتے ہیں کہ تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ جب بد عنوانی اور بدعنوان افراد کے خلاف سخت کارروائی ہوتی ہے تو گوشہ و کنار سے چیخ پکار بلند ہونے لگتی ہے۔ میں نے دس بارہ سال پہلے تینوں شعبوں کے سربراہوں کو ایک خط لکھا تھا بد عنوانی کے بارے میں۔ میں نے اس میں لکھا تھا، مضمون کچھ اس طرح کا تھا، دستاویزات وغیرہ میں موجود بھی ہے، کہ کرپشن سات سروں والے اژدہے کی مانند ہے۔ کرپشن ایسا ہوتا ہے۔ آپ نے اس کا ایک سر کچلا تو دوسرے کئی سر اٹھاتا ہے۔ اس کا پوری طرح مقابلہ کرنا چاہئے۔ ہم جو یہ بات اعلانیہ کہہ رہے ہیں تو اس لئے کہ سب جان لیں، سمجھ لیں کہ بد عنوان افراد کے خلاف بغیر کسی رعایت کے سخت کارروائی ہونے جا رہی ہے (5)۔ (ذرا رک جائیے، ذرا رک جائیے، کیا آپ عدالت ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ پھانسی دی جانی چاہئے؟) (6) ان میں سے بعض ممکن ہے پھانسی کے حقدار ہوں، بعض پھانسی کے حقدار نہ ہوں بلکہ جیل کے مستحق ہوں۔ ماحول نہ بنائیے کہ پھانسی ہی دی جائے تاکہ عہدیداران مجبور ہو جائیں پھانسی دینے پر۔ البتہ وہ مجبور نہیں ہوتے، لیکن متاثر ہوتے ہیں۔ میں نے لکھا ہے کہ منصفانہ اقدام ہونا چاہئے، توجہ سے کام ہونا چاہئے۔ یعنی کام باریک بینی کے ساتھ اور منصفانہ ہونا چاہئے۔

کرپشن کے سلسلے میں ایک اہم نکتہ ہے۔ یہ بھی عرض کر دوں۔ اس پر سب توجہ دیں۔ پوری ملت اس پر توجہ دے۔ میں بہت پہلے سے اقتصادی بد عنوانی اور بدعنوان افراد کے خلاف کارروائی کرتا آیا ہوں، مخالفت کرتا رہا ہوں۔ اس وقت بھی میرا وہی نظریہ ہے۔ لیکن بعض لوگ جب بدعنوانی کے بارے میں بات کرتے ہیں تو انتہا پسندی پر اتر آتے ہیں۔ آپ محتاط رہئے! وہ ایسی بات کرتے ہیں کہ گویا سب بد عنوان ہو گئے ہیں۔ تمام عہدیداروں اور تمام اداروں میں کرپشن پھیل گیا ہے۔ جی نہیں، ایسا نہیں ہے۔ تھوڑے سے لوگ بدعنوان ہیں۔ بے شک کرشپن تھوڑا سا بھی ہو تو بھی بہت زیادہ ہے، اس کا سد باب کیا جانا چاہئے۔ یہ ایک الگ بات ہے۔ لیکن اگر آپ اس طرح بات کرتے ہیں کہ سننے والے کو محسوس ہو کہ بدعنوانی ہر جگہ پھیل گئی ہے تو یہ ایک  الگ چیز ہے۔ کچھ لوگ انگریزی اصطلاحات بھی استعمال کرتے ہیں، کرپٹ سسٹم کی بات کرتے ہیں۔ جی نہیں! جسے سسٹم کرپٹ نظر آ رہا ہے اس کا دماغ خراب ہو گيا ہے، اس کی آنکھ میں کرپشن چھا گيا ہے۔ اتنے سارے پاکدامن عہدیداران! اتنے مومن اور پاک دامن اہلکار پورے ملک میں، تمام اداروں میں موجود ہیں۔ محنت سے کام کر رہے ہیں۔ آپ ان پر کیوں ظلم کرتے ہیں؟ کیوں جھوٹ بولتے ہیں؟ اسلامی نظام پر کیوں ظلم کرتے ہیں؟ بے شک اسلامی نظام میں ایک شخص بھی بدعوان نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن جو بدعنوان ہیں وہ دس عدد ہیں نو ہزار اور دس ہزار نہیں ہیں۔ ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ اس پر آپ توجہ رکھئے۔ بعض لوگ گفتگو میں اور تحریر میں، اب تو سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، بڑی آسانی سے یہاں وہاں لکھ دیتے ہیں کہ جناب ہر طرف بدعنوانی پھیل چکی ہے۔ جی نہیں! ایسا نہیں ہے۔ ہاں کرپشن ہے۔ مختلف اداروں میں کرپشن ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ مثال کے طور پر پارلیمنٹ میں یا دوسرے اداروں میں کچھ لوگوں پر الزام لگاتے ہیں۔  اگر آپ غور کیجئے تو پائیں گے کہ جو لوگ مورد الزام قرار پائیں گے ہیں وہ چند  افراد ہیں۔ ان چند افراد کی بنیاد پر لوگ سب کو ملزم قرار دے دیتے ہیں۔ وہ بھی تب جب یہ الزام صحیح ہو۔ کبھی کبھی تو ممکن ہے کہ الزام ہی جھوٹا ہو، خلاف حقیقت ہو، لا علمی کی وجہ سے ہو، بے خبری کی وجہ سے ہو۔ اگر الزام صحیح ہو تب بھی بہت سارے لوگوں کے مقابلے میں چند افراد مورد الزام ہوں گے۔ آپ دھیان رکھئے، کسی بھی چیز میں انتہا پسندی ٹھیک نہیں ہے۔

اب ان باتوں کا خلاصہ؛ اقتصادی مسائل کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ ملک میں اقتصادی مشکلات موجود ہیں جن کی شناخت ہو چکی ہے اور ان کا حل بھی معلوم ہے۔ خواہ وہ ساختیاتی راہ حل ہو یا کوتاہ مدتی حل ہو۔ میں نے تینوں شعبوں کے سربراہوں سے کہا کہ مشترکہ میٹنگ کریں تاکہ ملک کے اقتصادی مسائل کے لئے سب مشترکہ طور پر غور کریں اور مشکلات کا حل تلاش کریں۔ میں نے دو مہینہ قبل یہ کہا تھا۔ یہ میٹنگ تسلسل کے ساتھ ہو رہی ہے۔ تینوں شعبوں کے سربراہان تینوں شعبوں سے تعلق رکھنے والے دیانتدار ماہرین کے ساتھ بیٹھ کر اقتصادی مسائل کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔ یہ بہت اہم کام ہے۔ ہم نے حضرات سے اس کا مطالبہ کیا اور وہ اس پر عمل کر رہے ہیں۔

نگرانی کرنے والے اداروں کو چاہئے کہ پوری قوت سے اور آنکھیں کھلی رکھ کر میدان میں حاضر رہیں۔ انٹیلیجنس ادارے بھی، عدلیہ سے متعلق نظارتی ادارے بھی، پارلیمنٹ سے متعلق نظارتی ادارے بھی اسی طرح مومن عوام بھی جو اپنی ذمہ داری محسوس  کرتے ہیں اور اپنا فریضہ سمجھتے ہیں وہ بھی اپنا کردار ادا کریں۔ میں نے ایک اخبار میں دیکھا کہ مومن، انقلابی اور دیندار افراد سے اپیل کی گئی ہے کہ آپ نے اگر کہیں دیکھا کہ ذخیرہ اندوزی ہو رہی ہے تو ہمیں اطلاع دیجئے۔ یہ بہت اچھی فکر ہے۔ بالکل صحیح ہے۔ بہت سے کام عوام کی مدد سے انجام دئے گئے ہیں۔

حکومت کو چاہئے کہ پرجوش اور باہوش افراد کی مدد لے۔ صرف چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے نہیں بلکہ وزارتوں میں بڑے پیمانے کے انتظامی کاموں میں اور اس طرح کرپشن کا راستہ بند کیا جائے۔ جی ہاں، عدلیہ سزا دیتی ہے۔ لیکن مجریہ کے اندر کرپشن کے راستوں اور ان کاموں کو روکا جا سکتا جو کرپشن کا باعث بنتے ہیں۔ مثلا اسی فارن کرنسی اور سونے کے سکے کے مسئلے میں اگر صحیح نگرانی ہوتی، اگر توجہ دی گئی ہوتی، اگر محنت کی گئی ہوتی تو کرپشن کا راستہ روکا جا سکتا تھا۔ اس کا سد باب نہیں کیا گيا، جو کام ہونا چاہئے تھا انجام نہیں دیا گیا تو کرپشن ہو گیا۔ ایک کام یہی ہے کہ کرپشن کے راستوں کو، ان دروازوں کو بند کیا جائے۔

عوام بھی دشمن کے اقدامات کے مقابلے میں بصیرت سے کام لیں۔ البتہ عوام الحمد للہ اپنی بصیرت کا ثبوت دے چکے ہیں۔ میں دسمبر مہینے میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں ابھی کچھ باتیں عرض کروں گا۔ یہ جلسہ اگرچہ قدرے طولانی ہو جائے گا لیکن کوئی حرج نہیں ہے، آپ بھی طویل مسافت طے کرکے آئے ہیں اور مجھے بھی سردی ہوئی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ آپ سے تھوڑی بات کی تو میری حالت بھی کچھ بہتر ہو گئی۔ عوام نے ہمیشہ بصیرت کے ساتھ کام کیا ہے۔ اب بھی وہ بصیرت کے ساتھ عمل کریں گے۔ عوام ذہن نشین رکھیں کہ ہمارے اندر موجود خامیوں کا دشمن غلط فائدہ اٹھانے کی تاک میں ہے۔ خامی موجود ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی خامی نہیں ہے۔ دشمن کی کوشش ہے کہ اسی خامی کو ملت ایران کے خلاف اور اپنے مفاد میں استعمال کرے۔ وہ ہماری اس خامی کو دور کرنے کی فکر میں ہرگز نہیں ہے۔ اس کا جہاں تک بس چلے گا اس خامی کو اور بھی بڑھائے گا۔ وہ اس سے غلط فائدہ اٹھانے کی فکر میں ہے۔ عوام نے جیسا کہ ماضی میں بھی ثابت کیا، وہ بصیرت کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اس میدان میں بھی بصیرت کے ساتھ کام کریں۔

تشہیراتی ادارے بھی خواہ وہ قومی نشریاتی ادارہ ہو، یا ویب سائٹیں ہوں، عوام میں مایوسی کے بیج نہ بوئیں۔ ایسی باتیں نہ کریں کہ کچھ لوگ اسلام سے مایوس ہو جائیں۔ اگر تنقید کرنا چاہتے ہیں تو تنقید کریں۔ میں منطقی تنقید کا مخالف نہیں ہوں۔ لیکن عوام میں مایوسی نہ پھیلائیں۔ کبھی کسی اخبار میں، کبھی کسی ٹی وی پروگرام میں، ریڈیو کے کسی پروگرام میں اس طرح بات کی جاتی ہے کہ انسان حیرت میں پڑ جاتا ہے کہ گویا سارے راستے بند ہو گئے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ دروازے بند نہیں ہیں۔ اس طرح کی بات کیوں کرتے ہیں؟ اسے یاد رکھئے، جان لیجئے کہ ملت ایران اور عزیز اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام جس طرح دوسرے سخت مراحل سے گزرتا آیا ہے ان مراحل سے بھی جو ان کے مقابلے میں کافی آسان ہیں ان شاء اللہ آسانی سے گزر جائے گا۔  

اور اب امریکہ کا تذکرہ۔ سب سے پہلے تو یہ عرض کر دوں کہ امریکیوں کی زبان اور ان کا انداز گفتگو حالیہ مہینوں میں یا حالیہ نصف سال کے دوران ماضی سے زیادہ بے شرمانہ اور گستاخانہ ہو گيا ہے۔ امریکی پہلے بھی بد تمیزی سے بات کرتے تھے، اپنے بیانوں میں سفارتی آداب کو، سیاسی آداب کو بین الاقوامی سطح  پر رائج آداب کو بہت کم ملحوظ رکھتے تھے، لیکن اب وہ پہلے سے زیادہ بے ادب اور بے شرم ہو گئے ہیں۔ صرف ہمارے ساتھ نہیں بلکہ ساری دنیا کے ساتھ ہر چیز اور ہر معاملے میں گویا ان کی شرم و حیا رخصت ہو گئی ہے۔ یعنی ایسے کام کرتے ہیں، ایسے بیان دیتے ہیں، ایسے موقف اختیار کرتے ہیں کہ انسان واقعی تعجب میں پڑ جاتا ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں، کیا یہ انسان ہیں؟ آپ نے دیکھا کہ گزشتہ ہفتے، اس ایک ہفتے کے دوران سعودیوں نے یمن میں ایسے دو جرائم انجام دئے جن سے دل دہل اٹھے۔ اس ہفتے کے آغاز میں انہوں نے ایک اسپتال پر حملہ کیا۔ بموں اور میزائلوں سے اسپتال کے اندر موجود بیماروں کا قتل عام کیا اور ہفتے کے آخر میں بچوں کو لے جانے والی، آٹھ نو اور دس سالہ بچوں کو لیکر جانے والی گاڑی کو نشانہ بنایا اور چالیس پچاس بے گناہ بچوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ آپ دیکھئے یہ کتنا بڑا المیہ ہے؟ آپ کے گھر میں آٹھ نو سالہ بچے ہیں؟ انسان کا دل کانپ اٹھتا ہے! سعودیوں نے یہ مجرمانہ فعل انجام دیا۔ دنیا ہل کر رہ گئی، دنیا کا ضمیر کانپ اٹھا۔ حکومتوں نے البتہ تکلفا دو جملے بول دئے اور اظہار افسوس کر دیا یا کچھ اور کہہ دیا، مگر سب ہل کر رہ گئے۔ اس معاملے میں امریکہ نے کیا کیا؟ امریکہ نے اس کھلے ہوئے جرم کی مذمت کرنے کے بجائے کہا کہ 'ہم سعودیوں سے اسٹریٹیجک تعاون کر رہے ہیں۔'! یہ بے حیائی نہیں ہے؟ یہ بے شرمی نہیں ہے؟ تمام معاملات میں اس کا یہی رویہ ہے۔ وہ جو بھی کرتا ہے اس سے بے حیائی اور بے شرمی ظاہر ہوتی ہے۔ یہی کام جو امریکہ کے صدر نے کیا۔ دو سال، تین سال،  پانچ سال کی عمر کے، اس سے کچھ کم زیادہ سن کے کم از کم دو ہزار بچوں کو ان کی ماؤوں سے جدا کر دیا اس جرم میں کہ وہ مہاجر ہیں۔ مگر بچوں کو تو نہیں روکا جا سکتا۔ اب ان بچوں کا کیا کریں؟ بچوں کو پنجروں میں ڈال دیا۔ آپ ذرا غور کیجئے! بچوں کو ان کی ماں سے الگ کرتے ہیں، بغیر ماں کے انھیں روکے رکھنے کے لئے دو ہزار بچوں کو پنجرے کے اندر ڈال دیا۔ کیا تاریخ میں کبھی ایسی مجرمانہ حرکت ہوئی ہے؟! وہ یہ کام کر رہے ہیں اور اس کے بعد کھڑے ہوکر دیکھتے ہیں، ٹہلتے ہیں، انھیں کوئی شرم بھی نہیں ہے! یعنی واقعی ان کی زبان، ان کا لہجہ، ان کے اقدامات، ان کے فعل حالیہ عرصے میں واقعی بڑے بے شرمانہ ہو گئے ہیں۔

اب یہ ہمارے  بارے میں بھی بات کرتے ہیں۔ یہی لوگ اسی گھٹیا اور پست انداز میں اسلامی جمہوریہ کے بارے میں بات کرتے ہیں؟ کیا کہتے ہیں؟ پابندیوں کے مسئلے کے علاوہ جس کا وہ بار بار ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ  پابندی لگا دیں گے، یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے، وہ مزید دو موضوعات کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک تو جنگ کی بات کرتے ہیں اور دوسرے مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔ البتہ جنگ کی بات صریحی طور پر نہیں کہتے کہ ہم جنگ کریں گے، لیکن وہ بخیال خود اشاروں اور کنایوں میں کچھ باتیں کہتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ممکن ہے کہ جنگ شروع ہو جائے۔ جنگ کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تاکہ قوم کو ہراساں کر سکیں یا بزدل افراد کو خوفزدہ کریں۔ اس لئے کہ ہمارے یہاں کچھ بزدل افراد بھی تو ہیں، انھیں ڈرانا چاہتے ہیں۔ جنگ کے خطرے کی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ ایک چیز تو یہ ہے۔ ایک اور مسئلہ مذاکرات کا ہے کہ جی ہاں ہم ایران سے مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ یہ بھی ان کا گھٹیا قسم کا ڈراما ہے کہ ان میں سے ایک کہے کہ بغیر شرط مذاکرات اور دوسرا کہے کہ نہیں، کچھ شرطوں کے ساتھ مذاکرات! یہ سیاسی کھیل ہے جو واقعی بچکانہ چیز ہے۔ یعنی اس قابل نہیں کہ اس پر توجہ دی جائے۔ بہرحال جنگ کے بارے میں بھی اور مذاکرات کے بارے میں بھی بات کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے بارے میں میں دو تین نکات عرض کرنا  چاہوں گا۔ البتہ ان نکات کو بیان کرنے سے پہلے میں خلاصے کے طور پر دو جملے ملت ایران کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا؛ 'جنگ نہیں ہوگی اور ہم مذاکرات نہیں کریں گے۔' یہ میری گفتگو کا خلاصہ ہے یہ آپ جان لیجئے، تمام ملت ایران اسے سمجھ لے۔ البتہ ان دونوں جملوں کے پیچھے استدلال ہے۔ یہ صرف دعوی نہیں ہے، صرف کہہ دینا، آرزو کرنا اور نعرے بازی نہیں ہے۔ استدلال ہے۔

جنگ نہیں ہوگی، کیوں؟ اس لئے کہ جنگ کے دو فریق ہوتے ہیں۔ ایک فریق ہم  ہیں اور دوسرا فریق وہ ہے۔ خیر ہم تو جنگ کا آغاز نہیں کریں گے۔ ہم نے کبھی کسی جنگ کا آغاز نہیں کیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ ہم نے کسی بھی جنگ کا آغاز نہیں کیا۔ ہم نے جنگیں لڑی ہیں لیکن اس کی شروعات فریق مقابل کی طرف سے ہوئی۔ جب فریق مقابل نے جنگ کا آغاز کر دیا تو پھر ہم  پوری قوت سے میدان میں اترتے ہیں، تاہم جنگ کا آغاز ہم نہیں کرتے۔ یہ تو رہی ہماری بات۔ دوسرا فریق یعنی امریکہ بھی جنگ شروع نہیں کرے گا۔ اس لئے کہ میرے خیال میں امریکیوں کو بھی بخوبی علم ہے کہ اگر انھوں نے یہاں کوئی جنگ شروع کی تو انھیں سو فیصدی نقصان اٹھانا پڑے گا، اسلامی جمہوریہ اور ملت ایران کا مزاج یہ ہے کہ اگر ان کے خلاف جارحیت کی گئی تو ممکن ہے کہ پہلے کوئی ضرب ان پر پڑ جائے لیکن پھر جواب میں حملہ آور کو بڑی ضرب کھانی پڑے گی۔ اب تک یہی ہوتا آیا ہے۔ امریکیوں نے ایک بار یہاں طبس میں حملہ کیا تھا، آپ کو یاد ہوگا، 'خود کو نجس کر لیا'(اپنے پاجامے گيلے کر لئے) اور واپس چلے گئے (7)۔ یہ صحیح ہے کہ وہ بہت سی چیزوں کو نہیں سمجھ پاتے لیکن میرے خیال میں یہ ایسی چیز نہیں ہے جسے وہ نہ سمجھ پائیں! (8) جنگ نہیں ہونے والی ہے یہ طے ہے۔

اور اب مذاکرات کا مسئلہ۔ اب یہ صاحب (9) جو آئے ہیں انہوں نے تجویز دی کہ ہم ایران سے مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ یہاں کچھ لوگ، انھیں میں کچھ لوگ کہہ رہا ہوں چونکہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کے لئے کیا لفظ استعمال کیا جائے، کچھ لوگوں نے یہاں کہا کہ ارے واہ! امریکیوں نے مذاکرات کی پیشکش کر دی! بھئی امریکیوں کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔ اس چالیس سال کے عرصے میں اکثر وہی ہم سے مذاکرات کی کوشش میں رہے ہیں۔ امریکہ کے طاقتور صدر ریگن جن کے دور کا امریکہ آج کے امریکہ سے بہت الگ تھا، ریگن ان صدور کی نسبت بہت زیادہ طاقتور تھے۔ تو ریگن بھی خفیہ طور پر اپنے افراد کو تہران بھیجتے تھے۔ میک فارلن کا واقعہ مشہور ہے۔ انہوں نے اپنا آدمی بھیجا مہرآباد ایئرپورٹ پر اور وہ آخرکار خالی ہاتھ لوٹ گیا۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کا زمانہ تھا۔ تو یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ وہ مذاکرات کی درخواست کر رہے ہیں۔ جی ہاں، وہ  ہمیشہ درخواست کرتے رہے اور ہم نے ہمیشہ ٹھکرایا ہے، ہم نے قبول نہیں کیا۔ ہم نے کیوں قبول نہیں کیا یہ میں بتاؤں گا۔ ہم کبھی قبول نہیں کرتے تھے اور اب بھی قبول نہیں کریں گے۔ امریکیوں نے ہمیشہ ہم سے مذاکرات کی درخواست کی۔ ہم ان سے مذاکرات کیوں نہیں کرتے؟ آپ توجہ سے سنئے، اس سلسلے میں بہت سی باتیں ہیں، ہم مذاکرات کیوں نہیں کرتے؟ وجہ یہ ہے؛ امریکیوں کا مذاکرات کا ایک فارمولا ہے جو میں بتاؤں گا، اس فارمولے پر اور ایسے فریق کے ساتھ کوئی سمجھدار انسان مذاکرات کرے گا یا نہیں؟

سیاسی میدان میں مذاکرات کا مطلب بیٹھ کر گفت و شنید کرنا اور احوال پرسی کرنا تو نہیں ہوتا۔ مذاکرات کا مطلب ہوتا ہے لین دین۔ یعنی میز پر دو فریق بیٹھیں۔ ایک چیز آپ دیجئے اور ایک چیز ہم سے لیجئے۔ سیاسی مذاکرات کا یہی مطلب ہوتا ہے۔ چونکہ امریکی مالی طاقت، فوجی طاقت اور تشہیراتی طاقت رکھتے ہیں اس لئے جب وہ کسی فریق سے مذاکرات کرتے ہیں تو پہلے سے اپنے اہداف طے کر لیتے ہیں۔ ان میں سے بعض اہداف کا ذکر کر دیتے ہیں اور کچھ کو زبان پر نہیں لاتے۔ مذاکراتی عمل کے دوران بار بار عیاری کرتے ہیں، ایک ایک چیز بڑھاتے جاتے ہیں، بات کو طول دیتے رہتے ہیں۔ ان کے اصلی اہداف پہلے سے طے ہوتے ہیں۔ یہ رہی ایک بات۔

دوسرے یہ کہ اپنے ان اصلی اہداف سے وہ ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ فروعی چیزیں اور فضول کی باتیں، کم اہمیت کی چیزیں وہ کبھی کبھی ذکر کرکے ان سے دست بردار ہو جاتے ہیں جو بظاہر ان کی پسپائی ہوتی ہے لیکن جو اصلی  اہداف ہیں ان سے وہ ہرگز پیچھے نہیں ہٹتے۔ ہرگز کوئی رعایت دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔

تیسرے یہ کہ فریق مقابل سے فوری  اور نقدی مراعات چاہتے ہیں، وعدہ قبول نہیں کرتے، کہتے ہیں کہ ہمیں وعدے پر بھروسہ نہیں ہے، فوری اور نقدی مراعات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم ایٹمی معاہدے کے معاملے میں اس کا تجربہ کر چکے ہیں۔ دوسرے مواقع پر بھی یہ تجربہ کیا جا چکا ہے۔ اس وقت وہ شمالی کوریا سے مذاکرات کر رہے ہیں تو وہاں بھی یہی روش ہے۔ فریق مقابل سے فوری مراعات چاہتے ہیں۔ اگر فریق مقابل نے فوری اور نقدی مراعات دینے سے انکار کیا تو عالمی سطح پر تشہیراتی اور ابلاغیاتی غنڈہ گردی شروع کر دیتے ہیں، ہنگامہ مچا دیتے ہیں کہ یہ لوگ تو مذاکرات ہی نہیں چاہتے، انھیں مذاکرات کی میز پر واپس آنا ہوگا۔ یہ لوگ یہی حرکت کرتے ہیں۔ ایک ہنگامہ برپا کر دیتے ہیں اور فریق مقابل اس ہنگامے سے گھبرا جاتا ہے اور پیچھے ہٹ جاتا ہے، کمزور پڑ جاتا ہے۔ یہ لوگ جو تشہیراتی ہنگامہ آرائی کرتے ہیں عام طور پر لوگ اس کے سامنے ڈھیلے پڑ جاتے ہیں، پیچھے ہٹ جاتے ہیں، کمزور پڑ جاتے ہیں۔

چوتھا مرحلہ؛ فریق مقابل سے فوری اور نقدی مراعات لے لیتے ہیں لیکن اس کے عوض اسے فوری طور پر کچھ نہیں دیتے۔ جب کوئی بھی سودا ہوتا ہے تو آپ پیسہ لیتے ہیں اور اس کے بدلے میں سامان دیتے ہیں تو وہ بدلے میں سامان نہیں دیتے۔ فوری اور نقدی مراعات لیتے ہیں اور اس کے مقابلے میں وعدے کر دیتے ہیں، بڑا پکا وعدہ کرتے ہیں کہ آپ مطمئن رہئے، بالکل شک نہ کیجئے، کسی تردد میں نہ پڑئے، فریق مقابل کو وعدوں سے خوش کر دیتے ہیں۔ فریق مقابل کو محسوس ہوتا ہے کہ اتنے ٹھوس اور محکم انداز میں وعدہ کر رہے ہیں تو بھروسہ کرنا چاہئے۔

آخری مرحلہ؛ جب پورا قضیہ نمٹ جاتا ہے اور ان کام نکل جاتا ہے تو اپنے ان وعدوں سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ ان ٹھوس اور محکم وعدوں کو بھی آسانی سے فراموش کر دیتے ہیں! امریکیوں کی مذاکراتی روش یہی ہے۔

اب اس حکومت سے، اس جابر اور دھوکے باز حکومت سے مذاکرات کرنا چاہئے؟ ہم کیوں مذاکرات کریں؟ ایٹمی معاہدہ اس کی واضح مثال ہے۔ وہ تو میں کافی سخت گیری کر رہا تھا، البتہ میں نے جو ریڈ لائنیں معین کی تھیں ان سب کا پاس و لحاظ نہیں رکھا گیا، اس معاملے میں فریق مقابل نے اسی روش کا مظاہرہ کیا ہے، اسی انداز سے عمل کیا ہے۔ ایسے فریق سے تو مذاکرات نہیں کئے جا سکتے۔ ایسی حکومت سے تو مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔ مختلف مسائل کے بارے میں کوئی بھی حکومت اگر اس حکومت سے مذاکرات کرتی ہے تو وہ مشکلات ضرور کھڑی کرے گی سوائے یہ کہ وہ حکومت بھی اسی کی مانند ہو جیسے برطانیہ ہے۔ البتہ وہ برطانیہ سے بھی زور زبردستی کر رہے ہیں، امریکہ برطانیہ سے بھی زور زبردستی کر رہا ہے، یورپیوں سے بھی زور زبردستی کر رہے ہیں۔ البتہ ان کے ساتھ امریکیوں کے کچھ مشترکات ہیں، وہ آپس میں تعاون کرتے ہیں، کام کرتے ہیں۔ جو بھی مذاکرات کرے گا اس کی یہی حالت ہوگی۔ ہمیں اس وقت مذاکرات کرنا چاہئے، اس وقت اس کھیل میں قدم رکھنا چاہئے جب ہماری اپنی طاقت کی وجہ سے اس کی غنڈہ گردی ہمیں بالکل متاثر نہ کر سکے۔ جی ہاں جب اسلامی جمہوریہ اقتصادی اعتبار سے، ثقافتی اعتبار سے قوت و استحکام کی اس منزل پر پہنچ جائے جو ہمارے مد نظر ہے تب جاکر مذاکرات کئے جا سکتے ہیں، کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ آج وہ صورت حال نہیں ہے۔ اگر ہم جاکر مذاکرات کریں تو یقینا مذاکرات سے ہمیں نقصان ہوگا۔ ایسے جابر فریق سے مذاکرات سے ہمیں نقصان پہنچے گا۔ اسی وجہ سے امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے امریکہ سے مذاکرات کو ممنوع قرار دیا تھا، میں بھی ممنوع قرار دیتا ہوں۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے فرمایا تھا کہ جب تک امریکہ انسان نہیں بن جاتا تب تک ہم اس سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ انسان نہیں بن جاتا کا کیا مطلب ہے؟ مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے، علاقے کی شر انگيز طاقتوں کی مدد کر رہا ہے، ہمارا جواب یہی ہوگا۔ اگر بہ فرض محال امریکی حکومت سے اسلامی جمہوریہ کو مذاکرات کرنے ہوتے تب بھی اس موجودہ حکومت سے تو ہرگز مذاکرات نہ کرتی۔ یہ بات سب سن لیں، ہمارے سیاستداں، ہمارے سفارت کار، ہمارے پرجوش نوجوان، سیاسی موضوعات کے ہمارے طلبہ، سیاست کے میدان میں سرگرم افراد سب سن لیں! امریکہ جیسی جابر اور مطالبات پر مطالبات کرنے والی حکومت سے مذاکرات دشمنی رفع کرنے کا ذریعہ نہیں ہے۔ اس سے مذاکرات امریکہ سے دشمنی ختم کرنے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ مذاکرات تو امریکی حکومت کے ہاتھ میں دشمنی برتنے کا ایک ذریعہ ہے۔ آپ دیکھئے کہ یہ مسلمہ فارمولا ہے اور ہمارے تجربات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، گوناگوں سیاسی تجزیوں سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مذاکرات کریں تاکہ دشمنی میں کچھ کمی آئے۔ جی نہیں، مذاکرات سے دشمنی کم نہیں ہوگی۔ مذاکرات سے اس کو ایک حربہ مل جائے گا دشمنی برتنے کا۔ اسی لئے ہم مذاکرات نہیں کریں گے اور مذاکرات ممنوع ہیں، یہ سب جان لیں!

آج امریکہ ہمارے خلاف اقتصادی جنگ میں لگا ہوا ہے۔ عسکری جنگ نہیں ہے اور نہ ہوگی لیکن اقتصادی جنگ جاری ہے۔ اس وقت اس کا دھیان اقتصادی جنگ پر مرکوز ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ عسکری جنگ کی طرف سے وہ مایوس ہو چکا ہے۔

یہاں تک کہ ثقافتی جنگ سے بھی وہ مایوس ہو چکا ہے۔ نوے کے عشرے میں جو انقلاب کا دوسرا عشرہ تھا ہمارے ملک کے خلاف ایک خباثت آلود ثقافتی یلغار شروع کی گئی تھی اور میں نے اسی وقت ثقافتی یلغار کا موضوع اٹھایا تھا، ثقافتی شب خون کا مسئلہ اٹھایا تھا۔ تاکہ ہمارے نوجوان ہوشیار رہیں، اپنی آنکھیں کھلی رکھیں، عوام کو معلوم رہے۔ انیس سو نوے کے عشرے میں ہمارے ملک کے خلاف وسیع پیمانے پر ثقافتی مشن شروع ہوا تھا۔ مگر آپ غور کیجئے کہ اسی نوے کے عشرے میں پیدا ہونے والے بچے آج پاسداران حرم کی حیثیت سے جاکر اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، اپنا سر کٹا رہے ہیں، اپنی توانائیاں قربان کر رہے ہیں اور ان کے جنازے واپس آتے ہیں۔ اس کا اندازہ کون لگا سکتا تھا؟ جس زمانے میں وسیع پیمانے پر ثقافتی یلغار جاری تھی اسلامی جمہوریہ کے گلشن میں یہ کلیاں کھلیں، یہ پودے اگے، حججی جیسے افراد تیار ہوئے۔ تو ثقافتی جنگ میں ہم فتحیاب ہوئے اور اس جنگ میں دشمن کو شکست ہوئی۔ نوے کے عشرے میں اور  اس کے بعد والے عشرے کے کچھ حصے میں ایک ثقافتی جنگ شروع کی گئی مقدس دفاع کے افتخارات کو ذہنوں سے مٹانے کے لئے۔ اس پر بڑا اصرار ہوتا تھا۔ لیکن اسلامی جمہوریہ نے جواب میں ایک سافٹ ٹیکنالوجی تیار کی۔ 'راہیان نور' کا مشن۔ 'راہیان نور' ایک ٹیکنالوجی ہے، سافٹ پاور کی ایک ٹیکنالوجی ہے۔ دسیوں لاکھ کی تعداد میں نوجوان ان محاذوں پر گئے جہاں جنگ لڑی گئی تھی۔ تقدس و معرفت اور قربانی کی اس وادی میں پہنچے۔ انھوں نے دیکھا کہ وہاں کیا حالات ہوا کرتے تھے، کیسے واقعات ہوتے تھے؟! انھیں بتایا گیا اور مقدس دفاع کے حالات سے انھیں آگاہی حاصل ہوئی۔ جی ہاں، یہ ہے اسلامی جمہوریہ۔ وہ پاسبان حرم پیدا کرتی ہے، وہ راہیان نور کاروانوں کا سلسلہ شروع کرتی ہے۔ مساجد میں اعتکاف کرنے والے افراد تیار کرتی ہے جن میں تقریبا سب نوجوان ہوتے ہیں اور جو تقدس اور تضرع کا بہترین مظہر ہے۔ یہ چیزیں پہلے نہیں تھیں۔ تو ثقافتی جنگ میں ہم دشمن پر غالب آئے۔ عسکری جنگ میں بھی ہمیں فتح ملی۔

سیکورٹی اور سیاسی جنگ میں بھی ہمیں کامیابی ملی۔ سیکورٹی اور سیاسی جنگ 2009 میں ہوئی، 2009 کے واقعات کے دوران ہوئی۔ ان واقعات کے لئے دشمنوں نے برسوں محنت کی تھی۔ اس طرح کے واقعات چند گھنٹوں میں اور ایک دن میں نہیں ہوتے۔ دشمنوں نے ان کے لئے کئی سال محنت کی تھی۔ ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام کو دشمن کی سازش پر غلبہ حاصل ہوا اور اسے فتح ملی۔

ثقافتی محاذ پر اور سیکورٹی کے محاذ پر اسی طرح سیاسی محاذ پر اور عسکری محاذ پر شکست کھانے کے بعد دشمن اب پوری توجہ سے اقتصادی محاذ پر مصروف ہے۔ میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دشمن کو اس محاذ پر بھی شکست ہوگی۔ وہ اس جنگ میں کامیاب ہونے کے لئے اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ملت ایران سے عیاری اور مکاری سے بات کرتے ہیں۔ آپ دیکھئے کہ ایک دماغی بیمار ٹی وی پر آتا ہے اور ملت ایران سے خطاب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ کی حکومت آپ کا پیسہ شام اور عراق میں خرچ کر رہی ہے۔ واقعی یہ ذہنی مریض ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے سرغنہ (10) نے کہا کہ ہم نے اس علاقے میں یعنی شام اور عراق میں سات ٹریلین ڈالر خرچ کئے اور ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ وہ صحیح کہتا ہے۔ انھوں نے بقول خود یہاں سات ہزار ارب ڈالر کی رقم خرچ کی اور اب تک انھیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ اسلامی جمہوریہ نے تو اس طرح کا کوئی کام نہیں کیا۔ دونوں کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ شام کی حکومت اور عراق کی حکومت ہماری دوست ہے جن کے ثبات و استحکام کے لئے امریکیوں اور سعودیوں نے خطرات پیدا کر دئے۔ ہم فورا ان کی مدد کے لئے بڑھے اور ان کی مدد کرنے میں کامیاب ہوئے۔ آئندہ بھی مدد کرتے رہیں گے۔ ہر دوست ملک کی مدد کریں گے۔ یہ پیسے وغیرہ دینے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ دو حکومتوں کے باہمی تعلقات اور لین دین کا مسئلہ ہے۔ کچھ دیتے ہیں کچھ لیتے ہیں۔ کچھ خریدتے ہیں کچھ بیچتے ہیں۔ مگر دشمن اس طرح کی باتیں کرتا ہے تاکہ ملت ایران کو اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ کے موقف اور پالیسیوں کے بارے میں شک و شبہے میں مبتلا کر دے۔

اقتصادی جنگ میں امریکہ کا مقصد ناراضگی پیدا کرنا ہے۔ ان کا ہدف یہی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں میں ناراضگی پیدا ہو اور اگر ممکن ہو تو اس ناراضگی کو داخلی آشوب میں بدل دیں۔ میں آپ کو ایک خبر دینا چاہتا ہوں۔ یہ تجزیہ نہیں بلکہ خبر ہے۔ دسمبر کے واقعات تو آپ کو یاد ہوں گے۔ دسمبر کے مہینے میں، یعنی چھے سات مہینہ قبل بعض شہروں میں کچھ دنوں تک کچھ لوگ آتے تھے اور نعرے بازی کرتے تھے یا کچھ اور حرکتیں کرتے تھے۔ صیہونیوں اور سعودیوں کے ساتھ مل کر امریکہ کی حکومت نے تین سال یا چار سال محنت کی تھی کہ یہ حالات پیدا ہوں۔ اس پر انھوں نے کتنا بجٹ صرف کیا یہ اللہ ہی جانتا ہے! تین سال چار سال کام کیا کہ ملک کے کچھ شہروں میں دو سو، پانچ سو یا ہزار لوگوں کو جمع کر لیں اور ان سے نعرے بازی کروائیں! مگر پھر ملت ایران میدان میں اتری، قبل اس کے کہ کوئی بھی عوام سے اس کی درخواست کرے۔ واقعی عوام خود سے آئے۔ میں نے اس وقت کہا بھی تھا کہ آفرین ہے اس قوم کو! وہ از خود میدان میں اترے اور پورے ماحول کو صاف کر دیا، تمام آلودگیوں کو دور کر دیا، سازش کو شکست دے دی۔ آشوب پیدا کرنے کے لئے دشمن کی کئی سال کی محنت کو ملت ایران نے چند دن کے اندر نابود کر دیا۔ پھر انھوں نے آپس میں یہ تبصرہ کیا کہ اس میں فلاں جگہ کمی رہ گئی تھی، ہمیں ان خامیوں کو دور کرنا چاہئے۔ آئندہ سال، یعنی رواں سال میں انھوں نے دوبارہ وہی سب کچھ شروع کیا۔ امریکہ کے صدر نے کہا کہ چھے مہینے بعد آپ ایران سے بڑی اہم خبریں سنیں گے۔ چھے مہینے بعد یہی جولائی اگست کا مہینہ تھا۔ چند روز قبل کچھ جگہوں پر کچھ افراد جمع ہوئے اور کچھ نعرے بازی وغیرہ کی۔ پیسے خرچ کر رہے ہیں، محنت کر رہے ہیں کہ اس طرح کے واقعات ہوں مگر نتیجہ یہی نکلتا ہے۔ عوام بیدار ہیں، قوم صاحب بصیرت ہے۔ بے شک معیشتی مسائل عوام کی سختیاں بڑھا رہے ہیں۔ بہت سے افراد کے حالات خراب ہیں، لوگ ناخوش ہیں، لیکن امریکی سی آئی اے یا کسی اور بدبخت و روسیاہ حکومت کے فریب میں تو ملت ایران نہیں آنے والی ہے۔ دشمن کمزور ہے، دشمن بے بس ہے، دشمن شکست کھا چکا ہے اور آئندہ بھی یقینا اسے تمام مراحل میں شکست کا سامنا ہوگا۔ بس شرط یہ ہے کہ ہم اور آپ بیدار رہیں، اس شرط پر کہ ہم اور آپ اپنے فرائض پر عمل کریں۔ اس شرط پر کہ ہم اور آپ مایوس نہ ہوں۔

کچھ لوگ اس طرح بات کرتے ہیں اور اس طرح عمل کرتے ہیں کہ حالات کو درست کرنے کے نام پر، یا مثال کے طور پر کمزور طبقات کی طرفداری کے نام پر دشمن کی سازش کی مدد کرتے ہیں اور خود انھیں اس کا احساس نہیں ہوتا۔ جو لوگ حکومت سے خطاب کرتے ہیں کہ اسے اقتدار چھوڑ دینا چاہئے، اس قسم کی باتیں کرتے ہیں، وہ در حقیقت دشمن کے منصوبے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ ہرگز نہیں، حکومت کو اقتدار میں رہنا چاہئے، یہ حکومت کاموں کو انجام دے۔ صدر عوام کے ذریعے منتخب ہوئے ہیں، پارلیمنٹ کو بھی عوام نے منتخب کیا ہے۔ صدر کے بھی حقوق ہیں اور پارلیمنٹ کے بھی حقوق ہیں، دونوں کے کچھ حقوق اور کچھ فرائض ہیں۔ انھیں فرائض کو انجام دینا چاہئے اور ان کے حق اور احترام کا بھی خیال رکھا جانا چاہئے۔ پارلیمنٹ کو بھی چاہئے کہ صدر کے احترام کا خیال رکھے اور صدر جمہوریہ کو بھی چاہئے کہ پارلیمنٹ کے وقار کا خیال رکھیں۔ ایک دوسرے کی حفاظت کریں، ایک دوسرے کی مدد کریں۔ ہم نے اقتصادی مسائل اور دیگر اہم امور مملکت کے بارے میں تینوں شعبوں کے سربراہوں کا جو حالیہ اجلاس کروایا اس کا ایک ثمرہ یہی ہونا چاہئے کہ تینوں شعبے ایک دوسرے کی مدد کریں۔ ایک دوسرے کی توانائی اور وسائل بڑھائیں، ایک دوسرے کی تکمیل کریں۔ عوام بھی بصیرت کے ساتھ عمل کریں۔ عوام کو بھی بخوبی اندازہ ہونا چاہئے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ بخوبی سمجھ لیں کہ کیا اقدام کرنا چاہتے ہیں، یہ سمجھ لیں کہ کیا کہہ رہے ہیں اور کیا مطالبہ کر رہے ہیں؟

مجھے یقین ہے کہ ان شاء اللہ دست قدرت خداوندی اس ملت کی پشت پناہی کرتا رہے گا۔ جیسا کہ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے مجھ سے کہا تھا، یہ بات آپ نے خود مجھ سے کہی تھی کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس ملت یا اس نظام کے سر پر ایک دست قدرت ہے جو عمل کر رہا ہے۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) دست قدرت خداوندی کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ ہم بھی دست قدرت خدا کو دیکھ رہے ہیں۔ قدرت خدا در حقیقت جلوہ گر ہے عوام کی قدرت اور عوام کے ایمان میں۔

دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کو توفیقات سے نوازے۔ آپ نے زحمت کی اور تشریف لائے میں ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اللہ تعالی سے آپ کی توفیقات کے لئے دعا گو ہوں۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة الله و‌ برکاته

 

۱) سوره‌ صافّات، آیت نمبر ۱۰۷؛ «اور انھیں ایک  بڑی قربانی کے عوض ہم نے نجات دی۔ »

۲) سوره‌ نساء، آیت نمبر۳۲ کا ایک حصہ «... اور اللہ سے اس کے فضل کی دعا کرو۔...»

3) صحیفه‌ سجّادیّہ، دعائے پنجم

4) ایضا

5) حاضرین میں سے کچھ نے نعرہ لگایا «مفسد اقتصادی اعدام باید گردد- یعنی مالی کرپشن کرنے والوں کو پھانسی دی جائے۔ »

6) رہبر انقلاب اور حاضرین ہنس پڑے

7) حاضرین ہنس پڑے

8) حاضرین ہنس پڑے

9) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ

10) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ